غزلیں ۔ ذو الفقار نقوی

غزلیں

               ذو الفقار نقوی

موج میری ذات کی قائل کہاں

میں کہاں ہوں اور وہ ساحل کہاں

وہ مری گلیوں سے گذرا ہی نہیں

میرے کرب و درد میں شامل کہاں

۔۔,,نرگسیت، ، ۔۔  چھلنی چھلنی کر گئی

تیرا سینہ پیار کے قا بل کہاں

اٹھ رہا ہے شور لفظوں سے بہم

بھاگتا ہے فکر کا قاتل کہاں

میرے حصے پر وہ قابض ہو گیا

اب میں اپنے آپ کا حامل کہاں

٭٭٭

نہ کلیوں اور پھولوں کی مہک ہے

مری مٹی ہے،  میری ہی مہک ہے

مرے دشتِ  جنوں سے کون گذرا

یہ کس کی اب تلک باقی مہک ہے

کہاں سے آئے ہیں شعلے لپکنے

کہ اِن میں ایک جانی سی مہک ہے

دیے میں خونِ  دل ڈالا ذرا سا

ہواؤں سے الجھنے کی مہک ہے

کسی آہٹ پہ میری سانس اُکھڑی

مگر سانسوں میں البیلی مہک ہے

ہَوا پر غیر ہے قابض، تو ہووے

رچی اِس میں مگر تیری مہک ہے

٭٭٭

میری آنکھوں میں بہت دیر رکا رہتا ہے

آئینہ خانے کا منظر جو خفا رہتا ہے

لمس سے کس کے مری خاک مہک اُٹھی ہے

میرا ادراک بھی خوشبو سے رچا رہتا ہے

اِس نے بانٹے ہیں چراغوں کو اُجالے اکثر

وقت کی گرد سے دامن جو اَٹا رہتا ہے

چاک سے کس نے مری خاک اُتاری ہو گی

کوئی نظروں سے ہمہ وقت چھپا رہتا ہے

میری آواز پہ لبیک کہا ہے کس نے؟

کیا کوئی میرے تعاقب میں لگا رہتا ہے

خون سے کس کے،  مزین ہیں کھلونے اِس کے

یہ جو بازیچۂ اطفال سجا رہتا ہے

٭٭٭

One thought on “غزلیں ۔ ذو الفقار نقوی

  • محترم اعجاز عبید صاحب کا دلی طور ممنون و شکر گذار ہوں اس قدر حوصلہ افزائی کے لئے۔۔۔اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ذوالفقار نقوی۔۔۔۔۔جموں و کشمیر بھارت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے