غزلیں ۔۔۔ اشرف

یکایک دل کو دھڑکانے سے پہلے

ذرا ٹھہرو! قریب آنے سے پہلے

 

بلاتے تھے تجھے کس نام سے سب؟

"زمیں کا چاند” کہلانے سے پہلے

 

نہیں تھی دلکشی موسم میں کوئی

تِرے آنچل کے لہرانے سے پہلے

 

ترا کیا حال تھا سچ سچ بتا اب

مِرے جانے کے بعد، آنے سے پہلے

 

تھی جس کی چاہ مجھ کو زندگی بھر

اسی کو کھو دیا پانے سے پہلے

 

نظر رکھنا ذرا چادر پہ یارو!

تم اپنے پاؤں پھیلانے سے پہلے

 

یہی بس آخری خواہش ہے میری

ہو اس کی دید مر جانے سے پہلے

 

بہت رویا تھا وہ مجھ سے لپٹ کر

تعلق توڑ کر جانے سے پہلے

 

ہزاروں بار اشرف! سوچ لینا

کسی سے عشق فرمانے سے پہلے

٭٭٭

 

 

 

 

پردے میں دل کی بات بتانے کے واسطے

کہتا ہوں شعر اس کو رجھانے کے واسطے

 

رہتا ہوں میں بزرگوں کی صحبت میں رات دن

اخلاق بہترین بنانے کے واسطے

 

کیسے گلے لگانے کی اس سے رکھوں امید

آتا نہیں جو ہاتھ ملانے کے واسطے

 

مرنے پہ میرے کوئی تأسف کرے تو کیوں

دنیا میں آئے ہیں سبھی جانے کے واسطے

 

آئینہ خانہ، گھر کو بنانا پڑا مجھے

تنہائیوں کا کرب مٹانے کے واسطے

 

چپکے سے آج اس نے مجھے کر دیا بلاک

خوش فہمیوں سے مجھ کو بچانے کے واسطے

 

کیسے مناؤں آپ کو کچھ تو بتائیے

کیا لاؤں جوئے شیر؟ منانے کے واسطے

 

جب بھولتا نہیں اسے، تو یاد کیا کروں

کیا یاد اب کروں میں بھلانے کے واسطے؟

 

اشرف شگفتہ پھول ہی کیوں توڑتے ہیں سب!

ٹوٹے ہوئے دلوں کو ملانے کے واسطے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے