انتخابِ شادؔ عارفی ۔۔۔ رباعیات، قطعات

 

رباعیات

مسجد کے کلَس پہ ایک پیپل

اس عزم کے ساتھ جم رہا ہے

 جیسے جانا ہو کہکشاں تک

منزل کی غرض سے تھم رہا ہے

٭٭

کنکری جُوتے میں پڑ جائے اگر

راہرو دو گام چل سکتا نہیں

روح زندہ ہو تو حق تلفی کا بوجھ

آدمی کے جی سے ٹل سکتا نہیں

٭٭

جھوٹوں میں پتے کی بات کہنے والے

کہلاتے ہیں ’’واہیات‘‘ کہنے والے

مسکراتے تھے حضرتِ موسیٰ ؑ پر

فرعون کو ربِّ کائنات کہنے والے

٭٭

حُسن رنگیں قبا جو کہلاتا ہے

صدمۂ عشق کو کہاں پاتا ہے

ہاتھ کی انگلیوں پہ، چھو لینے سے

تتلی کے پروں کا رنگ آ جاتا ہے

٭٭

قطعات

پہنچ گیا ہوں وہاں میں کہ واقعات نویس

لکھے کہ طنز میں تھا منفرد شعور مرا

تو اے حکومتِ کج فہم ونا شناسِ ادب

شراب توڑ کے بیچوں تو کیا قصور مرا

٭٭

گھنی پاکھر کی بل کھائی ہوئی شاخ

ندی پر جھک گئی ہے، لچ گئی ہے

جنھیں ایثار سے نفرت ہے سوچیں

مسافت کوس بھر کی بچ گئی ہے

٭٭

نت نئی منصوبہ بندی کے لیے مغموم ہیں

یعنی اربابِ حکومت پاک ہیں معصوم ہیں

ہر خرابی کے مگر مجرم ٹھہرتے ہیں عوام

بکریاں گویا ہیں ظالم، بھیڑیے مظلوم ہیں

٭٭

عقل ایمائے جرم پاتے پاتے

تھک جاتی ہے پیچ و تاب کھاتے کھاتے

اطلاعِ ضمیر ہر گُنہ سے پہلے

جیسے رہ جائے چھینک آتے آتے

٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے