سخن سراؤں سے زہرا جبیں چلے گئے ہیں ۔۔۔ ناصر عباس نیّر

 

پروفیسرگوپی چند نارنگ کے انتقال پر حرفے چند

 

ہندوستان کی معاصر اردو تنقید میں صف اوّل کے تین نقاد تھے: شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی اور گوپی چند نارنگ۔  صرف ڈھائی برسوں میں اسی ترتیب سے رخصت ہوئے۔  نارنگ صاحب عمر میں ان تینوں سے بڑے تھے۔  سب سے آخر میں گئے؛ کل رات (تحریر ۱۶ جون ۲۰۲۲ء) کوئی گیارہ،ساڑھے گیارہ بجے۔  رہے نام اللہ کا! تینوں تیس کی دہائی میں پیدا ہوئے۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے کے آس پاس۔ تاہم تینوں نے آغاز جدیدیت سے کیا اور اسی لیے ابتدا میں تینوں میں دوستانہ مراسم قائم ہوئے اور عرصے تک رہے۔ نارنگ صاحب نے اسی کی دہائی کے اواخر میں جدیدیت کو خیر باد کہا۔ اگرچہ باقی دونوں کے یہاں جدیدیت سے  وابستگی قدرے کم ہوئی، ختم نہ ہوئی۔ فاروقی صاحب،کلاسیکی ادب اور اسی کے تعلق سے ہند اسلامی تہذیب کی جانب زیادہ متوجہ ہوئے۔ شمیم صاحب کی دل چسپی ہند اسلامی تہذیب سے بھی تھی، لیکن تہذیبی زوال کا نوحہ اور ہندوستان کی دیگر زبانوں کے ادب سے وابستگی بھی بڑھ گئی تھی۔ فاروقی صاحب اور شمیم صاحب کے یہاں تنقید سے بے زاری آخر آخر میں خاصی بڑھ گئی تھی اور شاید اسی کے سبب انھوں نے پہلے سے مختلف طرح سے تنقید لکھی۔ نارنگ صاحب نے ایک بالکل نیا اور مشکل راستہ منتخب کیا: مابعد جدیدیت۔ یہیں سے ان کی ادبی شہرت میں مزید اضافہ ہوا اور وہ تنازعات کا شکار بھی ہوئے۔ مگر انھوں نے پروا نہیں کی۔ وہ جدیدیت کے خاتمے کے اعلان پر قائم رہے اور ان مقدمات و دلائل کو زبانی و تحریری طور پر مسلسل پیش کرتے رہے، جو جدیدیت کے نمٹ جانے سے متعلق تھے۔ وہ مابعد جدیدیت کے مغربی تصور کے ساتھ ساتھ اردو کی اپنی مخصوص مابعد جدیدیت کے خد و خال ابھارنے پر مستعد رہے؛ خصوصاً مرکز کی نفی اور حاشیہ کی اہمیت اور مقامیت کے تصورات ان کے پیش نظر رہتے۔ نیز کس طرح حاشیہ، مرکز یا اتھارٹی کو تہ و بالا کر دیتا (subvert) ہے اور معنی کی گردش کا آغاز ہوتا ہے، اسے وہ تفصیل سے اور طرح طرح سے پیش کرتے۔ یہ سب اپنے زمانے کی تنقید کی ممتاز ترین صورت کو از کار رفتہ قرار دیتا تھا اور ایک بڑے حلقے کو مشتعل کرتا تھا۔ اسی دوران میں وہ واقعہ رونما ہوا،جسے نارنگ صاحب کی تنقید کا Achillles’ heel کہنا چاہیے؛ انھیں سرقے کے الزام کا سامنا ہوا،جسے چار دانگ عالم میں پہنچانے کا آدھا کام ان کی غیر معمولی شہرت اور آدھا ہم عصروں نے کیا ۔ بایں ہمہ وہ آخری دم تک جدیدیت کے نمٹ جانے سے متعلق اپنی رائے پر قائم رہے اور کام کرتے رہے۔ پہلے جدیدیت، پھر مابعد جدیدیت تو ادب کی تفہیم کے تصورات تھے؛ ان کی بنیادی دل چسپی، اردو زبان، اس کے تکثیری کلچر، اس کی مشترکہ تہذیب اور اس کے عظیم ادبی مظاہر سے تھی۔ ان کے اہم ترین کاموں میں ہندوستانی قصوں سے ماخوذ مثنویاں،امیر خسرو کا ہندوی کلام، املا نامہ، اسلوبیات ِ میر، اردو غزل اور ہندوستانی تہذیب، اردو زبان اور لسانیات، فکشن شعریات اور غالب: معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات ہیں۔ یہ سب کتابیں اردو ادب سے متعلق ایک نئی بصیرت دیتی ہیں اور اردو ادب کی تہذیبی،لسانی، جمالیاتی تنوع اور گہرائی کو ایک پر لطف اسلوب میں سامنے لاتی ہیں۔ لیکن یہ لطف ذہنی ہے، تاثراتی نہیں ہے۔

وہ ایک غیر معمولی مقرر بھی تھے۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ انھیں پہلی بار سننے والا ہر شخص کہتا۔ انھوں نے بھرپور زندگی بسر کی ۔ جم کر علمی کام کیا اور بہت کیا اور معیاری کیا۔

ہم اور کتنے لوگوں کو الوداع کہیں گے!

ہماری آنکھ شناور ہوئی ہے کیا نم ناک

سخن سراؤں سے زہرا جبیں چلے گئے ہیں (شناور اسحاق)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے