تبسم فاطمہ: ایک کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی ۔۔۔ مشرف عالم ذوقی

 

راستہ یہاں بند ہے۔ اندھیرا بھی ہے۔ اب ہم کہاں جائیں گے تبسم؟

وہ مطمئن ہے۔۔ ایک کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی۔ اس نے میری طرف مسکرا کر دیکھا۔ دیوار میں کھڑکی کا اضافہ ہو چکا تھا۔ مومن نے کہا۔۔ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا۔۔ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ غالب نے کہا، میرا دیوان لے لو اور یہ شعر مجھے دے دو۔ سوچتا ہوں، میں مومن نہیں ہوں، میرے پاس ایسا کوئی لمحہ نہیں جب میں یہ کہوں کہ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا۔ وہ ہر لمحہ میری ہر کیفیت کا حصّہ ہے۔ وہ لمحۂ نا موجود میں بھی ہے اور میرے لئے دیواروں میں کھڑکی کی جگہ کا انتخاب کرتی رہتی ہے۔

پابلو نرودا کو نوبل انعام 1971 میں دیا گیا تھا۔ اس وقت ان کے بارے میں مبصرین کا خیال تھا کہ نرودا کی نظمیہ تخلیق موجود بنیادی طاقت کے خلاف ایک ردد عمل ہے وہ خوابوں کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ ہے۔ اپنی شاعری کے بارے میں، پابلو کا خیال تھا کہ ’’ایک شاعر کو چاہئے کہ وہ اخوت اور یکجہتی کے مابین ایک توازن قائم کرے، اور اپنے آپ سے ملحق اور پوری دنیا سے ہم آہنگی اور فطرت سے رشتہ بھی قائم رکھے۔ یہ ہم آہنگی اور فطرت سے رشتہ تبسم کی اکثر نظموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ موجودہ طاقتوں کے خلاف اس کا قلم خاموش نہیں رہتا۔ ہمارے ادب کا مزاج ہے کہ عام طور پر خواتین کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، ممتاز شیریں، عینی آپا، عصمت چغتائی جیسی ادیباؤں کو نظر انداز کرنا آسان نہیں تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ مرد اساس معاشرہ خواتین کو آج بھی نظر انداز کرتا ہے۔ ہندوستان میں ہی دیکھئے تو آج بھی عذرا نقوی، کہکشاں تبسم، شہناز نبی، شبنم عشائی کو جاننے والے تو بہت ہیں مگر ان کی نظموں پر جو مکالمہ قائم ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہو سکا۔ تبسم کی نظموں کے تین مجموعے سامنے آ چکے ہیں۔ تیسرے مجموعے کا نام تمہارے خیال کی دھوپ ہے۔ مجموعے میں شامل بیشتر نظمیں ایسی ہیں، جو موضوعات کے لحاظ سے نئے موسم کا پتہ دیتی ہیں۔ اسکا منفرد اسلوب بھی متاثر کرتا ہے۔ تبسم کو نقصان میری وجہ سے بھی اٹھانا پڑا۔ مگر میں اس تبسم سے واقف ہوں جو بند دیوار میں بھی کھڑکی یا روزن کے لئے جگہ بنا سکتی ہے۔ جو تمام طرح کے طوفانوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اور یہ طاقت اس کی نظموں میں دکھائی دیتی ہے۔ نظموں کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

 

سیاہ رات جو تمھارے پاس سے ہو کر لوٹ آئی تھی

میں نے اس کی روشنائی سے

دیوار کے کینواس پر تین تصویریں بنائی تھیں

ایک میں سمندر کی تیز لہریں تھیں

دوسری، پانی میں غروب ہوتے سورج کی

تیسری میں، میں تھی

پانیوں سے کھیلتی ہوئی

جب تمہارے خیال کی آخری دھوپ فنا ہوئی

میں پانی کے قطروں سے مضراب بنا رہی تھی

جب میں رباب کے ساحل پر کھڑی

لہروں کی موسیقی سے جنگی نغمے تیار کر رہی تھی

مدھم سروں کے درمیان

تم بگولوں سے گھرے ہوئے ہوئے

اور ریت پر الٹی سمت چل رہے تھے

————–جب تمہارے خیال کی آخری دھوپ فنا ہوئی۔۔۔۔

 

جب تم فاختائیں اڑا رہے تھے غوغا خان

آسمان کی لا متناہی وسعتوں کے درمیان

اس پار ایک جنگ بھی ہو رہی تھی

تمہاری نظر فاختاؤں پر تھی

اور کچھ لوگ اس جنگ میں مارے جا رہے تھے

جب تم تیتر اور بٹیر سے کھیل رہے تھے

مرغابی اور بطخ کا شکار کر رہے تھے

کچھ لوگ تھے جن کے سر

جنگوں میں، نیزے پر اچھالے جا رہے تھے

جب شہر لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہے تھے

تم ایک بوسیدہ کھنڈر کی چھت پر چڑھ کر پتنگ اڑا رہے تھے

جب نئے موسم کا سورج آگ کی بارش کر رہا تھا

غوغا خان،

تم انواع و اقسام کے کھانوں سے اپنا دسترخوان سجا رہے تھے

کچھ لوگ تھے

جو اپنی وراثت اور قدیم نشانیوں کو بچانے کی جگت کر رہے تھے

جب تم اپنی انگلیاں چاٹ رہے تھے

تمہیں قید کرنے کا غیبی فرمان جاری ہو چکا تھا

—غوغا خان کا دسترخوان

 

( اور تم جان لو

کہ بے نیازی کے صرف دھڑ ہوتے ہیں

جب تم چمکتے پانیوں سے غسل کرتے ہو

کچھ لوگ نیزے پر

اچھالے جا رہے ہوتے ہیں

جب تمھارے جسم آسودہ مگر بے حس ہوں

سیاہ چمگادڑوں کا تحفہ تمھارے شہر کو بھیجا جاتا ہے

مگر تمھاری سماعت

روح سے خالی ہوتی ہے۔۔ )

جب منحوس چمگادڑوں کی ٹولی فضا میں رقص کر رہی تھی

تب میں دریا میں کودی تھی

بے چین سانسوں کو جسم دینے کے لئے

(جب سرد راتیں کشمیر، اور گرم دن گودھرا گجرات ہوں گے

اس وقت بھی تم

پرانی لحاف میں بوسے لکھ رہے ہو گے

جب نیند قربان گاہ پر ہو گی

تم اپنی اپنی جنتوں میں قتل ہو رہے ہو گے)

—-قربان گاہ میں نیند۔۔

 

یہ سب ایک لمحے میں ہوا

تیز دھوپ میں جلتی ہوئی سڑک پر ننگے پاؤں کو رکھتے ہوئے

اچانک ان کے پاؤں غائب تھے

میں نے آنکھ مل مل کر فریم کو دیکھا

لٹکے ہوئے بچوں کے دھڑ تھے

جو دھوپ کے کنواس پر جھول رہے تھے

پاؤں غائب تھے

سورج کے برستے آگ کے گولوں کی زد میں

اب ان کا چہرہ تھا

میں ان پیاسوں کے چہروں پر کربلا کی یاد رکھ دینا چاہتی تھی

مگر دیکھتے ہی دیکھتے یہ چہرے بھی فریم سے کنارہ کر چکے تھے

—–جلتی دھوپ، آگ اگلتی سڑک اور بچے

 

مکڑی کے جالوں کے اس پار

دیکھنے والی تمہاری آنکھیں بینائی سے محروم ہوں گی

اور بھیڑیے ہوں گے

بھیڑیے کے ہاتھوں میں تمہارے لئے

کمزور بوسیدہ لکڑی سے بنے کافن ہوں گے

جنگل میں دور تک خون پھیلا ہو گا

ایک ساتھ اتنے خون کو دیکھ کر بارہ سنگھا ہنس رہا ہو گا

تم نہیں ہو گے

معصوم کہانی نے ابھی ڈارون کو فون کیا ہے

جنگل سے لاش کو صاف کرنے کے لئے

جنگل میں بچے بھی تو آتے ہیں

—- تم تھے، اب نہیں ہو

 

جب لکڑی کے موٹے تختوں سے بنے کھڑاون شور کریں گے

ہوا میں ترشول لہرائے جائیں گے

فضا میں ابیر اور گلال کی مہک ہو گی

وہ آئیں گے پوری طاقت کے ساتھ

تب یہ زمین پہلے سے کہیں بہت زیادہ کم پڑ جائے گی

ہمارے لئے

ابھی تندور گرم ہے

مٹی کے پتلوں پر خاموشی کا عذاب بھیجا گیا ہے

درخت کی شاخوں سے لپٹے ہوئے ہیں گدھ

پانی اپنی مضبوط مذہبی دلیلوں کے ساتھ دریاؤں کو

خالی کر گیا ہے

اس بار وہ برہنہ آئیں گے

اور بڑی تعداد میں اتریں گے

ہماری زمینوں کو کم کرنے کے لئے

ہم بے آواز ہوں گے ہمیشہ کی طرح

خود سپردگی کے لئے

ہم نے بدن کی چادریں اتار رکھی ہیں

—– زمین کم پڑ جائے گی

 

جب تیر کھا کر ایک کبوتر ساحل پر آ رہا تھا

میں شفق کی سرخی سے سونا نکال رہی تھی

کچھ آوازیں تھیں، جو دھوئیں میں کھو رہی تھیں

ایک گپھا تھی، جہاں ایک سنیاسی آنکھیں بند کیے تھا

اور کچھ لوگ اس کی تصویریں اتار رہے تھے

وہ دیو دوت کی طرح

مستقبل کا صحیفہ ہاتھوں میں تھامے تھا

یہی وقت تھا، جب ایک ہجوم

وی وی پیٹ پر سنیاسی کے نغمے بکھیر رہا تھا

سورج سوا نیزے پر تھا

جب پہلا کبوتر گرا، پرچم کا رنگ تبدیل ہو چکا تھا

جب دوسرا کبوتر گرا

آئین کے بوسیدہ صفحات تبدیل ہو چکے تھے

جب چاروں طرف کبوتروں کی لاشیں پڑی تھیں

ایک سنیاسی پوتر استھل کے دروازے کھول رہا تھا

میں شفق کی سرخی سے سونا نکال رہی تھی۔

میں مطمئن تھی

—- سونار دیس

 

نگاہ عشق تو بے پردہ دیکھتی ہے اُسے

خرد کے سامنے اب تک حجاب عالم ہے

محبت کیا ہے؟ خود سے سوال کرتا ہوں تو دنیا کی بھیڑ بھاڑ سے الگ ایک نئی دنیا کے دروازے میرے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ غیب سے ایک آواز گونجتی ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو عشق کرنا جانتے ہیں۔ عرصہ پہلے میں نے سوچا تھا۔ تبسم کو لے کر ایک ناول لکھوں گا۔ یہ قرض ابھی باقی ہے۔ مگر یہ بھی سوچتا ہوں کہ ناول کا قرض ادا کرنا مشکل ہے۔ تبسم پر ناول لکھنا آسان نہیں۔ جب زندگی مجھ پر اپنے راستہ تنگ کر دیتی ہے۔ تاریکی مسلط ہو جاتی ہے تو ایسے میں تبسم کسی جادوگر کی طرح اپنی طلسمی پوٹلی سے رات کی جگہ دن کے چراغ نکال لیتی ہے۔

تو شب آفریدی چراغ آفریدم

لیکن وہ طلسمی چراغ سے ایک ایسی دنیا برآمد کر لیتی ہے جس پر مجھے ہمیشہ سے ناز رہا ہے۔ وہ ہمیشہ سے باغی ہے اور میری طاقت بھی۔

تبسم اور میری ملاقات کب ہوئی، اب مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں۔ یاد اس لیے بھی نہیں کہ یہ محض جنموں جنموں کا ساتھ نہیں ہے، یہ کچھ اور بھی ہے، جسے یا تو میں سمجھتا ہوں یا تبسم سمجھتی ہے — بیتے گزرے وقتوں کی وہ اداس پت جھڑ کے دنوں کی گرمیاں تھیں، جب ہم اچانک ایک دوسرے سے ٹکرائے اور آنکھوں نے سرگوشیاں کیں۔۔۔۔ کہ زندگی کے جن پر اسرار حسیں لمحوں کی تلاش میں تم سرگرداں ہوں، وہ لمحے یہیں کہیں رکھے ہیں۔ دسمبر ۹۲ء بابری مسجد ٹوٹنے کے بعد میں نے ایک کہانی لکھی — میرا ملک گم ہو گیا ہے — یہ کہانی میں نے ایک ادبی رسالہ کے مدیر کو بھیجی تو تبسم نے فوراً ہی مدیر کو میرے خلاف خط بھیج دیا کہ اسے شائع مت کیجئے گا۔ میرے ایک عزیز ترین دوست کے سامنے بھی مجھ پر بری طرح خفا ہو گئی کہ آخر تم نے کشمیر سے ہجرت کیے ہوئے ہندوؤں پر کیوں نہیں لکھا۔ تاروں کی آخری منزل تبسم کا افسانوی مجموعہ ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتی ہے –مجھے احساس ہے کہ اس درمیان میں خود کو بھول گئی تھی — حادثے بھی ہوئے — ایک ننھی منی سی گڑیا آئی اور اللہ نے واپس بلا لیا — یہ وہ لمحے تھے جب میں بکھر کر رہ گئی تھی۔ یہ لمحے تھے جب مجھے سکون چاۂے تھا۔۔۔۔ سکون کے لیے قلم اٹھانا چاہتی تھی لیکن الفاظ مجھ سے روٹھ گئے تھے۔۔۔۔ میں نے ڈائری کھولی اور میرے اندر کے آنسو لفظ بن گئے۔۔۔۔

مجھے زندگی میں کئی مقام پرشکست ہوئی۔ اور ایسے ہر مقام پر سوچتا ہوں تبسم کا ساتھ نہ ملا ہوتا تو شاید کمرے کی ویرانی اور اپنے اندر کی خاموشی سے سجھوتا کر چکا ہوتا — امی کے انتقال کے بعد ہر موڑ، ہر منزل پر تبسم میرے لیے ایک مضبوط چٹان کی مانند سہارا دینے کو تیار رہی۔

مصوری کیا ہے؟ آرٹ کیا ہے؟ وہ افسانہ نگار بھی ہے، شاعر بھی اور مصور بھی۔ وہ عظیم مصور ہے اور اس کی نظمیہ تخلیقات اس کی عظمت کا اعتراف کرتی ہیں۔ وہ ہاتھ سے برش اٹھاتی ہے، افق کی سرخی سے رنگ کشید کرتی ہے۔ اور موجودہ حالات کو اس خوبصورتی اور سفاکی سے پینٹ کرتی ہے کہ اہل مصر بھی چونک جاتے ہوں گے۔ مصر کے تعلق سے کچھ باتیں یاد آ رہی ہیں۔ اہل مصر کا خیال تھا کہ زندگی کا سلسلہ موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اس لیے وہ سلطانوں کی لاشیں مقبروں میں محفوظ کر دیتے تھے۔ ان مقبروں کے داخلی راستے کی دیواروں، کمروں، شاہی محلات، اور ستونوں پر روزمرہ زندگی کی تصویریں بنی ہوتی تھیں۔ یہ تصویریں اس وقت کی گواہ ہوا کرتی تھیں۔ فرض کیجئے، دنیا ختم ہو جاتی ہے۔ ۳۰۲۰ کی دنیا میں بھی تبسم کی نظموں کے ذریعہ ہم واقف ہو سکتے ہیں کہ غوغا خان کا دسترخوان کیسا ہوا کرتا تھا، اور دھوپ کی سیاہی میں رقص کرتے بچوں کے احساس کیسے ہوتے تھے۔ وہ اپنے وقت کو اس خوبی سے پینٹ کرتی ہے کہ شاید کوئی دوسرا اس سے بہتر نظر نہ آئے۔ وبا کے دنوں میں کہی گئی اس کی کچھ نظمیں دیکھئے —

مجھے تلاش مت کرنا

اور اگر تلاش کرو تو میں ٹھیک حیرتوں کے سمندر

کے درمیان ملوں گی

جہاں ایک بڑی سی مچھلی نے اپنی مقرّرہ حد سے

کہیں زیادہ لمبی اچھال بھری ہو گی

میں نیم شب، چمکتے جگنوؤں کے پروں سے پھوٹتے

آدھے سوئے، آدھے جاگتے اجالے میں ملوں گی

بلند پہاڑ کی سب سے اونچی سطح پر

جہاں قدیم داستانوں میں، مشیل اور کام دیو ملے تھے

ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے، سرخ پہاڑی پھول پر محبت لکھتے ہوئے

میں وہیں ملوں گی، اس سرخ پھول کے، کہیں اس پاس

اور جب نیل ندی خطرے کے نشان سے اوپر ہو گی

میں اس کی نیل نیل موجوں کے ساتھ گنگناتی ہوئی ملوں گی

—– میں حیرتوں میں ہوں

 

جب رات گلاب کی پتیوں سے قہوے تیار کر رہی تھی

اور چاندی کے جسم پر گل بوٹوں کی کہکشاں اتر آئی تھی

تم میرے قریب تھے

سانسوں کے زیر و بم کا اندازہ لگانا مشکل تھا

کیونکہ فضا میں زعفران اور کیوڑے کی مہک بھی شامل تھی

اور دور کوئی مرغزاروں میں

گنگناتا ہوا وباؤں کو آسمانی سیاہ سوراخ میں بھیج رہا تھا

میں جانتی ہوں

ان چمکتی ہتھیلیوں کو کسی ماسک کی ضرورت نہیں ہے

—— چمکتی ہتھیلیوں کو کسی ماسک کی ضرورت نہیں

 

بد رنگ خوابوں میں اب بارش کے قطرے نہیں ہیں

گلاب، بیلا، چمیلی کے پھول بھی نہیں

رنگ برنگی تتلیاں بھی نہیں

خزاں موسم میں شاخوں سے ٹوٹے ہوئے پتے نظر آتے ہیں

آسمان میں بادلوں سے گھرا سیاہ چاند

میں اس چاند میں روشنی بھر رہی ہوں

ایک بچہ ہے جو مردہ ماں کے آنچل کو کھینچ رہا ہے

میں اس تصویر کو ڈیلیٹ کرتی ہوں

ہجرت کرتے مسافروں کے درمیان مجھے راستے میں ایک عورت نظر آتی ہے

مردہ حاملہ عورت

میں خواب میں بھی اسے زندہ نہیں کر سکتی

میں اس فریم کو بھی ڈیلیٹ کرتی ہوں

—-میں خواب میں کچھ تصویروں کو ڈیلیٹ کر رہی ہوں

آگے ارطغرل کی گہری سرنگ تھی۔

سرنگ کے اندر اندھیرے میں چمکتی ہوئی ایک تسبیح تھی جسے

بچپن میں نانی امان کے ہاتھوں میں دیکھا تھا

اور جہاں سرنگ میں بہت سے اندھیرے کھلونے پڑے تھے

ہاں، اندھیرے کھلونے

وہاں گول، چپٹی، نئی پرانی ٹوپیوں کا ایک ذخیرہ تھا

اور کوئی آواز تھی جو میں سن سکتی تھی

خدا ہماری ٹوپیوں کی رکھوالی کرے

خدا ہماری ٹوپیوں کی رکھوالی کرے

یہ آواز تین بار گونجی اور خاموش ہو گئی

——خدا ہماری ٹوپیوں کی رکھوالی کرے

اور جب سناٹے میں سمندر غائب اور اس کی لہریں بھی

خلا کی جگہ جلتے الاؤ کے پاس گونجتی ہے موسیقی

سناٹے میں ڈوبی سڑک پر کبھی کبھی بجتے پولیس کے سائرن

ویرانے کی ہولناک خاموشی سے باہر آتا ہے ایک جسم، جسے میں نہیں جانتی

برسوں پرانے لباس کے لمس میں ابھرتا ہے میرا عکس

یہ میں ہو بھی سکتی ہوں اور نہیں بھی

کیونکہ ہونے اور نہیں ہونے کے درمیاں محبت نے پہنے تھے کچھ نئے لباس

اور کچھ پرانے لباسوں کی جگہ میرے اندر آ گئی تھی

ایک نئی عورت

لیکن ان سب کے باوجود، پرانے لباس کے لمس سے

ابھرتی ہیں کچھ نوخیز آوازیں

ابھرتے ہیں کچھ میرے ہی پرانے لفظ، کچھ ادھوری سسکیاں

کچھ انگڑائیاں، کچھ روح اور جسم کے درمیان کی باتیں

کچھ شور، کچھ شور سے جنمے جسم کے مکالمے

یا کوئی ایک چہرہ، جس کے کندھے پر ہوا کرتا تھا ایک تل

جہاں آنکھوں میں پھول کی پنکھڑیوں کی جگہ

لکھی گئی تھی بغاوت سے جڑی کچھ بے ربط نظمیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاک ڈاؤن میں محبت

 

بہت پہلے رقیہ سخاوت حسین نے ایک کہانی لکھنی ’’سلطانہ کا خواب‘‘سلطانہ ایک معصوم خاتون تھی۔ جس کا خواب تھا کہ عورتیں آزاد ہوں اور مرد چوڑیاں پہن کر گھروں میں خواتین کی طرح کام کریں۔ یہ صرف کہانی نہیں تھی، اس میں عام عورت کا غصہ بھی چھپا تھا۔ 1867 میں جب ڈپٹی نذیر احمد نے اردو ناولوں کی بنیاد ڈالی تو ادب کی طرف سے تعلیم نسواں یعنی عورتوں کی تعلیم کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ ایک بڑا طبقہ عورتوں کی تعلیم کے مخالفت میں کل بھی تھا اور آج بھی۔ سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کو تعلیم یافتہ کرنے کے لئے مہم شروع کی تو مسلم لڑکیوں کی تعلیم کا دروازہ بھی کھلتا چلا گیا۔ پنجرے ٹوٹ رہے تھے۔ رشید جہاں نے دہلی کی سیر لکھ کر خواتین آزادی کا اعلان کیا تو یہ اعلان اس وقت کے بہت سے علماء کو پسند نہیں آیا۔ فتوے بھی لگے۔ انگارے میں یہ کہانی شائع ہوئی۔ انگارے پر علماء نے مسلم تہذیب کو خراب کرنے کا الزام لگایا۔ بعد میں اسی فتوے، اسی گھٹن سے عصمت چغتائی، ممتاز شیریں، حجاب امتیاز علی سے واجدہ تبسم تک اتنی آوازیں اٹھیں کہ آج بھی آزادی کو ترستی ایسی آوازوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ تبسم کی کہانیاں بھی احتجاج اور بغاوت کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہیں۔

کبھی وہ دھند میں ملتی ہے۔ کبھی برف زاروں میں کبھی ٹیڑھی میڑھی پہاڑی پگڈنڈیوں پر، کبھی درّوں پر پیدل چلتی ہوئی، کبھی شعلوں میں گھری ہوئی۔ کبھی کالم لکھتی ہے اور کبھی زندگی کے صفحہ سے مایوسیوں کو چراتی ہے، ہوا میں اڑا دیتی ہے۔ وہ اپنی نظموں میں باغی ہے اور اپنی کہانیوں میں بھی۔

عورت۔۔۔۔ اُسے خود سے نفرت کا احساس ہوا؟ عورت سبھی سلوک و برتاؤ میں، زندگی کے ہر موڑ پر پاؤں کی دھول جھاڑتے ہی چت کیوں ہو جاتی ہے؟ ایک دم سے چت اور ہاری ہوئی۔ مرد فاتح ہوتا ہے اور عورت کتنی بڑی کیوں نہ ہو جائے، عورت کی عظمت کہاں سو جاتی ہے۔

 

___جرم، تبسم فاطمہ

اس بار اس سے کوئی لاپرواہی نہیں ہوئی تھی۔ اس نے ماتھر کی کمپنی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسے مجسمہ نہیں بننا تھا۔ اسے اب اپنے لیے بھی جینا تھا۔ ایک مدت سے وہ اپنی زندگی بھول چکی تھی۔ اب اس کو ایک نیا سفر شروع کرنا تھا۔ ابھی اس نئے سفر کے تمام اتار چڑھاؤ کے بارے میں غور کرنا تھا۔ گھر آنے کے بعد ایک خاص بات ہوئی۔ نیرج لافنگ بدھا کا ایک چھوٹا سا مجسمہ لے کر آیا تھا۔ مجسمہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے نیرج نے کہا۔

’اچھا ہے نا؟ اس گھر کو مسکراہٹ کی ضرورت ہے۔ ‘

اس نے مجسمہ کو بے دردی سے زمین پر پنج دیا۔ مجسموں کی نہیں۔ مجھے زندگی کی ضرورت ہے۔ ‘

— لافنگ بدھا

 

اس بار اس نے وحشت بھری نظروں کے ساتھ میری طرف دیکھا میری آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھی۔ مردوں کے قانون میں یہ کیسے جائز ہے کہ کسی کے ساتھ بھی —؟ اس کے اجازت کے بغیر بھی —؟ مان لو۔ یہ وہی لڑکی ہے، جس سے تم ملتے ہو۔ اگر تم اس کو پروپوز کرتے تو کیا وہ تمہاری بات مان لیتی۔۔۔۔ ؟‘

’نہیں۔ ‘ وہ آہستہ سے بولا۔۔۔۔ ’پتہ نہیں۔‘

’تم لوگ کتنی آسانی سے یہ جرم کر لیتے ہو۔ اور کرتے چلے جاتے ہو۔ یہ محض بھیگنا نہیں ہے۔ ایک ان دیکھے تصور کا بلاتکار ہے

— صحرا میں نہیں رہنا

جین آسٹن کے تمام ناولوں میں محبت اور شادی کا موضوع ملتا ہے مگر ایک خاص طرح کی بغاوت بھی صاف نظر آتی ہے۔ ان کے بیشتر ناولوں کی ہیروئین اپنی زندگی میں مردوں کو غلط سمجھتی ہیں۔ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ شادی ختم ہو جاتی ہے۔ ایک نئی زندگی کی شروعات ہوتی ہے۔ ہے۔ اگرچہ آسٹن کی اپنی محبت کی زندگی (اس نے کبھی شادی نہیں کی) کے بارے میں بہت کچھ انکشاف ہوا ہے، لیکن ان کے ناولوں میں بتایا گیا ہے کہ وہ شادی میں محبت، احترام اور ذہانت کی اہمیت کو شدت سے محسوس کرتی ہیں۔ اسٹین سے اب تک ایک دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ اپنے زمانے کی تیز طرار عورت ممتاز شیریں نے جب ’آئینہ‘ جیسی کہانی لکھی، تو جیسے مسلم معاشرے میں زلزلہ سا آ گیا۔ آخری دنوں میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں ممتاز شیریں نے بھی اس بات کو مانا تھا کہ در اصل مسلم عورت کی کہانیوں میں بغاوت کے پیچھے عورتوں کا وہی استحصال رہا ہے، جو مذہب ایک لمے عرصے سے اُن کے ساتھ کرتا آ رہا ہے۔ ممتاز شیریں نے ایسے کٹھ ملاؤں کا تذکرہ بھی کیا تھا، جنہوں نے قرآن پاک کی آیتوں کا سہارا لے کر عورت پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رکھے ہیں۔

تبسم کی نظمیں ہو یا افسانے، ان میں بغاوت کی آنچ بھی ہے، علامتوں، استعاروں کا خوبصورت استعمال بھی وہ۔ معاشرے کی پیدا کی گئی اخلاقیات سے الجھتی ہے۔ بدی، نیکی سے مکالمہ کرتی ہے۔ زندگی کے زہراب کا ذائقہ محسوس کرتی ہے۔۔ اپنے مشاہدے اور تجربے سے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو خوبصورتی۔ جرات، بے باکی اور بے رحم صداقت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔۔ اب اس کی نظموں اور افسانوں کو ادب میں جائز مقام دینے کا وقت آ گیا ہے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے