اُردو کے اَفٗسَانوی ادَب میں نِسَائی لَب و لہجہ (تحقیقی و تنقیدی جائزہ) ۔۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

اُردو کے اَفٗسَانوی ادَب میں نِسَائی لَب و لہجہ (تحقیقی و تنقیدی جائزہ)

               سید انور جاوید ہاشمی

نزہت عباسی کا تحقیقی مقالہ برائے ڈاکٹریٹ کے انتخاب میں ڈاکٹر صدیقہ ارمان ، استاد شعبۂ اُردو، جامعہ کراچی نے ان کی مدد کی۔ اُن کی ناگہانی رحلت (ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ القرآن) کے بعدسابق صدر شعبہ ء اردو محترم ڈاکٹریونس حسنی کے زیر نگرانی یہ مقالہ تکمیل پذیرہواجس پر اُن کو جناح یونی ورسٹی برائے خواتین کراچی سے ۲۰۱۱ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی(۱؍ پیش لفظ ڈاکٹر نزہت عباسی صفحہ ۱۰)۔ ہماری یادداشت کے مطابق اس سلسلے میں نارتھ کراچی میں سیدزاہدعلی کی قیام گاہ پر بزم۔ باغِ  ادب نے۲۰۱۲ء میں اُن کی پذیرائی کی۔ مشاعرے سے قبل شبینہ گُل انصاری نے اپنے رفقاء کے ساتھ گل دستے پیش کیے ہار پہنائے گئے اور ڈگری کی رونمائی بھی کی اس تقریب کی تصاویر سجاد ہاشمی نے بنائی تھیں۔

گزشتہ دسمبر۲۰۱۳ء میں مقالے کے ناشرین انجمن ترقیِ  اُردوپاکستان کراچی نے تحقیقی مرکز گلشن اقبال کراچی میں امریکاسے آئے ہوئے عالمی شہرت یافتہ نظم گو، نقاد، ادیب اوراُستاد تقابلی مطالعہ ء ادبیات  ڈاکٹرستیہ پال آنند کی صدارت میں بڑے اور عمدہ پیمانے پر تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا جس میں نگران مقالہ ڈاکٹریونس حسنی، مقالہ نگار ڈاکٹر عباسی، پروفیسرسحرانصاری، ڈاکٹر عائشہ کفیل استاد شعبہ ء اردو و مصنفہ جناح یونی ورسٹی برائے خواتین کراچی، ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ناظم تقریب ڈاکٹر جاوید منظر و دیگر نے مقالے کے حوالے سے گفتگو کی۔ ہماری روداد نیٹ فورم پر سب سے پہلے تصاویر کے ساتھ سامنے آئیں تصاویر خلیل احمد خلیل ایڈوکیٹ شاعر جہادِسخن اور ہم نے موبائل کیمرے سے بنائیں جنہیں مقالہ نگار، ڈاکٹرستیہ پال آنند اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے شیئر کرتے ہوئے پسند کیا۔ اس تقریب کے صدر نے مقالے کے لیے سرسری طور پر ایک مختصرسا مضمون لکھا ہوا تھا جو تنگی  وقت کے باعث مکمل طور پر پیش نہ کر سکے البتہ انھوں نے براہ راست حاضرین سے مخاطبت کی اور نسائی لب و لہجے کے موضوع کو قدرے اطمینان بخش طور پر نبھانے پر ڈاکٹر نزہت عباسی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ نجانے کتنی کتب ان کو پڑھنا پڑھی ہوں گی، نوٹس بنانا پھر ان کو اپنے الفاظ اور مقالے کی ضرورت کے مطابق مرتب و مدّون کرنے کے لیے محنت و جانفشانی سے ابواب کے حساب سے جانچ پرکھ کے مرحلے سے گزارنا پڑا ہو گا۔ اُردو داستان، افسانے، ناول، تمثیل نگاری میں اردو کی اولین داستانوں سے تا حال لکھی گئی کہانیوں ، کتھاؤں سے ’نسائی لب و لہجہ ‘ تلاش کرتے ہوئے ظاہر ہے کہ بہت کچھ ان کی نظر سے نہ گزرا ہو گا پھر جو کچھ حاصل کیا گیا اور اسے بطور اخذواستناد پیش کیا گیا اس میں بھی کہیں کسررہ گئی ہو گی جس پر مقالہ کے ناقدین توجہ دے کر ہی حتمی بات کر سکیں گے مگر اس کی گلوسری، تعارف ابواب کی ترتیب اور آخر میں فہرست کتب و رسائل سے وہ اس کی اہمیت کا اندازہ لگا رہے ہیں ‘‘۔

اس تحقیقی مقالے پر نقد و نظر تحریری طور پر کون، کب، کیسے کرے گا اس بارے میں ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے البتہ تعارفی سطور ہم نے تقریب کے بعد اردو کی ویب سائٹس اور نیٹ فورمز پر پیش  کرنے میں تامل نہ کیا اور ۲۰دسمبر۲۰۱۳ء کو ڈاکٹر نزہت عباسی نے اپنے خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں کتابی صورت میں یہ مقالہ بھی عنایت کر دیا جس پر ہم شکرگزار ہیں۔

تحقیق اور جستجو انسانی فطرت کا خاصہ اور انسانی زندگی کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے صرف ریسرچ [تحقیق یا بازیابی] کی بنیاد پر اعلا مقام حاصل کیا۔ ۔ ۔ دراصل حقائق کی تلاش اور جستجوہی ریسرچ کہلاتی ہے(۱۔  علم تحقیق کا تعارف ڈاکٹر تحسین اقبال، نشتر میڈیکل کالج ملتان، وفاقی اردو یونی ورسٹی کی مطبوعات۲۰۰۷ء] موضوع کا انتخاب، متعلقہ کتب یا مواد تک رسائی کے مراحل  اور نئے مآخذ کی تلاش تفصیلی مطالعے یا تھیسس کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ اس میں موجودہ ادب کا تنقیدی جائزہ بھی شامل ہوتا ہے۔ بیان، وضاحتیں ، تشریح و توضیح کے بعد اس کی اشاعت اور آنے والوں کے لیے راہیں کھولنے کا باعث ہوتا ہے۔ عنوان، مصنف یا مولف اور ان کے تحقیقی کام کا تعارف بنیادی امور ہیں۔ موضوع یا عنوان کا  تعارف، طریقۂ  کار، تجزیہ، مباحث اور نتائج کے بعد اختتامیہ میں خلاصہ کے بعد یہ بھی مقالہ نگار کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ درسست طریقے سے حوالہ جات میں مصنف، محقق کا نام، کتاب کا نام، مقام اشاعت، سن اشاعت، جلد، صفحہ نمبر ایسے ہی رسائل و جرائد کا مکمل حوالہ اور کتابیات کی فہرست جن سے مقالے کی تیاری میں مدد لی گئی ہو  پیش کرے جس کی جانچ پرکھ کے بعد مقالے کی منظوری دی جاتی ہے۔ ان اشارات کی روشنی میں دیکھیں تو ڈاکٹر نزہت عباسی کے زیر مطالعہ تحقیقی مقالے کی اشاعت انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی کا ایک اہم کارنامہ ہے جس کے عنوان کے ساتھ سرورق پر منشی پریم چند، منٹو، ممتاز شیریں ، کرشن چند، قرۃ العین حیدر، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی چہرہ نمائی کے بعد مقالہ نگار اور ناشر کے نام ہیں۔ پشت سرورق!پر انجمن کی تازہ مطبوعات کی فہرست دی گئی ہے جو ناشر کا استحقاق ہے۔ سرفہرس ت کہانی رانی کیتگی  میر انشاء اللہ خاں انشاء ، پھر سب رس ملا وجہی؍ مولوی عبدالحق شامل ہیں۔ یہ مقالہ چھے ابواب پر مشتمل  باب اوّل ’اُردو کے افسانوی ادب کا سیاسی و سماجی پس منظر‘‘ ذیلی عنوان افسانوی ادب پر داستان اور تمثیل کے اثرات سے قبل مقالہ نگار کا پیش لفظ اور انجمن کے معتمد اعزازی جمیل الدین عالی کے ’حرفے چند‘ سے بھی قاری کا واسطہ پڑے گا:’’افسانوی ادب ، قصّہ، داستان، کتھا کسی نہ کسی شکل میں گزشتہ تین صدیوں سے بر صغیر میں چھائی ہوئی ہیں۔ یوں تو صنف ناول کا بانی ڈپٹی نذیر احمد کو مانا جاتا ہے اور [مگر؟ یہاں نہیں آیا] مرزا ہادی رسواکاناول’’امراؤ جان ادا‘‘ جدید ناول نگاری کی تکنیک پر پورا اُترتا ہے۔ اردو افسانہ  [افسانے؟]نے بھی بیسویں صدی کی ابتدا میں ترقی پائی۔ اس سلسلے میں مختلف آرا ہیں ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ جی عالی صاحب !یہ ’مختلف‘ ہی تو لکھنے والوں کو تحقیق پر اُکساتی ہیں ورنہ سرسید کے مضامین سے، ابوالکلام کی نثر تک اور قلی قطب شاہ کے دیوان سے مسدس حالی کے بعد تک نثر و شعر کا ارتقاء ہمارے پیش نظر کیسے آتا!’’جدید تر دور میں  اُردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ اور مرد حضرات کا افسانوی ادب وغیرہ کو خانوں میں بانٹا جا رہا ہے یہ اچھی علامت ہے یا نہیں ، آنے والا وقت اس کا فیصلہ کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر[فیصلہ سن لیجیے؟]یہ اچھی علامتیں نہیں ہیں۔ ادب اردوافسانہ اور نسائی معاشرے کو اس سے کتنی تقویت پہنچتی ہے یہ آنے والا وقت بتائے گا‘‘ حرفے چند صفحہ۔ ۷) یہاں یقیناً آپ کو تکرار محسوس نہیں ہو رہی ہو گی!

پیش لفظ میں نزہت عباسی نے لکھا ہے کہ :’’خواتین نے جو بھی ادب تخلیق کیا وہ اُن کے اپنے آزاد ذہن کی تخلیق ہے۔ اُن کی اپنی فکر، سوچ، شعور اور آگہی ہے جہاں تک مردوں کی رسائی ناممکن ہے‘‘[پیش لفظ صف۹]                                                                     [۲] اُردو نثر کے آغاز میں مرد مصنّفین ہی کے نام دکھائی دیتے ہیں لیکن بدلتے ہوئے حالات اور خاص طورپرانیسویں اور بیسویں صدی کی انقلابی تبدیلیوں نے ادب میں خواتین کی شمولیت کو ناگزیر بنایا جس نے ادب میں ایک نسائی لب و لہجہ کو فروغ دیا بعض مرد ادیبوں کے یہاں بھی نسائی لب و لہجہ کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اردو شاعری اور فکشن کے حوالے سے تو ہمارے ادب میں بہت کام ہوا ہے لیکن اس موضوع یعنی اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ پر کوئی کام دیکھنے میں نہیں آیا‘‘(پیش لفظ صف۱۰)مرد ادیبوں نے بھی اپنی تحریروں میں نسائی لب و لہجہ کی شیرینی و رنگینی شامل کی(جن میں )واضح طور پر نسائی اسلوب کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں (گویا مردوں کی رسائی ممکن ہے یا تھی!؟)بیسویں صدی میں یہ بات اہم رہی کہ اب حدیثِ دل اور شرح آرزو کے لیے زبانِ غیر کی ضرورت نہیں رہی( دیکھیے پروفیسرسحرانصاری کا تعارفی مضمون سکوت کا درد :مجموعہ نزہت عباسی ۲۰۰۵ء)پروفیسراحتشام حسین کی جو کتاب شیلف سے نکالی گئی وہ ہے داستان اردو جسے دار الکتاب ، آرام باغ کراچی سے شایع کیا گیا اور ہم نے ۱۹۷۰ء کی دہائی  میں اختیاری اردو بی اے کے امتحان کے دوران پڑھا تھا۔ باب۹میں نثر کی ترقی کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں :

’’اُردو میں اور دُنیا کی اکثر زبانوں میں نظم پہلے اور نثر بعد میں اُبھری۔ سیدبندہ نوازگیسودراز نے معراج العاشقین تصوف کے بارے میں چھوٹا سا رسالہ بزبان دکنی اردو نثر کا پہلا نمونہ مشکل زبان میں تالیف کیا۔ دوسرے صوفیوں میراں جی شمس العشاق اور برہان الدین جانم ، نیز شیخ عین الدین گنج العلم، سیدمخدوم شاہ اشرف جہانگیر کچھوچھوی کے مذہبی رسائل سے بھی اردو نثر کے آغاز و ارتقاء کا پتا چلایا گیا گو یہ رسائل دست برد زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکے۔ تمام لوگ تو عربی یا فارسی نہیں سمجھ سکتے اس لیے مقامی یا دیسی  بولیوں  اور بھاشاؤں کا استعمال ضروری تھا۔ دکن کے مشہور شاعر ملّا وجہی نے نثر میں ’سب رس‘ لکھ کر بہت کامیاب ادبی نثر کا نمونہ پیش کر دیا۔ اس کے لکھنے کا زمانہ ۱۶۳۵ء ہے‘‘(صفحہ ۶۴ داستان اردو)[افسانوی ادب پر داستان اور تمثیل کے اثرات کے ذیلی عنوان سے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ:’’اردو نثر کے افسانوی ادب کا آغاز داستان نگاری سے ہوتا ہے جسے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اردو میں داستان نگاری کا آغاز ’’سب رس ‘‘ سے ہوتا ہے جو کہ تمثیل ہے اور اس کے بعد طبع زاد اور ترجمہ شدہ کئی داستانیں اُردو ادب کے نثری سرمایہ (سرمائے!) میں اضافہ (اضافے!) کا باعث بنیں ‘‘]۔ سب رس کی دریافت بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے سر ہے انھوں نے حتمی طور پر کہیں نہیں لکھا کہ :’’اردو میں داستان نگاری کا آغاز سب رس سے ہوتا ہے!’’

بابائے اردو کے مطابق:’’’’وجہی‘‘ نے کہیں اس کا ذکر نہیں کیا کہ یہ قصہ اسے کہاں سے ملا۔ دیباچہ پڑھنے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ گویا یہ اسی کی ایجاد ہے۔ اسی کے دماغ کی اپج ہے۔ حالانکہ یہ بات نہیں ہے۔ یہ پُر لطف داستان سب سے پہلے محمد یحیٰی ابن سیبک فتّاحی نیشاپوری [متوفی سنہ ۸۵۲ھ ]نے لکھی۔ علاوہ دیوان ان کے کئی تصنیفات ہیں ان میں سے ایک ’’دستورِ عشاق‘‘ یعنی حُسن و دل کا قصّہ ہے۔ دستورعشاق مثنوی ہے جس میں پانچ ہزار شعر ہیں۔ اس قصّے کو مصنف نے ’’شبستانِ خیال‘‘ اور ’’حُسن و ول‘‘ کے نام سے الگ الگ بھی لکھا ہے لیکن یہ دونوں دستورِ  عشّاق کے بعد لکھی گئی ہیں (صفحہ۷، مقدمہ ’سب رس‘باباے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق، کوئٹہ(بلوچستان)۔ ۱۲جون ۱۹۳۲؁ء مطبوعہ، بارسوم ۱۹۶۴ء، انجمن ترقی اردو پاکستان، بابائے اردو روڈ، کراچی) اسی نسخے کے صفحہ ۳۸ پر مقدمہ نگار لکھتے ہیں :’میں اس ضمن میں یہ لکھنا بھول گیا کہ دکن کے چار اور شاعروں نے بھی اس قصے کو اپنی زبان میں لکھا ہے اور چاروں منظوم ہیں۔ یہ چاروں مثنویاں دکنی شاعروں کی تصنیف ہیں ، لیکن ان کے علاوہ ایک اور مثنوی ’’حسن و دل‘‘ نام سے خواجہ خیرالدین المتخلص بہ خواجہ کی۱۲۶۴ھ کی تصنیف ہے‘‘۔

انتظارحسین نے انشاء اللہ خاں انشاء کی دو کہانیاں [۱] رانی کیتگی اور اور کنور اودے بھان کی کہانی جسے مولوی عبدالحق کی تحقیق کہا جاتا ہے اور [۲]سلک گوہر جسے امتیاز علی خاں عرشی نے تحقیق کر کے نکالا مجلس ترقی ء ادب لاہور کے اس وقت۱۹۷۱ء کے مہتمم امتیاز علی تاج کی ایماء پر مرتب کر کے پیش لفظ کے ساتھ پیش کیا وہ لکھتے ہیں کہ :’’ مقصود تحقیق نہیں بلکہ تفہیم ہے۔ بات یہ ہے کہ انشاء سے بطور شاعر کے تو ہم خوب شناسا چلے آتے ہیں مگر افسانہ نگار انشاء پر ایک عرصے تک پردہ پڑا رہا۔ محققوں نے بالآخر پردہ کشائی کی اور انشاء نے جو دو کہانیاں لکھی تھیں انھیں تحقیق کر کے برآمد کر لیا۔ رانی کیتکی کی کہانی کو مولوی عبدالحق مرحوم نے  برآمد کیا اور’’سلکِ  گوہر ‘‘ کو مولانا امتیاز علی عرشی نے کھود کر نکالا‘‘۔ ۔ ۔ مگر ادب میں تحقیق منتہا نہیں ہوتی یا اسے کم از کم منتہا نہیں ہونا چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ تحقیق کے بعد کی منزل یہ ہے کہ جس تحریر کو دریافت کیا گیا ہے اُسے جانچا پرکھا جائے [جیسا کہ ہم کر رہے ہیں !]اور اس کی قدر و قیمت کا تعین کیا جائے۔ سیدانشاء ہفت زبان بھی تھے اور ہفت رنگ بھی تھے۔ ایک ہمہ گیر شخصیت۔ ۔ ۔ نثر میں کہانیاں لکھیں ، واقعہ نویسی کی، مزاح نگاری کی، اور علمی کام ’’دریائے لطافت‘‘ جس میں اردو زبان کی اصلیت اور ساخت پر علمی انداز میں غور و فکر کیا۔ اوراس کا ایک بصیرت افروز تجزیہ پیش کیا۔ انشاء دریائے لطافت کے پردے میں غیر شعوری طور پر ایک ناول لکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ بی نورن، میر غفر غینی، براتی بیگم، بھاڑا مل۔ ۔ ان کرداروں کے روپ میں ایک معاشرہ متحرک نظر آتا ہے۔ لیکن حادثہ یہ ہوا کہ ان کرداروں کو بڑھنے پھیلنے کے لیے زمین میسر آئی۔ ۔ مگراس وقت فکشن[افسانوی ادب]کی روایت میں اظہار ماضی کے پیرائے میں ہوتا تھا۔ ’’سلکِ گوہر اور داستان رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی۔ ۔ ان میں انشاء نے دو تجربہ کر ڈالے:(۱)سلکِ گوہر غیر منقوط نثر لکھنے کا تجربہ ہے(۲) رانی کیتکی کی کہانی خالص اردو لکھنے کا تجربہ ہے۔ اُردو غزل کی روایت کی طرح اُردو فکشن کی روایت مخصوص طور پر عجمی تہذیب کی جاگیر نہیں ہے۔ عجمی اور ہندی تہذیب کے رنگ ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ دو الگ اسالیب:فارسی آمیز نثر کا اسلوب، دوسراہندی آمیز نثر کا اسلوب۔ قصّہ ء چہار درویش میں یہ دونوں گلے ملتے نظر آتے ہیں قدیم سنسکرت سے اُردو میں ترجمہ کی گئی اسی اسلوب میں ہیں۔ ’بیتال پچیسی‘ ’سنگھاسن بتیسی‘ یہ روایت میراجی کے نگارخانہ[اصل مصنف نٹنی متّم)اور چراغ حسن حسرت کی ’’پربت کی بیٹی‘‘ کے حوالے سے ہمارے زمانے میں پہنچی ہے۔ رانی کیتکی کی کہانی براہ راست سنسکرت کا ترجمہ نہ ہوتے ہوئے بھی فکشن کی اسی قدیم ہندی روایت سے ماخوذ جس کی تہہ میں ہندو معتقدات اور توہمات کار فرما نظر آئیں گے۔

رانی کیتکی سے ٹھٹھولی کر کے مدن بائی بولی، اب سُکھ سمیٹے بھر بھر جھولی۔ سرنیہوڑائے کیا بیٹھی ہو ، آؤ نہ ٹُک ہم تم مل کے جھروکوں سے انھیں جھانکیں ‘‘رانی کیتکی نے کہا:’اری ایسی نلجی باتیں ہم سے نہ کر، ایسی ہمیں کیا پڑی جو اس گھڑی ایسی کڑی جھیل کر ریل پیل میں اس اُپٹن اور تیل پھُلیل میں بھری ہوئی اُون کے جھانکنے کو جا کھڑی ہوں ‘‘۔

اُردوکاکلاسیکی ادب فورٹ ولیم کالج کی نولکشور کی شایع کردہ کتب کی پاکستان میں اشاعت مجلس ترقی ادب کا اشاعتی منصوبہ غالباً ۱۹۶۰ء کی دہائی سے چلا۔ میر بہادر علی حسینی کی ’’اخلاق ہندی‘‘صدرمجلس ترقی ادب لاہور ڈاکٹر وحید قریشی نے ۱۹۶۳ء میں قلم بند کیا جو اس میں شامل ہے:

حکایات، داستانیں ، نقل (چار ابواب)کے مصنف حسینی نے فورٹ ولیم کالج کے ارباب قلم میں شامل رہ کر میر امن کو بھی جان گلکرائسٹ سے متعارف کروا کے ملازم رکھوایا۔ ان سے باغ و بہار تالیف کروائی۔ مزید دیکھیں :تاریخ ادب ہندی و ہندوستانی از گارساں دتاسی [گارسین دتاسی!]کریم الدین کی طبقات الشعرائے ہند، نثرِ بے نظیر، اخلاقِ ہندی، تاریخِ آسام، قواعد زبانِ اُردو

انیس ناگی کی کتاب تنقیدِ شعر میں وہ لکھتے ہیں :’’ادبیات میں نثر کا آغاز ترقی یافتہ دور سے عبارت ہے۔ نثر کا تعلق منطق اور زبان کی صرفی و نحوی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ انسانی ذہن کی منطقی صلاحیت نے تجربے اور مشاہدے سے نشو و نما حاصل کی۔ جوں ہی انسانی زندگی نے معاشرے کی صورت میں اپنا پھیلاؤ شروع کیا اُس کی منطقی استعداد روزبروز ترقی کرنے لگی۔ یوں تو تکلّم کا آغاز اشاروں کنایوں کے بعد نثر سے ہی ہوتا ہے لیکن نثر بطور ادبی تخلیق کے کافی دیر کے بعد معرضِ وجود میں آئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُردونثرکاآغازامیرخسروکے دوہوں کے کافی دیر کے بعد ہوتا ہے۔ نثر پر تنقید کا اسلوب شاعری کی تنقید سے مختلف ہوتا ہے۔ عام گفتگو اور نثر میں الفاظ کو لغوی سیاق و سباق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ سے مراد لفظ کے معّین اور محدود معانی ہیں ‘‘۔ ایک اور استادِاردو ادبیات ماہر لغات ڈاکٹر شوکت سبزواری کی کتاب ’’معیار ادب ‘‘پر جو ہم نے مشفق خواجہ کے مکتبہ ء اسلوب ناظم آباد کراچی سے پٹولی بازار، ڈھاکہ تک کے سفر کے بعد کیش میمو ساڑھے چار روپیہ کے ساتھ  پرانی کتب کے بازار سے حاصل کی ، ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ’’اُردو ادب پر فارسی کا گہرا اثر ہے۔ فارسی نثر کی تاریخ بتاتی ہے کہ اوّل اول فارسی میں چھوٹے چھوٹے جملے لکھے جاتے تھے۔ قدیم فارسی اور پہلوی ادب کی ایک خصوصیت جُملوں کا اختصار و ایجاز ہے۔ ابتدائی نثر کا سرمایہ  تمام تر داستانوں اور عاشقانہ قصّوں پر مشتمل تھا۔ سرسید کے زمانے سے نثر میں ایک نیا موڑ آیا۔ نثر ادب کی وسیع ترین صنف ہے۔ جس کا ہر موضوع سے قریب قریب تعلق ہے۔ اس کا اپنا کوئی موضوع نہیں ، جیسا کہ اسلوب ہے نثر کو عام حالات میں لب و لہجہ سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب اردو شاعری کا مزاج پر برصغیر کے سبھی لکھنے والوں نے مثبت، منفی رد عمل کا اظہار کیا اور ان سب کو مدیر اوراق سجاد نقوی نے کتابی صورت میں شایع کروا دیا تھا، جدید ناشرین چوک اردو بازار، لاہور سے حاصل کی گئی یہ کتاب ہمارے شیلف کی زینت ہے:’’علاقائی فاصلوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انسانی لب و لہجہ کی ساخت پر ان کا بڑا اثر پڑتا ہے۔ سامی اور ہند یورپی زبانوں اور ان کے بطون سے پیدا ہونے والی زبانوں کی ساخت و پرداخت میں لب و لہجہ کا بڑا اثر ہے۔ لب و لہجہ کے بغیر ہم کسی زبان کا مزاج اور اس کی لطافتیں اور نزاکتیں نہیں سمجھ سکتے

[جعفر طاہر کا مضمون مشمولہ کتاب مذکورہ] پروفیسرممتازحسین کی تنقیدی کتاب نقد حرف میں بھی قدیم داستان نگاروں ، فورٹ ولیم کالج کی مطبوعات کا ذکر ملتا ہے۔

لہجہ کا امالہ لہجے قصداً موضوع کے عنوان کے باعث نظرانداز کیا گیا ہے۔ جب کہ بآسانی اس کا التزام روا رکھا جا سکتا تھا۔ حشو و زوائد ، کلیشے اس کے ابواب میں جا بجا  نظر آتے ہیں۔ اردو کی اولین ناول نگار اردو کی اولین افسانہ نگار مباحث بھی اس مقالے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ البتہ ان کی اولّیت کے لیے سنین اور ان ادوار کی بابت مقالہ نگار نے جستجو نہیں کی۔ سیکڑوں لکھنے والوں میں سے چند ایک کو زیادہ اہمیت ان کے فن افسانہ نویسی، ناول نگاری کے باعث دی جاتی ہے چناں چہ قرۃ العین حیدر کے ۲۴ حوالے، ممتاز احمد خان کے محض۳ حوالے، ڈاکٹرمحمداحسن فاروقی کے ۱۲، خدیجہ مستور کے ۲۱، بانو قدسیہ کی ۳۱ بار، جمیلہ ہاشمی کے ۲۱اکیس ، الطاف فاطمہ کے دس بار، حجاب امتیاز علی، جیلانی بانو، ممتاز شیریں ، رضیہ فصیح احمد، نثار عزیز بٹ، زاہدہ حنا، اور دیگر منٹو، بیدی، غلام عباس، سجاد ظہیر، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد، شوکت صدیقی ، رضیہ سجادظہیر، احمد علی،  ڈاکٹر ا نورسجاد ، ڈاکٹرمحمدحسن، ہاجرہ مسرورسائرہ ہاشمی، شمس الرحمان فاروقی کی کہانیوں کے حوالے بذیل اقتباسات تواترسے ملتے ہیں۔ کتابیات میں ۲۲۴کُتب ، رسائل ۴۷  عدد حواشی کے ذیل میں بروئے کار لائے گئے ہیں۔ ہر باب کے اختتام پر یہ حواشی حسب ضابطہ ملتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کا ادب لطیف نمبر؟ کون سے نمبر سن اشاعت ندارد۔ ترقی پسند ادب کے حوالے سے عصمت چغتائی اور دیگر کے بارے میں ناول نگاری، افسانہ نگاری کے بعد تکرار مناسب نہیں۔ اس مقالے کی تدوین میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے۔ کلیشے کیا ہوتا ہے؟’’۔ عصمت چغتائی ترقی پسندتحریک کے دور میں مشہور ہوئیں۔ بیسویں صدی کی خواتین مصنفین میں بلاشبہ وہ اپنے نسائی اسلوب کی وجہ سے سب سے مختلف انداز رکھتی ہیں۔ [۲۸۱۔ ۔ ۔ ۳۰۸ و دیگر صفحات پر بتکرار]’’عصمت نے پہلی بار بر صغیر کے مسلمان معاشرے کی عورت کو ان کی اصل زبان اور لب و لہجہ میں پیش کیا[عصمت چغتائی کے افسانے۳۱۱]عصمت نے پہلی بار عورت بن کر لکھا۔ اُن کا لب و لہجہ اپنے عہد کے تمام ناول نگاروں سے مختلف ہے۔ [۴۰۰]

ڈاکٹرستیہ پال آنند نے جس طرح اُن کی محنت و مساعی کی حوصلہ افزائی کی وہ دیانت دارانہ اور تقابلی مطالعہ ادبیات کے استاد کی نظر اور پرکھ ہے۔ سرسری مطالعے کے بعد جب وہ اس پر بشرط فرصت گہری نظر ڈالیں گے تو ان نتائج کو ہم کسی اور طرح سے دیکھیں گے۔ ہم ڈاکٹریٹ کے اس مقالے کی اشاعت پر ایک بار پھر ڈاکٹر نزہت عباسی کو مبارک باد کا مستحق گردانتے ہوئے خلوص دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔                                                  ٭٭٭

One thought on “اُردو کے اَفٗسَانوی ادَب میں نِسَائی لَب و لہجہ (تحقیقی و تنقیدی جائزہ) ۔۔۔ سید انور جاوید ہاشمی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے