غزل ۔۔ محمد وحید انصاری

غزل

               محمد وحید انصاری

رات برفیلی ہواؤں میں سلگتا کون تھا

کس نے رکھا ہاتھ پیشانی پہ اس کا کون تھا

انجمن آرائیوں سے ہی نہ تھا جس کو فراغ

کیا خبر اس کو کہ اُس کے ساتھ تنہا کون تھا

کس نے باہر جھانک کر دیکھا نہیں تھا رات بھر

رات بھر دستک پہ دستک دینے والا کون تھا

کس کو فرصت تھی کہ پوچھے حادثہ کیونکر ہوا

لاش کس کی تھی پڑی اور وہ تڑپتا کون تھا

کس نے کس کے واسطے خود کو لگایا داؤ پر

عظمتیں کس کو ملیں تھیں اور رُسوا کون تھا

رہگزارِ شوق سے میں آ گیا یہ سوچ کر

بعد میرے گھر میں بچوں کا سہارا کون تھا

پھول سا چہرہ نہیں تھا ، صندلی بانہیں نہ تھیں

رات بھر پھر میرے کمرے میں مہکتا کون تھا

کل ملا تھا کون اپنے آپ سے برسوں کے بعد

آئینے کے روبرو حیرت میں ڈوبا کون تھا

بس اُسی کی ذات مجھ کو حوصلہ دیتی رہی

دشتِ غربت میں وحید اس کے علاوہ کون تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے