نیند میں بھی جاگتا رہتا ہوں میں
کس کو اتنا ڈھونڈتا رہتا ہوں میں
سننے والا جب یہاں کوئی نہیں
کس سے یونہی بولتا رہتا ہوں میں
جب میرا حصہ یہاں کوئی نہیں
اس قدر کیوں بھاگتا رہتا ہوں میں
اس گرانی میں بھی دولت درد کی
کتنی سستی بیچتا رہتا ہوں میں
پھر بھی ہے وہ جان سے بڑھ کر عزیز
جس کا بویا کاٹتا رہتا ہوں میں
کھو دیا تم نے کہاں چہرہ مرا
آئینے سے پوچھتا رہتا ہوں میں
شعر ہوں یا ہوں مرے بچے جلیلؔ
ان میں خود کو دیکھتا رہتا ہوں میں
٭٭٭
سمندر میں بھلے دریا گرایا کر
کبھی پیاسوں کو بھی بوند اک پلایا کر
نمو پا کر شجر میں پھر نہ اُگ آئیں
ہوا پتے تُو دور اتنے گرایا کر
مسلسل وہ نیا اِک زخم دیتا ہے
کبھی تُو اِس کرم پہ جھوم جایا کر
یہ منظر دور سے ہی خوبصورت ہے
نہ بھولے سے ندی کے پار جایا کر
دیا ہوں پر تیری ہی دسترس میں ہوں
تری مرضی جلایا کر، بجھایا کر
مَیں اُجڑے موسموں کا گیت ہوں حیدرؔ
مجھے تنہائیوں میں گنگنایا کر
٭٭٭