تلاشِ مشکِ شگفتگی ۔۔۔ غضنفر

 

دہلی کی ادبی محفلوں میں کچھ لوگ طول طویل مقالے پڑھ کر اور لمبی چوڑی تقریریں فرما کر بھی اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلا پاتے وہیں ایک شخص ایسا بھی ہے جو محفل میں ٹھیک سے دکھائی بھی نہیں دیتا، محض دو ایک مختصر جملے بول کر بھی اپنے ہونے کا ادراک کرا دیتا ہے۔

کوئی سوچ سکتا ہے کہ اس کے مختصر جملوں میں آخر ایسا کیا ہوتا ہو گا کہ بولتے ہی نہ دکھائی دینے والا آدمی یکایک ایک ایک نگاہ کا مرکز بن جاتا ہے اور اس کا قد یک لخت اتنا اوپر اٹھ جاتا ہے کہ بیٹھ جانے کے بعد بھی وہ ایستادہ نظر آتا ہے۔ میں نے اس کے کچھ جملوں کو یکجا کر کے تجزیہ کیا تو پایا کہ ان میں تو پسی ہوئی بجلیاں ہیں جو کوندتی ہیں تو حیات کے تاریک گوشے بھی روشن ہو جاتے ہیں اور کائنات کے تنگ کوچے بھی پھیل کر شاہراہ بن جاتے ہیں۔ یہ وہ بجلیاں ہیں جو اپنے جلوؤں سے جلاتی بھی ہیں اور جِلاتی بھی۔ رلاتی بھی ہیں اور ہنساتی بھی۔ ان کی قدر و قیمت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو یہ جانتا ہے کہ یہ کہاں کہاں سے پکڑی جاتی ہیں؟ انھیں تخلیقی ہاؤن میں کس طرح ڈالا جاتا ہے اور انھیں کوٹنے پیسنے میں کب تک اور کتنی بار تخیلی دستہ چلایا جاتا ہے؟ اپنے تجرباتی عمل کے دوران میں نے یہ بھی پایا کہ اس کے ان ڈیڑھ انچ کے جملوں میں ایسے ایسے تیر و تفنگ ہیں جو دل میں پیوست ہوتے ہیں تو تیرِ نیم کش والی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ رگوں میں مزہ اور خوشی دینے والی خلش بھر دیتے ہیں۔ ان میں ایسے ایسے پلیتے لگے ہیں کہ جو سلگتے ہیں تو چٹانوں کو بھی اڑا دیتے ہیں جن سے پتھریلی زمینیں بھی دہل جاتی ہیں۔ سخت ترین مزاجوں میں بھی دیر تک دھمک ہوتی رہتی ہے۔ اس شخص کی کہانیاں اور دیگر تخلیقی تحریریں بھی اس کے قد کے برابر ہی ہوتی ہیں۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ فن فن کار کی شخصیت کا پرتو ہوتا ہے اور غالباً اسی لیے حیات اللہ انصاری، کرشن چندر، رشیدحسن خاں، قدرت اللہ شہاب، سردار جعفری وغیرہ کی تحریریں طویل ہوتی ہیں۔ البتہ رتن سنگھ اس کلیے سے مستثنیٰ ہیں کہ وہ خود تو گیلیلیو لگتے ہیں مگر ان کی کہانیاں بالشتیوں جیسی ہوتی ہیں، یہاں تک کہ ’’ہزاروں میل لمبی رات‘‘ بھی ناپیے تو پاؤ فرلانگ سے زیادہ نہیں نکلے گی۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ نکالا جائے کہ رتن سنگھ کی کہانیاں کمیّت میں بھی مختصر ہوتی ہیں۔

یہ کلیّہ کلیتاً صحیح ہو یا نہ ہو مگر یہ سچ سولہ آنے سچ ہے کہ اس شخص کی تحریریں اس کے قد جیسی ہی مختصر ہوتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کوٗزائی تحریروں میں سمندر بھرا ہوتا ہے اور اُس سمندر میں آگ والا سمندر بھی زندہ رہتا ہے اور بعض تحریریں تو جن والی بوتل جیسی ہوتی ہیں، ڈھکن کھولتے ہی بوتل کا ببوا (سابو) دیو ہیکل بن جاتا ہے اور کیا حکم ہے میرے آقا پوچھے بنا ہی، تجربات و محسوسات کا ڈھیر لگا دیتا ہے۔

محفلوں میں گولیوں سے گولے داغنے والے اس فن کار سے میری پہلی ملاقات این۔ سی۔ ای۔ آر ٹی کے ایک دفتر میں ہوئی جہاں میں ملک کے مشہور و ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین کو ڈھونڈتا ہوا پہنچا تھا جن کے زیرِ سایہ ایک سیدھا سادہ ننھا منّا معصوم سا لڑکا خاموشی سے مستقبل کے لیے ادبی بارود اکٹھا کر رہا تھا اور بعد کی باقاعدہ ملاقاتیں ایک بزم میں اُس وقت ہوئیں جب وہ معصوم سا لڑکا پورا پورا ایک مجتبائی مرد بن چکا تھا اور ایک اونچے آسن سے آدمی نامہ کے شکاری کی طرح قلم کے ساتھ ساتھ کیمرے سے بھی آدمیوں کا شکار کرنے لگا تھا۔ جس بزم میں اس سے زیادہ تر اور تواتر کے ساتھ میری ملاقاتیں ہوئیں وہ دور درشن پر نئی نئی سجی تھی جہاں دنیائے علم و ادب کا ایک ایک قلم کار نئے نویلے پہلونٹھے کے دولھے کی طرح سج دھج کر جلوہ افروز ہوتا تھا۔ رنگ دکھانے اور رنگ جمانے کے چکر میں سر سے پا تک رنگین ہو کر آتا تھا اور اپنی اسی بے شعور رنگینی کے سبب کبھی کبھی مسخرہ بھی لگنے لگتا تھا اور جب تک پردۂ سیمیں کے سامنے رہتا تھا موضوع و مواد پر نگاہ جمانے کے بجائے اپنے ہاؤ بھاؤ اور حرکات و سکنات کو نہارتا رہتا تھا۔ یہ ادب کی وہ بزم تھی جس کے سجتے ہی دہلی اور اطراف دہلی کے اردو ادیبوں کی چاندی ہو گئی تھی۔ اس کے دم سے ادب کا پیتل بھی سونے کی طرح چمکنے لگا تھا۔ بد رنگ ہوا تانبا بھی نئی قلعی چڑھا کر جگمگانے لگا تھا۔ شعر و ادب کے ٹمٹماتے ہوئے ستارے چاند سورج بن رہے تھے اور یہ سب کچھ اس چشمِ انجم کی جنبش سے ہو رہا تھا جو پردے کے پیچھے رہ کر بھی اپنی پتلیوں کا کرشمہ دکھا رہی تھی۔

واقعی انجم یعنی انجم عثمانی نے اس بزم کو ایک ایسا افق بنا دیا تھا جہاں سے بڑے سے بڑا ستارہ بھی چمکنا چاہتا تھا۔ جن ادیبوں کی رسائی اس افق تک نہ ہو پاتی تھی وہ عجیب طرح کی کیفیت ملال میں مبتلا نظر آتے تھے۔ ملال کا ایک حیرت انگیز منظر ایک دن جے۔ این۔ یو کے ایک پروفیسرکے ڈرائنگ روم میں بھی دیکھنے کو ملا:

پروفیسر وہاب اشرفی نے عین عالم و جد میں پیغام آفاقی کو مخاطب کیا:

’’آفاقی صاحب! آپ بجا فرما رہے ہیں، واقعی بزم نے اپنی مقبولیت اتنی بڑھا لی ہے کہ اپنے پسندیدہ ادیبوں کو وہاں نہ دیکھ کر قارئین مایوس ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو اپنے چہیتے ادیبوں سے پوچھ بیٹھتے ہیں کہ وہ بزم میں کیوں نظر نہیں آتے؟ مثلاً بہار میں لوگ مجھ سے کہتے ہیں: وہاب صاحب! آپ اتنے بڑے ادیب ہیں پھر بھی کبھی بزم میں دکھائی نہیں دیتے۔ اس وقت مجھے سوائے اس بہانے کے کچھ اور نہیں سوجھتا کہ میں کہوں کہ میرے راستے میں دلی کی دوری مانع آ جاتی ہے۔‘‘

وہاب صاحب کی بات سن کر پیغام بولے۔

’’مجھے خود حیرت ہو رہی ہے کہ آپ اب تک بزم میں کیوں نہیں آئے، خیر، ٹھہریے، میں ابھی انجم کو فون کرتا ہوں۔‘‘ فون ملانے کے ایک آدھ گھنٹے کے اندر ہی انجم بہ نفس نفس حاضر ہو گئے۔ آناً فاناً میں وہاب صاحب بک ہو گئے اور دوسرے ہی دن ان کی رکارڈنگ کا وقت بھی طے ہو گیا۔

بزرگوں سے رخصت پا کر ہم باہر نکلے۔ پیغام نے انجم کا شکریہ ادا کرنا شروع ہی کیا تھا کہ انجم بول پڑے۔

’’شکریہ کا ہے کا۔ اس میں میرا اپنا فائدہ ہے۔ میری بزم میں ستارے تو جگمگاتے ہی رہتے ہیں، ایک عالمِ ادبیاتِ عالم کی شرکت سے اب چار چاند بھی لگ جائیں گے۔‘‘

پیغام کی حسِ مزاح پھڑک اٹھی۔ برجستہ بول پڑے۔

’’یار انجم! چار چاند لگانے ہی ہیں تو تین اور بہاریوں مثلاً غضنفر، مشرف اور مجھے بھی کیوں نہیں بلا لیتے؟‘‘

پیغام کا جملہ سن کر انجم نے مسکرتے ہوئے جواب دیا۔

’’پیغام! تمھارا مشورہ قابل قبول نہیں ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ پیغام چونکے تو انجم کا لہجہ اٹھلاتا ہوا گویا ہوا۔

’’اس لیے کہ تم تینوں بہاری، چاند تو ضرور ہو مگر دہلی میں آ کر گہنا گئے ہو۔ لہٰذا ایک سے ہی کام چلانا پڑے گا اور خدا کا شکر ہے کہ اس چاند پر اوپر سے نیچے تک کہیں بھی گرہن کا سایہ تک نہیں۔ اس ماہِ ملیح کا رنگ بالکل پاک، صاف اور شفّاف ہے۔‘‘

قصّہ مختصر یہ کہ دوسرے دن ہی ادبیاتِ عالم کا عالمِ افقِ بزم پر نہایت آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہو گیا اور اطلاعِ عامہ کے مطابق اسے پورے بہار شریف میں عید کے چاند کی طرح دیکھا گیا۔

اس واقعے سے انجم عثمانی کی شخصیت کے تین گوشے اجاگر ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ انجم کے اندر جذبۂ یارانہ اتنا شدید ہے کہ وہ انھیں دوستوں کے لیے بے تاب کر دیتا ہے۔ اتنا بے تاب کہ محض ایک فون پر پروگرام ایکزکیٹیو انجم عثمانی دوسرے کے فائدے کے لیے اپنا پیسہ خرچ کر کے بنا کسی مصلحت کے، بغیر دیر کیے پارلیامینٹ اسٹریٹ سے جے۔ این۔ یو آ جاتے ہیں وہ بھی ایسے وقت میں جب گاڑیاں چلتی کم اور رکتی زیادہ ہیں اور خود تو جھٹکے کھاتی ہی ہیں اپنے سوار کو بھی اتنے جھٹکے دیتی ہیں کہ اس کا سارا انجر پنجر ڈھیلا ہو جاتا ہے۔ یہ بے تابی ویسی ہی ہے جو کسی نئے نئے کم عمر عاشق کو لودی گارڈن یا کالندی کنج کے کسی گوشے میں بیٹھی کسی نو عمر عارضی معشوقہ کے لیے ہوتی ہے۔

دوسرا یہ کہ اسے بات سے بات بنانے اور بات سے بات چلانے کا وہ ہنر آتا ہے کہ جس سے بات تو بنتی ہی ہے، بونس میں لطف و انبساط بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ ہنر ہے جس سے وہ چوتھی دنیا کے پچ پر تحریروں کی ایسی سنچری بناتا ہے کہ رنوں سے رنگ و نور پھوٹ پڑتے ہیں۔ اسی ہنر سے وہ دو منہ والا سانپ پکڑتا ہے۔ گری پڑی قدروں کو اٹھا کے انھیں اپنے بک شلف کی زینت بناتا ہے، اور چھٹی انگلی اور چھنگے کے رشتے کو ایک نیا معنی دے دیتا ہے۔

اور تیسرا یہ کہ اسے مزاج دانی اور قیافہ شناسی میں ملکہ حاصل ہے، ورنہ وہ دوسرے کے فائدے کو اپنا فائدہ کبھی ثابت نہیں کرتا، یہ وہ وصف ہے جو ایک کو بارِ احسان کے احساس گراں بار سے بچاتا ہے تو دوسرے کو شرمندہ ہونے سے بچا لیتا ہے۔

انجم عثمانی کے یہ تینوں جوہر شنکر کے اجگو، اندر کے گانڈیو اور وشنو کے سارنگ کی طرح ہر جگہ اور ہر حال میں چمکتے رہتے ہیں۔ انجم عثمانی نے میرے لیے اتنی بزم آرائیاں کیں کہ اس کے مضبوط و صفِ مزاج شناسی کے باوجود بارِ احسان سے میری گردن جھکنے لگی۔ جھکی ہوئی گردن مجھے اچھی نہیں لگتی اس لیے میں نے اسے سیدھی رکھنے کے لیے ایک تدبیر یہ نکالی کہ اپنے ایک خالص تدریسی نوعیت کے پروگرام میں ان کے لیے گنجائش نکال لی۔ سرکاری خرچے پر انھیں علی گڑھ بلا لیا۔ اس پروگرام میں آ کر وہ اس لیے بھی خوش ہوئے کہ انھیں اس سے پہلے علی گڑھ آنے اور سر سید احمد کی زیارت کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ علی گڑھ کے پروگرام کے کچھ ہی دنوں بعد انھیں بھوپال کے ایک پروگرام میں بھی فٹ کر دیا۔ بھوپال کا پروگرام بھی ان سے ہم آہنگ نہیں تھا مگر کوآرڈینٹر اگر حسنِ کرشمہ ساز والا ہو تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا؟ ایسے ہی موقعوں پر استاد محترم شہر یار صاحب کے اس شعر کی معنویت کھلتی ہے ؎

گلاب ٹہنی سے ٹوٹا زمیں پر نہ گرا

کرشمہ تیز ہوا کے سمجھ سے باہر ہیں

بھوپال کا یہ پروگرام انجم عثمانی کے لیے تاریخ ساز ثابت ہوا۔ اس پروگرام کے دوران ان سے وہ کرایا گیا جس کے متعلق انھوں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہو گا۔ انھیں ایک مشاعرے کا صدر بنا دیا گیا۔ پردے کے پیچھے رہنے والے کو اچانک آگے کر دیا جائے اور وہ بھی اس طرح کہ وہ ایک ایک نگاہ میں آ جائے اور جملوں میں بات ختم کرنے والے کو خطبوں میں کلام کرنا پڑ جائے اور وہ بھی ایسے موضوع پر جس کے ساتھ قرابت تو دور رقابت والا جذبہ موجود ہو اور سننے والے ہوش گوش والے ہوں تو اس پر کیا گزر سکتی ہے یہ بات تو میں بعد میں بتاؤں گا پہلے یہ سن لیجیے کہ اس صدارتی منصب کے لیے انھیں ہی کیوں منتخب کیا گیا؟ میرے خیال میں اس کی تین وجہیں ہو سکتی ہیں:

ایک تو اس قضیے سے بچنا تھا کہ اگر عمر میں برتری رکھنے والے شاعر کو صدر بناتے ہیں تو کلام میں پختگی اور برتری رکھنے والا شاعر خفا ہوتا ہے اور اگر پختہ اور بر تر کلام والے کو کرسیِ صدارت پہ بٹھاتے ہیں تو پختہ عمر والا شاعر چیں بہ جبیں ہوتا ہے۔

دوسری وجہ یہ کہ انجم عثمانی اس محفل میں تنہا ایسے مہمان ادیب تھے جو خالی بچ رہے تھے اس لیے کہ باقی مہمانوں میں سبھی شاعر تھے اور وہ اپنے اپنے شاعرانہ مسند پر متمکن ہو چکے تھے۔ میز بانی کی اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ دستِ خالی کو بھی کوئی پیالی ضرور تھمائی جائے سو ان کے ہاتھ میں صدارت سونپ دی گئی۔

تیسری وجہ یہ تھی کہ شاعروں کو کہیں سے اس بات کی بھنک لگ گئی تھی کہ یہ جو محفل میں ناشاعر مہمان آ گیا ہے، اس کی ناک میں اگر نکیل نہ ڈالی گئی تو یہ پورے مشاعرے میں سینگ مارتا رہے گا اور ایک ایک شاعر کو لہو لہان کر کے چھوڑے گا، چنانچہ انھوں نے بڑی خاموشی سے ایسی سازش رچی کہ صدارتی نکیل ہر حالت میں انجم عثمانی کی ناک میں پڑ جائے۔

ادھر اس صدارتی اعلان پر انجم عثمانی حیران کم اور پریشان زیادہ۔ جیسے صدارت نہیں گلے میں سانپ ڈال دیا گیا ہو۔ بنا ٹھنا چہرہ یک بارگی فق ہو گیا۔ پہلے تو یہ لگا کہ انھیں مسندِ صدارت پر نہیں بلکہ انگاروں پر بٹھا دیا گیا ہو۔ ان کے چہرے کے تغیّر ات اور بار بار پہلو بدلنے کے انداز سے لگ رہا تھا جیسے ان کی شریانوں میں آگ بھر دی گئی ہو۔ پھر اچانک ان کا اضطراب ٹھہر گیا۔ پہلوؤں کا بدلاؤ رک گیا۔ جبڑے سخت ہو گئے چہرے پر کرختگی آ گئی۔ ہونٹوں پر سکوت طاری ہو گیا۔ پتلیاں ساکت ہو گئیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے آگ کی جگہ اب برف کی سِل نے لے لی ہو۔

بات بات پر جملے اچھالنے اور رہ رہ کر شگوفے چھوڑنے والا شخص سات آٹھ گھنٹے تک محفلِ مشاعرہ میں مسلسل ممی بنا رہا مگر جب خطبۂ صدارت کے لیے اس کا نام پکارا گیا تو یک لخت ممی میں جان پڑ گئی۔ ممی کے منہ سے اس طرح جملے نکلنے لگے جیسے مورچے پر دشمن کی فوج کو دیکھ کر یک بارگی توپ کا دہانہ کھل گیا ہو۔ ڈیڑھ انچی جملوں کے گولے تابڑ توڑ برسنے لگے اور ایک دو منٹ تک نہیں بلکہ تقریباً آدھے گھنٹے تک مسلسل برستے رہے۔ ان گولوں کے اتحادی چین کو دیکھ کر میرا چین تو بکھرا ہی اس بارودی بارش کے تھمنے پر خود اس کا ہوش بھی بے چین رہا کہ یہ اضطراری کیفیت اس پر کیوں کر طاری ہوئی؟ اچانک کہیں اسے کوئی عارضہ تو لاحق نہیں ہو گیا یا اس کے اس پر کوئی آسیب تو نہیں سوار ہو گیا۔ جو بھی ہوا اس کے حق میں اچھا ہوا کہ اس کے جملوں پر اسے ایسی اور اتنی داد ملی جیسی اور جتنی منجھے ہوئے مزاحیہ شاعروں کے ظریفانہ کلام پر ملتی ہے۔

اس کے جبڑوں کی سختی، چہرے کی کرختگی، ہونٹوں کی چپی اور پتلیوں کی بے حرکتی کا راز کھلا تو پتا چلا کہ وہ اپنے ہوش و حواس کی دنیا سے نکل کر عالمِ بے خودی میں اس لیے پہنچ گیا تھا کہ اطمینان سے کچھ ایسے جملوں کی کھوج کر سکے جن کی مدد سے اس دشوار کن اور تکلیف دہ امتحان گاہ سے بنا فیل ہوئے باہر آ سکے۔ فیل ہونے کی بات تو دور خوبیِ قسمت سے وہ اتنے زیادہ نمبروں سے پاس ہوا کہ اسے صدارت کا چسکا لگ گیا۔ کیسا چسکا لگا اسے آپ خود انجم عثمانی کے منہ سے سن لیجیے:

’’ایک نشست کا صدر بننا تھا کہ اس کے بعد تو ہر نشست میں یہی ہونے لگا اور پتہ نہیں کیسے ہم نہ صرف صدر لگنے لگے بلکہ باقاعدہ صدارتی تقریر ارشاد کرنے لگے اور پھر یہ حالت ہو گئی کہ اتنی خوشی تو مشاعرے کے شاعر کو سنانے کی بھی نہیں ہوتی ہو گی جتنی ہمیں صدارت کی خواہش ہونے لگی۔ پوری محفل میں ہم شعر سننے کے بجائے اختتام کا انتظار کرنے لگے۔ ہر نشست میں ڈر لگا رہتا کہ اگر کسی اور کو صدر بنا دیا گیا تو ہمارا مصرف کیا ہو گا؟

بھوپال کی دعوتوں اور تفریحوں کا مزہ لینے اور اپنی صدارت سے مشاعرے لوٹنے کے بعد انجم ہم سے رخصت ہوتے ہوئے بولے۔

’’غضنفر تمھیں اللہ رکھے تم نے مجھے علی گڑھ کی میٖموں تم انھیں میموں بھی سمجھ سکتے ہو مگر میری مراد مسلم یونی ورسٹی، مکھّن، مٹری، مچھّر، مکھّی، منافقت وغیرہ سے ہے، سے ملوا دیا۔ بھوپال کی رنگین اور نمکین سیر گاہوں، قبض کشا کشادہ دسترخوانوں، سیخ میں گندھے بکروں، پلیٹ میں پڑے ہرنوں اور پیٹ میں ککڑوں کوں کرنے والے مرغوں، گاجر، مولی کی طرح پیدا ہونے والے شاعروں اور تھوک میں چھپنے والے شعری مجموعوں سے تو ملوا دیا، اب ذرا کبھی اپنے بہارِ بہار کا بھی درشن کرا دو تاکہ گنگا نہا لوں۔ یار! بہار کو دیکھنے کی بڑی تمنا ہے۔ اگر تم ناپو گے تو میری یہ تمنا اس تمنّا سے لمبی نکلے گی جو عاشقوں کے دل میں تاج محل کے لیے ہوتی ہے۔ اتفاق سے جلد ہی بہار کا بھی ایک پروگرام بن گیا۔ سرزمین بہار میں پہنچ کر وہ بہت خوش تھا جیسے تتھا گت والا پیڑ اب بھی سلامت ہو اور اس کے نیچے اسے بھی نروان حاصل ہونے والا ہو۔ وہاں کی سڑکوں پر گھومتے اور گلیوں میں پھرتے ہوئے وہ اس طرح کھو جاتا تھا جیسے وہ کوئی موبائل سمادھی ہو۔ اپنی عادت کے برخلاف وہ یہاں چپ چپ سا رہا۔ اس کی چپّی کا سبب کوئی استعجاب تھا یا اضطراب یہ تو معلوم نہ ہو سکا البتہ اتنا ضرور محسوس ہوا کہ اگر وہ کچھ دن اور رہا تو ضرور کسی پیپل کے نیچے آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائے گا۔

پروگرام کے آخری دن ناشتے کے میز پر اس نے اپنی چپّی توڑی بولا:

’’غضنفر ایک بات بتاؤ، یہاں تم دکھائی دے رہے ہو، حسین الحق اور اعجاز علی ارشد نظر آ رہے ہیں عالم خورشید دکھ رہے ہیں۔ چوبیسوں گھنٹے صفدر امام قادری نظر نواز ہو رہے ہیں مگر بہار تو کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہا ہے۔

اس جملے پر لوگ باگ ابھی ٹھیک سے مسکرا بھی نہیں پائے تھے کہ کسی صاحب کے اس جملے نے ماحول کو قہقہہ زار بنا دیا۔

’’انجم صاحب! کیسے لووٗ کے گا (دکھائی دے گا) بہار تو دہلی میں رہ گیا ہے نا؟‘‘

انجم عثمانی کے ہونٹوں کا پھیلاؤ، آنکھوں کی چمک، پیشانی کی دمک اور چہرے کی شگفتگی سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کی مطلوبہ چیز اچانک انھیں مل گئی ہو یا شاید وہ جس نِروان کی تلاش میں نکلے تھے اور جس کے لیے کئی دنوں سے گلیوں میں بھٹک رہے تھے آج انھیں ایک آن میں حاصل ہو گیا ہو۔

انجم عثمانی جس بزم سے وابستہ رہے وہ سمعی اور بصری دونوں اعتبار سے مرکز توجہ بنی رہی۔ وہاں ایسی ایسی صورتیں جمع ہوتیں کہ ان سے نگاہیں نہیں ہٹتیں اور وہ وہ آوازیں سنائی پڑتیں کہ سماعتیں مسحور ہو کر رہ جاتیں۔ رنگ روپ، خط و خال، چال ڈھال صوت و صدا اور لب و لہجے سے ایسی رنگینیاں پھوٹتیں کہ آنکھ اور کان کے ساتھ ساتھ دل و دماغ اور جسم و جان بھی بے قابو ہو جاتے مگر انجم عثمانی ان رنگینیوں کے جلو میں صبح و شام گھرے رہنے کے باوجود جب چاہتے ان کے حصار سے باہر نکل آتے۔ انھیں جب جب میں نے اس بزم میں دیکھا بے ساختہ مجھے ایک مصرع یاد آ گیا ہے ع

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنّت نہ گئی

شاید یہ جملہ ذہن میں اس لیے ابھرتا کہ انجم کے ساتھ ایک انجمن بھی ابھر جاتی۔ ایسی انجمن جس میں جانے کو بار بار جی چاہے اور شاید ایسی ہی انجمن کے لیے استاد نے فرمایا تھا ؎

اس انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار

دیوار و در کو غور سے پہچان لیجیے

اور اس انجمن کے ایک گوشے میں مجھے ایک مصلّیٰ بھی دکھائی پڑتا جو تقریباً میری ہر ملاقات میں کم سے کم دو بار تو ضرور بچھتا۔ اس انجمن میں ایک طرف بلا کی رنگینیاں اور دوسری جانب مصلیٰ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رنگینیاں مصلے کے راستے میں آ گئی ہوں۔ تو بہ شکن رنگینوں کے نرغے سے نکل کر انجم عثمانی کو مصلے کی طرف جاتے ہوئے دیکھتا تو شبلی نعمانی کا یہ جملہ میرے کانوں میں گونج پڑتا:

’’اب کی بمبئی میں عجیب رنگین صحبتیں رہیں لیکن عین عالمِ لطف میں ندوہ کی ایک ضروری ضرورت سے یہاں آنا پڑا۔‘‘

انجم عثمانی کا یہ وہ عمل تھا جو ہم جیسے ندیوں کے دیدوں میں بھی ایک لمحے کے لیے گرم سلائیاں پھیر دیتا تھا مگر ہم وہ ڈھیٹ دیدہ ور تھے جو آنکھیں مل کر پھر سے مصروفِ نظّارہ ہو جاتے تھے۔

انجم عثمانی کم لکھتے ہیں اور کم میں بھی اختصار برتتے ہیں مگر جب چوتھی دنیا کا ایک کالم ان کے قلم کو سونپا گیا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس قلم نے تحریروں کی سنچری بنا ڈالی۔ جیسے تحریریں نہ ہوں کرکٹ، میچ کے رن ہوں جو دنادن چوکے چھکّے مار کر بنائے گئے ہیں اور اس رن بازی میں انجم نے صرف رن ہی نہیں بٹورے بلکہ دھریندروں کی بہت ساری وکٹیں بھی گرا دیں۔ اس رن ویر نے اپنے اس ادبی رن میں ایسے ایسے رن بنائے اور رن وے بھی دکھائے جہاں مختلف سمتوں کے ادبی و تہذیبی جہاز آسمان سے زمین پر اترتے اور بعض تو ٹوٹ کر بکھرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ چوتھی دنیا کے دامن میں اور بہت سی دنیاؤں کو جمع کرنے اور کولمبس کی طرح کارنامہ انجام دینے والا کالم نویس یوں اچانک کیوں غائب ہو گیا سمجھ میں نہیں آتا۔ ممکن ہے کولمبس کی طرح وہ بھی کسی اور دنیا کی تلاش میں نکل پڑا ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کی تلاش ضروری ہے کہ اس ہندستان میں ایک اور ہندوستان کو پانے کے لیے ایک اور واسکو ڈی گاما کی ضرورت ہے۔

انجم عثمانی کے ساتھ سفر کرنے میں اس کی شخصیت کے بہت سارے اسرار منکشف ہوئے۔ اس کی مختصر بیانی کا معنی کھلا۔ شگفتہ بیانی کا راز سامنے آیا۔ صدارت کا جوہرِ خفتہ ظاہر ہوا۔ پوشیدہ اوصافِ انسانی وا ہوئے مگر نہیں کھلا تو صرف یہ سرِّ خفی کہ اپنے نافے میں شگفتگی کا مشک رکھنے والا مرگ تلاشِ شگفتگی میں در در کیوں بھٹکتا رہا؟ کیا وہ یہ بتانے کے لیے ایسا کرتا رہا کہ جس زمین میں سے شگفتگی کا پودا نکلتا ہے وہ شدّتِ گرمیِ حیات سے تڑخ گئی ہے یا یہ کہ شگفتہ زاروں میں خس و خاشاک اُگ آئے ہیں یا وہاں باد صر صر نے اپنی راہ بنا لی ہے، یا یہ جتانا مقصود ہے کہ یہ کستوری صرف اور صرف اس کے پاس موجود ہے یا پھر اس مرگ کو اپنے  نافے میں مہکنے والے مشک کا واقعی علم نہیں ہے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے