سب کی کہانی ایک ہے ۔۔۔ عامر حسینی

سب کی کہانی ایک ہے

               عامر حسینی

وہ رات کو دس بجے بس سٹینڈ پر پہنچ گیا تھا۔ اور پھر ایک گھنٹہ وہ بیٹھا رہا۔ تب کہیں جا کر بس آئی۔ وہ ڈیزرٹ رحیم یار خان جانا چاہتا تھا۔ وہاں اس کے دوستوں نے ایک تقریب رکھی تھی۔ وہ اس تقریب میں شرکت کرنے جا رہا تھا۔ اس کو اتنا لمبا سفر کبھی بھی بس میں کرنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ تو لمبے سفر کو ٹرین میں بیٹھ کر کرنے کا خواہاں رہا تھا۔ لیکن اس کا ملک تیسری دنیا کا وہ ملک تھا جہاں اچانک اور کمبائنڈ ترقی کا تجربہ اپنے عروج پر تھا۔ وہاں موٹر وے تھی۔ فوج نے ایٹم بم بنا لیا تھا۔ بلیسٹک مزائل بنانے میں خود کفیل ہو چکی تھی۔ لیکن ریل وے کے پاس انجن نہیں تھے۔ ان کے پاس دیسل نہیں تھا۔ تو ٹرین بھی کسی وقت کی پابند نہیں رہی تھی۔ اس نے پھر بھی ریل وے اسٹیشن جا کر آزمائی کی تھی۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ والا معاملہ ہی رہا۔ سو وہاں سے پھر بس ٹرمینل پر آیا۔ یہاں سے ایک پوش بس سروس کا ٹکٹ لیا۔ گاڑی لاہور سے آ رہی تھی۔ اس نے آگے کراچی تک جانا تھا۔ تو یہ ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی۔ گیارہ بجے گاڑی آئی۔ وہ اس میں سوار ہوا۔ اس کی سیٹ درمیان میں تھی۔ اور اس کی طرف کھڑکی تھی۔ رات کا وقت تھا۔ گاڑی اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔ اس نے آئی پوڈ نکالا اور ہیڈ فون کو کان سے لگا لیا۔ آئی پوڈ کو نکالتے ہوئے اس کو اس کے موجد سٹیو جاب کا خیال آ گیا۔ کہ کیسے اس نے ایک سرمایہ دار سے کچھ پیسے لیکر ایپل کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ اور پھر فون کی دنیا میں اور کمپیوٹر کی دنیا میں اس نے انقلاب برپا کر ڈالا تھا۔ اس نے آئی پوڈ کی طرف عقیدت سے دیکھا اور تھوڑی دیر کے لئے سر کو جھکا لیا۔ سٹیو جاب مر چکا تھا۔ لیکن اس کی موجودگی کا احساس اس کو یہ آئی پوڈ دلا رہا تھا۔ آئی پوڈ پر گیت چل رہا تھا

تیری یاد ساتھ ہے

جاوید اختر نے یہ گیت لکھا تھا۔ اور راحت اپنی آواز کا جادو جگا رہا تھا۔ اس کو سفر میں یہ گیت بہت ہانٹ کرتا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ سر کو سیٹ سے ٹکا دیا۔ اور سوچوں کے سمندر میں گم ہو گیا۔

ابھی جب ہمارا یہ مسافر ذرا آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ تو ہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مسافر کا تعارف کرتے چلیں۔ یہ سید انور کاظمی ہے۔ شاعر بھی ہے۔ لیکن اس کی نظموں کو پاکستان کے لوگ زیادہ نہیں جانتے۔ اس نے ایک دور میں بہت سرگرم سیاست کی تھی۔ جب ملک میں ایک خادم اسلام حکومت پر براجمان تھا۔ جس کو سیاست سے ہی نہیں بلکہ فنون لطیفہ سے بھی بیر تھا۔ انور کاظمی ان دنوں یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ اس کو آنکھوں کے خراب زاویے رکھنے والا اور ٹانگوں کے غیر جمالیاتی پھیلاؤ کا مالک امیر المومنین ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اس نے ان دنوں ایک نظم "عقل سے بڑی بھینسیں "لکھی تھی۔ اس نے یہ نظم ملک میں ملٹری کورٹ بنانے پر لکھی تھی۔

عقل سے بڑی بھینسیں مسند عدالت پر فیصلے سناتی ہیں

بھونکتے ہیں وردی پوش ،کاٹتی ہیں سنگینین

دس کروڑ لوگوں کو موت کی سزا دے دو

یہ نظم اس نے کیا لکھی۔ اس کا تو اس ملک میں جینا ہی دوبھر ہو گیا۔ وہ ایک دن چپکے سے ملک سے فرار ہو گیا۔ اور جرمنی جا پہنچا۔ وہاں ایک عرصۂ تک اس نے فرینکفرٹ میں گزارا۔ سیاسی پناہ گزین کے طور پر۔ پھر جب بھٹو کی بیٹی برسر اقتدار آئی تو وہ ملک واپس آ گیا۔ لیکن اس کو یہ ملک بہت بدلا ،بدلا لگا۔ یہاں تو طبقہ بدلنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی تھی۔ پلاٹ،پرمٹ ،ایجنسی کا ٹھیکہ اور کوئی سفارشی نوکری۔ یہ تھی سیاست ان لڑکوں کی بھی۔ جن کے بالوں میں کہیں کہیں اب سیفدی جھلکتی تھی۔ اور وہ سب انقلاب کو بھول کر اپنے سماجی مقام کو تبدیل کرنے کو زور دے رہے تھے۔ اس کی محبوب لیڈر امریکہ سے بہتر تعلقات بنانے کے لئے ان سارے لوگوں کو بیک سیٹ پر جانے کا کہ رہی تھی۔ جو کبھی امریکی سامراج کے خلاف نعرے لگاتے تھے۔ اور بھٹو کی بیٹی ان کو بھٹو کے سپاہی کہتی تھی۔ اس نے مغربی جرمنی اپنے بعض سرخ ساتھیوں کو سبز ہوتے دیکھا تھا۔ وہ اچانک مغرب کی لبرل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ کے دلدادہ ہو گئے تھے۔ ان کو لگتا تھا جس ارضی جنت کی ان کو تلاش تھی۔ اس کو انھوں نے پا لیا ہے۔

انور تو خود کو سیاسی پناہ گزین خیال کرتا تھا۔ اور وہ بس پیٹ کا اندھیں بھرنے اور بنیادی ضرورتیں پوری کرنے جتنی مزدوری کیا کرتا۔ ہر ہفتہ کو مختلف اخبارات کے دفاتر تک جاتا۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ،سیاسی آزادی کے لئے مغرب کے جمہوریت پسندوں کے ضمیر پر تازیانے برساتے بیانات اور مضامین دیتا۔ ان سے سوال کرتا کہ ان کا ضمیر کہاں ہے۔ جو ایک امر اور بنیاد پرست کو مال دینے اور اس کو مدد دینے پر بھی خاموش رہتا ہے۔ ریگن کو وہ مولوی ریگن اور تھیچر کو وہ نن تھیچر کہا کرتا تھا۔ لیکن جب جمہوریت بحال ہوئی۔ اور وہ پاکستان بھاگا بھاگا آیا تو۔ یہاں کے حالات دیکھ کر اس کو سخت مایوسی ہوئی۔ اس نے ایک خاموشی سے واپس فرینکفرٹ کی فلائٹ پکڑی اور پاکستان چھوڑ دیا۔ واپس آ کر بھی وہ بس زندگی کی گاڑی کو گھسیٹتا ہی رہا۔ پاکستان کی خبریں اس کو ملتی رہتی تھیں۔ جمہوریت کی آنکھ مچولی اچانک۱۲ اکتوبر کو ایک جنرل نے ختم کر دی۔ یہ جنرل آیا تو اس کی ایک تصویر اس نے جرمنی کے ایک بڑے اخبار میں دیکھی۔ دو کتے بغل میں دبائے وہ لبرل پوز کے ساتھ نظر آ رہا تھا۔ یار لوگوں نے اس کے ڈھمکوں وٹ دختر انگور کو پی کر تال پر جھومنے کو پاکستان سے رجعت پسندی سے نجات کی دلیل قرار دے ڈالا۔ وہ ہنستا تھا۔ اس کو نہ تو اے آر ڈی کے تماشے سے کوئی دلچسپی تھی۔ نا ہی اس کو فوجی کی لبرل مسخرہ گیری سے۔ لیکن جس دن راول پنڈی کی سڑک پر بھٹو کی بیٹی کا خون گرا تھا تو نہ جانے کہاں سے اس کے اندر کا وہی جیالہ انور بیدار ہو گیا تھا۔ جو اس کی جوانی کے سورج کے نصف النہار پر اس کے عمل اور قول سے جھلکتا رہتا تھا۔ وہ گڑھی خدا بخش کے قبرستان جا کر رویا بھی تھا۔ لیکن اس نے دیکھا کہ یہ خون بھی ملک کی سیاست میں کوئی تبدیلی لانے سے قاصر رہا تھا۔ وہ جرمنی سے واپس جب آیا تھا تو اس نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور پھر فیس بک کھولی تو اس کے دوست ریاض نے اس کو ایک فوٹو ارسال کی تھی۔ اس فوٹو میں ملک کے وزیر داخلہ رحمان ملک کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری لیتے دکھایا گیا تھا۔ تصویر میں کھڑے ایک مرد اور عورت کو پہچانتا تھا۔ یہ تو ۷۰ میں اس کے ساتھ سرخ سرخ سیاست کرتے رہے تھے۔ اور انور کی کم علمی کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ آج ایک جاہل کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دیتے ہوئے بہت خوش نظر آتے تھے۔ اس نے سوچا کے ریاض کو بھی یقین نہیں آتا ہو گا کہ لوگ ایسے بھی بدل جاتے ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ کراچی جا کر ریاض کو ضرور کہانی سنائے گا کہ کیسے اس کے  کئی دوست بدل گئے تھے۔ اسے منیر نیازی کا شعر یاد آیا

آنکھوں میں پھر رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول

عبرت سرائے دھر ہے ،اور ہم ہیں دوستو

لٹی محفلوں کی دھول بھی آنکھوں میں رڑک بن کر جب پھرتی ہے۔ تو تکلیف ہو بھی تو بتائی نہیں جاتی۔ بہت دور کسی رستے پر جا کر اچانک پتہ چلتا ہے کہ یہ رستہ تو کوئی اور رستہ تھا۔ اس وقت چہرے پر پہلے اداسی اور ملال کے رنگ صاف نظر آتے ہیں۔ ہمارا یہ مسافر ابھی کیوں کہ تھکا ہوا ہے۔ اس لئے سو رہا ہے۔ اس کا سر ساتھ والی سواری کے کندھوں پر جا لگا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھا ہوا مسافر کوئی بہت نرم دل والا لگتا تھا۔ جو خاموش تھا۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اب تک کہ چکا ہوتا کہ اپنے سہارے پر نیند پوری کیجئے۔ ویسے ہمارا یہ مسافر جاگ رہا ہوتا تو شائد ابھی تک وہ بھی معافی کا طلبگار ہو جاتا۔ اس مرتبہ جب وہ پاکستان آیا تھا تو پاکستان میں اس کو یہ تبدیلی لگی تھی کہ اس ملک کا مڈل کلاس طبقہ کی نوجوان پرت انقلاب اور تبدیلی کی بات کر رہی تھی۔ ان میں اکثر نوجوان وہ تھے۔ جو اس کے زمانے میں جی سی لاہور یا ایف سی لاہور میں پڑھا کرتے تھے۔ اور اس زمانے کے فیشن کے مطابق وہ یا تو ہپی ازم کے دلدادہ ہوا کرتے تھے۔ یا بہت کیا تو سوشلسٹ ہو جاتے تھے۔ برگر سی یہ کلاس ان دنوں بھی انقلاب کی بات کرتی تھی تو بہت عجیب لگتا تھا۔ انور جیسے بہت سارے لڑکوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ ان کو کون سے دکھ اور تضاد اس لڑائی میں گھسیٹ لائے ہیں۔ آج کی یہ برگر کلاس بھی اس کو انقلاب کے سلوگن کے ساتھ بڑی عجیب لگی تھی۔ لاہور میں مینار پاکستان کے سائے میں کرکٹ کے سابق ستارے کی قیادت میں برگر فیملیز کے لڑکوں اور لڑکیوں کا جم غفیر تھا۔ اور ان میں بہت سے لوئر مڈل کلاس کے لڑکوں اور لڑکیوں کا ہجوم بھی تھا۔ جو برگر فیملی کے بچوں کی ڈریسنگ اور بولنے کے انداز سے ویسے ہی متاثر ہوئے جاتے تھے۔ جیسے کبھی انور اور اس کے ساتھی ہو جاتے تھے۔ ان کی آنکھوں میں رشک اور چند خواب اچانک سے آ کر جو چمکنے لگتے تھے۔ اس سے انور کو ایک ہی جلسہ میں ایک طبقے کی دو پرتوں کے درمیان کا فرق خوب معلوم ہو رہا تھا۔ بس اس مرتبہ فرق یہ تھا کہ اس جلسہ میں بھٹو کے ۷۰ والے اور اس کی بیٹی کے ۸۶ والے جلسوں کی طرح مزدوروں ،کسانوں اور غریبوں کی وہ پرتیں موجود نہ تھیں۔ جن کے بدن کی نیم عریانی چھپائے نہ چھپتی تھی۔ ان میں ٹپکتی چھت والا کوئی نہ تھا۔ ان میں جھگی میں رہنے والا کوئی نہیں تھا۔ ریلوے کی پٹٹری کے ساتھ ساتھ بسنے والی بستیوں کے مکینوں میں سے کوئی ادھر نہ تھا۔ وہ سارے لوگ کہاں گئے تھے۔ انقلاب اور تبدیلی جن کے سلوگن ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ ملک تھا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۴۰ فیصد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے۔ شہری غریبوں کی شمولیت اس میں نہ تھی۔ یہ ایک نئی مڈل کلاس تھی جو ۹۰ کی دہائی میں ابھر کر سامنے آئی تھی۔ اب اس مڈل کلاس کی نئی نسل تبدیلی کے سلوگن کے ساتھ آگے تھی۔

بس اپنے مقررہ رستے پر رواں دواں تھی کہ اچانک بریک لگنے سے زور کا جھٹکا لگا اور ہمارے مسافر کی آنکھ کھل گئی۔ انور نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ گاڑی بہاول پور پہنچنے وی تھی۔ بس ہوسٹسس کہ رہی تھی کہ وہاں بس ٹرمینل پر پندرہ منٹ کا سٹاپ ہو گا۔

بس ٹرمینل میں داخل ہو گئی۔ آسمان پر بدل چھائے ہوئے تھے۔ انور باہر نکلا اور ویٹنگ روم میں جانے کی بجائے باہر کھڑا ہو گیا۔ اس نے جیب سے سگریٹ کیس نکالا اور سگریٹ پینا شروع کر دی۔ بادلوں سے چاند آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ ستارے آسمان میں کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ انور کو بہاول پور کی رات ویسے بہت پسند تھی۔ ریاست کے پورے علاقے میں اس کو چاندنی راتوں سے عشق سا تھا۔ ایک مرتبہ جب وہ ضیاء آمریت سے بھاگا پھر رہا تھا تو اس نے کافی دن اور راتیں بہاول پور میں گزارے تھے۔ یہاں قائد اعظم میڈکل کالج سرخوں کا گڑھ تھا۔ آج اتنے عرصے کے بعد بس ٹرمینل پر کھڑے۔ رات کے اس پہر میں اور بادلوں کی چاند سے آنکھ مچولی دیکھ کر اس کو کئی کہانیاں سی یاد آ کر رہ گئی تھیں۔ اس کو بے اختیار میڈکل کالج کی نہال اختر کی یاد آئی تھی۔ وہ بھی مفروری کے دن کاٹ رہی تھی۔ وہ بھی عجب دن تھے۔ جب دانشوروں کی ایک پرت بہت جوش میں تھی۔ نہال اختر نے تازہ تازہ پولینڈ کا دورہ کیا تھا۔ وہاں کے دانشوروں نے ایک تحریک آمریت کے خلاف چلائی ہوئی  تھی۔ وہ بھی بس اسی سے متاثر ہو کر نکل پڑی تھی۔ غضب کی تحریریں لکھتی تھی۔ ضیاء کو مینڈک جیسی آنکھوں والا قرار دے ڈالا تھا۔ ہندو صنمیات کے کردار راون اور راکھشس سے اس خادم اسلام کو تعبیر کرنا بہت بڑا جرم تھا۔ بس مارشل لاء کا حکم نمبر ۱۹ کی زد میں آ گئی تھی وہ۔ سرو جیسا قد۔ غزال جیسی آنکھیں ،کتاب جیسا چہرہ ،ہرنی جیسی چال ،پتلی سی کمر ،یہ بڑی بڑی آنکھیں ،ان پر پڑی جھالر ،کمان کی طرح کھنچی ابرو۔ غرض ایک شاعر کے لئے وہ سارے سامان رکھتی تھی۔ جو شاعری میں بطور مواد کا کام کرتے ہیں۔ مگر وہ یہ سب چھوڑ چھاڑ سیاست کی پر خار وادی میں آ نکلی تھی۔ سیکولر تھی۔ مذہب سے بیزار تھی۔ آزاد خیال تھی۔ مگر یہ آزاد خیالی وہ نہیں تھی۔ جو جماعت اسلامی کا ہر صالح جوان اپنے گرد لوگوں کو بتلایا کرتا تھا۔ جمعیت کے لڑکوں کی اس سے جان جاتی تھی۔ پچھلی مرتبہ جب وہ جرمنی سے فرانس گیا تھا۔ تو پیرس میں اس کی ملاقات خالد احمد سے ہو گئی تھی۔ تو اس نے انور کو بتایا تھا کہ "یار!تم کو معلوم ہے کہ نہال اختر فرانس میں حزب اللہ کی خواتین ونگ کی انچارج بن گئی ہے۔ اور وہ حجاب لینے لگی ہے۔ ساتھ ساتھ درس قرآن بھی دیتی ہے۔ "یہ سب سن کر انور کو بہت حیرانی ہوئی تھی۔ خالد اس کو نہال اختر سے ملانے لے گیا تھا۔ وہ پیرس کے پوش علاقے میں رہ رہی تھی۔ بہت خوبصورت فلیٹ تھا اس کا۔ ڈرائنگ روم میں نجف اشرف ،روضۂ امام حسین ،روضۂ بیبی زینب کی تصویر لگی تھیں۔ ایک طرف دیوار پر تلوار ذوالفقار کا نقش بنا ہوا تھا۔ یہ سب دیکھ کر اس کو بہت اچنبھا ہوا تھا۔ پھر جب ایک سیاہ عبایا میں لپٹی اور چہرے پر حجاب لئے جس میں سے صرف آنکھیں جھلک رہی تھیں نہال ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی۔ تو اس کو دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی نہال ہے جس کی مذہب بیزاری کے قصے زبان زد عام ہوا کرتے تھے۔ اور آج وہ حزب اللہ جیسی کٹر بنیاد پرست جماعت کے ساتھ کھڑی تھی۔ انور نے اس سے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا۔ اس کے ذہن میں جرمنی میں ایک کیمونسٹ کی باتیں گھوم رہی تھیں۔ جس نے اس کو کہا تھا کہ یار یہ جو مڈل کلاس ہوتی ہے نا۔ اس کے کردار کی چنچ بہت مشکل ہوتی ہے۔ یہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ کئی بھیس بدل لیتی ہے۔ اور ہر کردار جم کر اور ڈوب کر کرتی ہے۔ نا جانے نہال اختر کیوں ایسے اس کیمونسٹ کی کہی ہوئی بات کا مصداق لگی تھی۔ اس کو خیال آیا تھا کہ کہیں اس نے نہال کو دیکھ کر تو یہ سب نہیں کہا تھا۔ وہ انہی خیالوں میں گم سگریٹ کے مرغولے اڑا رہا تھا۔ کہ اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھ رکھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ اس کے ساتھ والا مسافر تھا۔ اس نے کہا۔ دوست گاڑی سفر کے لئے تیار کھڑی ہے۔ اس نے تشکر بھری نگاہ سے اپنے ہمسفر کو دیکھا۔ سگریٹ کو پاؤں سے مسلا اور گاڑی کی طرف چل دیا۔

گاڑی اپنے رستے پر رواں دواں تھی۔ خیالوں کی یلغار تھی جو اس کو گھیرے ہوئے تھی۔ وہ یونہی خیالوں میں گم تھا۔ کہ کب احمد پور شرقیہ کا ٹول پلازہ آ گیا۔ نوابوں کا یہ ڈیرہ۔ جس کو ڈیرہ نواب صاحب بھی کہتے ہیں۔ اب وہ شان و شوکت نہیں رکھتا۔ جو کبھی رکھا کرتا تھا۔ بلکہ یہ تو انتہائی پسماندہ قصبے میں بدل چکا تھا۔ اس کو یاد تھا کہ ایک مرتبہ وہ یہاں دو راتیں رہا تھا۔ وہ برسات کے دن تھے۔ تو سارا احمد پور جوہڑ میں بدلا ہوا تھا۔ وہ جہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ صاحب بہت عالم فضل تھے۔ جج تھے۔ مگر جمہوریت کے بہت حامی تھے۔ ان کا گھر سرکار کے مفروروں کی جائے پناہ بنا ہوا تھا۔ گاڑی جہاں سے گزر رہی تھی۔ وہاں کنارے پر سی این جی فلنگ اسٹیشن اور جدید گیسٹ ہاؤس تھے۔ ایک پر لکھا تھا فوڈ کلب۔ وہ یہ ترقی اور پستی کی ساتھ ساتھ ہونے کی کہانی پورے پاکستان میں دیکھ چکا تھا۔ لیکن پنجاب سے نکلتے ہوئے سرائیکی بیلٹ میں آتے ہوئے یہ ساتھ کچھ زیادہ ہی گھمبیر صورت اختیار کر لیتا تھا۔

بس صبیح پانچ بجے چوک بہادر میں بنے بس ٹرمینل پر پہنچی۔ وہاں پر اس کو لینے رئیس بہادر آئے ہوئے تھے۔ رئیس اس کا یونیورسٹی فیلو تھا۔ اور جب وہ جرمنی سیاسی پناہ میں گیا تھا تو رئیس وہاں موجود تھا۔ وہ رحیم یار خان کی ایک جاگیردار فیملی کا چشم و چراغ تھا۔ رئیس نے اس کو سختی اور مشکل کے دنوں میں بہت سہارہ دیا تھا۔ ان کی دوستی بہت گہری ہو گئی تھی۔ رئیس بہت نیک دل اور یاروں کا یار تھا۔ وہ کہیں جاتا یا نہ جاتا۔ پاکستان آ کر رئیس کے پاس ضرور رکتا تھا۔ اس مرتبہ رئیس نے اس کو ڈیزرٹ لے کر جانا تھا۔ رئیس اپنی لینڈ کروزر لیکر آیا تھا۔ بس سے اترا تو رئیس اس ک گرم جوشی سے ملا۔

انور سائیں !لگتا ہے عمر کا ایک پھر تم پر آ کر ٹھہر گیا ہے۔ لگتا ہی نہیں ہے کہ تم عمر کی پچاسویں سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہو۔ "رئیس نے اس کو دیکھ کر کہا۔

انور کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔ یہ دیکھ کر رئیس بولا۔ یار !تم بس میں بیٹھ کر حسب معمول خیالوں کی گھاٹیوں میں اتر گئے ہوں گے۔ اور سالوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے کر گئی ہوں گے۔ یہ سن کر انور پھر مسکرایا۔ اور آہستہ سے بولا۔

"رئیس!یاد ماضی ہم جیسے افتاد گان خاک کے ا عذاب ہوا کرتی ہے۔ یہ تم جیسے عرش نشینوں کے سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ "

رئیس اور انور دونوں گری میں بیٹھ گئے۔ اور بس باتوں ہی باتوں میں رئیس کا بنگلہ آ گیا۔ وہ تھکا ہوا سا تھا۔ رئیس نے اس کو آرام کرنے کو کہا۔ وہ جاتے ہی مہمان خانے میں ایک کمرے میں سو گیا۔ اور اس کو شام کو رئیس نے اٹھایا۔ اور کہا بابا بس کرو۔ اب اٹھو۔ نہاؤ اور فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں چلے آؤ۔ ڈیزرٹ چلنا ہے۔ وہ فریش ہو کر ڈرائنگ روم میں آیا تو یہاں دو مرد اور اور ایک عورت موجود تھی۔ رئیس نے طرف کرایا۔

ان محترمہ سے ملو !یہ میری خالہ کی بیٹی ہیں۔ سٹیٹس سے پڑھی ہیں۔ ان کا نام صوت  فاطمہ ہے۔ سوشیالوجی میں پی یہ ڈی کے ہوئے ہیں۔ کل آئی ہیں۔ بس ڈیزرٹ دیکھنے کا شوق ہے۔ اور یہ طارق ہیں۔ رئیس نے ایک فربہ سے آدمی کی طرف اشارہ کیا۔ یہ انکم ٹیکس افسر ہیں۔ یہ  مراد علی ہیں۔ فروٹ بزنس سے وابستہ ہیں۔ اور دوستو!یہ انور کاظمی ہے۔ میرا یار !اور آپ کی پرخار سیاست کا ایک بھولا بسرا کردار۔ صوت فاطمہ یہ سن کر چونکی۔ اور کہنے لگیں۔ اوہ !آپ ہیں وہ۔ رئیس نے مجھے امریکہ میں تمہاری بہت سی باتیں باتیں تھی۔ میں آپ سے ملنے کی مشتاق تھی۔

انور نے بس شکریہ کہنے پر اکتفا کیا۔ وہاں جو بھی باتیں ہوتی رہیں۔ اس میں وہ ہوں ،ہاں سے زیادہ اضافہ نہیں کر سکا۔ پھر اتنے میں ملازم نے آ کر کہا کہ سامان گاڑیوں میں رکھوایا جا چکا ہے۔ دو گاڑیوں میں سے ایک میں بس صوت فاطمہ اور انور تھے۔ جب کہ دوسری گاڑی میں رئیس اور اس کے دونوں دوست بیٹھ چکے تھے۔ گری جب پورج سے کھلے صحن کی طرف آئی تو اس نے دیکھا کہ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار پر رہی تھی۔ گاڑی شہر کی مختلف سڑکوں سے ہوتی ہوئی۔ کینٹ میں داخل ہو گئی۔ اور پھر ڈیزرٹ والے رستے کی طرف چل پڑی۔ فاطمہ بولی ! یہ سڑک متحدہ عرب امارات کے خلیفہ نے بنوائی تھی۔ ۔ رستے میں اس کا محال بھی آیا تھا۔ خلیفہ اور اس کے دیگر لوگ اس علاقے میں آرام کرنے آتے تھے۔ اور پھر کئی کہانیاں سینہ بسینہ بھی چلی آتی تھیں۔ فاطمہ اس کو کہنے لگی کہ کیسے غربت اور مجبوریاں ان عیاش بادشاہوں کو ان داتا اور غریب پرور ہونے کا خطاب دلا جاتی ہیں۔ انور فاطمہ کے منہ سے یہ الفاظ سنکر چونکا تھا۔ اور اس نے فاطمہ کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔ جو شدت جذبات سے سرخ نظر آتا تھا۔ وہ اپنے غصہ کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔

انور نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں اس سے ملنا چاہتی تھی۔ تو فاطمہ کہنے لگی کہ وہ جب امریکہ پڑھنے گئی تو وہاں ایک فلسطینی لڑکی اس کی دوست بن گئی تھی۔ جو کہ سوشلسٹ تھی۔ وہ اس سے پہلے سیاست کو بالکل پسند نہیں کرتی تھی۔ یہ لیلیٰ احمد تھی جس نے اس کو اس رستہ پر ڈالا تھا۔ اس نے امریکی معاشرے میں پائے جانے والے طبقاتی اور نسلی تضاد سے اس کو روشناس کرایا تھا۔ اس نے نیو یارک کی تنگ و تاریک گلیوں میں اور کسی متروک سب وے یا متروک گٹر لائن میں زندگی کو جبر مسلسل کی طرح کاٹتے کالوں کو دیکھا تھا۔ اور پھر امریکی سرمایہ کی چکا چوند میں زندگی بسر کرتے راک فیلروں کو بھی۔ تو اس کو احساس ہوا تھا کہ کیسے یہ فرق تو ہر جگہ موجود تھا۔ چند لوگوں کے پاس سب کچھ تھا۔ اور اکثریت کے پاس کچھ نہ ہونے کے برابر۔ اور وہ اس پر بھی لڑ رہے تھے۔ بس یہیں سے میری کیا کلپ ہو گی۔ میں نے چند کو چھوڑا اور اکثریت کے ساتھ ہو گئی۔ میں سٹیٹس میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے ساتھ ہوں۔ لوگ ہمیں دیوانہ اور نہ جانے کیا کچھ کہتے ہیں۔ لیکن ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔ رئیس وہاں آیا تھا۔ تو اس نے دیکھا کہ میرا فلیٹ تو کمیون بنا ہوا ہے۔ تو اس نے میری باتیں سنی تو کہنے لگا کہ تم بھی مجھ کو دوسری انور کاظمی لگتی ہو۔ میں نے اس سے تمہارے بارے میں پوچھا تو اس نے جو بتایا۔ وہ تو ہم سے بہت قریب تھا۔ یہ کہہ کر صوت فاطمہ خاموش ہو گئی۔

اتنے میں گاڑی ڈیزرٹ میں داخل ہو گئی۔ رئیس وغیرہ بھی اتر آئی تھے۔ موسم بہت سہانا تھا۔ شام کا اندھیرا ابھی پھیلنے لگا تھا۔ رئیس کے دو ملزموں نے گاڑی سے سامان نکالا۔ اور پھر انھوں نے تھوڑی دائر میں دو خیمے نسب کر ڈالے۔ اس کے دوست رات کو گاڑی میں لگی سرچ لائٹ کی مدد سے شکار کھیلنا چاہتے تھے۔ صوت فاطمہ نے کہا کہ اس کو شکار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انور کو بھی نہیں تھی۔ رئیس ہنس کر بولا کہ آپ ذرا دماغ سوزی کرو۔ ہم شکار سوزی کرتے ہیں۔ دور دور تک صحرا کی ریت پہلی ہوئی تھی۔ صوت فاطمہ ڈارک مالٹائی کلر میں صحرا میں کھڑا کوئی صحرائی درخت لگ رہی تھی۔ وہ دونوں ریت کے ٹیلوں کے درمیان چلنے لگے۔ اور پھر ایک ٹیلے پر جو نسبتاً اونچائی پر تھا جا کر صوت فاطمہ بیٹھ گئی۔ وہ دور کہیں دیکھ رہی تھی۔ انور نے اس کو واپس لانے کے لئے ہلایا۔ وہ چونک گئی۔

کیا سوچ رہی تھیں ؟انور بولا

میں سوچ رہی تھی کہ یہ صحرا کس قدر خاموشی کے ساتھ چند اجنبی لوگوں کی آمد کو برداشت کے ہوئے ہے۔ جبکہ انسانوں کے ہاں یہ دستور نہیں ہے۔ وہاں تو ہجرتوں کے سلسلے بھی اب و دانہ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ یا قبضہ گیری لوگوں کو گھر سے بےگھر کر دیتی ہے۔ ہم تو مہاجر کونجوں کو بھی صحیح سلامت واپس وطن جانے نہیں دیتے۔

انور بولا ٹھیک کہتی ہو۔ فاطمہ انسانوں کے ہاں جب سے تقسیم شروع ہوئی تب سے کسی ہجرت کو خوش آمدید کہنے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ اب ہجرتیں مرضی سے نہیں بلکہ جبری طور پر ہوتی ہیں۔ مرضی سے تو بس سرمایہ حرکت کرتا ہے۔ اس کا جہاں دل کرتا ہے چلا جاتا ہے۔ منڈی کی دنیا میں آزادی بس اسی چیز کا نام ہے۔

انور اور فاطمہ نے اس رات بہت سے باتیں کی تھیں۔ صبیح کب ہوئی۔ کب وہ واپس آئی اور کب وہ جرمنی اور امریکہ میں اپنی اپنی منزلوں کو روانہ ہوئے۔ ان کو یاد نہیں تھا۔ ایک جست میں لگتا تھا یہ سارا سفر ہو گیا تھا۔ لیکن دونوں کو لگتا تھا کہ وہ اپنا کچھ بلکہ بہت کچھ وہیں صحرا میں چھوڑ آئی تھے۔ یہ بہت کچھ کیا تھا ؟دونوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

نیو یارک میں بروک لین کی ایک گلی میں ایک سٹریٹ میں صوت فاطمہ کے فلیٹ پر وال سٹریٹ پر قبضہ کر لو تحریک کے تحت کل کے جلوس کی تیاری ہو رہی تھی۔ سٹرٹیجی کی بات تھی۔ فاطمہ نے کچھ تجویزیں دین اور پھر چھپ ہو گئی۔ بیٹھے بیٹھے وہ اسی ڈیزرٹ میں پہنچ گئی۔ انور کو وہاں دیکھنے لگی۔

ادھر انور ارجنٹائن میں بیونس آئرس میں ایک کیفے میں بیٹھا تھا۔ وہ یہاں اپنے محبوب رائیٹر پاؤلو کوہلو کے ایک پروگرام میں شریک ہونے کے بعد اس کے ساتھ کافی پینے چلا آیا تھا۔ کوہلو اس کو اپنی محبوبہ کی کہانی سنا رہا تھا۔ کہ کیسے وہ اس کو اس سفر میں ملی تھی جو اس نے نروان پانے کے لئے کیا تھا۔ وہ دیوار گریہ کے قرین یروشلم میں ملے تھے۔ وہاں اسرائیلی تاریخ سے لیکر صیہونیت تک کی تاریخ کا سفر انھوں نے اکٹھا کیا تھا۔ بس اسی سفر کے دوران ان کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی تھی۔ اور وہ ایک ہو گئے تھے۔

یہ سن کر انور نے وہیں بیٹھے بیٹھے صوت فاطمہ کا نمبر ڈائل کرنے کے لئے موبائل نکالا تو اس پر پہلے ہی سکرین پر صوت فاطمہ کا نمبر چمک رہا تھا۔ اس نے یس کا بٹن پش کر کے ہیلو کہا تو آگے سے فاطمہ بولی۔

"انور تم تھے کہتے تھے کہ سب کی کہانی ایک ہے۔ میں جرمنی آنا چاہتی ہوں۔ "

انور یہ سن کر بولا میں بھی تمھیں یہی کہنا چاہتا تھا۔ نہ تم جرمنی آؤ ،نہ میں امریکہ۔ ہم دونوں پھر اسی ڈیزرٹ میں اکٹھے ہوں گے۔ اور اس مرتبہ ہجرت جبری نہیں بلکہ مرضی کے ساتھ ہو گی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے