لطف الرحمن کی غزل گوئی پر ایک نظر ۔۔۔ جاوید رحمانی

لطف الرحمن کی غزل گوئی پر ایک نظر

               جاوید رحمانی

اردو کی ادبی تنقید نے پچھلے پچاس برسوں میں حیرت انگیز ترقی کی ہے اور ادبی تصورات و نظریات کی نہ صرف افزائش بلکہ درآمد کی رفتار بھی اتنی تیز رہی ہے کہ پچھلی نصف صدی ادبی تنقید کی صدی معلوم ہوتی ہے۔ ادبی تنقید کی اس حیرت انگیز ترقی کے باوجود ہماری تنقیدی فہم و فراست کا اب بھی یہ عالم ہے کہ آج بھی ہماری درسگاہوں اور یونیورسٹیوں میں بھی ایسے سادہ لوح استاد قدم قدم پر مل جاتے ہیں جو فراق صاحب کے اندازے کی دقیقہ سنجی اور خیال آفرینی کو بھی ادبی تنقید سمجھتے ہیں اور ایسے سادہ لوح استاد بھی کم نہیں ہیں جن کو حسن عسکری کی مریضانہ فکر اوراس کے تغیرات میں مسلسل غور فکر کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اب بھی اردو میں بنام تنقید لکھے جانے والے بڑے حصے کو رعایتی نمبروں پر بھی تنقید کے خانے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اردو کی مرکزی صنف غزل ہے اور اس میں شک نہیں کہ اردو کی بہترین ادبی تنقید بھی وہ ہے جو غزل پر لکھی گئی ہے اور بدترین ادبی تنقید بھی وہ ہے جو غزل کی تنقید کے نام پر لکھی گئی ہے۔ لیکن غزل کی تنقید میں بھی ہمارے بڑے بڑے نقاد اب بھی مہدی افادی کے’’ عناصر خمسہ ‘‘ والے رویے کے ایسے شہید ہیں اور ان کا ذہن ان کے زیر اثر اس طرح کام کرتا ہے کہ اب بھی جدید غزل کے پانچ پیشرو، اردو غزل کے ارکان ثلاثہ اور اردو غزل کے دس بڑے شاعر وغیرہ وغیرہ جیسے فقرے نہ صرف سننے کو بلکہ پڑھنے کو بھی مل جاتے ہیں اور ان کو پوری سنجیدگی سے ادبی تنقید یا ادبی تنقید جیسی چیز سمجھاجاتا ہے یہاں پر ایک دلچسپ لطیفہ فراق صاحب کا ہی سنتے چلیں ۔ غلام رضوی گردش نے باقر مہدی پر جو خاکہ لکھا ہے اس میں لکھا ہے کہ فراق صاحب نے کہا کہ اردو میں کل بارہ بڑے شاعر ہیں پہلے میر دوسرے غالب اور تیسرے۔ ۔ اس پر باقر مہدی نے شوخی سے کہا بارہویں فراق گورکھپوری ہیں ۔ وہ فوراً دیدہ نچاتے ہوئے بولے آدمی ذہین معلوم ہوتے ہو۔ یہ تو خیر فراق صاحب ہی تھے۔ ان سے بہت پہلے ہمارے میر صاحب بھی ڈھائی شاعر یا خیر پونے تین سہی جیسی باتیں فرما چکے ہیں اور غالب کی خود پسندی کے مظاہر بھی موجود ہیں نہ صرف شعر بلکہ نثر میں بھی۔ یہ تو خیر بڑے شاعر تھے۔ ہمارے معمولی شاعروں میں بھی یہ ادا کچھ کم نہیں مگر شاعر تو شاعر ہوتا ہے اگر وہ اپنے تئیں کوئی ایسا گمان رکھے تو اس سے ادبی استناد کا مسئلہ متاثر یا تو ہوتا ہی نہیں یا ہوتا بھی ہے تو بہت زیادہ نہیں ہوتا مگر مشکل تب آن پڑتی ہے جب ہمارا نقاد بھی ہمارے شاعروں کی خوش عقیدگی پر اپنی تنقید کی بنیاد رکھنے لگتا ہے اور یہ دیکھے بغیر کہ جس شاعر کی خوش عقیدگی پروہ ایمان لا رہا ہے وہ کس پایے کا شاعر ہے، اس کا منبع علم کیا ہے اس کی ادبی بصیرت کا کیا عالم ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسا بالعموم ہمارے نقادوں کی کم علمی اور تن آسانی کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی کبھی ان کی پیشہ ورانہ ذہنیت کی وجہ سے بھی۔ اور ایسا بار بار ہونے سے ادبی پرکھ کے معیار بدلنے لگتے ہیں ادبی استناد کا وقار گھٹنے لگتا ہے۔ وارث علوی نے لکھا بھی ہے:

’’ہمارے یہاں مصیبت یہ ہوئی کہ جیسے ہی لکھنے لکھانے کا کاروبار چل پڑتا ہے تو کیا فن کار اور کیا نقاد دونوں ادب پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ نتیجہ ایسا ادب اور تنقیدیں ہیں جو ناخواندہ لوگوں کے لیے عموماً نیم خواندہ لوگ لکھتے ہیں ۔ ایک با شعور نقاد ایسی میڈیوکریٹی کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ وہ ہمیشہ حسن و خوبی پر اصرار کرتا ہے۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے تحت وہ خام کار لکھنے والوں کی تعریف نہیں کرتا۔ ایسا کرنے سے ادب کی پرکھ کے معیار بدل جاتے ہیں اور ادبی تصورات کی مستحکم فصیلوں میں شگاف پڑ جاتے ہیں ۔ ‘‘

 چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جدید غزل کے جن پانچ پیشروؤں کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے ان میں جگر، فانی، یگانہ، اصغر اور حسرت کے نام کچھ اس طرح لیے جاتے ہیں جیسے یہ ایک ہی معیار کے شاعر ہوں یا ایک ہی قبیل کے شاعر ہوں ۔ جبکہ یہ دونوں باتیں غلط اور غلط محض ہیں ۔ ان شعرا کے معیار بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور رنگ بھی۔ اصل میں ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم ایک بنیادی نکتہ فراموش کر دیتے ہیں کہ بڑے اور عظیم شاعر تو ہر زبان میں دو چار ہی ہوتے ہیں لیکن زبان کے لیے ان چھوٹے بڑے ہزاروں شاعروں کی بھی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی ان عظیم شاعروں کی۔ کیونکہ اگر یہ تارے نہ ہوں تو صرف ایک یا دو چاند کافی نہیں ہو گا تزئین عرش کے لیے۔ اس لیے ہمیں ان میں سے ہر شاعر کو ان کے صحیح تناظر میں ہی رکھ کر دیکھنا چاہیے نہ یہ کہ ان کو غیر ضرری طور پر بڑا ثابت کرنے کی دھن میں ان کے جوہر اصلی پر بھی پردہ ڈال دینا چاہیے۔ یہ اور ایسے بہت سے مسائل ہیں جن پر گفتگو اور دو ٹوک گفتگو ضروری ہے کسی بھی شاعر کے مرتبے اور صحیح مرتبے پر روشنی ڈالنے کے لیے۔ اسی لیے یہاں اجمالی طور پر ان میں سے چند پر روشنی ڈالی گئی۔ جہاں تک لطف الرحمن کی شاعری کا تعلق ہے ان کی اصلی شناخت جدید شاعر کی حیثیت سے ہے ان کا شمار جدیدیت کے اہم نظریہ سازوں بھی ہوتا ہے لیکن وہ بنیادی طور پر شاعر تھے اور چونکہ ادبی تنقید سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے اس لیے شعر بھی سوچ سمجھ کر کہتے تھے۔ جدید شاعری کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو ایک بات جو بہت واضح طور پر محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت اردو زبان کا دائرہ بتدریج سمٹتا جا رہا تھا لیکن شاعری اور تنقید کے میدان میں حیرت انگیز گہماگہمی نظر آ رہی تھی۔ ہندوستان کے اردو شاعروں میں بھی اور پاکستان کے اردو شاعروں میں بھی دو اہم دھارے موجود تھے۔ ایک دھارے میں وہ شاعر تھے جو کلاسیکی رچاؤ کے ساتھ شعر کہنے اور اسی میں اپنے تخلیقی وفور کے اظہار کو اصل شاعری سمجھتے تھے دوسرے دھارے میں وہ شاعر تھے جو زبان کے دائرے کی توسیع کے نام پر مسلمہ اصولوں سے انحراف کو ضروری خیال کرتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ ان میں بھی تخلیقی وفور کی کمی نہیں تھی اور زبان و بیان پر قدرت بھی رکھتے تھے لیکن نئے نئے تجربوں کے شوق میں کبھی کبھی ان کے شعر مضحک بھی معلوم ہونے لگتے تھے۔

لطف الرحمن کا تعلق پہلے دھارے سے تھا۔ انھوں نے زبان و بیان کے تجربوں میں بہت دلچسپی نہیں لی اور غزل کے مسلمہ ضابطوں کی پابندی کرتے ہوئے شعر کہتے رہے۔ انھوں نے فارسی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اردو کے ادبی سرمایے پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے آزاد اور معریٰ نظمیں بھی کہیں مگر ان کا اصلی جوہر غزل میں کھلتا ہے۔ ان کی غزلوں میں تخلیقی وفور بظاہر بہت نظر نہیں آتا لیکن ایک خاص معیار کا التزام ہر جگہ ملتا ہے اور کہیں کہیں تو وہ کوندا بھی لپک اٹھتا ہے جس کی ہر تان دیپک کہی جا سکتی ہے اور جس کی آرزو ہر فنکار کو تمام عمر سرگرداں رکھتی ہے۔ اس مضمون میں ہم ان کے دو چار شعروں پر ادبی نقطۂ نظر سے گفتگو نہیں کریں گے۔ یہ شعر دیکھیے:

کچھ رسم ہی عجیب تھی بازار مصر کی

کچھ لوگ بک گئے ہیں شرافت کے باوجود

مصر کی تلمیح اردو شعرا کی مرغوب ترین تلمیح رہی ہے۔ ایسی تلمیحات کا استعمال خطرے سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ انھیں اتنی بار برتا جا چکا ہوتا ہے کہ ان میں جدت پیدا کرنا آسان نہیں ہوتا مگر لطف الرحمن صاحب نے اس تلمیح کے بالکل انوکھے پہلو کو اور وہ بھی بہت دل نشیں پیرایے میں باندھا ہے مصر میں حضرت یوسف کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کو مصر کی رسم سے تعبیر کیا اور حضرت یوسف کے بکنے میں چونکہ ان کی مرضی یا ضرورت کا دخل نہیں تھا اس لیے دوسرے مصرعے میں کچھ لوگ بک گئے ہیں شرافت کے باوجود کہہ کر اس صورتحال کو سیدھے سادے انداز میں بیان کر دیا مگر اس لطف کے ساتھ کہ یہاں مصر ہمارے عہد کی علامت بھی ہے جہاں ہر جنس ، جنس بازار میں تبدیل ہو چکی ہے یعنی اپنی اخلاقیات سے محروم ہو چکی ہے جس کی ایک شق شرافت بھی ہے اور کچھ اس طرح کہ ہمارے عہد میں یہ بازاری پن شرافت سے تضاد کا رشتہ نہیں رکھتا بلکہ اس کے لازمے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس طرح ایک بظاہر سادہ سا شعر ہماری اخلاقی قدروں کی بھی نمائندگی کرتا ہے اور اس میں آنے والی گراوٹ یا تبدیلی کو بھی نہ صرف یہ کہ بیان کر دیتا ہے بلکہ ان دو الگ الگ صورتوں کو بیان کر کے ہمیں انسانی ارتقا کی رفتار و کردار اور اس کی قیمت اور ہماری اخلاقیات وغیرہ کے مسئلے پر بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ آدمی کے جنس بازار میں تبدیل ہو جانے کی طرف اشارہ انھوں نے اپنے اس شعر میں بھی کیا ہے:

ہر نظر اپنے خریدار کے خوابوں میں رواں

ہر جبیں پر کوئی تحریر ہے قیمت جیسی

یہ شعر اگرچہ اس شعر جیسا تہہ دار نہیں مگر اس میں بھی جبیں کی رعایت سے تحریر کا استعمال لطف سے خالی نہیں ۔ اس غزل میں یہ شعر بھی بہت عمدہ ہے۔

دستکیں لے کے چلے آئے گراں گوشوں میں

ہر نظر اٹھنے لگی سنگ ملامت جیسی

اب نیا شعر دیکھیے:

نہیں کہ چاند ستارے ہی منتظر ہیں ترے

تری طلب میں تو روشن مری نگاہ بھی ہے

یہ شعر ادعائے ناقص بدرجہ کا مل کی عمدہ مثال ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ لطف الرحمن صاحب نے اس کا التزام کیا ہے یا یہ محض اتفاقی امر ہے۔ ادعائے ناقص بدرجہ کامل کا ذکر علم بیان کے چند ماہرین نے تشبیہ کے ذیل میں کیا ہے مثلاً پنڈت دتا تریہ کیفی نے نسیم کے اس شعر پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے :

دکھلاتا تھا وہ مکاں جادو

محراب سے در در سے ابرو

’’محراب کو ابرو سے تشبیہ دی ہے اور در کو چشم سے۔ پہلے میں وجہ شبہ وہ گولائی ہے جو محراب اور ابرو میں پائی جاتی ہے، دوسرے میں واشدگی جو دونوں میں محسوس ہے اور یہ وجہ تشبیہ واحد ہے۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہوسکتا ہے کہ مشبہ بہ کو مشبہ پر عرف حاصل ہوتا ہے۔ ۔ اور محراب ہمیشہ مشبہ بہ ہوتی ہے اور ابرو مشبہ جبکہ یہاں معاملہ بر عکس ہے پس مشبہ بہ یہاں ادنیٰ ہے اور مشبہ اعلیٰ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تسلیم بھی کر لیں کہ یہ ممنوع ہے تو اس میں ادعا ہے کہ محراب و در ایسے تھے کہ ان کو چشم و ابرو سے تشبیہ دے سکتے تھے۔ اس ادعا کا نام اصطلاح میں ادعائے ناقص بدرجہ کامل ہے یعنی ناقص کو کامل کہنا‘‘

غالب کا یہ شعر ادعائے ناقص بدرجہ کامل کی عمدہ مثال ہے:

کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت

وہی نقشہ ہے ولے اس قدر آباد نہیں

نظم طبا طبائی نے اس شعر کی شرح بہت عامیانہ لکھی ہے کیونکہ ان کی نظر اس التزام پر نہیں گئی۔ اس صنعت کا نام ماہرین بیان نے ادعائے ناقص بدرجۂ کامل اس لیے رکھا ہو گا کہ تشبیہہ کا عام قاعدہ یہ ہے کہ کوچے کی حیثیت مشبہ کی ہوتی ہے اور بہشت کی مشبہ بہ کی یعنی کوچے کو بہشت سے تشبیہ دی جاتی ہے نہ یہ کہ بہشت کو کوچے سے۔ چنانچہ اگر کوئی بہشت کو کوچے سے تشبیہہ دے تو یہ نقص ہے مگر یہ کام اگر اس طرح کیا جائے کہ مشبہ کی کوئی ایسی خصوصیت بیان کر دی جائے جس کی روشنی میں اس کی فوقیت مشبہ بہ پر بتانی ناگوار نہ معلوم ہو بلکہ یہ ادعا درجۂ کمال پر پہنچ جائے۔ یہ صنعت غالب کو بہت مرغوب تھی انھوں نے مذکورہ بالا شعر میں بہشت کو کوچۂ معشوق کے برابر تسلیم نہ کرنے کا جواز یہ دیا کہ نقشہ تو وہی ہے جو معشوق کے کوچے کا ہے ولے وہ یعنی بہشت اس قدر آباد نہیں ۔ اسی طرح غالب نے کہا ہے:

نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں

شب فراق سے روز جزا زیاد نہیں

شب فراق کی درازی اور سختی کو قیامت سے تعبیر تو سب ہی کرتے ہیں ۔ مگر قیامت کی درازی و سختی کو شب فراق کی درازی سے ہلکا صرف غالب ہی بتا سکتے تھے۔ اسی کو ادعائے ناقص بدرجۂ کامل کہتے ہیں ۔ لطف الرحمن صاحب کا جو شعر ہم نے ابھی نقل کیا اس میں بھی ادعائے ناقص بدرجۂ کامل کیا گیا ہے اور اس خوبصورتی کے ساتھ کہ بے محابا یقین کر لینے کو جی چاہتا ہے کہ چاند تارے بھی اسی کی طلب میں روشن ہیں جس کی طلب نے شاعر کی نگاہ کو روشن رکھا ہے اس شعر کو کوئی معمولی شاعر کہتا تو کہتا کہ میری نگاہ ہی تیری طلب سے روشن نہیں بلکہ چاند تارے بھی تمہارے منتظر ہیں مگر لطف الرحمن نے کمال ہنر مندی سے کہا کہ :

نہیں کہ چاند ستارے ہی منتظر ہیں ترے

تری طلب میں تو روشن مری نگاہ بھی ہے

ان کے کچھ اور عمدہ شعر ملاحظہ فرمائیں

مرے جنوں کا تقاضا ہے مختلف تجھ سے

زیاں بہت ہے ترے ساتھ ساتھ چلنے میں

یہ چادر دنیا بھی ہوئی تنگ جنوں پر

وہ جامۂ افلاک کشادہ بھی نہیں ہے

صبح ازل بھی ایک قیامت سے کم نہ تھی

وہ بوجھ دے گئی کہ تماشا بنا دیا

تھا مگر اتنا نہ تھا پیکر ترا روشن کبھی

تجھ سے پہلے کا زمانہ رائگاں میرا بھی تھا

یہی ٹوٹی ہوئی نیندیں یہی مسمار امیدیں

یہی سب کا مقدر ہے، صدی ہے یہ عذابوں کی

ثبت ہو کر رہ گئی آنکھوں پہ اک بے منظری

اک مسافر گرد میں پیہم نہاں ہوتا ہوا

تو اپنے رخت سفر کو ذرا سنبھال کے رکھ

کہ قافلے میں ہر اک شخص معتبر بھی نہیں

یہی ہے انجمن اے دوستوعالی جنابوں کی

انہی کی سرپرستی میں تجارت ہے گلابوں کی

بدن کی قربتوں سے دل کی دوری کم نہیں ہوتی

یہ تنہائی کی چنگاری کبھی مدھم نہیں ہوتی

پھیل جاتا ہے کئی صدیوں پہ سائے کی طرح

بوجھ سے اپنے کوئی لمحہ گراں ہوتا ہوا

چاند نے کیا جانے کیا جھک کے سمندر سے کہا

ایک اک قطرہ اٹھا ہے بے کراں ہوتا ہوا

رفتہ رفتہ اڑ گئے روشن کتابوں کے حروف

میں بھی ہوں لمحہ بہ لمحہ داستاں ہوتا ہوا

آخری شعر میں اڑ جانے یعنی ہوا میں تحلیل ہو جانے کی رعایت سے داستاں ہونے یعنی پھیل جانے کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھیں تو یہ شعر مزید لطف کا حامل ہو جاتا ہے۔ ان کی غزلوں کے مجموعے میں قدم قدم پر اس طرح کے شعر مل جائیں گے اور ان غزلوں میں بھی جورسائل کی فائلوں میں دفن ہیں اور کسی مجموعے میں شامل نہ ہو سکیں ۔ اور اگرکسی شاعر کے یہاں کچھ شعر بھی ایسے مل جائیں تو اس کے نمائندہ شاعر ہونے میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا۔ لطف الرحمن جدیدیت کے ہی نہیں اردو کے بھی نمائندہ شاعر تھے وہ اب ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کے یہ اشعار ان کو ہمیشہ ہمارے درمیان رکھیں گے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے