آل احمد سرور کے سفرنامے ۔۔۔ امتیاز احمد

 

آل احمد سرور(۲۰۰۲۔ ۱۹۱۲ء) عام طورسے اپنی تنقیدی تحریروں کے لیے مشہور ہیں۔ خاص طورسے تنقید کی اختصاصی زبان (Specialized language)کی پیوست سے پرہیز اور ایک شگفتہ اور رواں دواں تخلیقی نثر میں ادبی ذوق کی آبیاری کا فریضہ سرور کی تنقید نے برسوں انجام دیا ہے۔

کم لوگوں نے اس جانب توجہ کی ہے کہ سرور کی زبان اور رویے میں یہ کشادگی، یہ اثباتیت Positiveness کہاں سے اور کیسے پیدا ہوئی؟تھوڑی توجہ سے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں سرورؔ کے یہاں بھی وہی تنقیدی رویہ ملتا ہے جو دوسرے اہم مصنفین کے یہاں پایا جاتا ہے۔ ’’انگارے ‘‘پر اُن کی تنقید ہو، ’’ضیائے حیات‘‘ پر تبصرہ ہو یا حیاتِ شبلی، حیات اجمل، حیات اکبر، حیات سر سید، محمد علی ذاتی ڈائری، میر تقی میر حیات و شاعری، یادگار حالیؔ، یادگار فرحت، مکاتیب مہدی، مکتوبات نیاز اور زیر لب پر تبصرہ یا اس طرح کے اور دوسرے مضامین ہر جگہ سرورؔ صرف ادبی نقاد نظر آتے ہیں۔ ادب اور فن کے اصول اُن کے سامنے رہتے ہیں۔ اور وہ شدت سے بغیر کسی رو رعایت کے اُن پر کار بند ہوتے ہیں۔ کلیم الدین احمد سے الفاظ مستعار لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ کام کی باتیں کام کی زبان میں کرتے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے اُن کا علمی اور ادبی تناظر وسیع ہوتا جاتا ہے، اندرون ملک اور بیرون ملک مختلف شخصیات اور حالات و واقعات سے اُن کا تصادم اور تعاون بڑھتا ہے، ذہن و قلب کے در وا ہوتے ہیں، سرورؔ کے یہاں ایک کشادگی پیدا ہوتی ہے، ایک کائناتی تناظر پیدا ہوتا ہے، دنیا کو دیکھنے کا انداز بدلتا ہے، اب تک ادب ہی سب کچھ تھا بعد میں غیر ادب بھی اہم ہو جاتا ہے اور وہ ایک کلیت پسندانہ Totalitarianانداز میں چیزوں کا مطالعہ کرنے لگتے ہیں۔ اس تبدیلی کی شاہد اُن کی دو طرح کی تحریریں ہیں :

۱۔ سفرنامے

۲۔ وفیات

بدقسمتی سے اُن کی اس طرح کی تحریروں کو اب تک کوئی اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر نہ انھیں کتابی شکل میں شایع کرنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی ان کا تنقیدی مطالعہ کرنے کی کوئی کوشش سامنے آئی۔

ظاہر ہے سرورؔ کی اس طرح کی تحریریں بڑی تعداد میں ہیں۔ ان کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سرورؔ کی بہترین تحریروں میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں۔ ان میں سرورؔ کا اسلوب، ان کی فکر، اُن کا ذہنی و فکری ارتقاء، اُن کی وسعت قلب و نظر سب جھلکتی ہے۔ اور ہم اُس شخصیت سے دو چار ہوتے ہیں جو تنقید کے تنگ دائرے میں ٹھٹھر کر رہ گئی تھی۔

ان تحریروں میں بھی اگر صرف سفر ناموں کے مطالعے تک اپنے آپ کو محدود رکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سرورؔ کس طرح کسی معاشرہ کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا باریکی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ اُن کی نظراس بات پربھی ہوتی ہے کہ متعلقہ معاشرہ میں کس طرح کے اشتہارات شایع ہو رہے ہیں ؟کس طرح کے ٹی۔ وی۔ سیریل بن رہے ہیں ؟کس طرح کی فلمیں بن رہی ہیں ؟کس طرح کی کتابیں شایع ہو رہی ہیں ؟ڈرامے کس طرح کے لکھے اوراسٹیج کیے جا رہے ہیں ؟سیاست کدھر جا رہی ہے ؟ نوجوان نسل کدھر جا رہی ہے ؟تعلیمی اداروں میں کیا ہو رہا ہے ؟ جرائم کی رفتار کتنی سست یا  تیز ہے ؟کس طبقہ میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے اور کیوں ؟سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کی حالت کیسی ہے ؟وغیرہ۔ ہر جگہ وہ ایک باخبر اور ذمہ دار شہری نظر آتے ہیں۔ یہ شہری اپنے ملک کا نمائندہ ہوتے ہوئے بھی ایک عالمی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ اس لیے اس کی نظر اوراس کا نقطۂ نظر دونوں مقامی کے ساتھ ساتھ عالمی بھی ہے۔ ہر جگہ انھیں یہ احساس رہتا ہے کہ جس ملک یاجس تہذیب کے بارے میں وہ لکھ رہے ہیں اُس سے پوری طرح واقف ہونے کے لیے یہ مدت سفربہت کم ہے۔ یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ سرورؔکے اکثرسفرکسی نہ کسی Academicضرورت سے ہی ہوئے ہیں۔ روس کاسفر اورینٹل کانگریس کے سلسلے میں، افغانستان کا ترجمہ کے مسائل سمینار کے سلسلے میں، پاکستان کے دونوں اسفار اقبال کانگریس کے سلسلہ میں، امریکہ کاسفروہاں تدریسی خدمات کے سلسلے میں۔ صرف رومانیہ اور ہنگری کاسفر ہے جسے Academicنہیں کہا جا سکتا۔ لیکن یہ بھی ادبی اور تہذیبی کے دائرے میں ہی آتا ہے۔

سرورؔکاپہلاسفر سویت روس کا تھا۔ اگست ۱۹۶۰ء کے اس سفرکی روداد ستمبر ۱۹۶۰ء میں ہماری زبان میں شایع ہوئی۔ اس سفرنامہ کے یہ تاثرات خاص طورسے اہم ہیں کہ:

’’ماسکوپہنچ کرجوسب سے پہلا احساس مجھ میں پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ روس میں ہیلی کاپٹروں اور جیٹ ہوائی جہازوں کی تعداد تقریباً اتنی ہی ہے جتنی دہلی میں کناٹ پیلس پر کاروں کی ہوتی ہے۔ ‘‘

’’ماسکو یونیورسٹی کی عظیم الشان عمارت کو دیکھ کر مجھے بے ساختہ اقبال کی نظم ’’لینن خدا کے حضور میں ‘‘ کا یہ شعر یاد آیا ؎

رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں

گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات

سرمایہ دار ملکوں کی یہ حالت عام ہے مگر ایک اشتراکی ملک میں علم کا گھر سب سے شاندار ہے یہ بات معنی خیز ہے۔ ‘‘

ان سطروں سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ سرورؔ کی ہمدردیاں وہاں کے نظام معیشت کے ساتھ ہیں۔ وہاں کے لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’روس کے لوگ مزاج کے اعتبار سے ایشیائی ہیں۔ ان میں گرم جوشی ہے، خلوص ہے، وہ انگریزوں کی طرح خشک اور سرد نہیں۔ ‘‘

’’ٹرین یابس میں سفر کرتے ہوئے روسی عوام خواتین کے لیے نہ تو کھڑے ہوتے ہیں اور نہ اپنی جگہ دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ البتہ بچوں اور بوڑھوں اور بیماروں کے لیے جگہ خالی کر دیتے ہیں۔ ‘‘

’’روسی اپنے تہذیبی ورثہ کی قدر کرنا جانتے ہیں۔ اس کا احساس مجھ کو ٹالسٹائی کا مقبرہ اور میوزیم دیکھ کر ہوا۔ انھوں نے ٹالسٹائی کی ایک ایک چیز محفوظ کر لی ہے۔ ۔ ۔ ٹالسٹائی کا وہ گھر جس میں وہ رہتا تھا اُسی طرح ہے جیسا کہ وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ اُس کا بستر، اس کے جوتے، اس کے کپڑے، سب اُسی حالت میں ہیں۔ ‘‘

کابل کے سفرنامہ’(۱۹۶۶) میں وہاں کی مختلف سیرگا ہوں اور شخصیات میں قاضی یونس، مسرور گویا، حبیب اللہ لزی اور بادشاہ خاں کا ذکر خاص طور سے اہم ہے۔ بادشاہ خاں کا ذکر کرتے ہوئے سرورؔ نے لکھا ہے کہ:

’’تقریر تو معمولی تھی مگر ہر لفظ سے خلوص اور گداز ٹپکتا تھا۔ اس لیے اس کا سبھی پر اثر ہوا تھا۔ اس بات پر افسوس کر رہے تھے کہ ہندوستان نے پٹھانوں سے جو وعدے کیے تھے انھیں وہ بھولتا جا رہا ہے۔ بادشاہ خاں نے صاف کہا کہ اُن کی تحریک ایک اصلاحی تحریک ہے۔ انگریزوں نے اس کے سیاسی امکانات کی وجہ سے اس کو کچلنا چاہا۔ ‘‘

ایک سیر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’جمعہ کو ہم لوگوں کو سیر کے لیے سالنگ کی طرف لے جایا گیا۔ سالنگ ہندو کُش میں ایک درہ ہے جو کابل سے ۸۰میل کے قریب ہے۔ ہم لوگ جَبل السراج سے کچھ آگے تک گئے۔ راستے میں دونوں طرف انگور کی بیلیں تھیں۔ حبیب اللہ لزی نے بتایا کہ یہاں دس بارہ قسم کے انگور ہوتے ہیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مکانات تھے جن کی دیواروں میں شگاف تھے۔ یہ اس لیے تھے کہ انگورسُکھائے جا سکیں۔ انگور کے علاوہ آڑو، آلوچوں، اور خوبانیوں کے بکثرت پیڑ تھے۔ کوہ دامن اس علاقے کا نام ہے۔ بچہ سَقّہ یہیں کا رہنے والا تھا۔ ‘‘

سروررؔ کا سب سے تفصیلی سفرنامہ امریکہ(۱۹۶۹ء )کا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہاں انھیں دوسری جگہوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ مدت رہنے اور زیادہ قریب سے چیزوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ خاص بات یہ ہے کہ اس سفر کے سلسلے میں پروفیسر آل احمد سرورؔ کی تحریروں کے علاوہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کا ایک خط بھی ہفت روزہ ’’ہماری زبان‘‘ علی گڑھ کے ۲۲مارچ ۱۹۷۰ء کے شمارے میں ملتا ہے۔ اس خط میں تفصیل سے امریکہ میں سرورؔ کی مصروفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پروفیسر نارنگ کے خط کے علاوہ پروفیسر اصغر عباس کے نام سرورؔ کے خطوط میں بھی اس سفر کا حال ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’یہاں یونیورسٹی کے ماحول سے متاثر ہوا۔ ہر شخص اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ کچھ لوگ صبح آتے ہیں اور شام تک رہتے ہیں۔ ویسے رات کو بھی کام کرنے کی آسانی ہے۔ سب کمروں میں ٹیلی فون ہے اور سینٹرل ہیٹنگ ہے۔ برآمدے میں کافی تیار ملتی ہے۔ صرف پانچ سینٹ خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ۔ ۔ ہمارے علاقے میں سفید فام اور سیاہ فام لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ دوسرے حصوں میں تناؤ رہتا ہے۔ آج یہاں بڑے پیمانے پر ویتنام کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ اس میں طلبا اور اساتذہ پیش پیش تھے۔ ‘‘(میرے استاد محترم سرورؔ صاحب، مطبوعہ فکر و نظر، علی گڑھ، نومبر۱۹۹۳ء )

سرورؔ نے اپنے سفرنامے میں یہ بہت اچھی بات لکھی ہے کہ:

’’ہمارے ملک میں طرف دار بہت ہیں۔ سخن فہم کم۔ اس لیے امریکہ کے متعلق عام تاثر دو طرح کا ہے۔ ایک جنت ارضی کا۔ دوسرا جہنم کا۔ دونوں تصور سطحی ہیں۔ امریکہ جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔ ‘‘

ظاہر ہے یہ سرورؔ کا توازن اور اعتدال کا مخصوص تصور ہے جس کے تحت وہ چیزوں کو صرف سیاہ یا صرف سفید کے نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتے۔ بلکہ ایک ساتھ انھیں سیاہ و سفید دونوں نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ چنانچہ وہ امریکہ کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے متوازن طور پر لکھتے ہیں کہ وہاں :

’’نہ میری آنکھیں خیرہ ہوئیں نہ مجھے مایوسی ہوئی۔ ‘‘

’’مغرب صرف علم اور دولت اور مشرق صرف جہالت اور غربت کا نام نہیں، بلکہ مشرق کی بعض قدروں کو مغرب اپنا سکتا ہے اور اپنا رہا ہے اور مغرب کی قدریں تو خیر بے سمجھے بوجھے ویسے ہی ہمارے مشرق میں اپنائی جا رہی ہیں۔ ‘‘

امریکہ میں یہودیوں کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’یہودی سرمایہ دار امریکہ کے تجارتی حلقوں اور سیاسی حلقوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ یہاں کے دانش وروں، شاعروں، مصنفوں اور ناول نگاروں میں بھی ان کا عنصر زیادہ ہے۔ ان میں لبرل خیالات رکھنے والے بلکہ بائیں بازو کے دانش ور بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ ‘‘

سیاہ فام آبادی کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’سیاہ فام لوگوں میں غریبی زیادہ ہے۔ اُن میں جرائم کی تعداد، خودکشی کی تعداد اور بچوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔‘‘

’’امریکہ میں کئی نسلیں مخلوط ہو گئی ہیں۔ اس لیے ہر طرح کے چہرے آپ کو یہاں نظر آئیں گے۔ شام کو خاصی تعداد میں سیاہ فام شوہر اور سفید فام بیوی یا سفید فام شوہر اور سیاہ فام بیوی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ ‘‘

سرورؔ کی باریک بینی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ وہاں کے اشتہارات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اُن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اشتہار کو ان لوگوں نے فن بنا دیا ہے۔ ٹی۔ وی پر ایک اشتہار اکثر دکھایا جاتا تھا۔ ایک شخص کو زکام ہے، کھانسی ہے۔ وہ پہلے ایک شیشی سامنے کی جیب میں رکھتا ہے۔ اُسے یہ جگہ اچھی نہیں لگتی۔ وہاں سے نکال کر پتلون کی جیب میں ٹھونستا ہے۔ یہ جیب اُسے بہت بھاری معلوم ہوتی ہے۔ اُس کے بعد آخر اُس جیب میں رکھ لیتا ہے جو کولھے پر ہے۔ اس سے مطمئن ہو کر وہ گولیوں کا ایک پیکٹ پھاڑتا ہے۔ ایک گولی منہ میں رکھتا ہے۔ مزا لیتا ہے۔ باقی گولیاں سامنے کی جیب میں ڈال دیتا ہے اور خوشی خوشی اپنا راستہ لیتا ہے۔ اس اشتہار کو دیکھ کر میں نے بھی وہ دوا خریدی۔ ‘‘

اسی طرح ٹی۔ وی، اخبارات، فلمیں، Best sellers، شاعری اور ادب وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے ناول نگاروں میں سال بیلو، فلپ راتھ، جان اَپ ڈائیک، میری میک کارتھی اور مالمود کا ذکر کرتے ہیں۔ شاعری میں گنس برگ کی نظم Howlیعنی چیخ اور رابرٹ لاویل ان کے نزدیک اہم ہے۔ سیاسی مفکرین میں وہ مارکوزے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اسی طرح ہنری ملر کی شاعرانہ نثر کی وہ داد دیے بغیر نہیں رہتے۔ امریکہ کے لوگوں کی انفرادیت پسندی کا بہت خوبصورتی سے ذکر کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں :

’’امریکہ میں کچھ لوگ خاصے انفرادیت پسند ہیں۔ نوجوانوں کو سکھایا جاتا ہے کہ اپنی صلاحیت کو پہچانو۔ اس پر اعتماد کرو۔ اور اس کے لیے تکلیف اُٹھانے کو تیار رہو۔ پڑھتے پڑھتے، ٹرم پیپر لکھتے لکھتے، استاد سے مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیالات کرتے کرتے اچانک کہتے ہیں کہ انھیں اس موضوع سے دلچسپی نہیں رہی۔ اس لیے اب اسے چھوڑ رہے ہیں۔ اور اس پر نہ استاد برہم ہوتا ہے اور نہ والدین۔ دونوں نوجوانوں کو اپنا شوق پورا کرنے، اپنی جنت یا دوزخ بنانے، اپنی منزل دریافت کرنے، اپنے آپ کو پہچاننے کی اہمیت سمجھتے ہیں۔ اس انفرادیت پرستی کے باوجود امریکہ کے نوجوانوں اور بوڑھوں میں میں نے خاصی سماجی لگن دیکھی۔ ‘‘

امریکہ کے بعد رومانیہ اور ہنگری کے سفرنامے (۱۹۱۷۲ئ)اہم ہیں۔ رومانیہ کے ایک شہر Petistaکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’Petistaمیدان میں واقع ہے۔ حال میں یہ شہر ترقی کر گیا ہے۔ یہاں رومانیہ کی کاریں تیار ہوتی ہیں۔ بیچ شہر میں ایک سڑک پر لوگ آزادی سے گھوم رہے تھے۔ اور ایک بھی کار نظر نہیں آتی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ سڑک صرف پیدل چلنے والوں کے لیے ہے۔ کاش!ہمارے یہاں کناٹ پلیس میں بھی کوئی سڑک ایسی ہوتی جس پرکار کا گزر نہ ہوتا۔ ‘‘

ایک جگہ رومانیہ میں بھکاریوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مجھے رومانیہ میں تین بھکاری ملے۔ ایک بکریشٹ میں شام کو ٹہلتے ہوئے، ایک ریل میں اور ایک پتشتا میں۔ ‘‘

ظاہر ہے یہ تعداد اپنے آپ میں بہت کچھ کہتی ہے۔ اسی طرح عام زندگی میں مذہب کے عمل دخل کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے :

’’مجھے رومانیہ میں مذہب کا کوئی خاص چرچا نظر نہیں آیا۔ بکریشٹ میں گرجے خاصی تعداد میں ہیں۔ ان میں لوگ عبادت بھی کرتے ہیں مگر نوجوانوں میں مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ایک میوزیم کی سیر کے دوران ایک پادری کو دیکھا، تھوڑی دیر کے بعد سڑک پر ایک اور پادری ملا۔ میری ترجمان نے بے ساختہ کہا:یہ نحوست پھر نظر آ گئی۔ ‘‘

وہاں کے تعلیمی نظام اور طلبہ کے بارے میں سرورؔ کے تاثرات بہت مثبت ہیں۔ اس بات پر ضرور حیرت ہوتی ہے کہ فصل کے موقع پر اساتذہ اور طلبہ سب کو اجتماعی فارم پر کام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن یہی بات یاد بھی رہ جاتی ہے۔

ہنگری کے سفرنامے میں سرورؔ نے دریائے ڈینوب اور بوڈ اپشٹ شہر کا خاص طور سے ذکر کیا ہے۔ وہ اس سے خاصے مسحور نظر آتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں :

’’تھوڑی دیر میں ہم دریائے ڈینوب کے پُل سے گزر رہے تھے۔ یہاں یہ دونا کہلاتا ہے، شہر میں اس پر سات پُل ہیں۔ مجھے دریاؤں سے عشق ہے۔ رہائن، ٹیمس، مِس سی، دیکھ چکا تھا۔ ڈینوب دیکھنے کی نوبت اب آئی۔ خاصا بڑا دریا ہے۔ پانی صاف ہے۔ پُل اس طرح بنے ہیں کہ جہاز گزر سکیں۔ دریا کے بیچ میں ایک جزیرہ ہے۔ اس پر کئی ریستوراں نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ در اصل پہلے تین شہر تھے۔ ایک بودا، دوسرا اَبودا، ایک کنارے پر اور دوسرے کنارے پر پشیٹ۔ ۱۸۴۲ء میں سب کو ملا کر ایک شہر بوڈاپشٹ قرار دیا گیا۔ بودا چھوٹی چھوٹی پہاڑ یوں پر مشتمل ہے جن کے دامن میں دونا خاموشی اور وقار سے بہتا ہے۔ اس علاقے میں یونیورسٹی کے بعض ادارے، کچھ دفتر، سفارت خانے، اور کچھ اچھے ہوٹل اور نسبتاً اونچے طبقے کے لوگوں کے مکانات ہیں۔ دریا کے دوسرے کنارے پر اصل شہر، بڑی بڑی دوکانیں، تھیٹر، ریستوراں، یونیورسٹی کی بہت سی عمارات، ناشروں کے دفتر اور ان کے بعد فیکٹریاں ہیں۔ پورے شہر کی آبادی بیس لاکھ ہے۔ یہ پورے ملک کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ اول اول رومن تسلط کے دور میں یہ شہر آباد ہوا۔ ماژار قبیلے کے یہاں آباد ہونے کو بھی ایک ہزار سال ہوئے۔ غرض بہت پرانا، بہت تاریخی اور بڑا خوبصورت شہر ہے۔ دونا اور بوڈاپشٹ کے متعلق بہت کچھ سنا تھا اور جیسا سنا تھا اُس سے زیادہ ہی دلکش پایا۔ ‘‘

رومانیہ سے ہنگری کا مقابلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’لوگ رومانیہ کے مقابلہ میں زیادہ گرم جوش ہیں۔ ‘‘

’’رومانیہ کے مقابلے آزادی زیادہ ہے۔ ‘‘وغیرہ

اس سفرنامے میں دونا اور بوڈاپشٹ کے بعد اگر کوئی چیز قابل ذکر ہے تووہ دو شخصیات کا ذکر ہے۔ ایک شخصیت مشہور عالم اور مستشرق عبدالکریم جرمانوس کی ہے۔ اور دوسری مشہور فلسفی لوکاچ کی۔ جرمانوس کے سلسلے میں یہ جان کر حیرت اور مسرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر ذاکر حسین سے متاثر ہو کر انھوں نے ۱۹۳۰ء میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ لوکاچ کا بھی سرورؔ نے خاصا تفصیلی ذکر کیا ہے۔

پاکستان کے سفرنامے میں انھوں نے اپنی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ :

’’اس برصغیر میں صرف تین شہر ہیں :لاہور، لکھنؤ اور حیدرآباد۔ باقی گاؤں ہیں۔ ‘‘

اس ابتدائی تاثر کے بعد لاہور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’لاہور بڑا شہر ہے۔ بقول فیض روشنیوں کا شہر، پینتیس برس بعد دیکھا تو شہر بہت پھیل گیا ہے۔ خوبصورت علاقے اور آبادیاں بڑھ گئی ہیں۔ لوگ جاندار، توانا نظر آتے ہیں۔ جا بجا نہایت خوش خط کتبے اور سائن بورڈ، سڑکیں کشادہ روشن، حسن، اور صحت اور زندگی ہر طرف رقصاں۔ ‘‘

کراچی کا ذکر اور لاہور سے مقابلہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’کراچی کا شہر اُس نو عمر کی طرح ہے جس کے ہاتھ پاؤں ہر طرف بڑھ اور پھیل رہے ہیں۔ اور جسم کچھ بے ڈھنگا سا ہے۔ ‘‘

’’لاہور میں شام جلدی ہوتی ہے۔ کراچی کی رات دیر تک جوان رہتی ہے۔ بڑی سڑکیں کشادہ اور روشن ہیں۔ لیکن ایسی سڑکیں بھی ہیں جو نئی ہونے کے باوجود ٹریفک کی کثرت کی وجہ سے ابھی سے خستہ دکھائی دیتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ کراچی ادبی نہیں تجارتی شہر ہے۔ ‘‘

اس پورے سفرنامہ میں پاکستان اور دنیا بھرکے بکثرت شاعروں اور ادیبوں کا ذکر ہے جن سے سرورؔ کی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں پروفیسر خواجہ منظور حسین، مشتاق احمد یوسفی، احمد علی، سلیم احمد، ابن انشاء، جمیل الدین عالی، فہمیدہ ریاض، محمد طفیل عبادت بریلوی، منیر نیازی، احمد فراز، صوفی تبسم، جاوید اقبال اور پروین شاکر خاص طور سے اہم ہیں۔

آج جب ان میں سے اکثر افراد اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ہم آل احمد سرور کی نظر سے انھیں پھر سے زندہ اور متحرک دیکھ سکتے ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے