لذّت ۔۔۔ ایم مبین

 

بھولا کے اسٹال پر اس دن معمول سے زیادہ بھیڑ تھی۔ اسے بھولا کے اسٹال پر بھیڑ دیکھ کر الجھن سی ہوئی۔ اس نے اپنے کلائی میں بندھی قیمتی گھڑی دیکھی اور ذہن میں حساب لگانے لگا کہ بھولاسے پاؤ بھاجی لے کر کھانے میں اسے کتنا وقت لگے گا اور اس کے پاس اتنا وقت ہے بھی یا نہیں؟ اگر وہ اتنا وقت یہاں صرف کرے گا تو اسے کسی میٹنگ کے لیے کتنی تاخیر ہو گی اوراس کا کون سا اہم کام چھوٹ جائے گا؟

اس calculation کے بعد تو اس کے ذہن میں ایک ہی جواب ابھرتا تھا۔ وہ بھولا کی پاؤ بھاجی کھانے کا خیال ذہن سے نکال دے اور واپس اپنی کار میں جا کر بیٹھ جائے اور جس کام کے لیے وہ نکلا ہے وہ کام کرنے کے لیے روانہ ہو جائے۔

لیکن دل نہیں مان رہا تھا۔۔۔۔

بھولا کی پاؤ بھاجی کھائے بہت دن ہو گئے تھے۔۔۔۔

زبان شدت سے اس پاؤ بھاجی کی لذت اور چٹخارے کی بھوک محسوس کر رہی تھی اور اسے محسوس ہو رہا تھا جس طرح زندگی گزارنے کے لیے کئی اہم کام کرنے ضروری ہیں، کئی کام جو زندگی کی ضرورت ہیں، جو جینے کے لیے لازمی ہیں، جو شاید Way of life کے ضروری جزو ہیں۔ ان میں سے بھولا کی پاؤ بھاجی کھانا بھی ایک ضروری کام ہے۔ جس طرح قیمتی شراب سے لطف اندوز ہونا، Luxurious اشیاء کا استعمال Life Style کے لیے ضروری ہے، شاید بھولا کی پاؤ بھاجی کھانا بھی اس کی Life Style کا ایک جزو ہے۔

وہ چپ چاپ لائن میں جا کر کھڑا ہو گیا۔

پاؤ بھاجی بناتے ہوئے بھولا کی نظر اس پر پڑی۔ اس کے بھدّے ہونٹوں پر ایک بھدّی سی شناسائی بھری مسکراہٹ ابھر آئی۔ وہ پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ اس کے لیے وہ بھی ایک عام گاہک تھا۔ اس کی نظر میں تمام گاہکوں کی اہمیت یکساں تھی۔ کوئی برتر یا اعلیٰ نہیں تھا۔ سب اس کے گاہک تھے۔ اس نے قطار میں کھڑے لوگوں کا جائزہ لیا۔

قطار میں ہر طرح کے لوگ تھے۔ اس کی طرح کچھ پاش کپڑوں والے گاہک بھی تھے تو گندے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے کچھ معمولی لوگ بھی تھے۔ کچھ سلیقے سے لباس تن زیب کیے نوجوان بھی تھے۔ ان نوجوانوں میں وہ اپنا ماضی تلاش کرنے لگا۔ اسے ہر نوجوان میں اپنا ماضی دکھائی دے رہا تھا۔

یہ سارے نوجوان شاید بے روز گار ہیں۔ روزگار کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک کر کم پیسوں میں اپنی بھوک مٹانے کے لیے بھولا کی گاڑی پر آئے ہیں۔ جس طرح کبھی وہ بھی روزی کی تلاش میں در بدر بھٹکنے کے بعد بھوک مٹانے کے لیے بھولا کی گاڑی پر آتا تھا۔

ان میں سے کچھ نوجوان ممکن ہے چھوٹے موٹے جاب کرتے ہوں گے۔ ان کی آمدنی اتنی نہیں ہو گی کہ وہ کھانا کسی متوسط درجے کے ہوٹل میں کھا کر اپنی بھوک مٹائیں۔ پیسے بچانے کے لیے اور بھوک مٹانے کے لیے وہ بھولا کی گاڑی پر آتے ہوں گے۔ اسی طرح جس طرح وہ چھوٹے موٹے کام کرنے کے بعد بھولا کی گاڑی پر آتا تھا۔

پاش دکھائی دینے والے گاہک شاید اس کے زمرے کے تھے۔ یہ لوگ اونچے عہدوں پر ہیں یا ان کا اپنا اچھا کاروبار ہے۔ یہ اپنی بھوک فائیو اسٹار ہوٹلوں کے بجائے کانٹنینٹل کھانوں سے بھی مٹانے کی استطاعت رکھتے ہیں لیکن بھولا کی پاؤ بھاجی کی لذت انھیں بھولا کی گاڑی تک کھینچ لاتی ہے۔ جس طرح اس کو کھینچ لاتی ہے۔

وہ اس وقت چار پانچ چھوٹی بڑی کمپنیوں کا مالک تھا۔ اس کے پاس کتنی دولت ہے خود اسے اندازہ نہیں تھا۔ اس کی کمپنیوں میں کام کرنے والے ہزاروں نوکر ہوں گے۔ روزانہ اس کے ذہن میں ایک نئے بزنس کا خیال آتا تھا اور پھر وہ اور اس کا عملہ اس خیال کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں مصروف ہو جاتا تھا۔

اس کا ایک ایک لمحہ اس کے لیے قیمتی ہیرے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر لمحہ اس کے لیے دولت کا ایک ریلہ لے کر آتا تھا۔ اس کا بزنس بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ کاروبار کی دنیا میں اس کی ساکھ تو کبھی کی بن چکی تھی، اس کا نام اور اس کے برانڈ کو احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔

روزانہ شیئر مارکیٹ میں اس کی قائم کردہ کمپنیوں کے نرخوں میں ہونے والے تبدیلیاں اس کی دولت میں بے انتہا اضافہ کر دیتی تھی یا پھر معمولی سی کمی کر دیتی تھی۔ اس نے اپنے اس مرتبہ کو پانے کا خواب ضرور دیکھا تھا لیکن اسے اس کے سارے خوابوں کی تعبیر مل جائے گی اس نے اس بات کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ خواب تو دنیا کا ہر فرد دیکھتا ہے۔

پندرہ سال قبل وہ اس شہر میں روزگار کی تلاش میں آیا تھا۔

اسے اس شہر میں ابتدا میں وہی ملا تھا جو ایک بیروزگار تعلیم یافتہ اور قابل نوجوان کو ملتا ہے۔ دھکّے، مایوسیاں، بے بسی اور لاچاری، بھوک، نا امیدی سب کچھ اس کے جھولی میں آ گرے تھے۔ جن کا بوجھ اٹھانے کی اس میں سکت نہیں بچی تھی۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ اسے یقین تھا کہ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر وہ اس شہر میں ایک اچھی زندگی گزارنے کے قابل وسائل تو مہیا کر ہی لے گا۔

اس وقت بھولا کی گاڑی اس کا بہت بڑا سہارا تھی۔

بھولا اس وقت بھی پاؤ بھاجی بیچتا تھا اور آج بھی۔ اس کی گاڑی اور اس کی گاڑی کے محل وقوع میں آج بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوا ہے کہ پہلے وہ جگہ کافی حد تک ویران تھی، اب اس جگہ کے اطراف میں Sky lark ٹائپ کی بلڈنگیں کھڑی ہو گئیں۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے