ابرار احمد نظم بھی بہت اچھی لکھتے ہیں اور غزل بھی۔
ان کی ایک نظم پر مجھے یاد ہے کہ حاشیہ پر زور دار مکالمہ قائم ہوا تھا۔میں نے اس سے بھی بہت پہلے ان کی شاعری پڑھی تھی، اور ہمیشہ پسند کی۔ان کے یہاں شاعری ایک بہترین رومانی لہجہ اوڑھے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ان کے دو شعری مجموعے آخری دن سے پہلے اور غفلت کے برابر شائع ہوئے ہیں۔ ان سے فون پر بھی گفتگو ہوئی ہے اور بارہا فیس بک پر بھی بات ہوئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمارے ان بڑوں میں ہیں، جو چھوٹوں کو ہمیشہ قدر اور محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے اتفاق کے ساتھ ساتھ ان کے اختلافات کو بھی عزت دیتے ہیں۔ ابرار احمد سے کیے گئے یہ سوال و جواب بہت سے اہم ادبی معاملات پر روشنی ڈالتے ہیں، اور ان کے علمی ویژن کو بھی ہم پر واضح کرتے ہیں۔
تصنیف حیدر: لوگ عام طور پر نظم گوئی کے لیے غالب کے ایک مصرعے کو جواز بناتے ہیں، بقدر شوق ظرف تنگنائے غزل۔ میرے خیال میں غالب کا یہ مصرع وہ نہیں کہتا جو نظم گو حضرات سمجھے ہیں، اچھا مضمون اور گہرا خیال کیا اس طرح غزل میں ممکن نہیں، جس طرح نظم میں ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
ابرار احمد: میرا نہیں خیال کہ ہمارے نظم نگار اس مصرعہ کو جواز بناتے ہیں کم از کم ہم لوگ تو نہیں۔ ۔نظم کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی غزل کی لیکن آپ جدید نظم کی بات کر رہے ہیں۔۔تو جب ہم لوگوں نے لکھنا آغاز کیا تب نظم خاصی مستحکم ہو چکی تھی اس لیے ہمارا معاملہ انتخاب میں آزادی کا تھا۔ اچھا مضمون اور گہرا خیال دونوں اصناف میں ممکن بھی ہے اور اس کی بے شمار مثالیں بھی موجود ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بدلتی زندگی کے ساتھ غزل بہ طور صنف اگر کامل ہم آہنگی کی حامل ہوتی تو نظم کے وجود میں آنے اور اس قدر مقبول ہونے کی صورت ہی پیدا نہ ہوتی۔ ایسے بہت سے موضوعات ہیں جن کے اظہار کی غزل میں گنجائش کم ہے یا ہے ہی نہیں۔ لیکن اگر آپ غزل کے جواز کی جانب اشارہ کر رہے ہیں تو میں اس کی اہمیت سے انکار کرنے والوں میں شامل نہیں۔ غزل ہمارے ادبی منظر کا لازمی حصہ ہے اور رہے گی۔
تصنیف حیدر: شاعری کی نئی ہیئتیں اور ان کی مقبولیت زمانے کے ہاتھ میں ہے۔ پھر بھی ہائیکو اور ماہیے ان دونوں اصناف کے تعلق سے آپ کی تنقیدی رائے جاننا چاہوں گا۔
ابرار احمد: جب ہائیکو اور ماہیا کے بارے میں زمانہ یا وقت فیصلہ سنا چکا تو پھر مجھ نا چیز کی تنقیدی رائے کیا اہمیت رکھتی ہے؟ آپ کسی زندہ صنف کی بابت سوال کرتے تو میں بھی کوئی بات کہ پاتا۔
تصنیف حیدر: کیا زندگی میں ایسا بھی کوئی عمل ہے جو آپ کو شاعری سے بھی زیادہ پسند ہو؟ کیوں؟
ابرار احمد: پہلی بات تو یہ ہے کہ شاعری اس طرح کا عمل نہیں جیسا ہم زندگی کے کام کاج کو لیتے ہیں۔ زندگی محض شاعری نہیں۔ جینے کے لیے ہمیں تگ و دو کرنا پڑتی ہے، کوئی پیشہ اپنانا پڑتا ہے۔ مقام شکر ہے کہ ادب میرا ذریعہ معاش نہیں ۔۔۔پسند نا پسند کے الفاظ ایک کل وقتی شاعر کے لیے شاید مناسب نہیں۔ نیرودا نے لکھا ہے کہ شاعری انجان گلی کا بلاوا ہے ۔۔۔۔۔ جب یہ بلاوا آ ہی گیا تو میں دنیا کے ہر مظہر کو ایک خاص نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ٹھہرا ۔۔۔۔ مجھے بیماروں کا علاج اور اس کی کامیابی پسند ہے۔ موسیقی پسند ہے۔ سب سے بڑھ کر مجھے انسان اور اس سے تعلق پسند ہے۔ لیکن یہ سب کچھ در اصل اس طرز زندگی ہی کی نشانیاں ہیں جسے شاعری کہا جاتا ہے۔ گویا یہ میرے لیے سانس لینے کے مترادف عمل ہے۔ آپ کے کیوں کا جواب نہیں میرے پاس۔ کسی روسی رقاصہ سے کسی نے پوچھا ’’تم رقص کیوں کرتی ہو؟‘‘ تو اس نے جواب دیا ’’اگر مجھے خبر ہوتی تو میں رقص کرتی ہی کیوں!‘‘
تصنیف حیدر: اردو ادب میں نظم کی تنقید سے آپ کتنے مطمئن ہیں؟
ابرار احمد: میرے اطمینان یا عدم اطمینان سے کیا ہوتا ہے لیکن ہماری نسل کے کام پر کوئی مربوط اور تفصیلی محاکمہ تا حال سامنے نہیں آیا۔ ۔یوں تو خود میں نے بھی چند تفصیلی مضامین اس بابت لکھ رکھے ہیں لیکن میں انھیں با قاعدہ تنقید نہیں سمجھتا۔ تھیوری پر معاصر تنقید میں زیادہ بات ہوئی ہے اطلاقی تجزیے بہت کم سامنے آئے ہیں۔ لیکن اب اس سمت میں کام ہوتا دکھائی دینے لگا ہے۔ ۔معید رشیدی کے جو مضامین میری نظر سے گزرے، عمدہ لگے۔ دانیال طریر نے معاصر نظم پر لکھا، لیکن انتخاب کے معاملے میں احتیاط روا نہ رکھ سکا۔ اب ہمارا یہ ذہین دوست ایک جان لیوا مرض سے نبرد آزما ہے۔ میں اسے کامل صحت کی دعا دیتا ہوں۔ ۔قاسم یعقوب کے ہاں بھی تنقید کے حوالے سے امکانات موجود ہیں لیکن ناصر عباس نیر شاید تنقید کے لیے ایک خوش کن خبر کا درجہ رکھتے ہیں ان کا اب تک کا کام بے مثال اور منفرد ہے۔
تصنیف حیدر: غزل اب اپنا دیسی پیرہن اتار بھی دے تو کیا قباحت ہے، ہم شلوار قمیص میں کب تک غزل کو دیکھتے رہیں، اس میں سائنسی موضوعات، جدید زندگی میں استعمال ہونے والی اشیا اور ان کے اثرات کا جزوی و کلی ذکر کیا آپ کو بھی کھلتا ہے؟ کیوں؟
ابرار احمد: جس پیرہن کو آپ دیسی کہہ رہے ہیں میرے نزدیک وہی غزل پر سجتا ہے۔ یہ صنف ہمارے خطے، ہماری آب و ہوا سے نمو پاتی ہے اور اس کی جڑیں ہماری تہذیب میں بہت گہرائی تک گئی ہیں۔ آپ اسے کوٹ پتلون پہنائیں گے تو یہ نہ غزل رہے گی نہ آپ ہی کو کہیں کا چھوڑے گی۔ آپ ضرور تذکرہ کیجیے اس میں جو بھی جی میں آئے، کس نے روکا ہے لیکن ظفر اقبال کے بعد اس کام کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے۔ ۔ویسے ہر دو اصناف میں جدید زندگی کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی ہے، نظم میں کہیں زیادہ لیکن ہم جو موضوعات بھی لائیں انھیں شاعری ضرور ہونا چاہیے۔ ہمارے بعض نظم نگار اپنی نظموں میں کلوننگ، جنیاتی رمز۔ کائناتی کلاک جیسے لفظ رکھ دینے سے جہاں نظم کے حسن کو تباہ کر دیتے ہیں وہیں اس میں کثیر الجہت معانی کا دروازہ بھی بند کر دیتے ہیں۔ ۔شعریت کے بغیر تو کام نہیں چل سکتا۔ لیکن عصری حقیقتوں سے بھی زندہ ادب الگ کھڑا نہیں رہا کرتا۔ اردو کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ادب اس حوالے سے بھی خاصا ثروت مند ہے۔
تصنیف حیدر: ابرار احمد کو اگر نظم یا غزل میں سے کسی ایک صنف سے ہاتھ اٹھانا ہی پڑے تو وہ کون سی ہو گی؟
ابرار احمد: ہاتھ اٹھانے کی بات خوب کہی آپ نے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ آپ کے ذہن میں بھی تحفظات ہیں اور جن کا تعلق میری غزل سے ہے! پہلی مرتبہ جناب ظفر اقبال نے مجھے غزل سے ہاتھ اٹھانے کا مشورہ دیا تھا شاید ۲۰۰۶ء میں اور ۲۰۰۷ میں ’’غفلت کے برابر‘‘ چھپی جو میری غزلوں کا مجموعہ ہے۔ اسے بھی نشانے پر لیا گیا۔ اس کے بعد اس حوالے سے فہمیدہ ریاض مجھ پر مہربان ہوئیں۔ اور ایک طویل افسانہ نما مضمون لکھ مارا جو دنیا زاد کراچی میں شایع ہوا۔ بحث بھی چلی۔ یہ سوال کیوں اٹھایا گیا؟ مجھے آج تک اس کی سمجھ نہیں آئی۔۔ اور شاعر بھی دونوں اصناف میں لکھتے ہیں ان کی بابت کوئی ایسی بات نہیں کی جاتی۔ خیر حیرت ہے کہ ہمارے مہربان اتنا بھی نہیں جانتے کہ تخلیق ایک طرح سے بے اختیار ہونے کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ کبھی کوئی فیصلہ کر کے نہیں لکھتا کہ اس نے کس صنف میں لکھنا ہے۔ کل کلاں اگر میں ناول لکھنے کا ارادہ باندھ لوں تو مجھے کسی سے اجازت نامہ لینا ہو گا اور کس سے؟ ایک بات ضرور کہوں گا کہ جو بھی میں نے لکھا مجھے یکساں عزیز ہے۔ آپ میری نظم کو میری ہی غزل کے مقابل رکھ کر دیکھنے کی بجائے معاصر غزل کے تناظر میں رکھ دیکھیں، شاید کچھ افاقہ ہو۔
تصنیف حیدر: آپ شاعری میں اسلوب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، اسی کی دہائی کے حوالے شناخت بنانے والے زیادہ تر شاعروں میں اسلوب کی جدت ندارد ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے؟
ابرار احمد: اسلوب کی نصابی تعریف کا تو مجھے علم نہیں لیکن میرے خیال میں یہ زندگی کو دیکھنے اور شاعری میں بیان کرنے کے عمل میں کام لاۓ جانے والے تخلیقی ٹولز سے ترتیب پاتا ہے۔ فرائد نے لکھا ہے ’’اسلوب، لکھنے والے کی سوانح عمری ہے‘‘ میرے نزدیک شاعری میں انفرادیت کا حصول اہم ترین کام ہے اور انتہائی مشکل بھی۔ اچھے لکھنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی لیکن ادب میں محض اچھائی کسی کام کی نہیں ہوا کرتی۔ یاد اور زندہ رہ جانے والا ادب وہی ہوتا ہے جو غیر معمولی ہو، صرف اچھا نہیں۔ ۔آج کتنے شاعر ایسے ہیں جن کے کلام سے ان کا نام ہٹا بھی دیا جائے تو ہم پہچان سکتے ہیں کہ کس کا کلام ہے۔ یہ انفرادیت ہی میرے نزدیک اسلوب ہے۔ جس کا گہرا تعلق اس ’انفرادی خوشبو‘ سے ہے جو شاعر کے کلام میں طبلے کے سم کی طرح با قاعدگی سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ ہمارے معاصر لکھنے والوں میں بھی ایسے نام موجود ہیں جن کے ہاں انفرادیت کی نشانیاں مل جاتی ہیں۔ ’اسلوب کی جدت‘ یہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔۔ تو اس کا جواب گول کرتا ہوں۔
تصنیف حیدر: ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ نئی نسل کیسی غزل لکھ رہی ہے؟
ابرار احمد: نئی نسل سے آپ کی کیا مراد ہے؟ ہمارے بعد کی نسل تو ابھی نو خیز ہے اور اس کے کام کی بابت کوئی حکم لگانا قبل از وقت ہے۔ اچھی غزل بھی دونوں جانب لکھی جا رہی ہے اور تک بندی بھی جاری ہے۔ سنجیدہ ادبی پرچوں کی جگہ اب سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔ اس کے فائدوں سے انکار ممکن نہیں لیکن یہاں فوری اور سرسری داد جتنی وافر مقدار میں مل جاتی ہے اس کے بھرے میں آ کر کچھ نو جوان ابھی سے علامہ بنے بیٹھے ہیں۔ مرضی ہے ان کی لیکن فوری پذیرائی فائدہ نہیں نقصان دیا کرتی ہے۔ صلاحیت اور ذہانت کا سفر جاری رہتا ہے اور ہماری نئی نسل کی بابت ہم بہت اچھی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں۔
تصنیف حیدر: کیا پابند نظم نے اپنا بوریہ بستر سمیٹ لیا ہے؟ کیا آپ پابند نظمیں لکھتے ہیں؟ پابند نظمیں کہنے والے کون سے شاعر آپ کو پسند ہیں؟
ابرار احمد: پابند تو خیر نظم آزاد بھی ہوتی ہے لیکن باقاعدہ پابند نظمیں کہنے کا رجحان اب کم ہے کافی۔ میں نے بھی چند پابند نظمیں کہہ رکھی ہیں۔ رہی پسند کی بات تو مجھے مجید امجد کی طلوع فرض اور اختر الایمان کی اس آباد خرابے میں بہت پسند ہیں۔
تصنیف حیدر: ابرار احمد کی شاعری کو ابرار احمد کی زبانی ایک پیراگراف میں کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔
ابرار احمد: اپنی شاعری پر بات کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ سمجھنے کے لیے تو میرا لکھا ہی کوئی مدد فراہم کر سکتا ہے یا پھر یہ نقاد کا کام ہے۔ سر ولیم سرویاں کا ایک کردار کہتا ہے ’’یہ سامنے جو کھیت ہے مسٹر ڈان کا نہیں شاعر کا کھیت ہے‘‘ تو میرے سامنے یا حصے کی دنیا بھی میری نہیں ایک شاعر کی ہے اور اکثر میں خود اپنا تماشائی ہو جاتا ہوں۔ میں نے اس کام کے وسیلے سے دنیا اور زندگی سے ہم آہنگ اور ہم کلام ہونے کی مقدور بھر کوشش کی ہے اور بس۔ ۔اب یہ کیا ہے اس کا حساب ہوتا رہے گا ۔۔۔
٭٭٭