غزلیں ۔۔۔ عنبر بہرائچی

 

شب خواب کے جزیروں میں ہنس کر گزر گئی

آنکھوں میں وقت صبح مگر دھول بھر گئی

 

پچھلی رتوں میں سارے شجر بارور تو تھے

اب کے ہر ایک شاخ مگر بے ثمر گئی

 

ہم بھی بڑھے تھے وادیِ اظہار میں مگر

لہجے کے انتشار سے آواز مر گئی

 

تجھ پھول کے حصار میں اک لطف ہے عجب

چھو کر جسے ہوائے طرب معتبر گئی

 

دل میں عجب سا تیر ترازو ہے ان دنوں

ہاں اے نگاہ ناز بتا تو کدھر گئی

 

مقصد صلائے عام ہے پھر احتیاط کیوں

بے رنگ روزنوں سے جو خوشبو گزر گئی

 

اس کے دیار میں کئی مہتاب بھیج کر

وادیِ دل میں اک اماوس ٹھہر گئی

 

اب کے قفس سے دور رہی موسمی ہوا

آزاد طائروں کے پروں کو کتر گئی

 

آندھی نے صرف مجھ کو مسخر نہیں کیا

اک دشت بے دلی بھی مرے نام کر گئی

 

پھر چار سو کثیف دھوئیں پھیلنے لگے

پھر شہر کی نگاہ ترے قصر پر گئی

 

الفاظ کے طلسم سے عنبرؔ کو ہے شغف

اس کی حیات کیسے بھلا بے ہنر گئی

٭٭٭

 

گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا

کہ جس کا لمس بہاروں میں رنگ بھرتا تھا

 

جہاں پہ سادہ دلی کے مکیں تھے کچھ پیکر

وہ جھونپڑا تھا مگر پر شکوہ کتنا تھا

 

مشام جاں سے گزرتی رہی ہے تازہ ہوا

ترا خیال کھلے آسمان جیسا تھا

 

اسی کے ہاتھ میں تمغے ہیں کل جو میداں میں

ہماری چھاؤں میں اپنا بچاؤ کرتا تھا

 

یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ

مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا

 

ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا

یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا

 

وہ ایک جست میں نظروں سے دور تھا عنبرؔ

خلا میں صرف سنہرا غبار پھیلا تھا

٭٭٭

 

 

 

جلتے ہوئے جنگل سے گزرنا تھا ہمیں بھی

پھر برف کے صحرا میں ٹھہرنا تھا ہمیں بھی

 

میعار نوازی میں کہاں اس کو سکوں تھا

اس شوخ کی نظروں سے اترنا تھا ہمیں بھی

 

جاں بخش تھا پل بھر کے لیے لمس کسی کا

پھر کرب کے دریا میں اترنا تھا ہمیں بھی

 

یاروں کی نظر ہی میں نہ تھے پنکھ ہمارے

خود اپنی اڑانوں کو کترنا تھا ہمیں بھی

 

وہ شہد میں ڈوبا ہوا لہجہ وہ تخاطب

اخلاص کے وہ رنگ کہ ڈرنا تھا ہمیں بھی

 

یاد آئے جو قدروں کے مہکتے ہوئے گلبن

چاندی کے حصاروں سے ابھرنا تھا ہمیں بھی

 

سونے کے ہنڈولے میں وہ خوش پوش مگن تھا

موسم بھی سہانا تھا سنورنا تھا ہمیں بھی

 

ہر پھول پہ اس شخص کو پتھر تھے چلانے

اشکوں سے ہر اک برگ کو بھرنا تھا ہمیں بھی

 

اس کو تھا بہت ناز خد و خال پہ عنبرؔ

اک روز تہ خاک بکھرنا تھا ہمیں بھی

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے