غزلیں ۔۔۔آفتاب حسین

غزلیں

               آفتاب حسین

ؔ

دوشیزہ زمینیں ہیں ، ممنوعہ علاقہ ہے

لیکن مجھے لگتا ہے ، یہ میرا علاقہ ہے

ہر سانس میں شامل ہے خوشبوئے نفس اس کی

اُس باغ ِ تمنّا سے کیا اپنا علاقہ ہے

دل ہاتھ میں لے کر ہم دنیا سے نکل آئے

اب دل کے تصرّف میں دنیا کا علاقہ ہے

صحرا کی مسافت میں پانی کا کوئی چشمہ

ان سارے علائق میں وہ ایسا علاقہ ہے

بڑھتا ہوں اگر آگے ، واپس بھی پلٹتا ہوں

ملحق کہیں خوابوں سے یادوں کا علاقہ ہے

اے بانوئے بے پروا ! آ دل کی طرف بھی آ

یہ میری محبت ہے ، یہ تیرا علاقہ ہے

٭٭٭

 

 

راستہ خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

کوئی کیا خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

وہ مہک تھی کہ مُجھے نیند سی آنے لگی تھی

پھُول سا خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

یہ کسی خواب کا احوال نہیں ہے کہ مَیں خواب

دیکھتا خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

خواب تھے جیسے پرندوں نے پرے باندھے ہوں

سلسلہ خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

مجھ کو دُنیا کے سمجھنے میں ذرا دیر لگی

مَیں ذرا خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

نظر اُٹھتی تھی جدھر بھی مری منظر منظر

زاویہ خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

وہ نِکلتا ہوا تھا خواب کدے سے اپنے

اور لگا خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

اِک سرا جا کے پہنچتا تھا تری یادوں تک

دوسرا خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

کس سے کہیے ، کوئی ایمان کہاں لائے گا

کہ خُدا خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

صبح جب آنکھ کھُلی لوگوں کی ، لوگوں پہ کھُلا

جو بھی تھا خواب کے اندر سے نِکلتا ہوا تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے