نظمیں ۔۔۔ پریاگ شُکل، ہندی سے ترجمہ: اعجاز عبید

 

پانی کے ساتھ پانی ہوں

 

پانی کے ساتھ پانی ہوں

کھیتوں تک اسے لاتا ہوا

بیج کے ساتھ بیج ہوں

اسے اگاتا ہوا

ہوا کے ساتھ ہوا ہوں

فصل کے ساتھ لہراتا ہوا۔

دھوپ کے ساتھ دھوپ ہوں

دھان پکاتا ہوا۔

ٹھنڈ کے ساتھ ٹھنڈ ہوں

پہرے پر جاتا ہوا۔

دن ہوں رات ہوں

صبح دوپہر شام ہوں

انتھک بے چین ہوں

آپ کا اور اپنا چین ہوں

اناج کے ڈھیر لگاتا ہوا۔

ننھے دودھ منہوں کے منہ سے،

بوڑھے بزرگ منہوں تک

میں ہی تو ہوں

دکھی یا مسکراتا ہوا۔

٭٭٭

 

 

 

نئی سانس

 

دھوپ آئی نکل۔

جو کچھ پریشان کن تھا

وہ پگھلا۔

بھول کر پچھلا

نئے نے لی سانس۔

پھر سے بہت کچھ بدلا!

٭٭٭

 

 

پنکھڑیاں

 

پنکھڑیوں کی طرح کھلتی ہیں کرنیں۔

پنکھڑیوں کی شکل میں اڑتے جھنڈ چڑیوں کے۔

پنکھڑیوں کی طرح دکھتی ہیں پہاڑ کی چوٹیاں۔

پنکھڑیاں بن کر ہی بہتی ہیں لہریں۔

پنکھڑیوں کی طرح ہی کھلتی ہیں آشائیں

پنکھڑیوں کی طرح ہی راہ میں

دن کی — پھوٹتی ہیں دشائیں!

٭٭٭

 

پیڑ کا سایہ

 

پیڑ کا سایہ

بے حد و حساب

بہت کومل

بہت ٹھنڈا

ڈولتا، بس پرت سا۔

پر،

ان گنت

تہہ

بے تہہ

جیسے پانی

٭٭٭

 

 

 

پتیاں

 

 

پتیاں کھُلتیں۔

پتیاں کھِلتیں–

کہ جیسے پھول۔

بجلی کی مانند ہوا میں،

جاتیں خود کو بھول!

دیکھتے جو انہیں –

سکھ دیتیں۔

ہری ہوں یا خزاں زدہ

وہ کب بیزار ہوتیں!

پتیاں ہیں

پتیاں –

چاہے جہاں اگتیں۔

رات ہو یا دن،

سدا جاگتیں!!

٭٭٭

 

کتھائیں

 

چاہنے بھر سے پوری نہںں ہوتں خواہشیں

خرید لنیے بھر سے کام نہیں آتیں دوائیں

من کے پانی کی کمی میں مرجھا جاتی ہں۔ کلپنائیں

بکھر جاتی ہیں کتنی ہی صبحیں

کھو گئںی۔ کھو جاتی ہں آندھی طوفان مں سمندری ناویں

بنتے، مٹتے رہتے ہیں دن بھر سائے

اچھا لگتا ہے جب چلتی ہیں سبک ہوائیں

کھو جاتی ہیں کتنی ہی شکلیں

 

راحت بس اتنی سی ہے

کہ ختم نہیں ہوتی ہیں کتھائیں ۔

٭٭٭

 

 

تم مت گھٹانا

 

تم گھٹانا مت

اپنا پریم

تب بھی نہیں

جب لوگ کرنے لگیں

ان کا حساب۔

 

ٹھگا ہوا پاؤ

اپنے کو

اکیلے

ایک دن–

تب بھی نہیں۔

مت گھٹانا

اپنا پریم۔

 

بند کر دے گی تم سے بولنا

نہیں تو

دھرتی یہ چڑیا، یہ گھاس۔ یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

منہ پھیر لے گا آسمان

 

نہیں، تم گھٹانا نہیں

اپنا پریم۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے