مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔

مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں۔۔۔

نئے شمارے میں آپ کا خیر مقدم۔

ہندوستان میں الیکشن کا ’موسم‘ ہے۔ اور ہر موسم کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ مثبت اور منفی اثرات ہوتے ہیں۔ ایک طرف فرقہ واریت کا اژدہا منہ پھاڑے کھڑا ہے، تو دوسری طرف بد نظمی اور کرپشن۔ دونوں کے خلاف آوازیں اٹھ تو رہی ہیں، لیکن اتنی قوی نہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ، کم از کم اردو کا جہاں تک سوال ہے، اس کے نتائج مثبت ہی ثابت ہوں گے۔ اور دعا گو ہوں کہ اس کے منفی اثرات سے ہر خاص و عام، اور بطور خاص ہم اور آپ محفوظ رہیں۔

شاد عارفی اپنے دور کے جدید ترین شاعر تھے، ایک انوکھے لب و لہجے کے مالک، لیکن یہ بد قسمتی رہی کہ وہ اپنے زمانے سے پہلے پیدا ہو گئے تھے۔ پرویز مظفر صاحب نے اس طرف متوجہ کیا کہ  ان کا انتقال مارچ ۱۹۶۴ء میں ہوا تھا، اور مارچ ۲۰۱۴ میں ان کی پچاسویں برسی  کا موقعہ ہے۔ اس بانکے شاعر کا ایک شعرسنانے کو دل چاہ رہا ہے:

میں تو غزلیں کہہ کہہ کر دل بہلا لیتا ہوں لیکن وہ

شہرِ سخن میں بدنامی سے بے پروا ہوں ، لیکن وہ

یہ شعر  پچھلی صدی کی چوتھی دہائی  میں کہا گیا تھا، جب کہ بشیر بدر کی شاعری کا زمانہ اور ان کا یہ شعر بھی ایک دہائی بعد آنے والا تھا:

تم تو غزلیں کہہ کر   اپنے دل کی آگ بجھا لو گے

اس کے جی سے پوچھو جو پتھر کی طرح چپ رہتی ہے

اس بار کا گوشہ انہیں کے نام ہے اور اس گوشے کے لئے میں ڈاکٹر مظفر حنفی اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر کا ممنون ہوں۔ ایک دوسرا گوشہ ایک اور  خوشگوار لہجے کے شاعر مدحت الاختر کے نام ہے۔

اس عرصے میں کتنے ہی دوست بچھڑ گئے، پچھلا شمارہ پوسٹ ہوا ہی تھا کہ وارث علوی کے انتقال کی خبر آئی۔ اور پھر کتنے ہی لوگ۔۔ خوشونت سنگھ،  صغریٰ مہدی، علی امام نقوی،  سکندر احمد تو صرف ہندوستان سے ہی۔۔!!اور بھی کتنے ہی جن کے نام میں یا تو بھول رہا ہوں یا میرے علم میں نہیں۔خدا  ان سب کے ساتھ خیر کا معاملہ کرے۔

ا ع

3 thoughts on “مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے