علم و کتاب: مولانا آزاد ۔۔۔ عبد الماجد دریابادی

 

(مولانا دریابادیؒ کا یہ نشریہ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے مئی ۱۹۶۵ء میں نشر ہوا۔ اس میں مولانا نے مولانا ابو الکلام آزاد کی انشا پردازی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور ان کی علمی و ادبی عظمت کا اعتراف کیا ہے، مجموعہ خطوط ’’غبار خاطر‘‘ بالخصوص مولانا کے نقد و تبصرہ کا محور رہا ہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’سب سے پہلے مسئلہ باورچی کا پیش آنا تھا اور پیش آیا۔‘‘

کب؟ اور کہاں؟ جب مولانا شاہی قیدی کی حیثیت سے اور ایک شاہانہ آن بان کے ساتھ قلعہ احمد نگر میں اگست ۱۹۲۴ء میں نظر بند ہوئے، اور یہ فقرہ مولانا نے اپنے قلم سے اپنے حبیب صمیم مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی کو ۱۹ اگست کے مکتوب میں لکھا ہے۔ پورا بیان اب انھیں کی زبان سے سنیے:

’’دوسرے دن کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جیتا جاگتا انسان اندر لایا گیا معلوم ہوا کہ طباخ موعود یہی ہے۔ مگر نہیں معلوم اس غریب پر کیا بیتی تھی کہ آنے کو تو آ گیا لیکن کچھ ایسا کھویا ہوا اور سراسیمہ حال تھا جیسے مصیبتوں کا پہاڑ اس پر ٹوٹ پڑا ہو۔ اور وہ کھانا کیا پکاتا اپنے ہوش وحواس کا مسالہ کوٹنے لگا۔‘‘

عبارت مولانا ابو الکلام کے قلم جادو رقم کی ہے۔ اور ان کی کتاب ’’غبار خاطر‘‘ کے صفحہ نمبر ۵۵ سے نقل ہوئی۔ مولانا دہلی کے تھے، لکھنؤ کے نہ تھے۔ بول چال، محاورہ، روزمرہ، سارا ٹھاٹھ دہلی والوں کا، لیکن دیکھ لیا آپ نے لکھنؤ کا رنگ بھی کس بانکپن سے اپنا لیا! اور باورچی سے کیسا بے ساختہ اس کے ہوش وحواس کا مسالہ کھڑے کھڑے کُٹوا لیا۔ سبحان اللہ! اور ابھی کیا ہے اس مسالے کا چٹپٹا پن آگے ملاحظہ ہو:

’’قید خانے میں جو اسے ایک رات دن قید و بند کے توے پر سینکا گیا تو بھوننے تلنے کی ساری ترکیبیں بھول گیا۔ اس احمق کو کیا معلوم تھا کہ ساٹھ روپیے کے عشق میں یہ پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ اس ابتدائے عشق ہی نے کچومر نکال دیا۔ قلعہ تک پہونچتے پہونچتے قلیہ ہی تیار ہو گیا۔‘‘ اور میں عرض کرتا ہوں کہ اگر کہیں مولانا نے اس سے قلیہ تیار کرنے کی فرمائش کر دی ہوتی تو عجب نہیں کہ اسی دم اس کی قلیا تمام ہو جاتی۔ غالب کی طرح مولانا بھی رعایت لفظی اور صنعت مُراعاة النظیر کے نام سے کانوں پر ہاتھ دھرنے والے تھے۔ لیکن آخر ذوق زبان کے مارے ہوئے تھے اور لطفِ بیان کے گھائل۔ ایسے چٹخاروں سے بچ کر کہاں جا سکتے تھے۔ بقول شخصے:

ع غم اگرچہ جاں گسل ہے یہ کہاں بچیں کہ دل ہے!

غالب ہی کی طرح جب کبھی اس شجر ممنوعہ کو ہاتھ لگایا تو جسد بے جان میں روح پھونک دی، پتھر کو ہیرا بنا دیا۔ آبنوس کو کندن کی طرح چمکا دیا۔ ذرہ بے نور کو آفتاب کی تپش و تابش دے دی۔ ادب عالیہ یا کلاسکس کی اصطلاح تو اردو میں بعد کو چلی ہے باقی یہ کلاسیکل یا عالی قدر ادب تو مولانا کا جیسے حصہ تھا۔ ان کے قلم کا شروع ہی سے ایک امتیازی خاصہ تھا۔

تیور مردانہ، لہجہ شریفانہ، ترکیبوں میں جزالت، الفاظ میں جلالت، تشبیہوں میں جدت، استعاروں میں ندرت، خیال میں بلندی، بیان میں صفائی، مطالب فکر انگیز، اسلوب ولولہ خیز، نثر ہر جگہ ادیبانہ، کہیں خطیبانہ، خطابت کا مزاج شاہانہ، عبارت کی سطح کہیں حکیمانہ کہیں حاکمانہ، حکمت کی جگہ حکمت، ظرافت کی جگہ ظرافت، حکایت غم و حزن ہو یا داستان سرور و نشاط، لطافت و شادابی سطر سطر سے عیاں، اور آمد اور بے ساختہ پن لفظ لفظ سے نمایاں، مطالعہ میں گہرائی، مشاہدہ میں گیرائی، بات میں بات پیدا کرنے کا وہ سلیقہ اور معمولی جزئیات سے دور رس نتائج نکالنے کا وہ ملکہ کہ دھوکہ حضرت رومیؒ کی مثنوی کے دفتروں کا ہونے لگے۔

دین و مذہب مولانا کے قلم کا موضوع خصوصی سالہا سال تک رہا۔ ‘الہلال’، ‘البلاغ’ کے سارے صحافتی اور کتاب ‘تذکرہ’ کے تصنیفی دور کا حرف اول بھی یہی ہے اور حرف آخر بھی یہی۔ بائے بسم اللہ بھی یہی اور تائے تمت بھی یہی۔ خشکی مذہبی تحریروں کا ایک لازمی جز سمجھ لی گئی ہے۔ مولانا کا قلم اس علت سے کوسوں دور کیا منزلوں دور رہا۔ یہاں تک کہ جن فِقہی عنوانات پر مولانا نے قلم اٹھایا ہے، انھیں بھی گل و گلزار بنا کر چھوڑا ہے۔ قادر الکلام کا لفظ ہمارے یہاں شاعروں ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نثر نگاری میں کسی پر اس کا اطلاق اگر پوری طرح ہو سکتا ہے تو وہ ابو الکلام کی ذات ہے۔ مضمون خوشی کا ہو یا غم کا، داستان رزم کی ہو یا بزم کی، موضوع فنی ہو یا شعری، عنوان سیاسی ہو یا فلسفیانہ، یہ سدا بہار قلم ہر انداز بیاں، ہراسلوب نگارش، ہر پرواز فکر پر یکساں قادر۔ ’’غبار خاطر‘‘ کہنا چاہیے کہ ان کی سب سے آخری کتاب ہے، اسے جو کھولا تو اتفاق سے جو صفحہ کھل آیا تو لیجیے اسی کا ایک ٹکڑا سماعت میں لے آئیے:

’’غور کیجیے، تو یہ بھی ہمارے وہم و خیال کا ایک فریب ہی ہے کہ سر و سامان کار ہمیشہ اپنے سے باہر ڈھونڈتے رہتے ہیں اگر یہ پردۂ فریب ہٹا کر دیکھیں تو صاف نظر آ جائے کہ وہ ہم سے باہر نہیں ہے۔ خود ہمارے اندر ہی موجود ہے۔ عیش و مسرّت کی جن گل شگفتگیوں کو ہم چاروں طرف ڈھونڈھتے ہیں اور نہیں پاتے، وہ ہمارے نہاں خانۂ دل کے چمن زاروں میں ہمیشہ کھلتے اور مرجھاتے رہتے ہیں۔ لیکن محرومی ساری یہ ہوئی کہ ہمیں چاروں طرف کی خبر ہے، مگر خود اپنی خبر نہیں، ‘وَفِی اَنفُسِکُم اَفَلَا تُبصِرُون’ جنگل کے مور کو کبھی باغ و چمن کی جستجو نہیں ہوئی۔ اس کا چمن خود اس کی بغل میں موجود رہتا ہے۔ جہاں کہیں اپنے پروں کو کھول دے گا ایک چمنستان بوقلموں کھل جائے گا۔ قید خانے کی چار دیواری کے اندر بھی سورج ہر روز چمکتا ہے اور چاندنی راتوں نے کبھی قیدی و غیر قیدی میں امتیاز نہیں کیا۔ صبح جب طباشیر بکھیرتی ہوئی آئے گی اور شام جب شفق کی نیل گلگوں چادریں پھیلانے لگے گی، تو صرف عشرت سراؤں ہی کے دریچوں سے ان کا نظارہ نہیں کیا جائے گا، قید خانوں کی دیواروں سے لگی ہوئی نگاہیں بھی انھیں دیکھ لیا کریں گی۔‘‘

اخذ و اقتباس کے اس ننھے سے آئینے میں آپ نے انشاء ابو الکلام کی دلآویزیوں کی جھلک دیکھ لی۔ ان کے ہزارہا صفحات کے دفتر انشاء میں سب اسی طرح کی بسط و تفصیل ملے گی۔ ان کا ہر رنگ تحریر پر قادر بے شبہ رہا، لیکن ایک چیز کا استثنا رہ ہی گیا۔ وہ اب سن لیجیے: جس میدان میں ان کا رہوار قلم دوڑنے کیا چلنے سے بھی معذور رہا۔ اس کا نام ہے کرختگی۔ یہ نہیں کہ انھیں غصہ نہ آتا ہو۔ لیکن عتاب بھی لطفِ خطاب سے خالی اور رنگِ جلال پر تو جمال سے عاری نہ ہوتا۔

ایک خیال یہ ہے کہ مولانا کے مرقع میں درد و الم، غم و حزن کی مصوری درجہ کمال کی نہیں ملتی۔ لیکن یہ خیال کچھ یوں ہی سا ہے۔ اظہارِ غم کے طریقے ہم سب میں یکساں کب ہیں؟ کوئی بے اختیار ہو کر چیخنے چلانے لگ جاتا ہے۔ کسی کو دہاڑیں مار کر رونا آنے لگتا ہے، اورکسی کے منتہائے غم کی مقدار ہیں چند سسکیاں اور پھر خاموشی۔

مولانا کے بھی دلی غم و حزن کی ترکیب میں عنصر اسی متانت و خود داری کے شامل ہیں۔ اپنی رفیقۂ حیات بی بی زلیخا کو بیمار چھوڑ کر قلعہ احمد نگر میں نظر بند ہوئے۔ خبر انتقال پا کر اپنے ایک عزیز کو لکھتے ہیں تو دیکھیے کس خاموش و پر اثر انداز میں:

’’۳۱ اگست کو جب میں بمبئی کے لیے روانہ ہونے لگا، تو وہ حسب معمول دروازہ تک خدا حافظ کہنے کے لیے آئی۔ اس نے خدا حافظ کے سوا اور کچھ نہ کہا۔ لیکن اگر وہ کچھ کہنا بھی چاہتی، تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی جو اس کے چہرے کا خاموش اضطراب کہہ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں، مگر چہرہ اشک بار تھا، گذشتہ ۲۵ برس کے اندر کتنے ہی سفر پیش آئے اور کتنی ہی بار گرفتاریاں ہوئیں۔ لیکن اس درجہ افسردہ خاطر میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شاید وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس کی زندگی میں یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ وہ خدا حافظ اس لیے نہیں کہہ رہی تھی کہ میں سفر کر رہا تھا، وہ اس لیے کہہ رہی تھی کہ وہ خود سفر کرنے والی تھی۔ ۲۳ مارچ کو مجھے پہلی اطلاع اس کی خطرناک علالت کی ملی بالآخر ۹ اپریل کو زہر غم کا یہ پیالہ لبریز ہو گیا اس طرح ہماری ۳۶ برس کی ازدواجی زندگی ختم ہو گئی اور موت کی دیوار ہم دونوں میں حائل ہو گئی۔ ہم اب بھی ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں۔ مگراس دیوار کی اوٹ سے! یہاں ایک احاطے کے اندر ایک پرانی قبر ہے۔ نہیں معلوم کس کی ہے جب سے آیا ہوں سیکڑوں مرتبہ اس پر نظر پڑ چکی ہے۔ لیکن اب اسے دیکھتا ہوں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک نئی طرح کا انس اس سے طبیعت کو پیدا ہو گیا ہے۔ کل شام کو دیر تک اسے دیکھتا رہا۔‘‘ (ص ۲۸۲۔ ۲۸۳)

لیجیے وقت مقررہ میں سے ساڑھے نو منٹ ختم ہو گئے۔ یعنی آدھے منٹ میں بس اتنا سن لیجیے کہ خدا نخواستہ اگر ادبیات اردو کا سارا ذخیرہ جل کر خاکستر ہو جائے اور تنہا ابو الکلام کی ’تخلیقات‘ (یہ لفظ میرا نہیں ہے) باقی رہ جائیں تو انشاء اللہ ادب اردو کی عظمت و جلالت کا اندازہ لگانے کے لیے وہ بس ہوں گی۔ اور خدا نخواستہ ابو الکلامیات کے بھی دوسرے اجزا معدوم ہو جائیں تو ان کا بھی سارا عطر کھنچا کھنچایا ایک غبار خاطر کے اندر موجود ملے گا۔ اور خود یہ غبار خاطر عطیہ کس کا ہے؟ جیل کا! یوسف علیہ السلام تو پیغمبر تھے، مگر ان کے بھی جوہر کو جلا جا کر کہاں ہوئی؟ قید زنداں کی چہار دیواری کے اندر! تو حیرت نہ کیجیے کہ اس سنت یوسفی کا حق اپنی بساط بھر بی بی زلیخا کی ہم نام کے شوہر نے ادا کیا۔ جو اپنی نوجوانی میں خود یوسف جمال مشہور تھا!

(منقول: نشریات ماجدی ترتیب جدید مع تخریج و تحشیہ مرتبہ زبیر احمد صدیقی، براؤن پبلی کیشنز، نئی دہلی، 2016ء)

http://www.bhatkallys.com/ur/aut hor/abdulmajid/

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے