ڈاکٹر مولانا حامد الانصاری انجم کی شاعری ۔۔۔ سہیل انجم

ڈاکٹر مولانا حامد الانصاری انجم کی شاعری

خوابیدہ نسلوں کے لیے پیغام بیداری ہے

               سہیل انجم

ڈاکٹر مولانا حامد الانصاری انجم نے یوں تو اسلامی شاعری ہی کی ہے۔ ان کی اصل فنی جولانگاہ نعت گوئی ہے۔ انہوں نے حمد بھی بڑی تعداد میں لکھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے غزلیں اور نظمیں بھی کہی ہیں ۔ اگر چہ ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے لیکن انہیں نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک کہ کسی فنکار کے فن کا مجموعی جائزہ نہیں لیا جاتا اس کے فن کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح کسی شاعر کے فنی مقام  و مرتبے کا تعین کرنے کے لیے اس کی شاعری کے تمام پہلوؤں کو دیکھنا پڑے گا اور اس کے تمام شعری سرمایے پر نظر ڈالنی ہو گی۔ ان کی غزلوں اور نظموں کے انتخاب پر مشتمل ایک مجموعہ ’’بربط انجم‘‘ کے نام سے ۲۰۰۵ میں دہلی سے شائع ہوا ہے۔ اس میں اوراق پریشاں کے عنوان سے نظمیں شامل کی گئی ہیں جن کی تعداد بیس ہے اس کے بعد رقص شرر کے عنوان سے غزلیں شامل کی گئی ہیں ۔

آپ کو اردو زبان سے بہت پیار ہے اور ہندوستان سے بھی بہت لگاؤ ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ ان کا کلام بول رہا ہے۔ ’’میرا وطن‘‘ اور ’’اردو زبان‘‘ دو طویل نظمیں شامل مجموعہ ہیں ۔ یہ دونوں نظمیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہیں نہ تو اردو زبان کے ساتھ ہو رہی زیادتی قبول ہے اور نہ ہی اپنے وطن میں اپنی بے توقیری برداشت ہے۔ ’’نقوش جاوداں ‘‘ کے مصنف ڈاکٹر شمس کمال انجم کہتے ہیں ۔۔

’’آپ نے بہت ساری نظمیں بھی لکھی ہیں ۔آپ کے غزلیہ مجموعے ’’بربط انجم ‘‘ میں کئی نظمیں شامل ہیں ۔ آپ نے اردو زبان پر ایک ایسی نظم کہی ہے جس میں اردو کے ایک سو تیس مشاہیر کا بڑے دلپذیر انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ اردو کے اتنے سارے شعرا ء و ادباء کا نام تو اردو کے اچھے اچھے اسکالر نہیں جانتے ہوں گے، چہ جائیکہ ان کو نظم میں باندھا جائے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ارد و زبان کی تاریخ سے کماحقہٗ واقفیت اور اس کے مشاہیر کی معرفت حاصل ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی نظم میں سو، سواسو شعراء و ادباء کا نام ذکر کرنا بذات خود ایک انوکھی مثال اور نیا تجربہ ہے۔ساتھ ہی اس کی زبان اور اسلوب میں پائی جانے والی شیرینی اور دلکشی قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے‘‘۔

بیس بند کی اس نظم میں ایک سو تیس مشاہیر اردو کے ناموں کی شمولیت یقیناً ایک بڑا کارنامہ ہے جو اس بات کا شاہد ہے کہ آپ کو اردو زبان کا کتنا مطالعہ ہے اور اس کے مشاہیر کے بارے میں کس قدر جانکاری ہے۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جو اردو کی پوری تاریخ سے واقف ہو۔ اس میں الفاظ کا زیر وبم ہے اور جذبات کی عکاسی ہے۔ یہ اس زبان سے محبت کا ثبوت ہے اور اس کے عشق میں دیوانگی کی حد تک گزر جانے کی کیفیات ہیں ۔ چند ابتدائی بند ملاحظہ ہوں ۔۔

چاند تاروں کی اس میں لطافت بھی ہے

لالہ و گل کی خوشبو ہے رنگت بھی ہے

حسن والوں کی اس میں نزاکت بھی ہے

ہر ادا اس کی ہے گلفشاں گلفشاں

یہ ہے اردو زباں ، یہ ہے اردو زباں

نغمۂ زیر و بم اس کی آواز ہے

سوزِ دل کا امیں اس کا ہر ساز ہے

حسن و عشق و محبت کا اک راز ہے

زندگی اس کی ہے داستاں داستاں

یہ ہے اردو زباں ، یہ ہے اردو زباں

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے اس نظم میں تین سو شعرا و ادبا کے نام گنائے گئے ہیں جو اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اردو زبان و ادب کا شاید ہی کوئی بڑا نام اس نظم میں شامل ہونے سے رہ گیا ہو۔ بہت سے ایسے شعراء و ادباء بھی اس میں شامل ہیں جن کو زیادہ شہرت حاصل نہیں ہوئی لیکن جن کے کارنامے کم نہیں ہیں ۔ کسی کسی بند میں ناموں کی ایسی تکرار ہے کہ پڑھتے ہی بنتی ہے۔ حالانکہ بعض اوقات تکرار بری لگتی ہے اور وہ حسن کے بجائے قبح بن جاتی ہے لیکن اس نظم میں یہ تکرار نظم کی خوبی بن گئی ہے۔ مثال کے طور پر۔۔

اس میں نازش،ؔ مجازؔ اور جذبیؔ بھی ہیں

اس میں شعریؔ، شفاؔ، کیفؔ و کیفیؔ بھی ہیں

عرشؔ، و عرشیؔ، فضاؔ، فیضؔ و فیضیؔ بھی ہیں

ہیں حمیدؔ اور بہزاؔد سے نعت خواں

یہ ہے اردو زباں ، یہ ہے اردو زباں

بند کے دوسرے اور تیسرے شعر میں جو عین اور فے کی تکرار ہے اس نے اس بند کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے ہیں ۔ کچھ بند اور پیش خدمت ہیں :

اس میں آزادؔ و سیدؔ ہیں ، شبلیؔ بھی ہیں

محسن الملکؔ و اکبرؔ ہیں ، حالیؔ بھی ہیں

داغؔ و ناسخؔ امیرؔ اور جلالیؔ بھی ہیں

اس میں غالبؔ سا ہے شاعرِ نکتہ داں

یہ ہے اردو زباں ، یہ ہے اردو زباں

ذوقؔ و سوداؔ سے اس کے پرستار ہیں

آتشؔ و مصحفیؔ سے فدا کار ہیں

دردؔ و انشاؔ ظفرؔ اور سرشارؔ ہیں

میرؔ و مومنؔ سے ہیں اس میں جادو بیاں

یہ ہے اردو زباں ، یہ ہے اردو زباں

جوشؔ و حسرتؔ، جگرؔ اور اصغرؔ بھی ہیں

شادؔ و فانیؔ، ریاضؔ اور مضطرؔ بھی ہیں

بزم میں اس کی مخمورؔ و ساغرؔ بھی ہیں

بیخودؔ و سائلؔ و نوحؔ ہیں پاسباں

یہ ہے اردو زباں ، یہ ہے اردو زباں

اس  میں احساں ،ؔ شفیقؔ اور ماہرؔ بھی ہیں

عندلیبؔ و عدمؔ اور ساحرؔ بھی ہیں

ابرؔ و انورؔ، حفیظؔ اور عامرؔ بھی ہیں

صوفیؔ، سائبؔ، ظفرؔ بھی ہیں رطب اللساں

یہ ہے اردو زباں ، یہ ہے اردو زباں

مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ایک استاد شاعر ہیں ۔ ان کے یہاں فنی خوبیاں بھی ہیں اور الفاظ وتراکیب کا بہترین استعمال بھی ہے۔ ان کی شاعری میں مقصدیت بھی ہے۔ ان کے یہاں غزلوں کے نام پر حرص وہوس نہیں ہے بلکہ کلام میں پاکیزگی ہے جو برجستہ اپنی جانب کھینچتی ہے۔ آپ کی اردو سے متعلق نظم دراصل ایک شاہکار ہے۔ ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ شاید کہیں اور یہ مثال نہ ملے کہ کسی شاعر نے اردو زبان کی شان میں ایسی نظم کہی ہو جس میں تین سو شعراء ا اور ادباء کے نام شامل ہوں ۔ یہ بات بذات خود اس بات کی گواہ ہے کہ آپ کا مطالعہ وسیع اور وجدان قوی ہے۔ آپ کے یہاں نیرنگی ہے۔ وسیع القلبی ہے۔ جس طرح آپ نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ شعرا کے ناموں کو مختلف بندوں میں پیوست کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ مسلم شعراء کے جتنے گرویدہ اور شیدا ہیں اتنے ہی غیر مسلم شعراء کے بھی ہیں ۔ آپ ان سے بھی اتنی ہی عقیدت رکھتے ہیں جتنی کہ مسلم شعراء سے اور ہونا بھی یہی چاہیے کہ غیر مسلم اردو شعراء و ادباء نے اردو کے خزانے کو مالامال کرنے میں بے حد گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ ان کی اس نظم میں حروف کی جو تکرار ہے وہ نظم کی خوبصورتی میں تو اضافہ کرتی ہی ہے اس کے وزن اور اس کی اہمیت کو بھی بڑھاتی ہے۔

اسی طرح ایک دوسری نظم جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہے، جس کا عنوان ہے ’’میرا وطن‘‘۔ یہ نظم پندرہ بندوں پر مشتمل ہے اور اس میں بھی وہی خوبیاں ہیں جو اردو سے متعلق نظم میں ہیں ۔ اس میں ہندوستان کی قدروں کا بھی ذکر ہے اور اس کی تاریخ بھی موجود ہے۔ مسجدوں کا جہاں تذکرہ ہے وہیں مندروں کا بھی بکھان ہے۔ اس ملک میں کچھ عناصر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر کے میل جول اور پیار محبت کی فضا کو بگاڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن جب تک ایسے شاعر موجود ہیں یہ عناصر کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس نظم میں مختلف شہروں کا بھی تذکرہ ہے اور اس کے قومی ورثے کو بھی گنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے ہی بند میں جہاں کوہ ہمالہ کا ذکر ہے وہیں اجنتا اور ایلورا کا بھی نام لیا گیا ہے۔ پہلا بند ملاحظہ ہو۔۔

ہمالہ ہے اور رود گنگ و جمن ہے

اجنتا ایلورا ہے اور ان کا فن ہے

گلستاں ہے صحرا ہے دشت و دمن ہے

گل و لالہ ہے نرگس و نسترن ہے

یہاں جو بھی جنگل ہے مثل چمن ہے

یہ میرا وطن ہے یہ میرا وطن ہے

یہ نظم فرقہ وارانہ یک جہتی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ کیونکہ اس میں شہروں اور مقامات کے ذکر میں نہ تو تعصب سے کام لیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے اختلافی جذبے کو داخل ہونے دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اس میں جہاں مدارس کا ذکر ہے وہیں ہندو وشو ودیالیہ کا بھی بیان ہے۔ اسی طرح جہاں جامع مسجد دہلی اور دوسری مسجدوں کا نام لیا گیا ہے وہیں اجودھیا کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو کہ مندروں کا شہر ہے اور جسے رام کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے۔

یہاں پر ہے ناموس، بانگ اذاں ہے

یہاں پر اشوکا ہے، شاہ جہاں ہے

یہاں رام و راون کی اک داستاں ہے

زمانے میں مشہور ہندوستاں ہے

دُر بے بہا ہے یہ رشک چمن ہے

یہ میرا وطن ہے یہ میرا وطن ہے

یہاں پرتھوی راج، محمود اعظم

یہاں اولیا صوفیا ہیں مکرم

یہ سنتوں کا، بھکتوں کا ہم راز و محرم

یہ ہے مندروں مسجدوں کا بھی سنگم

یہاں کوئی بت گر کوئی بت شکن ہے

یہ میرا وطن ہے یہ میرا وطن ہے

یہاں پر ہے شام اودھ کا فسانہ

ہے صبح بنارس کا منظر سہانہ

اجودھیا کے مندر کا دلکش فسانہ

جہاں رام و لکشمن کا تھا اک زمانہ

یہاں مثل سیتا حیا کا چلن ہے

یہ میرا وطن ہے یہ میرا وطن ہے

لیکن اسی کے ساتھ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کا شکوہ بھی کیا گیا ہے اور پیار محبت کی جگہ پر نفرت و کدورت پر اظہار افسوس بھی کیا گیا ہے۔

جناب ہما صدیقی کلام انجم پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں :

 ’’ان کے کلام میں نغمگی اور غنائیت کے پہلو بہ پہلو فکر و نظر کی ندرت اور لطافت کی بھی فراوانی ہوتی ہے۔ وہ شعرو سخن کی ہر صنف اور ہر بحر میں رواں دواں شعر کہتے چلے جاتے ہیں ۔ غزل، نظم،رباعی ،قطعہ ،مرثیہ ،مخمس ،مسدس غرض سب کچھ کہتے ہیں ۔وہ بڑے سلیقے اور روانی سے اپنا ما فی الضمیر شعر میں ڈھال کر سامعین و قارئین تک اس طرح پہنچاتے ہیں کہ وہ فردوس گوش بن جاتا ہے۔ ان کا کلام خصوصی نوعیت کا حامل ہے پاکیزہ خیالات اور لطیف احساسات کا نتیجہ ہے کہ ان کا دل جتنا حساس ہے ان کا کلام اس سے زیادہ دلفریب ہے۔ ملاحظہ فرمایئے۔۔

اک نیا عزم و یقیں لایا ہوں

جادۂ شوق میں سامانِ سفر لایا ہوں

نذر کرنے کے لئے حسن کی سرکار میں آج

دردِ دل خونِ جگر سوزِ جگر لایا ہوں

دیکھئے وہ کتنے سازو سامان کے ساتھ سفر کا آغاز فرماتے ہیں اور منزلِ مقصود پر پہنچ کر محبوب کے روبرو نذرانہ میں کیا کیا سوغات پیش کرتے ہیں ۔دردِ دل ،خونِ جگر اور  سوزِ جگر کے علاوہ اور کوئی سرمایہ عاشق نا مراد کے پاس ہوتا ہی نہیں جو وہ حاضر کر سکے:

پہلی سی بات تو نہیں لیکن جفا تو ہے

ان کا کرم نہیں نہ ہو، میری وفا تو ہے

راہ و رسم محبت میں جب ناگواریاں پیش آتی ہیں تو از راہ غم خواری احباب ترک تعلق کا مشورہ دیتے ہیں کہ جب اُدھر سے نہ محبت کا اعتراف ہے نہ کوئی التفات تو بہتر ہے کہ اس سے صرفِ نظر کیا جائے ۔انجم صاحب کہتے ہیں کہ اے ناصح مشفق ہر چند پہلی سی نگاہِ التفات نہیں مگر ادھر سے سلسلۂ جورو جفا جاری رہنا ہی تعلق خاطر کی دلیل ہے وہ اگر مائلِ کرم نہیں ہیں نہ سہی میری طرف سے تو وفا میں کمی نہیں ۔ لہٰذا ترک تعلق کا کوئی جواز نہیں ۔یہ ہے استقامتِ محبت۔ اگلے شعر میں فرماتے ہیں ۔۔

یہ سوچ کر میں راہِ وفا میں چلا گیا

گو ہم سفر نہیں ہے مگر نقشِ پا تو ہے

راستہ کوئی بھی ہو اور سفرکہیں کا بھی ہو، تنہا روی میں خطرات مضمر ہیں اگر کوئی رفیقِ سفر مل جائے تو نہ صرف مشکلیں گھٹ جاتی ہیں بلکہ حوصلے اور ہمت میں اتنا اضافہ ہو جاتا ہے کہ سفر آسان اور پُر لطف ہو جاتا ہے۔  انجم صاحب جب اس راہ پر تنہا ہی چل پڑے تو انھیں ہم سفر کی کمی کسی موقع پر محسوس ہوئی مگر ان کے عزم راسخ ،پامردی اور جواں ہمتی نے اسے سنگِ راہ نہیں بننے دیا بلکہ بڑے تیکھے انداز میں خود کو سمجھاتے ہیں کہ نادان اگر کوئی شریک سفر نہیں تو غم کیا ہے رہبری اور رہنمائی کے لئے اگلوں کے نقوش قدم تو موجود ہیں ۔ انہی پر چل کر منزل پانا یقینی ہے۔ کیسا حسین تخیل ہے اور کتنا دلکش حسن بیان ہے جو سائلین کے لئے بھی مشعل راہ ہے۔

اچھے شعر بغیر تشریح کے ہی دلنشیں ہو جاتے ہیں مثلاً مندرجہ ذیل اشعار پڑھ کر بتائیے کہ کیا آپ کا ذوق شعریت دوسروں سے اس کی وضاحت طلب کرے گا یا خود آپ جو سمجھ رہے ہیں اسی میں لطف و کیف سمویا ہوا ہے۔۔

بادۂ غم عمر بھر پیتے رہے

نام ان کا لے کے ہم جیتے رہے

زندگی میں کشمکش جاری رہی

ہم کبھی ہارے کبھی جیتے رہے

شاد ہوں درد عطا کر کہ دعا دے مجھ کو

دینے والے خوئے تسلیم و رضا دے مجھ کو

تیری نسبت سے پکاریں مجھے دنیا والے

تجھ پہ قربان کچھ ایسا ہی بنا دے مجھ کو

غم کی جب کوئی چاشنی نہ رہی

زندگی جیسے زندگی نہ رہی

آزادی کے بعد ملک میں اہل وطن پر جو قیامتیں ٹوٹی ہیں ان کا ذکر ’’میرا ہندوستان‘‘ میں ہے اور اس پر اظہار تاسف کیا گیا ہے اور یہ سوال کیا گیا ہے کہ آخر آزاد ہندوستان میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ عروس آزادی سے ہمکنار ہونے کے بعد شمع آزادی کے پروانوں پر کیا گزری ۔تعصب ،منافقت،ناعاقبت اندیشی اور تنگ نظری نے کیا کیا ستم ڈھائے، اس پر انجم کا طنز لطیف ایک مسد س کے دو بندوں میں ملاحظہ فرمایئے   ؎

راہزن کر رہے ہیں یہاں رہبری

ناسزاؤں کو حاصل ہوئی سروری

اہل دانش کو کرنی پڑی چاکری

جاہلوں کو روا دعویِ داوری

الحذر  الحذر  الاماں  الاماں

کیا یہی ہے یہی اپنا ہندوستاں

’’فریاد‘‘  ان کی ایک حسین نظم ہے جس میں شر پسند عناصر کی چیرہ دستیوں سے دلوں میں جراحتوں کے چمن کھِلے ہوئے ہیں جس میں وہ حکومت کے قول و فعل کے تضادسے جو کرب محسوس کرتے ہیں طنز لطیف سے صاحبان اقتدار کو متوجہ کرتے ہیں ۔۔

ماحول ہے تاریک فضاؤں میں دھواں ہے

جس سمت نظر اٹھتی ہے وحشت کا سماں ہے

کہنے کے لئے آج ہیں آزاد یقیناً

لیکن جبیں پہ ثبت غلامی کا نشاں ہے

تم نے کیا شاہین کو پابندِ نشیمن

ڈنکا یہ بجاتے ہو یہاں امن و اماں ہے

یہ مشق ستم کس لئے اے بانی بیدرد

ہر لب پہ تشکر کی جگہ آہ و فغاں ہے

اب حقّ و صداقت کے علم دار وہی ہیں

حق بات کی تائید جنھیں بار گراں ہے

ہندی اور اردو کی کشمکش کے بارے میں نشتر رگِ جاں کی طرح انجم صاحب کا ایک دلکش قطعہ ملاحظہ فرمایئے۔۔

ہو تہذیب مسلم سے دامن کشاں

کھٹکتی علی گڑھ کی ہے داستاں

چرن سنگھ سے اردو ہے یہ پوچھتی

کہو بندہ پرور میں جاؤں کہاں

جنم میں نے تو بھارت کے اندر لیا

مجھے کہہ رہے ہو بدیسی زباں

 حامد الانصاری انجم کا مشاہدہ بڑا زبردست ہے۔ وہ ذاتی تجربات سے بھی گذرے ہیں اور مطالعہ کی میز پر بھی طویل وقت گذارا ہے۔ اسی لیے ان کے کلام میں ان تینوں چیزوں کی بحسن و خوبی آمیزش ہے۔ مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ جب ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو بہت ہی خالص اور غیر ملاوٹی شے وجود میں آتی ہے۔ اندیشے بھی جنم لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ امید و یقین کے پھول بھی کھلتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ان کی ایک غزل کے یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔۔

غلط انداز سے اے دل بہار آئی تو کیا ہو گا

چمن کے پتّے پتّے پر خزاں چھائی تو کیا ہو گا

بہارِ نو کے دھوکے اب نہ کھاؤ اے چمن والو

نہ آئی لالہ و گل پر جو رعنائی تو کیا ہو گا

عنادل ہیں نہ فصل گل چمن تاراج ہے جیسے

رہی یونہی خزاں کی کار فرمائی تو کیا ہو گا

سرِبالیں ہمارے چارہ گر آئے تو ہیں لیکن

سوا اُن کے، کسی نے کی مسیحائی تو کیا ہو گا

لیکن اس کے باوجود وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور رفیقان چمن کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مایوس نہ ہوں نا امیدی کے بطن سے ہی امید کا لمحہ پیدا ہوتا ہے۔ گھنگھور تاریکی کے شکم سے ہی روشنی کی کرن پھوٹتی اور غم و الم کے طوفان بلا خیز کے دامن سے ہی آسودگی اور راحت جنم لیتی ہے۔ لہذا اس کی فکر نہ کرو کہ چمن کے پتے پتے پر خزاں چھائی ہوئی ہے بلکہ اس امید کے ساتھ سیر چمن کیا کرو کہ بہار کا بھی زمانہ آئے گا اور خزاں منہ چھپاتی پھرے گی۔ اس لیے گلستاں کے نظاروں سے خوب لطف اندوزی کرو۔

چمن سے، چمن کی بہاروں سے کھیلو

گل و یاسمن، لالہ زاروں سے کھیلو

مرے ہم نشینو نظاروں سے کھیلو

مہہ و کہکشاں سے ، ستاروں سے کھیلو

تمہیں دستِ قدرت نے سانچے میں ڈھالا

مشیت کے رنگیں اشاروں سے کھیلو

زمیں بھی تمہاری فلک بھی تمہارا

شب و روز کے شاہکاروں سے کھیلو

خزاں تم سے دامن بچا کر چلے گی

چلو صحن گلشن سے ، خاروں سے کھیلو

ہے سارا گلستاں نشیمن تمہارا

نشیمن کی خاطر شراروں سے کھیلو

سفینے کے مالک ہو ساحل پہ بیٹھے

اٹھو موج و طوفاں کے دھاروں سے کھیلو

تمہارے قدم خود ہی چومے گی منزل

بڑھو تو سہی ریگزاروں سے کھیلو

ان کی شاعری میں جگہ جگہ امیدوں کے گل و بلبل نے نوازی کرتے نظر آتے ہیں ۔ نا امیدی اور مایوسی کو انہوں نے اپنے دامن سے جھٹک دیا ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مایوس اور نا امید شخص نہ تو اپنی زندگی میں خوشیاں لا سکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کی زندگی میں ۔ دنیا میں وہی کامیاب و کامراں ہو سکتا ہے جو حادثات و غم و آلام سے نبرد آزما ہوتے ہوئے منزل کی جانب بڑھتا چلا جائے۔ ایسے راہرو کی راہ میں لاکھوں مصیبتیں کیوں نہ آئیں وہ ان کو انگیز کرتا اور صبر و برداشت کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ حالات بھی اسی کا ساتھ دیتے ہیں اور منزلیں بھی اسی کے قدم چومتی ہیں ۔ جو شخص حوادث زمانہ سے گھبرا کر بیٹھ جائے وہ منزل مراد تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ لہذا امیدوں کے چراغ روشن کر کے اور عزم و حوصلے کو اپنا رفیق سفر بنا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر انجم کے کلام سے یہی پیغام ملتا ہے۔ وہ اسی کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کا یہ ایمان ہے کہ اگر حسرت دیدار کمال اشتیاق کا درجہ حاصل کر لے تو بے نور آنکھیں بھی چشم بینا میں بدل سکتی ہیں اور بصارت کھو جانے کے باوجود بصیرتوں کے چراغ روشن ہو سکتے ہیں ۔ ایسی بصیرتیں جو چشم بینا سے محروم شخص کو موسیٰ کلیم بنا سکتی ہیں ۔ آپ کی ایک نظم کا عنوان ہے ’’کلی کی آنکھ کھل جائے چمن بیدار ہو جائے‘‘ یہ نظم اپنے آپ میں ایک بانگ جرس ہے، ایک صور اسرافیل ہے، ایک نغمہ حدی ہے اور ایک نقارہ بیداری ہے۔  بہت ہی آسان زبان میں اور سہل ممتنع میں انہوں نے رفیقان چمن کو آواز دی ہے۔ زبان بے حد سادہ اور سہل ہے اور ہر شخص نظم کے پیغام کو آسانی سے سمجھ سکتا اور اپنے دل میں اتار سکتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں اس نظم کے چند اشعار۔۔

حریم قلب میں رقصاں جمال یار ہو جائے

اگر پیدا کمالِ حسرت دیدار ہو جائے

غم دوراں غم جاناں ہی سے آباد ہے دنیا

نہ ہو یہ سازوساماں زندگی دشوار ہو جائے

بہار نو کے جھرمٹ میں نسیم صبح آتی  ہے

یہ کہہ دو سبزۂ پامال سے بیدار ہو جائے

لیکن اس کے ساتھ ارباب اختیار سے شکوہ بھی ہے۔ غم روزگار سے تو نہیں ہاں ذمہ داران غم روزگار سے شکایت ضرور ہے۔ لیکن یہ شکایت بھی محبت آمیز ہے۔ نفرت و کدورت کا دور دور تک شائبہ بھی نہیں ہے۔ ہاں لوگوں کی بے حسی پر افسوس ضرور ہے۔ یہ صورت حال صرف کسی ایک طرف نہیں بلکہ ہر طرف ہے۔ جسے ہم اپنا سمجھتے ہیں وہ بھی جانے انجانے میں تکلیف کا باعث بن رہے ہیں اور جو غیر ہیں وہ بھی سامان اذیت پیدا کر رہے ہیں ۔ لہذا شاعر نے ان حالات پر اظہار افسوس بھی کیا ہے لیکن یہ امید بھی باندھ رکھی ہے کہ یہ حالات ہمیشہ نہیں رہیں گے۔۔

زوالِ اوج  انسانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے

ضیاء حسن ایمانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے

کمال فتنہ سامانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے

قیامت کی پریشانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے

حماقت اور نادانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے

جہالت کی فراوانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے

نہ پوچھو نبضِ دوراں اور رفتار جہاں انجمؔ

زمانے کی پریشانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے

غرضیکہ ڈاکٹر حامد الانصاری انجم کی شاعری امید و یقین کی پختگی سے عبارت ہے۔ مایوسی اور نامرادی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ حالات سے مقابلے کی ترغیب اور میدان کارزار میں بے خطر کود پڑنے کی تحریک ہے۔ خواہ آتش نمرود میں جست لگانی ہو یا طوفانوں کا سینہ چیرنا ہو، ہر مرض کی دوا ان کے کلام میں موجود ہے۔ در اصل آپ کی شاعری کی ابتدا ہی جوش و ولولہ اور امید و یقین سے ہوتی ہے جب آپ نے اپنے ابتدائی ایام ہی میں ’’وقت کی پکار‘‘ نامی نظم لکھی تھی۔ وہ نظم آپ کی شاعری کی ایک زندہ عبارت ہے اور کتاب شاعری کی ایک بھرپور تمہید ہے۔ دلوں میں گرمی پیدا کرنا آپ کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔ ایسی گرمی جو صرف خرافات کو خاکستر کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایک مدھم مدھم سی آگ جلتی ہوئی نظر آتی ہے ۔اس کے ساتھ ہی باد صبا کا خرام ناز قارئین کو فرحت وانبساط سے ہمکنار کرتا ہے۔ لیکن یہ باد صبا جلتی ہوئی مدھم سی آگ کو بجھاتی نہیں بلکہ اس کو اور ہوا دیتی ہے لیکن اتنی بھی ہوا نہیں دیتی کہ وہ آگ شعلہ میں تبدیل ہو جائے۔ بلکہ اسے صرف اس قدر زندہ رکھتی ہے کہ شاعر کے دل کی گرمی باقی رہے اور وہ دوسروں کو بھی اس کی آنچ سے لطف اندوز کرتا رہے، دلوں میں حرارت پیدا کرتا رہے۔

اگر ڈاکٹر حامد الانصاری انجم نے غزلوں اور نظموں کی طرف خصوصی توجہ دی ہوتی تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کے صف اول کے شاعروں میں شمار ہوتے اور اردو شاعری کے خزانے میں ان کا کلام ایک قیمتی اثاثہ تصور کیا جاتا۔ چونکہ وہ دہلی، لکھنؤ یا ایسے کسی بھی ادبی مرکز سے دور رہے اور اسلامی شاعری اور اسلامی ماحول سازی کو ہی انہوں نے اپنا مشن بنا رکھا تھا اس لیے غیر نعتیہ شاعری کی طرف ان کی توجہ کم رہی۔ ادبی مراکز سے دوری کی وجہ سے ہی نقادوں کی نظر آپ کی شاعری پر کم کم ہی گئی ہے۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کا کلام اردو شاعری میں ایک اہم اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

٭٭٭

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے