مسز زمان ۔۔۔ شکیل خورشید

 

’’زمان نہیں رہے‘‘

مسز زمان نے شدتِ جذبات سے لرزتی آواز میں فون پر اسے بتایا۔ اور اس کے ذہن میں بیتے دنوں کی یادیں در آئیں۔

****

زمان کے ساتھ اس کے خاندانی مراسم، دوستی، بے تکلفی اور احترام، ہر طرح کا رشتہ تھا۔

تقریباً دس گیارہ سال قبل ایک دن زمان نے باتوں باتوں میں ذکر کیا، ’’یار آج کل اکثر سر میں درد رہتا ہے‘‘

’’بڈھے ہو رہے ہیں جناب‘‘ زمان اس سے عمر میں کوئی آٹھ دس سال بڑے تھے لیکن عمروں کا یہ تفاوت کبھی ان کثیر جہتی تعلقات کی راہ میں حائل نہ ہوا تھا۔

چند دن بعد،

’’یار یہ ہاتھ کبھی کبھی سن ہو جاتا ہے‘‘

’’بھئی اب سچ مچ میں بیمار ہونے کی نہیں ہو رہی، کسی ڈاکٹر سے مشورہ کریں‘‘

’’بھائی، ان کو ہاسپٹل لے کر جانا ہے، ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ اور سی ٹی سکین لکھا ہے، آج کل ہاتھ میں کافی تکلیف رہتی ہے‘‘ مسز زمان نے فون پر بتایا۔

سر میں مستقل درد اور بازو سن ہو جانے کی شکائت سے شروع ہونے والے معاملے کو فالج میں ڈھل کر معذوری کی شکل اختیار کرتے کرتے کئی ماہ لگے تھے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس مستقل اپاہجی کا ادراک زمان کو، اس کے اہلِ خانہ کو اور خود اسے بھی رفتہ رفتہ ہی ہوا تھا۔

زمان اچھے گریڈ پر سرکاری ملازم تھا۔ میڈیکل فری تھا، اس لئے علاج معالجے میں اخراجات کی پریشانی تو نہیں تھی، البتہ مستقل معذوری کی بنا پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ سے گھریلو آمدن یقیناَ سکڑ گئی تھی۔ لیکن بفضلِ خدا، بھلے وقتوں میں گھر بنا لیا تھا، لہٰذا اس جانب سے سکون تھا۔ اسی مکان کا اوپر والا پورشن کرائے پر اٹھا دیا۔ کرائے اور زمان کی پینشن سے دو بچوں کی پڑھائی اور گھر کا خرچہ نکلنا شروع ہو گیا۔ ریٹائرمنٹ پر ملنے والے واجبات سے ایک جگہ انویسٹمنٹ کر دی گئی، جہاں سے ہر سہ ماہی ایک معقول رقم آ جاتی تھی، اس طرح اوپر کے اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔ غرض، مالی مشکلات نہیں تھیں۔

لیکن ایک مستقل بستر پر پڑے مریض کی کل وقتی نگہداشت سے جڑی ہوئی مشکلات محض مالی نہیں ہوتیں۔

****

’’بھائی وہ نیا میل نرس بھی کام چھوڑ گیا ہے‘‘

’’افوہ! اب کیا ہوا؟‘‘

’’کیا بتاؤں بھائی، یہ بھی تو چڑچڑے ہوتے جا رہے ہیں‘‘

’’یوں تو بڑا مشکل ہو جائے گا، اصل میں مالش وغیرہ تو لوگ آسانی سے کر دیتے ہیں لیکن پیشاب، پاخانہ اور باقی پرسنل ہائیجیئن وغیرہ کا کام بڑا ٹیڑھا معاملہ ہے۔ فی الحال کون دیکھ رہا ہے؟‘‘ پوچھتے ہی اسے اپنی بے وقوفی پر افسوس ہوا، بھلا یہ کوئی پوچھنے والی بات تھی۔

’’جی ابھی تو میں خود ہی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ مسز زمان کی آواز میں خجالت نمایاں تھی۔

’’آپ فکر نہ کریں، میں کچھ دیکھتا ہوں‘‘ اس نے کہہ تو دیا مگر اسے خود بھی احساس تھا کہ یہ آسان نہیں بلکہ نا ممکن ہی ہے۔ پچھلی دفعہ بھی بڑی مشکلوں سے راضی ہوا تھا وہ میل نرس۔۔ اس نے دوبارہ اسی سے بات کرنے کا ارادہ کیا۔

’’سر بات پیسوں کی نہیں، ٹھیک ہے پیمپر بندھا ہوتا ہے لیکن صفائی تو ہاتھ سے ہی کرنی پڑتی ہے، کسی کا فضلہ صاف کرنا آسان کام نہیں، اوپر سے صاحب کی ڈانٹ پھٹکار‘‘

پیسوں کا لالچ، خدمتِ خلق کا واسطہ، نہ جانے کیا کیا تاویلیں دیں اس نے، لیکن اسے نہ ماننا تھا سو نہ مانا۔

****

وہ زمان کے لئے میل نرس کا انتظام نہ کر سکا تھا۔ مسز زمان بھی بات سمجھ گئی تھی۔ بہر حال وہ وقتاَ فوقتاَ زمان سے ملنے جاتا رہا۔ ایک متحرک، پر عزم، خوش پوشاک، زندگی سے بھر پور، جوان جہان مرد سے بستر پر پڑے ایک معذور، لاغر، محتاج عضوِ معطل تک کا سفر، جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح اور نفسیات کو بھی کچل گیا تھا۔ اس کی شگفتہ مزاجی چڑچڑاہٹ میں، ہمت مایوسی میں اور امید نومیدی میں ڈھل گئی تھی۔ ہنستا بستا گھر ایک گھٹن زدہ قید خانہ بن گیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ فیضان بھی اس سے کنی کترانے لگا تھا۔

’’کیا کروں بھائی، ہر وقت تو بچوں کو ڈانٹتے رہتے ہیں‘‘

فیضان بڑا بیٹا تھا اور میٹرک میں تھا، اس سے چھوٹی بیٹی زری تھی جو آٹھویں جماعت میں تھی۔

یہ ڈانٹ محض بچوں تک ہی محدود نہ تھی، مسز زمان بھی موقع بے موقع اس کی زد میں آ جاتی تھی، کئی بار اس کی موجودگی میں بھی زمان ہتھے سے اکھڑا تھا۔

’’زخم دینے کے لئے زبان ہی کافی ہوتی ہے، ان کا تو ایک ہاتھ بھی سلامت ہے‘‘

آنکھ سے اوپر ماتھے پر نیل کے نشان کو بالوں میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اس نے کہا۔

’’آپ کبھی کبھی کہیں نکل جایا کریں، سہیلیوں کی طرف، میکے میں کسی کے پاس، طبیعت بشاش ہو جایا کرے گی‘‘

’’میں بھی پیچھے ہٹ جاؤں تو کون سنبھالے گا انہیں‘‘

دونوں میاں بیوی میں محبت سے زیادہ عزت اور ذمہ داری کا بندھن تھا۔ دونوں کی عمروں میں قریب بارہ سال کا فرق تھا۔ ابتدائی سالوں میں بھی اس نے دونوں کے درمیان محبت کی گرم جوشی کبھی نہ دیکھی تھی۔ یوں ہنسی مذاق، چھیڑ چھاڑ، تحفے تحائف، ادب آداب سب چلتا تھا۔ لیکن آمنے سامنے یا اکیلے میں بھی اسے زمان کی باتوں میں محبت کا ذائقہ کبھی محسوس نہ ہوا۔ اور رہیں مسز زمان، تو خواتین کے لئے تو ایسا اظہار ویسے ہی قابلِ گردن زنی ہے ہمارے معاشرے میں۔ بس ایک اچھے روائتی میاں بیوی والا تعلق تھا، جسے بیماری سے پہلے کے سترہ اٹھارہ سالوں میں دونوں بڑی کمٹمنٹ کے ساتھ نبھاتے آئے تھے۔

لیکن پچھلے دس سالوں میں اس نے ایک طرف بیماری کے ساتھ ساتھ بتدریج زمان کی ذہنی اور نفسیاتی تنزلی دیکھی تھی، جبکہ دوسری جانب مسز زمان کو اسی حساب سے ذمہ داریوں، مصروفیتوں اور تنہائیوں میں گھُلتے دیکھا تھا۔ اور اس سارے عمل میں عزت اور ذمہ داری کے بندھن کو کمزور، کرم خوردہ اور کھوکھلا ہوتے بھی دیکھا تھا۔ اچھی بات یہ تھی کہ مسز زمان نے بھرم بنائے رکھا تھا، دوسری اچھی بات یہ تھی کی اس نے بچوں کو سنبھال لیا تھا۔ مناسب سکولوں میں اچھی تعلیم حاصل کر کے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کو تیار ہو رہے تھے۔ بری بات یہ تھی کہ وہ شوہر کے ہوتے ہوئے ایک بیوگی کی زندگی گزار رہی تھی۔ نہ صرف بیوگی کی، بلکہ ایک مہیب قید کی بھی۔ وہ قید جو قیدِ تنہائی بھی تھی اور قید بامشقت بھی۔ جو غلیظ کام میل نرس منہ مانگے معاوضے کے ساتھ بھی کرنے کو تیار نہ ہوئے تھے، وہ روزانہ کی بنیاد پر بلا معاوضہ انجام دے رہی تھی۔ پینتیس سال کی تھی جب زمان بیمار ہوا تھا۔ ایک جواں عمر عورت کے جذبات و احساسات، زندگی کے عزائم، ارادے، توقعات کچھ بھی نہیں تھا اس کے چہرے پر۔ بسا اوقات اس کو محسوس ہوتا کہ اس نے اپنی حسیات کو تالا لگا لیا ہے۔ اس کی گفتگو مسلسل زمان کی بیماری اور اس کی طبیعت کے گرد گھومتی رہتی۔ اپنے بارے میں، حتیٰ کہ بچوں کے بارے میں بھی اس نے کبھی کچھ نہیں بولا تھا۔

****

اس لئے جب اس نے فون پر مسز زمان کے منہ سے سنا کہ

‘‘ زمان نہیں رہے‘‘

تو اسے لگا کہ مسز زمان کی آواز میں دکھ تو نمایاں تھا ہی، لیکن کہیں بہت نیچے، زمانے سے چھپی ہوئی، ڈری سہمی بے یقین سی ایک سکون کی سانس بھی تھی۔ وہ سانس جو عمر قید کا قیدی اچانک رہائی کی خبر ملنے پر لیتا ہے۔ اس قیدی کی بے یقینی اور وسوسوں سے بھری سانس جو صیاد سے اتنا مانوس ہو چکا تھا کہ رہائی کی خبر پر مرا تو نہیں لیکن زندگی کے مقصد سے محروم خالی خالی آنکھوں سے خلاؤں کو کھوج رہا تھا۔

****

تدفین میں تین دن لگ گئے، زری اور اس کے شوہر کو لندن سے آنا تھا۔

سوئم اور دسویں کے ختم وغیرہ سے فارغ ہو کر ایک دن وہ زمان کے گھر گیا تو فیضان سے ملاقات ہوئی۔ مسز زمان کا پوچھا تو اس نے عجیب نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’امی عدت میں ہیں‘‘

اسے کچھ وقت لگا صورتحال سمجھنے میں۔ زمان کی موجودگی میں اسے کبھی اس گھر میں اپنے غیر ہونے کا احساس نہیں ہوا تھا۔ اس کے انتہائی چڑچڑے پن، غصے اور شکی مزاجی کے وقتوں میں بھی نہیں۔

’’بڑی لمبی مشقت کاٹی ہے بھابھی آپ نے‘‘

عدت کے بعد پہلی ملاقات میں اس نے کہا۔

’’امی کو عادت ہو گئی تھی ابا کے کام کرنے کی، انہیں مشقت نہیں لگتی تھی، اپنوں کے کام مشقت نہیں ہوتے۔‘‘

اس نے گہری نظر سے پہلے بیٹے کو دیکھا اور پھر مسز زمان کو، جو نظریں چرائے ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ اگلی دو تین ملاقاتوں میں بھی میں مسز زمان کے ساتھ کوئی تیسرا فرد بھی بالاہتمام موجود ہوتا۔ اس نے خود بھی معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے آنا جانا کم کر تے کرتے تقریباً ترک کر دیا۔

****

’’انکل، پلیز آ کر امی کو سمجھائیں‘‘

فیضان کی یہ کال زمان کی موت سے تقریباَ تین سال بعد آئی تھی۔

اس دوران فیضان کی شادی ہو چکی تھی اور اب وہ اچھی بھلی پرائیویٹ نوکری پر فائز تھا۔

’’کیا ہوا بھابھی؟ فیضان کا فون آیا تھا‘‘

اس نے گھر جانے سے پہلے فون پر بات کرنا مناسب سمجھا تھا۔

’’اس کا خیال ہے اس کی ماں بد چلن ہو گئی ہے‘‘

اس ابتدائی دھماکے کے بعد ہونے والی تقریباَ ایک گھنٹے کی گفتگو کے بعد زمان کے گھر جاتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ سمجھائے جانے کی ضرورت مسز زمان کو زیادہ ہے یا فیضان کو۔

اس طویل گفتگو سے جو نقشہ اس کے ذہن میں بنا وہ یوں تھا کہ زمان کی موت کے ابتدائی غم اور صدمے سے نکلنے کے بعد مسز زمان یک دم شوہر کی تیمار داری اور دیگر ذمہ داریوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر اب شعوری یا لاشعوری طور پر کسی قسم کی روک ٹوک قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔ جیسے وہ اپنے حصے کے سب دکھ درد، کشٹ کٹھنائیاں گزار چکی ہو اور اب اپنے حصے کا سکون، اپنے حصے کی آسانیاں، اپنے حصے کی فرصت ڈھونڈ رہی ہو۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ گھر کی چار دیواری سے باہر بھی ایک دنیا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار ہیں، سہیلیاں ہیں، میکہ ہے۔ سوشل میڈیا کی کرامات تو گڑے مردے بھی اکھاڑ لیتی ہیں، یہاں تو سب لوگ یہیں آس پاس موجود تھے، رابطے بحال ہوئے، تعلقات استوار ہوئے اور مسز زمان ایک نئی زندگی سے متعارف ہو گئی۔ کسی سہیلی کے گھر، کسی پینٹنگ کی نمائش میں، کتابوں کے میلے پر۔ میل جول، گھومنا پھرنا بڑھا تو آنے جانے کے لئے فیضان کی محتاجی رکاوٹ محسوس ہوئی، مسز زمان نے اوبر کا سہارا لے لیا۔ یہاں سے فیضان کے اعتراضات شروع ہوئے۔ ایک دو دفعہ سہیلیوں کے ہاں سے واپسی پر اوبر کال کرنا چاہی تو سہیلی اپنے میاں کے ساتھ ڈراپ کرنے آ گئی، ایک دن سہیلی کے بنا ہی اس کا شوہر مسز زمان کو ڈراپ کر گیا۔ بیٹے کی غیرت، حمیت، اسلام سب کچھ بیک وقت جاگ اٹھا۔

’’امی، اس سب کی نہ ہمارا دین اجازت دیتا ہے نہ معاشرہ‘‘

اس کا دل چاہا فیضان سے پوچھے جب تمہاری ماں پینتیس سال کی عمر میں ایک زندہ لاش کے ساتھ بیوگی کی زندگی گزار رہی تھی تو اس وقت اس کا معاشرہ اور دین کہاں تھا؟ دین کے ٹھیکیداروں کو مہینے کے چھ دن عورت کی عدم دستیابی میں چار شادیوں کا جواز تو نظر آتا ہے، لیکن وہی دین جب ایک ایسی عورت کو علیحدگی اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کا شوہر اس کے ازدواجی حقوق ادا نہ کر سکے، تو ان کو دین بھول کر معاشرتی اقدار یاد آ جاتی ہیں؟

’’بس آپ امی کو سمجھائیں اس عمر میں ایک عورت کو یہ سب زیب نہیں دیتا‘‘

مسز زمان چاہے ماں تھی مگر تھی تو عورت۔

مگر یہ عورت سرکشی پر آمادہ تھی۔

آمادہ تو تھی، کیا تیار بھی تھی؟

****

زمان کی پنشن آ رہی تھی، اس لئے مالی طور پر مسز زمان فیضان پر ڈیپنڈنٹ نہیں تھی۔ زمان کے ترکے میں سے اپنا حصہ چھوڑ چکی تھی، کیوں؟ مروت، محبت، مامتا، کچھ بھی نام دے لیں لیکن عملی صورتحال یوں تھی کہ بیٹے کے پاس ادا کرنے کے لئے رقم ہی نہ تھی۔ جو کچھ انوسٹمنٹ یا بچت وغیرہ تھی اس سے بمشکل زری کا حصہ ادا ہوا جو اس کے سسرال کی توقعات کے پیشِ نظر مجبوری کی حد تک ضروری تھا۔ مسز زمان کے حصے کی ادائیگی کے لئے فیضان کو مکان بیچنا پڑتا، اس لئے مسز زمان نے حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔

’’میں بھی تو اسی گھر میں رہوں گی‘‘ تب اس نے سوچا تھا۔

لیکن اب وہ اس گھر میں رہنے کی قیمت اپنی خود مختاری کی شکل میں دے رہی تھی۔

’’آپ تو گواہ ہیں بھائی، ساری زندگی، ساری جوانی میں نے زمان کی خدمت، اس کی دیکھ بھال میں گزار دی۔ کبھی یہ سوچ تک بھی میرے ذہن میں نہیں آئی کہ میری اپنی بھی زندگی ہے۔ خواہش، حسرت، امید، کچھ بھی نہیں پالا میں نے اپنے ذہن میں۔ اب وہ نہیں ہیں تو کیا اب بھی میں اپنی مرضی سے نہیں جی سکتی؟ یقین کریں میرا کوئی ایسا ویسا معاملہ نہیں ہے، لیکن میں یہ وضاحتیں کیوں دیتی پھروں؟ کسی کو بھی کیوں اور سب سے بڑھ کر اپنے بیٹے کو؟ کبھی سوچا بھی نہیں تھا میرے اپنے بیٹے کو میرے کہیں آنے جانے پر کوئی اعتراض ہو گا۔ اور وہ ہوتا کون ہے اعتراض کرنے والا؟‘‘

’’وہ مرد ہوتا ہے اعتراض کرنے والا بھابھی، اور مرد ہی کیا، یہاں تو پورا معاشرہ اعتراض کرنے کا خود ساختہ اختیار لئے بیٹھا ہے‘‘

’’فیصلہ آپ کو کرنا ہے، بھابھی، آپ کے لئے کیا اہم ہے، یہ مرد بیٹا؟ یہ معاشرہ؟ یا اپنی خود مختاری؟ اگر اپنی آزادی پیاری ہے تو مشکل آپشنز منتخب کرنی پڑیں گی۔ اس گھرکے آرام، اس کے تقدس کے سراب کو خیر باد کہنا ہو گا۔ ہمت کریں، آپ کے پاس پنشن آتی ہے، کوئی چھوٹی موٹی ملازمت پکڑ لیں اور کسی ورکنگ ویمن ہوسٹل میں شفٹ ہو جائیں‘‘

’’لیکن۔۔۔۔‘‘

’’اس لیکن کا جواب پون صدی پہلے ساحر نے دے دیا تھا۔ ، ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر لیں، ورنہ جیسے بیٹا کہتا ہے ویسے پردہ کر لیں۔‘‘

وہ مسز زمان کا جواب سنے بغیر وہاں سے اٹھ آیا۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے