غزلیں ۔۔۔ مہتاب حیدر نقوی

غزلیں

                                                                         مہتاب حیدر نقوی

پھر کسی خواب کی پلکوں پہ سواری آئی

خوش امیدی کو لئے بادِ بہاری آئی

پھول آئے ہیں نئی رت کے ‘ نئی شاخوں پر

موجۂ ماہِ دل آرام کی باری آئی

نامرادانہ کہیں عمر بسر ہوتی ہے

شاد کامی کے لئے یاد تمہاری آئی

منتظر رہتی ہیں کس واسطے آنکھیں میری

اس گذر گاہ پہ کب اس کی سواری آئی

اور پھر پھیل گیا رنگِ محبت رخ پر

لالۂ زخم لئے یار کی یاری آئی

ہم نے اک روز زباں کھول دی سچ کہنے کو

اور پھر شامت اعمال ہماری آئی

ہوس و عشق کے احوال رقم کرنے کو

پردۂ شعر میں افسانہ نگاری آئی

٭٭٭

ہیں رنگ جو تصویر تمنا میں زیادہ

کچھ بات ہے اس پیکر سادہ میں زیادہ

معلوم ہے اب کون سے گل کھلنے کو آئے

لگتا ہے جو دل صحبت دنیا میں زیادہ

یہ شور تو برپا ہے نہاں خانۂ دل میں

سُنتا ہوں جسے شہر میں ، صحرا میں زیادہ

وہ خواب جنہیں جاگ کے بھی دیکھ نہ پائے

ہیں خواب وہی دیدۂ بینا میں زیادہ

اس بار تو ایسی کوئی آندھی نہیں آئی

پر خاک اڑی ہے مرے صحرا میں زیادہ

حق بات یہی ہے کہ پس سادگئی شوق

خواری ہے بہت آج کی دنیا میں زیادہ

َ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے