بڑا ہے درد کا رشتہ (شہریار کی یاد میں ) ۔۔۔ ابو الکلام قاسمی

بڑا ہے درد کا رشتہ

(شہریار کی یاد میں )

               ابو الکلام قاسمی

            میرے لیے وہ علی گڑھ کے ابتدائی ایام تھے۔ ہم چند دوست جو جامعہ ملیہ سے اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے، ان کے لیے علی گڑھ کے ابتدائی مہینے کچھ ایسے گزرے کہ جیسے یہاں کوئی روشن خیالی نہ ہو، ذہنی اور فکری آزادی کا ماحول نہ ہو اور طالب علم اپنی ذاتی یا علاقائی دنیائیں بنائے انھیں کے خول میں بند رہتے ہوں ۔ مگر جیسے جیسے تعلیمی میقات کے آخری چند مہینے آنے شروع ہوئے، علی گڑھ میں ادب، ثقافت اور کھیل کود کی سرگرمیوں کا سیلاب سا آگیا۔ معلوم ہوا کہ آخری دو تین مہینوں میں ہرہوسٹل اور ہال کے ادبی اور ثقافتی مقابلے بھی ہوتے ہیں اور آزادانہ طور پر کہیں موسیقی، کہیں مشاعرہ، کہیں مونو ایکٹنگ اور کہیں طلبا کی مختلف صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع اپنے آپ نکل آتے ہیں ۔ ایسی ہی کوئی شام تھی جب سرسیدہال میں ایک شعری نشست منعقد ہوئی تھی۔ اس میں علی گڑھ کے تقریباً ان تمام شاعروں کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا جن کے نام اور کلام سے آشنائی گذشتہ چند برسوں میں مشاعروں اور ادبی رسائل کے توسط سے ہ وچکی تھی۔ ان شاعروں میں خورشیدالاسلام بھی تھے، خلیل الرحمن اعظمی بھی، شہریار بھی تھے اور وارث کرمانی بھی۔ ان کے علاوہ مسعودعلی ذوقی، وحید اختر، بشیر بدر وغیرہ اہم تھے۔ زیادہ تر شاعروں کے نام سنے ہوئے تھے اور بعض ہمارے لیے اجنبی تھے۔ بی۔ اے فرسٹ ایر کے طالب علم کی بساط ہی کیا، محض سننے، داد دینے اور کوئی شعر پسند آگیا تو اس کو لکھ لینے تک اپنا مذاق محدود تھا۔ شہریار کے بارے میں سن رکھا تھا کہ ان کے استاد خلیل الرحمن اعظمی ہیں اور ان کے ہی فیضِ تربیت نے شہریار کو شہریار بنایا ہے۔ اس وقت یہ قوتِ فیصلہ تو تھی ہی نہیں کہ یہ طے کر پاتے کہ ان دونوں میں کس کا کلام زیادہ موثر اور زیادہ بہتر تھا یا پھر یہ کہ کس کا اندازِ شاعری استادانہ تھا اور کس کا مبتدیانہ۔ اتفاق سے اس مشاعرے کے بعد شہریار صاحب سے کسی نے تعارف کرا دیا اور بتایا کہ اس طالب علم کو بھی شعرو ادب کا ذوق ہے۔ اپنی فطری کم آمیزی کے باعث کسی بزرگ اور ممتاز شخصیت سے بار بار ملنے کا سوال ہی نہیں تھا البتہ دو ایک بار شہریار صاحب سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے اجنبیت کا تاثر نہیں دیا۔ ناچیز کے لیے یہ بھی کوئی کم اہم بات نہ تھی۔ چندسال گزرے تو بی۔ اے مکمل ہو چکا تھا اور یہ انکشاف بھی ہو گیا تھا کہ عربی زبان میں یہ جو میں نے آنرز لے لیا تھا اور خصوصیت کے ساتھ عربی کے جو زیادہ کورسز لیے تھے۔ ان سے عربی دانی میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ اپنی دلچسپی کی زبان اردو سے دوری بڑھتی جا رہی ہے   —- بی۔ اے میں ضمناً اردو کے بعد پرچے پڑھے ضرور تھے مگر اردو میرا کوئی باقاعدہ سبجیکٹ نہ تھا۔ تاہم اردو افسانے اور شاعری سے فطری لگاؤ کے باعث راقم الحروف نے اردو ادب میں ایم۔ اے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چوں کہ بی۔ اے میں بہت امتیازی حیثیت سے پاس ہوا تھا اس لیے داخلہ تو ملنا ہی تھا، مگر اردو زبان و ادب کی ایک نئی دنیا سامنے تھی۔ جس سبجیکٹ کو محض مادری زبان سمجھ کر اپنانے کی کوشش کی تھی، اس کے بارے میں اب اندازہ ہونے لگا تھا کہ یہ تو علم دریاؤ ہے۔ شاعری میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ اور نثر میں افسانہ، ناول، سوانح وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک سوال نصابات کا تھا اس کے تقاضے بالکل الگ اور محدود تھے مگر شعر و ادب کا ذوق علی گڑھ کی علمی و ادبی سرگرمیوں کی طرف بار بار متوجہ کرتا اور للچاتا رہتا تھا۔ اسی لگن اور شعر و ادب کی وارفتہ مزاجی نے شہریار سے باقاعدہ ملاقات کرائی۔

            شہریار مجھے ایم۔ اے کے پہلے سال میں شعبۂ اردو میں کہیں دکھائی نہیں دیے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ ایک سال کی تعلیمی رخصت پر ہیں ۔ شاید اپنی پی ایچ۔ ڈی مکمل کرنے کی خاطر۔ ایک روز اپنے رفیقِ جماعت خورشید احمد کے ساتھ شہریار کے گھر کا راستہ معلوم کر کے ان سے ملنے چلا گیا۔ تعارف کرانے کی چنداں ضرورت نہ تھی، یہ تو ان کو معلوم ہوہی چکا تھا کہ ہم دونوں ایم۔ اے اردو کرنے کی غرض سے شعبۂ اردو کے طالب علم بن چکے ہیں ۔ وہ اپنے کسی کام میں مصروف تھے۔میز پر  ناصر کاظمی کا مجموعۂ کلام ’دیوان‘ نظر آیا۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ پہلی ہی پڑھ چکا تھا اس لیے ’دیوان‘ کو بڑے تجسّس اور اشتیاق کے ساتھ اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ واپسی پر شہریار نے جب ناصر کاظمی کا کلام میرے ہاتھ میں دیکھا تو دریافت کیا کہ کیا آپ لوگوں کو بھی شاعری سے کچھ شغف ہے؟ ظاہر ہے کہ ہمارا جواب اثبات میں تھا۔ میں نے تو ان کے سوال کے جواب میں اپنی یادداشت سے شہریار کے متعدد شعر بھی وہاں سنا دیے اور ان کے چہرے پر یہ تاثر ڈھونڈھنے کی کوشش کرنے لگا کہ ان کو اپنے ذکر سے کتنی خوشی حاصل ہوئی۔ مگر شہریار ان کم سواد لوگوں میں نہ تھے جو اپنے ذکر سے بلاوجہ سرشار ہو جاتے۔ اس طرح ان کی ایک خاص اُفتادِ طبع ہم پر منکشف ہوئی۔ شہریار کے چہرے میں پختہ عمر میں بھی جو عجیب و غریب معصومیت تھی، بھولاپن تھا وہ ان کی عمر کے لوگوں میں مشکل سے تلاش کیا جاسکتا تھا۔ اتفاق دیکھیے کہ شہریار کے چہرے کی یہ معصومیت اگر ان کے گھر میں کسی اور کے چہرے پر نظر آتی ہے تو وہ ان کے بڑے بیٹے ہمایوں (بھیّو) ہیں جو جب تک بات نہ کریں اندازہ ہی نہیں ہوسکتاکہ وہ اس قدر پختہ کار اور ہوش مند نوجوان ہیں ۔ البتہ وہ وارفتہ مزاجی اور گرم جوشی جو شہریار میں تھی وہ اتفاق سے ان کے تینوں بچوں میں ہے۔

            دلچسپ بات یہ تھی کہ شہریار نے ایک سال کی تعلیمی رخصت کے بعد شعبہ جوائن کر لیا پھر بھی ہمیں ان کی شاگردی کا شرف حاصل نہ ہوسکا۔ تاہم ان سے روز بروز مراسم بڑھتے رہے جو اُن کے گھر کے ذاتی ملاقاتوں سے لے کر مختلف محفلوں میں بیٹھنے، باتیں کرنے اور دیر دیر تک تبادلۂ خیال تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان کے لیے میری نیاز مندی دوستانہ مراسم کی حدوں میں بہت جلد داخل ہو گئی۔ میں نے ویسے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی کوشش نہیں کی اور رسمی طور پر شاگرد نہ ہونے کے باوجود خود کو گویا شاگرد ہی سمجھتا رہا اور ان کو استاد کے منصب پر فائز۔ چھٹی کے دنوں میں ان کے گھر پر یا نجی ملاقاتوں میں جب کبھی ان سے گفتگو کا موقع ملا تو اس میں شعر و ادب یا زیادہ سے زیادہ ادبی سیاست قسم کی چیزیں موضوعِ گفتگو رہیں ۔ شہریار کی عادت تھی کہ وہ اپنے چھوٹوں کو مختلف ادیبوں سے ملاقاتوں کا حال بتاتے یا پھر علی گڑھ میں ان کے ایامِ طفلی سے ہی جو ادبی سرگرمیاں عروج پر رہیں ان کی تفصیلات سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ پھر مجھ سے کچھ زیادہ بے تکلف ہونے اور میرا ظرف آزمانے کے بعد اردو اور شعبۂ اردو کی بظاہر پُرسکون مگر دراصل داخلی کش مکش پر مبنی صورت حال کی  طرف اشارہ بھی کرتے رہتے۔ متعدد ملاقاتوں کے بعد اور شہریار ہی کے توسط سے حاصل ہونے والی معلومات اور رشتوں کے نازک ارتعاشات سے باخبر ہونے کے سبب ہمیں ایسا لگتا گویا ہم خود علی گڑھ کی ادبی صحبتوں میں عرصے سے شریک ہوتے چلے آرہے ہیں ۔ ان کی گفتگو بے لوث، مثبت اور نہایت غیر متعصبانہ ہوا کرتیں ۔ شاید یہی سبب تھا کہ شہریار کی محفلیں معلوماتی بھی ہوتی تھیں ، مخلصانہ بھی اور ذہنی تحفظات اور ادبی تعصبات سے آزاد رہ کر غور و فکر کی دعوت بھی دیا کرتی تھیں ۔

            میں نے اپنے ادبی کیریر کا آغاز یوں تو شاعری، افسانہ نگاری اور چھوٹے موٹے مضامین لکھنے سے کیا تھا مگر قابلِ اعتنا انداز میں میرا ادبی اظہار رسالہ ’الفاظ‘، علی گڑھ کے مدیر کی حیثیت سے اداریہ اور تبصرہ لکھنے کے ساتھ ہوا۔ ’الفاظ‘ کی اشاعت اور میری تدریسی ملازمت کا سلسلہ تقریباً ایک ساتھ شروع ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے شعبۂ اردو کے جن بعض اربابِ حل و عقد کو رسالے کی مجلس مشاورت میں شامل کر لیا تھا، وہ تھے خورشیدالاسلام، قاضی عبدالستار، خلیل الرحمن اعظمی اور نسیم قریشی۔ ان ناموں کے انتخاب میں اپنے احساسِ تحفظ، رفع شر، خلوص اور عقیدت جیسی تمام کیفیات ملی جلی تھیں ۔ شہریار ہمارے رسمی مشیروں میں سے تو نہ تھے مگر ادبی اور ادارتی مشورے عام طور پر انھیں سے لیا کرتا۔ اسی باعث تقریباً چار سال کے عرصے میں جب تک میں اس رسالے سے فعال طریقے پر وابستہ رہا، شہریار کا تازہ ترین کلام چھاپنے کا شرف ہمیں ہی حاصل ہوتا رہا۔ بلکہ ایک بار تو ایسی ہنگامی صورت حال درپیش آئی کہ میں نے شہریار کے ایک شعر کے علاوہ الگ سے اداریہ لکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ہوا یوں کہ مئی ۱۹۷۹ء میں علی گڑھ میں بھیانک فساد پھوٹ پڑا۔ مکانات نذرِ آتش ہوئے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا۔ شہریار نے اسی زمانے میں ایک غزل ’الفاظ‘ میں اشاعت کے لیے دی، میں نے اس کے ایک مناسب حال شعر کو اداریہ کی جگہ پر شائع کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف وہ شعر بلکہ پوری غزل اپنے دوسرے مضمرات سے کہیں زیادہ فرقہ پرستی کے سیاق و سباق میں پڑھی گئی اور نت نئے انداز میں اس غزل کے اشعار کی تعبیریں کی گئیں ۔ اداریے کی جگہ پر جو شعر شائع کیا گیا تھا وہ یہ تھا:

آگ شعلوں سے سارا شہر روشن ہو گیا

ہو مبارک آرزوئے خار و خس پوری ہوئی

شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ادبی حلقوں میں شہریار کے شعر کو بطور اداریہ بے حد پسند کیا گیا ہو گا۔ اس اتفاق کے ساتھ ایک بات اور بھی ہوئی، وہ یہ کہ شہریار کا شمار جدیدیت کے حلقہ بہ گوشوں میں ہوتا تھا مگر محمدحسن اور سردارجعفری نے اپنی متعدد تحریروں میں ان کی سماجی وابستگی کا جو متعدد بار ذکر کر رکھا تھا، اس کی مزید توثیق کے طور پر بعد کے زمانے میں بھی خصوصیت کے ساتھ شہریار کی متذکرہ غزل کے حوالے سے ان دونوں حضرات نے بار بار شہریار کی وابستگی کو نشان زد کیا۔

            یہ جس زمانے کا ذکر ہے اس وقت شعر و ادب کی عام صورت حال کے متوازی شعبۂ اردو کے پلیٹ فارم پر ایک قسم کی سرد جنگ بھی جاری تھی۔ پروفیسرخورشیدالاسلام اس زمانے میں نہ صرف یہ کہ شعبۂ اردو کے سربراہ تھے بلکہ یونیورسٹی کے اربابِ اختیار لوگوں میں بھی ان کی اہمیت مسلّم تھی۔ خورشیدالاسلام کے بعد شعبۂ اردو میں اگر کوئی اور شخص سینئرتھا تو وہ تھے خلیل الرحمن اعظمی۔ چنانچہ ان کی غیر موجودگی میں اعظمی صاحب ہی کارگزار صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ اتفاق سے ایک بار خورشیدالاسلام کئی ماہ کی رخصت پر لندن چلے گئے اور اعظمی صاحب حسبِ توقع ان کی جگہ پر صدارت کے فرائض انجام دینے لگے۔ واضح رہے کہ اس زمانے میں یہ مسئلہ بھی درپیش تھا کہ شعبے میں پروفیسر کی جو ایک اسامی ہے اس پر عام لوگوں کی توقع اور اپنی غیر معمولی صلاحیت کے اعتبار سے خلیل الرحمن اعظمی کا پروفیسر ہونا عین متوقع سمجھا جاتا تھا۔ مگر ایک اور صاحب جو اعظمی صاحب سے جونیئر بھی تھے اور جن کا تنقیدی قد و قامت بھی ان کے برابر نہ تھا، انھوں نے اپنے لیے ماحول بنانا شروع کر دیا۔ ان کے ہم خیال لوگوں میں ڈاکٹر نعیم احمد اور ڈاکٹر محمد انصاراﷲ کے علاوہ یونیورسٹی سے دور کا تعلق رکھنے والے ان کے بعض خیرخواہ نمایاں تھے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں حضرات کو اوّل الذکر کسی کو پروفیسر بنوانے سے غرض کم تھی، خورشیدالاسلام کے خلاف محاذ آرائی کرنا زیادہ مقصود تھی۔ جب خورشیدالاسلام لندن سے واپس آئے تو شخص مذکور نے ان کے کان بھرے اور یہ احساس دلایا کہ خلیل الرحمن اعظمی تو پورے عرصے میں آپ کے بد خواہوں کے گرد گھرے رہے اور آپ کے خلاف سازشیں کرتے رہے  — اتفاق یہ تھا کہ خلیل الرحمن اعظمی اس زمانے میں ’لیوکومیا‘ (بلڈکینسر) کی جان لیوا بیماری میں بھی مبتلا تھے۔ سازش تو دور کی بات ہے کسی طرح کی دنیاداری بھی ان کے مزاج کے خلاف تھی۔ ایک تو علی گڑھ کے اہلِ علم کو ان کی شرافت اور انسانیت کا احساس تھا، دوسرے یہ ان کی مہلک بیماری کے سبب سے بھی بیش تر لوگوں کو خلیل صاحب سے ہمدردی تھی۔ مگر شخص مذکور نے تمام اخلاقیات، رحم و کرم اور مروّت کو بالائے طاق رکھ کر ان کے خلاف اس حد تک ماحول بنایا کہ خورشیدالاسلام کو  خلیل صاحب سے پوری طرح بدگمان کر کے رکھ دیا۔ سلیکشن کمیٹی تو ہوئی مگر خورشیدالاسلام، خلیل الرحمن اعظمی کو کاٹنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائے۔ طے یہ پایا کہ درمیان کا راستہ یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں حضرات کو پروفیسر بنا دیا جائے۔ مگر جگہ تو صرف ایک تھی، اس لیے اب یہ کوشش شروع ہوئی کہ ایک کے بجائے یو جی سی سے پروفیسر کی دو جگہیں طلب کی جائیں ۔ تاہم اس کام میں اتنا لمبا وقفہ صَرف ہو گیا کہ جون ۱۹۷۸ء میں خلیل الرحمن اعظمی کا انتقال ہو گیا۔ اس قدرتی حادثہ نے خورشیدالاسلام کی رہی سہی نیک نامی کو مٹی میں ملا دیا، اب خورشیدالاسلام بھی تلافی کی راہیں ڈھونڈھنے لگے۔ اس پوری صورت حال میں خلیل الرحمن اعظمی کے پروردہ اور عزیز ترین شاگرد شہریار کی حکمت عملی کام آئی اور انھوں نے خورشیدالاسلام کو راہِ راست پر لانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ مگر ان کے راہِ راست پر آنے کا اب جب کہ اعظمی کی وفات ہو چکی تھی کوئی فائدہ نہ تھا۔ بس جو ہوا سو یہ ہوا کہ خورشیدالاسلام نے اپنی شخصیت کا سارا زور صرف کر کے اور یونیورسٹی کے اربابِ حل و عقد کو اپنی طلاقت لسانی سے مرعوب کر کے دو نسبتاً جونیر اور کم صلاحیت اساتذہ کو پروفیسر بنوانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ حالاں کہ وہ مذکورہ شخصیت جس نے غلط طریقے سے خود کو اس عہدہ پر فائز کرانا چاہا تھا، وہ ان دونوں جونیر اساتذہ سے بہرحال زیادہ باصلاحیت تھی۔ پھر کیا تھا شعبۂ اردو کے اندر اور باہر طوفانِ بدتمیزی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ مگر اب ہونا ہی کیا رہ گیا تھا  — ان تمام تفصیلات سے محض یہ بتانا مقصود ہے کہ شہریار اپنے مزاج اور افتادِ طبع کے اعتبار کسی کے خیرخواہ تو ہوسکتے تھے مگر بدخواہ نہیں ۔ یہ شاید واحد معاملہ تھا جس میں انھوں نے بہ ظاہر منفی مگر دراصل حقیقت پسندانہ کردار ادا کیا تھا، اور خلیل الرحمن اعظمی کے بد خواہوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تھی۔ پروفیسر خورشیدالاسلام صاحب خلیل الرحمن اعظمی کے ساتھ انصاف نہ کرنے کی جو غلطی کر چکے تھے شہریار نے انھیں اس کا ایسا شدید احساس دلا دیا کہ وہ اپنی اتنہاپسندی کے مزاج کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی فروگزاشت کی تلافی کرنے کی خاطر کچھ بھی کرنے کو آمادہ ہو گئے تھے۔

            پروفیسرشہریار کو ۱۹۸۷ء میں ساہتیہ اکیڈمی انعام و اعزاز کا مستحق قرار دیا گیا تھا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میں اس انعام کے اعلان کے وقت پاکستان گیا ہوا تھا۔ واپس آیا تو یہ خوش خبری خود شہریار صاحب نے سنائی۔ میں ان دنوں یونیورسٹی کے جنرل ایجوکیشن سنٹر میں لٹریری کلب کا صدر تھا۔ وہاں کسی استاد کی صدارت میں طلبا کی ایک بڑی ٹیم ہوتی ہے جو یونیورسٹی کی ادبی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ پورے ملک میں تقریری مقابلہ ہو یا مضمون نگاری کا مقابلہ، بیت بازی ہو یا کسی نوع کا مباحثہ یا پھر ڈرامہ وغیرہ سے متعلق آل انڈیا مقابلے، لٹریری سوسائٹی کے صدر کو ہی ان تمام معاملات کی نگہ داشت کرنا ہوتی ہے۔ علی گڑھ میں مختلف شعبۂ جات، ہاسٹل یا ہال اور چھوٹی چھوٹی سوسائٹیوں کی ادبی سرگرمیاں اپنی مگر جگہ، لٹریری سوسائٹی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ میں نے پہلی فرصت میں لٹریری سوسائٹی کی جانب سے شہریار کے اس اعزاز پر ایک بڑے جلسے کا اہتمام ’شامِ شہریار‘ کے نام سے کیا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ ’شامِ شہریار‘ کی تقریب نہایت معیاری، خوب صورت، متوازن اور یادگار سی بن گئی۔ شہریار سے متعلق چھوٹے چھوٹے بعض مضامین، سنجیدہ تقاریر، ان کے کلام کی بلند خوانی اور موسیقی کے ساتھ ’غزل گائکی‘ نے اس پروگرام میں رنگ بھر دیا تھا۔ اس زمانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر پروفیسر قاضی عبدالستار تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کی صدارت کے زمانے میں شہریار کے اس انعام پر کسی جلسے یا تہنیتی تقریب کا سوال ہی نہیں تھا۔ مگر جب شعبۂ اردو کے ہی ایک نسبتاً جونیر استاد کی ایما اور اہتمام کے سبب یہ عظیم الشان شامِ شہریار منائی گئی تو شعبۂ اردو میں اس کا شدید ردِ عمل محسوس ہوا۔ تاہم اب شعبۂ اردو کی جانب سے مثبت یا منفی ردِ عمل سے ہوہی کیا سکتا تھا۔ شہریار کے ساہتیہ اکیڈمی اعزاز کے سلسلے میں ایک اور واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ ان دنوں دوردرشن سے اردو کا ایک ادبی پروگرام ’بزم‘ کے نام سے پابندی سے ہر ہفتے نشر ہوا کرتا تھا۔ اتفاق سے ایک روز میں مہتاب حیدر نقوی کے ساتھ کسی دوست کے گھر بیٹھا تھا تو دیکھا اردو کے معروف شاعر زبیر رضوی اس انعام کے حوالے سے شہریار کا انٹرویو لے رہے ہیں ۔ شہریار سے زبیر رضوی کا پہلا سوال یہ تھا کہ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ بہت کم عمری میں آپ کو ساہتیہ اکیڈمی انعام سے نوازا گیا ہے۔ اس سوال میں طنز و تحقیر کے ساتھ حسرت و ارمان کے سارے تحفظات سمٹ آئے تھے۔ واضح رہے کہ اس وقت شہریار کی عمر پچاس سے بھی تجاوز کر چکی تھی — شہریار اس نوع کے ردِ عمل کے ہمیشہ شکار رہے۔ ان کے متعدد معاصرین جن کو ساہتیہ اکیڈمی کا انعام یا تو بعد میں ملا یا ہنوز ان کی حسرتیں ان کا دم گھونٹ رہی ہیں ، ان کی طرف سے اس نوع کا ردِ عمل عام طور پر دیکھا گیا۔ زبیر رضوی صاحب کی اس منفی اندازِ فکر نے شہریار کا تعاقب کرنا آخر آخر تک نہ چھوڑا۔ حد یہ ہے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے جب ان کا انتقال ہو گیا تو اپنے تعزیتی نوٹ میں بھی زبیر رضوی نے اپنے رسالے ’ذہن جدید‘ میں اسی قسم کے تاثر کا اظہار کیا اور بتایا کہ شہریار کی پذیرائی ہمیشہ ان کے استحقاق سے زیادہ ہوئی۔ ’ذہن جدید‘ کے فوری بعد کے شمارے میں اس نوٹ کو سیدامین اشرف نے صرف پسند ہی نہیں کیا بلکہ زبیر رضوی کی اس رائے پر شہریار کے لیے اپنی عصبیت کا اظہار ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ وہ تو علی گڑھ کے انسائیکلوپیڈیا ہیں ، بھلا ان سے زیادہ علی گڑھ کے شاعروں اور ادیبوں کی نشوونما کا حال کوئی اور کیا جان سکتاہے۔ انھوں نے اپنے تاثر میں شہریار کو معمولی درجے کا شاعر اور حد درجہ دنیا دار آدمی بتایا۔ سید امین اشرف نے خود شاعری تو طالب علمی کے زمانے میں شروع کر دی تھی مگر تقریباً پچاس سال کے تعطل اور اپنی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد ان کا پہلا مجموعۂ کلام شائع ہوا ۔ اس لیے اس تاثر پر حیرانی یوں بھی فطری ہے کہ عمر میں وہ ان سے لاکھ بڑے رہے ہوں مگر جب شہریار ایک جدید شاعر کے طور پر اپنا پورا اعتبار حاصل کر چکے تھے، اُس وقت بھی  ع

’’کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر‘‘

            شہریار کو اگر صحیح معنوں میں مرجع خلائق کہیں تو کوئی حیرت کی بات نہ ہو گی۔ ان کے حلقۂ احباب میں مختلف النوع اور مختلف الخیال لوگ بالخصوص شاعر و ادیب شامل تھے۔ ان کی قربت شمس الرحمن فاروقی سے بھی تھی، گوپی چند نارنگ سے بھی اور پروفیسر محمدحسن بھی ان پر اپنی جان فدا کرتے تھے۔ علی گڑھ آنے والا کوئی بھی ادیب یا شاعر شہریار کی مہمان نوازی کی توقع ضرور رکھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ باہر کے متعدد شاعروں اور ادیبوں سے میری پہلی ملاقات شہریار کے گھر پر یا شہریار کے توسط سے ہوئی۔ ساقی فاروقی، اطہرنفیس، قاضی سلیم، محمد علوی، حسن نعیم، زیب غوری، مغنی تبسم، شاذ تمکنت، پریم کمار نظر وغیرہ وغیرہ۔ یہ شہریار ہی تھے جنھوں نے گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان شدید اختلافات کو دور کرنے اور دونوں کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کرنے کا ایک سے زیادہ بار اہتمام کیا۔ کنور اخلاق محمد خاں ایک راجپوت تھے اس لیے ان کا راجپوتی رنگ ان کی شاعری میں تو تلاش کرنا مشکل ہے مگر شعری نزاکت احساس کے درمیانی وقفوں میں اکثر اپنا رنگ ضرور دکھاتا تھا۔ انھوں نے ایک بار اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ اردو کے تین آدمی میرے ایسے دوست ہیں جن کے لیے میں جان دے بھی سکتا ہوں اور ان کے لیے جان لے بھی سکتاہوں ، وہ ہیں مغنی تبسم، گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی۔ زیادہ تر لوگوں کو ان کی یہ بات پسند نہیں آئی تھی اور بعض نے تو اس بیان میں بھی شہریار کی مصلحت کوشی ڈھونڈھنے کی کوشش کی تھی، مگر جو لوگ شہریار کے مزاج سے واقف تھے ان کے لیے شہریار کا یہ بیان یا انداز بیان کوئی قابلِ حیرت بات نہ تھی۔ ناچیز نے متعدد بار انھیں حیرت انگیز ردِ عمل کا اظہار کرتے دیکھا۔ ایک بار انھوں نے سرورصاحب کے سامنے پروفیسرنعیم احمد کے لیے اپنی بانہیں چڑھائی تھیں ۔ خود میرے ساتھ ایک بار شدید لڑائی کی نوبت آ گئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ اس زمانے میں اردو کے انوکھے شاعر شجاع خاور اچانک ادبی مطلع پر بہت چونکا دینے والی شاعری کے ساتھ نمودار ہوئے تھے۔ شجاع خاور نے ایک طویل نظم اپنی طالب علمی کے زمانے میں بھی کہہ رکھی تھی مگر اس سے ان کو زیادہ شہرت نہ مل پائی تھی۔ اس درمیان کہیں سننے کو ملا کہ وہ شمس الرحمن فاروقی کی نخوت اور اتراہٹ کو سخت ناپسند کرتے ہیں ۔ واضح اندازہ اس وقت ہوا جب انھوں نے ایک رسالہ ’طُر ّہ‘ کے نام سے شائع کیا جس میں فاروقی کو تنقید سے لے کر ان کے ذاتی معاملات تک گھسیٹنے کی کوشش کی گئی تھی۔ فاروقی کو اس رسالے میں معشوقی کے نام سے پکارا گیا تھا اور ان کے دیے ہوئے شعری اقتباسات میں غیر موزونیت ڈھونڈھی گئی تھی، مزید یہ کہ  ان کی تنقیدی آرا اور ان کے رسالے شب خوں کے ساتھ تمسخر کا انداز نہایت شدت سے روا رکھا گیا تھا۔ فاروقی کے ساتھ جن بعض جدیدیوں کو دو ایک جگہ مشق ستم بنانے کی کوشش کی گئی تھی ان میں شہریار نمایاں تھے۔ ہاں ، شجاع خاور کا پہلا مجموعۂ کلام ’واوین‘ کے نام سے چھپ کر آیا تو ادبی و شعری ماحول میں خاصی ہلچل پیدا ہوئی تھی۔ اس میں شاعر کا طرزِ احساس یا تو مختلف تھا یا پھر غیر متوقع، جو چونکاتا بھی تھا، قائل بھی کرتا تھا اور شجاع خاور کی غیر معمولی تخلیقی اُپج کا غماز بھی تھا۔ مثلاً اس کتاب میں اس نوع کے اشعار کثرت سے شامل تھے:

ہم صوفیوں کا دونوں طرف سے زیاں ہوا

عرفانِ ذات بھی نہ ہوا رات بھی گئی

یاد کی بستی سے گزرا تو نظر جاتی رہی

ایک منظر ٹھیک میری آنکھ پر  آ کر لگا

سامان میرا عرش بریں پر پڑا رہا

میں بد دماغ اور کہیں پر پڑا رہا

یہ شجاع خاور کا عام اندازِ بیان تھا، بہت چونکانے والا، بہت انوکھا اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرنے والا۔ مجھے یہ مجموعۂ کلام اپنے انوکھے پن اور غزل کے بالکل نئے ذائقے کے باعث بہت عمدہ بلکہ معاصر غزل کے لیے ایک مبارک آواز کی طرح لگا تھا۔ میں نے اپنے رسالے ’انکار‘ میں واوین پر تبصرہ کیا اور دل کھول کر داد دی۔ مثال میں بہت سے اشعار بھی پیش کیے۔ ’انکار‘ کا تازہ شمارہ شہریار کو مل گیا تھا۔ میں شامت کا مارا یہی پوچھنے اتوار کی صبح ان کے گھر جا پہنچا کہ ان کو رسالہ ملا یا نہیں ، اس لیے کہ اس رسالے میں شہریار کی غزلیں بھی چھپی تھیں ۔ شہریار تو پوری طرح بھرے بیٹھے تھے، بولے رسالہ کا ملنا کیا؟ میں آپ کا تبصرہ بھی پڑھ چکا ہوں ، آپ نے شجاع خاور کی بالکل غلط تعریف کی ہے۔ اس کی شاعری بکواس ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں نے بڑی معصومیت سے کہا کہ ’’ہوسکتا ہے کہ یہ آپ کی ذاتی رائے ہو، مگر اس طرح اپنی ذاتی پسندوناپسند کی بنیاد پر ادبی رائے قائم کرنا بھی تو کوئی اچھی بات نہیں ۔ آپ شاید اس لیے خفا ہیں کہ ابھی کچھ دن پہلے شجاع خاور نے شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ آپ پر بھی جملے کسے ہیں جو شاید غلط ہوں مگر اس باعث بھی تو آپ کی رائے خراب ہوسکتی ہے۔ ‘‘ پھر کیا تھا، شہریار آپے سے باہر ہو گئے۔ آپ میرے گھر پر ہیں ورنہ میں آپ کو بتاتا۔ آپ کے پاس رسالہ ہے تو کیا ہوا، جوجی چاہے اپنی رائے بناسکتے ہیں ، یہ رسالے کا غلط استعمال ہے اور نہ جانے انھوں نے کیا کیا کہا۔ میں صرف اتنا کہہ سکاکہ آپ کی مہمان نوازی کا شکریہ۔ نہ انھوں نے مجھے روکا اور نہ اس صورت حال کے بعد میں خود رکنے کا روادار تھا۔ خدا حافظ کر کے واپس آگیا اور پھر شعبۂ اردو میں آمنے سامنے کمرہ ہونے کے باوجود تقریباً دو ماہ تک ان سے ہم کلام تک نہ ہوا۔ مگر یہ شہریار کا ہی بڑ ّپن تھا کہ وہ خود ایک روز صبح سویرے میرے کمرے آئے اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ جس پر میں نے ان سے زیادہ خود کو خفیف اور شرمندہ محسوس کیا۔ شہریار یوں تو دنیاوی معاملات میں غیر معمولی حکمت عملی اور حیرت انگیز سوجھ بوجھ کے آدمی تھے، مگر ذاتی تعلقات اور رشتوں کے معاملے میں وہ اپنا کوئی بھی نقصان برداشت کرسکتے تھے۔ ان کے ذاتی مسائل بہت محدود تھے، وہ اپنے احباب اور متعلقین کی خیرخواہی اور فائدہ اور نقصان میں توازن رکھنے کے قائل تھے۔ جیساکہ عرض کیا گیا کہ وہ زود رنج بھی تھے اور نازک مزاج بھی مگر تعلقات کو نبھانے کے سلسلے میں ان کی قوت برداشت بے مثال تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کا حلقۂ احباب و متعلقین بڑا وسیع تھا۔ وہ تو موقع موقع سے پتہ چلتا تھا کہ بہت سے ایسے لوگوں سے بھی ان کے گہرے مراسم ہیں یا رہ چکے ہیں جو بہ ظاہر ان کے معمولات کا عموماً حصہ نہ تھے۔ وہ اپنے کسی بھی طرح کے بنے ہوئے تعلقات کو بگاڑنے کے قائل نہ تھے۔ ہم نے اکثر، لوگوں کی خیرخواہی میں انھیں حدسے تجاوز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں اکثر مذاق میں ان سے کہہ بھی دیا کرتا تھا کہ آپ محض یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں شخص کا کام کیسے ہو گا یہ پرواہ بالکل نہیں کرتے کہ وہ شخص آپ کی سفارش سے جس جگہ یا جس ادارے میں پہنچے گا، اس کی نالائقی سے اس ادارے کا کیا بنے گا۔ وہ ایسی باتوں پر مسکرا کر رہ جایا کرتے۔ ان کے بزرگ اور معاصر احباب میں جو بعض نہایت بارسوخ اور با اختیار لوگ ہوئے ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، شاہد مہدی، سیدحامد، مشیرالحسن کے نام لیے جاسکتے ہیں ۔ ان تمام حضرات نے شہریار کے کہنے پر یا ان کی سفارش کو نظرانداز نہ کر پانے کے سبب متعدد ایسے لوگوں کی ترقی کرائی، ملازمت فراہم کی یا کسی نہ کسی انداز میں ان پر نوازش کی جن کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ شہریار کو سفارشی کلمات کہنے اور تیر بہ ہدف الفاظ کے ادا کرنے کا غیر معمولی سلیقہ آتا تھا۔ میں نے ایسے مواقع دیکھے ہیں جب انھوں نے اپنے ایک یا دو مختصر جملوں سے وہ کر دکھایا جس کو بڑی بڑی لمبی گہری باتوں کی مدد سے بھی کارآمد بنانا آسان نہ ہوتا۔ میں نے شہریار کو اقبال سمان ملنے کی تہنیتی تقریب کے موقع پر اپنی تقریر میں اس بات پر خاص زور دیا تھا کہ شہریار کی شاعری میں ایسے تضادات کثرت سے ڈھونڈھے جاسکتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سماجی اور دنیاوی ضروریات کے لیے جہاں جہاں مصلحت سے کام لیتے ہیں یا خاموش رہ جاتے ہیں ، وہ سارے تضادات ان کی شاعری میں خیر و شر کی کش مکش کی صورت میں ضرور ظاہر ہوتے ہیں ۔ شہریار مختلف اور متفرق انداز کے لوگوں اور تعلقاتیوں کو مجتمع رکھنے کا ہنر جانتے تھے۔ اب جب کہ شہریار اس دنیا میں نہیں ہیں ، مرزا غالب کا یہ شعر ان سے زیادہ شاید ہی کسی اور پر صادق آتا ہو کہ:

تھا میں گلدستہ احباب کی بندش کی گیاہ

متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے