منظر بچشمِ غالبؔ وہاب قیصر/طارق مسعودی

منظر بچشمِ غالبؔ

               مصنف:  پروفیسر وہاب قیصر         مبصر: ڈاکٹر طارق مسعودی

غالب ؔ ادبیات اور تفہیم حیات کے حوالے سے نہ صرف اپنے عہد کے ایک دیدہ ور تھے، بلکہ اُس کا حُسن و شعور اپنے مشاہدات و تعبیر ات کی روشنی میں زمان و مکان سے ماورائیت کے ایک ممتاز مقام پر فائز ہے۔ غالب ؔ کے فکر و تخیل کی باریک بینوں کو دانشور اور مفکرین اپنے اپنے انداز نقد و نظر سے لگاتار پیش کر رہے ہیں۔ اس بات کے سبھی معترف ہیں کہ غالبؔ جیسے تخلیق کار کو کسی مخصوص دائرے میں قید نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے یہاں جہاں بوقلمونی ہے، وہاں عصری احساس کا ایک فکر انگیز جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس چیز کا اعتراف خود غالب ؔ کو بھی تھا   ؎

خدا یا جذبہ دل کی مگر تاثیر کچھ الٹی ہے

کہ جتنا کھینچتا ہو ں اور کھینچا جائے مجھ سے

تفہیمات غالبؔ کے اس سلسلے کی جو کڑی اس وقت پیش نظر ہے ‘ وہ ہے پروفیسر وہاب قیصر کے مضامین کا مجموعہ ’’منظر بچشم غالبؔ‘‘۔ وہاب قیصر نہ صرف شہر حیدر آباد کے تدریسی، ادبی اور ثقافتی حلقو ں میں ایک الگ پہچان رکھتے ہیں ، بلکہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے ایک ذمہ دار استاد بھی ہیں۔ شرافت ‘ سادگی اور چہرے پر سدا بشا شت اُن کی ذات کے خاص آداب ہیں۔ مولانا آزاد نے درست کہا ہے : ’’خوش رہنا محض ایک طبعی احتیاج ہی نہیں ‘ ایک اخلاقی ذمہ داری بھی ہے‘‘۔

پروفیسر وہاب قیصر کی انفرادیت قائم ہے، ادب اور سائنس کے ارتباط سے اُن کی محبت، نیز شوق مطالعہ اور ذوق تحریر کے درمیان اُن کے صبر آزما تعلق سے۔ صارفیت کے اس دور ابتلاء نے تدریس کے شعبے کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اس پیشے سے وابستہ بہت سے لوگوں نے اب مالی منفعت کو ہی زندگی کا مطمع نظر بنا یا ہے۔ لیکن ایک فرد جب استاد کے ساتھ ساتھ دانشور بھی ہوتا ہے، تو پروفیسر وہاب قیصر جیسی شخصیت وجود میں آ جاتی ہے۔ بسیار نویسی اور تحقیقی کدو کاوش کے توسط سے آپ نے شائقین اردو کے علاوہ مشاہیر اردو ادب کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ ان میں شمس الرحمان فاروقی، پروفیسر شکیل الرحمان جیسے ارباب فکر و فن شامل ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب سولہ متفرق مضامین پر مشتمل ہے۔ اپنے عنوانات اور Content  کے تعلق سے خاصے افادیت کے حامل ہیں۔ یہ مضامین غالبؔ کی شاعری کی مختلف جہات کے علاوہ اُس کے سائنسی شعور، فطرت شناسی اور حقیقت شناسی سے متعلق ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ غالب کی بلند آہنگی، پر شکوہ اسلوب اور اس کے ادبی تبحّر کو مولانا آزاد اور فیض احمد فیض کے زاویہ نگاہ سے ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں۔

پہلا مضمون ’’غالب کا دل۔ حقیقی اور جمالیاتی مفہوم‘‘ اس کے آغاز میں پروفیسر وہاب قیصر نے ’دل‘ کے حال و افعال پر بحث چھیڑ دی ہے۔ اردو شعر و ادب میں دل کے استعمال کے حوالے سے آپ نے جو نکتہ نظر پیش کیا ہے، نہیں معلوم وہ کیا بات ہے، جو وہاب صاحب سامنے لانا چاہتے ہیں ؟ دل کو نہ صرف اردو بلکہ دیگر زبانوں کے ادبیات میں بکثرت مختلف پیرایوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ پروفیسر صاحب اس تناظر میں ایک طرف سقراط کو عظیم غلطی کا مرتکب قرار دیتے ہیں کہ اس نے دل کو انسانی احساسات اور جذبات کا ذمہ دار بتایا ہے لیکن دوسری جانب محسوسات دل و دماغ سے متعلق میڈیکل سائنس کی بعض اصطلاحات کا ذکر بھی کرتے ہیں ، نیز غالب کو ماہر طب کے علاوہ احساساتِ دل کا شناسا بھی بتلاتے ہیں۔ لکھتے ہیں : ’’دل کی یہ تمام کیفیات حقیقت میں رونما نہیں ہوتیں بہت سی ظاہر ہوتی ہیں اور چند کا احساس نہیں ہوتا تا وقتیکہ تفتیش کے ذریعے ڈاکٹر اس کا پتہ نہ چلائیں۔ غالبؔ طب کے بنیادی اصولوں کی جانکاری رکھتے ہیں اور اُنہیں دل کی بہت سی کیفیات سے واقفیت تھی‘‘۔ میری دانست میں اس دقیق مسئلے کے تعلق سے امام غزالی اور دیگر مفکرین کے تجزیے اور تشخیص کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں : ’’نفس یا قلب انسان کی اصل ہے یہ ایک روحانی وجود ہے جو جسمانی افعال کو کنٹرول کرتا ہے اس کو قلب کہتے ہیں ، جو جسمانی دل سے جڑا ہوتا ہے یہ تعلق یا جوڑ صرف Transcendental  ہوتا ہے۔ معرفانہ دل اصل ہے، جب کہ اس کا جسمانی فعل ایک Accident ہے‘‘۔ بقول امام غزالی نفس کو چار اصطلاحات کے حوالے سے بیان کیا جا سکتا ہے .1 قلب  .2 روح  .3 خواہش اور .4 عقل۔ لیکن امام صاحب نے خود دل کو نفس کے لئے استعمال کیا ہے۔ متذکرہ مضمون کے اس ابہامی اور تجریدی حصے کو چھوڑ کر یہ مضمون محنت سے لکھا گیا ہے۔ زیر بحث مجموعے میں ایک اور اہم او ر دلچسپ مضمون ’’غالبؔ اور نظریہ اضافیت‘‘  ہے۔ اس کی ترتیب اور تفہیم میں وہاب صاحب نے دقیقہ شناسی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ غالبؔ اورسائنسی فکر پر وفیسر صاحب برابر لکھ رہے۔ جس نے انہیں عصری اردو ادب میں ایک منفرد شناخت عطا کی ہے۔

جہاں تک ادب اور سائنس کے درمیان رشتے کا تعلق ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے نہ جانے بعض لوگ کیوں یہ عنوان سماعت فرماتے ہی خواہ مخواہ ناک بھوں چڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ علامہ اقبالؔ، جگر مراد آبادی، ابن صفی وغیرہ سے لے کر اسلوب احمد انصاری تک شعرا اور  اُدبا نے اس ضمن میں اپنے تناظرات پیش کئے ہیں۔ مثنوی مولانا روم میں جا بجا ایسی مثالیں مطالعے سے تعلق رکھتی ہیں۔ شارحین اور دانشور ان مثنوی نے اس جانب خاصی توجہ مرکوز کی ہے، جیسے مسلہ ارتقا، تبدیلی و تغیر، تجاذب ذرات واجسام وغیرہ۔ مثلاً مولانا فرماتے ہیں :

آں حکیمش گفت کز جذب سما

از جہات شش بماند اندرہوا

چوں ز مقناطیس قبہ ریختہ

درمیاں ماند آہنے آدیختہ

(اس حکیم نے اسے کہا کہ آسماں کی وجہ شش جہات کی کشش کی وجہ سے زمین فضا میں معلق ہے، جس طرح مقناطیس کا گنبد ہو اوراس کے درمیان لوہے کا ٹکڑا لٹکا ہو )۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید سائنس سے صدیوں قبل ادبیات کے اندر کس قسم کی گہری سائنسی فکر پائی جاتی تھی۔

 پروفیسر وہاب قیصر کی یہ تصنیف اپنے تنوع کی وجہ سے مطالعہ غالبیات میں ایک قابل قدر اضافہ ہے جو نوجوان قلم کاروں میں عصری ضروریات کے پیش نظر ضرور ایک محرکہ پیدا کرے گا۔ یہ کاوش پروفیسر صاحب کی بصیرت اور ان کی محنت شاقہ کی ایک واضح دلیل ہے۔ کتا ب کا سرورق سادہ لیکن جاذب نظر ہے۔ معروف ادبی ادارے غالبؔ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی نے اس کو شائع کیا ہے۔

 صفحات:   240   قیمت:  200 روپئے

ناشر:  غالب ؔ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے