سید محمد اشرف کی ناول نگاری : امتیازات و خصوصیات ۔۔۔ صدام حسین

 

سید محمد اشرف کے فکشن کے تعلق سے میں پروفیسر سیما صغیر صاحبہ کی اس رائے سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں :

’’سید محمد اشرف میرے پسندیدہ ادیب ہیں۔پہلی وجہ یہ کہ ان کی ہر تخلیق کی قرأت قاری کو یکسوئی سے اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ وہ تہذیبی، تمدنی، ثقافتی، لسانی مطمح نگاہ کو اس خوبی کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ نقطہ نظر فن پر غالب نہیں آنے پاتا ہے بلکہ وہ ان کے توسط سے بھی قاری کے دل پر اپنے احساسات نقش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔مذکورہ ناول آخری سواریاں میں سید محمد اشرف نے زبان کے داخلی ربط، تہذیب و تاریخ کے باہمی رشتے اور ہندوستانی پس منظر میں ان سے متعلق رو نما ہونے والے حادثات اور ان کے اثرات بڑی خوبی سے فن کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ محض تیمور لنگ سے بہادر شاہ ظفر تک کے حکمرانی کے سفر کو ہی نہیں صوفیا ء کے عمل کو بھی مختصر الفاظ میں، اشاروں اور کنایوں کی مدد سے بیان کر دیا ہے کہ مشترک اظہار و باہم اختلاط کے سبب کس طرح گنگا جمنی تہذیب اور اس کی نمائندہ اردو زبان ملک کے چپے چپے میں پھیل جاتی ہے اور پھرکیونکر اس پر آسیبی سایہ مسلط ہوتا ہے اس کو بخوبی گرفت میں لیا ہے ۔۔۔۔۔‘‘ (دور زیاں کا ثقافتی بیانیہ، مرتبہ :پروفیسر سیما صغیر، ص: ۷)

سید محمد اشرف کا شمار دور حاضر کے معروف و معتبر فکشن نگاروں میں ہوتاہے۔ انہوں نے اپنے پہلے ہی ناولٹ ـ نمبردار کا نیلا ۱۹۹۷ء سے اردو فکشن میں اہم مقام حاصل کر لیا تھا۔  انیس (۱۹)سال کے طویل عرصے کے بعد ان کا دوسرا ناول ’’آخری سواریاں‘‘ ۲۰۱۶ء منظر عام پر آیا جسے ناقدین و قارئین نے خوب پسند کیا۔

اردو فکشن میں سید محمد اشرف کی اپنی ایک خاص پہچان ہے۔ تہذیب و تاریخ کے انوکھے انداز بیان کے لئے وہ جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے فکشن میں ہندوستانی تہذیب و تمدن اور لسانی و ثقافتی نقطہ نگاہ کو پوری فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ کبھی بھی نقطہ نظر کو فن پر غالب نہیں آنے دیتے۔ ان کی تمام تر تخلیقات پھر چاہے ’’وہ ڈار سے بچھڑے‘‘ ہو یا ’’باد صبا کا انتظار‘‘، ’’نمبر دار کا نیلا‘‘ ہو یا ’’آخری سواریاں‘‘ قاری کو نہ صرف اپنی گرفت میں لیتی ہیں بلکہ تہذیب و تاریخ کے شبنمی حزن و ملال سے بھی واقف کراتی ہیں۔

سید محمد اشرف کا ناول ’’نمبر دار کا نیلا‘‘ (1997) اپنے موضوع، تکنیک اور انوکھے انداز بیان کی وجہ سے اردو ادب میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اس ناول میں ’’نیلا‘‘ نامی جانور کو علامتی روپ دے کر انسان کی خود غرضی، مکاری، فریب دہی، ظلم و ستم اور استحصال دیگراں کو بیان کیا گیا ہے۔  پلاٹ کے لحاظ سے ناول کے تمام واقعات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔  ناول میں پیش کردہ تمام چیزیں فطری اور حقیقی معلوم ہوتی ہیں اور انسان کی روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔ تفہیم کے لحاظ سے بھی ناول میں کوئی الجھاؤ یا پیچیدگی نہیں ہے۔ موضوعاتی نقطہ نظر سے ناول ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی سیاسی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔  اس میں ہندوستان کی سیاسی قیادت میں در آئی خامیوں کو ایماندارانہ انداز میں پیش کیا گیاہے۔  جزئیات نگاری اس ناول کا خاص وصف ہے۔ سید محمد اشرف کی نگاہ دور بیں اور فکر دور اندیش ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً ۲۲ سال قبل لکھے گئے ناول میں بیان کردہ حالات آج کے ہندوستان سے پوری طرح مماثلت رکھتے ہیں۔ آج بھی وہی سیاسی صورت حال ہے اور اس سے بھی بد تر۔ ناول کی زبان نہایت سلیس اور نفیس ہے۔  اجمال میں باتوں کو بیان کرنے کا ہنر خوب دکھتا ہے۔ ناول کی انہی گونا گوں خصوصیات نے اسے آفاقی بنا دیا ہے۔ ’’نیلا ‘‘ کا مالک ٹھاکر ذاتی مفاد کی خاطر کس طرح لوگوں کا استحصال کرتا ہے۔ دیکھیں ناول سے ایک مثال:

’’ہمارا ساتھ دینے میں تمہارا ہی فائدہ ہے اسے تم سمجھ نہیں پا رہے ہو۔ ایک تو یہ کہ تمہیں چئرمین بننے کے بعد صفائی کا ممبر انچارج بنا دوں گا۔ صفائی کے عملے کی آسامیاں تم اپنی مرضی سے بھرنا۔ قصبے میں نل لگوانے کا کام بھی تمہارے ہی سپرد ہوگا۔ ۱۰۰ نل منظور ہوتے ہیں کم از کم ۱۵ ضرور منگوانا ہوں گے۔ روزانہ سڑک نالیوں پر چونا ڈلوانے کا ایک بجٹ ہوتا ہے۔ اس پیسے کو تم دھرم کے کام میں لگا سکتے ہو جیسے اپنی بیٹی کی شادی کا کھانا اور کپڑا وغیرہ۔ کیوں کہ روزانہ چونا ڈلوانے سے نالیوں میں چونے کی گدی جم جائے گی جس کی وجہ سے مزید گندگی کاخطرہ ہے‘‘ وہ جھمن سے اچانک آواز بدل کر بولے تھے جھمن تو کیا سمجھتا ہے کہ میں تجھے اپنی چئر مینی کے لیے اٹھا کر لایا ہوں، نہیں نہیں۔ ایسا وچار بھی من میں مت لانا۔ ۔نہیں تو شاید اب بھی یہی سوچ رہا ہے۔‘‘(ص ۱۹۰ )

2016 میں سید محمد اشرف کا دوسرا ناول ’’ آخری سواریاں‘‘ منظر عام پر آیا جسے ادبی حلقوں میں خوب پسند کیا گیا۔ اس ناول میں انہوں نے قدیم تہذیب و ثقافت اور مضبوط اقدار و روایات کی پامالی پر اظہار افسوس کیا ہے۔ ناول کا پلاٹ مربوط ہے۔  کردار نگاری کے عمدہ نمونے کہیں جموّ تو کہیں خود راوی، کہیں ماسٹر پیارے لال تو کہیں شام لال کی شکل میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ناول میں ہندو مسلم اتحاد کی پختہ مثالیں کہیں جنم اشٹمی کے میلے تو کہیں کشتی کے میدان تو کہیں نماز استسقاء کی شکل میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کردار نگاری اور ہندو مسلم اتحاد کی مثالیں دیکھیں :

’’اس تخت پر ایک بوڑھا شخص لمبوتری سفید داڑھی، ملگجا انگرکھا نما پاجامہ پہنے سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اس کے سر پر تاج نہیں ایک مسلی ہوئی میلی کلاہ تھی۔ بادشاہ اتنا جھکا ہوا بیٹھا تھا جیسے سر کے ساتھ کمر بھی خمیدہ ہوگئی ہو۔ ان کے پیچھے ایک جوان شخص بیٹھا تھا جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ تھوڑی دیر میں گر جائے گا۔ چند ثانیوں تک وہ منظر نظر آتا رہا پھر باجرے کے پودھوں کی آڑ میں آ گیا جن کے اوپر سر کر کے دیکھنا اپنی موت کو دعوت دینا تھا۔ کھڑی میں اب جو منظر تھا وہ یہ تھا کہ اس تخت نما گاڑی کو پیچھے سے آہستہ آہستہ ٹھیلتے ہوئے ٹھٹے لگاتے آٹھ فرنگی سپاہی تھے جن کی تلواریں کمر میں بندھی تھیں‘‘ (ص ۱۶۴)

’’۔۔۔کبھی خلیفہ سراج کا پٹھا ہارتا اور کبھی یادوؤں یا ٹھاکروں کے گاؤں کا جیوٹ ہارتا۔ لیکن فتح ہر بار ماسٹر پیارے لال شرما کی ہوتی کہ اس آخری کشتی کی بڑی انعامی رقم کا آدھا حصہ وہ دنگل میں ہی وصول کر لیتے کہ اس رقم کی مدد سے ایک سال کسی غریب مسلمان کی بیٹی رخصت کی جاتی اور دوسرے سال کسی غریب ہندو کی بیٹی بیاہی جاتی‘‘ (ص ۱۱۱)

جزئیات نگاری ناول آخری سواریاں کا ایک خاص وصف ہے۔ متعدد مقامات پر کھانوں، لباس، پرندوں اور دیگر ضروری اشیاء کی جو تفصیلات سید محمد اشرف نے بیان کی ہیں وہ نہایت دلچسپ ہیں۔ سید محمد اشرف کے مشاہدہ کی وسعت اور تجربہ گہرائی ناول کے ہر حصہ میں کار فرما نظر آتی ہے۔میں یہاں جزئیات نگاری کی مثال کے طور پر ناول کا وہ حصہ پیش کرتا ہوں جہاں سید محمد اشرف نے بہادر شاہ ظفر کے دستر خوان پر سجے عمدہ اور لذید قسم کے پکوانوں کا ذکر کیا ہے:

’’چپاتیاں، پھلکے، روغنی، برئی، بیسنی، خمیری نان، شیر مال، گاؤ دیدہ، گلچہ، باقر خانی، بادام، پستے، چاول، گاجر اور مصری کی روٹی، نان پنبہ، نان گلزار، نان قماش، نان تنکی، نان خطائی، یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نور محلی پلاؤ، نرگس پلاؤ، سبزی پلاؤ، انناس پلاؤ، نکستی پلاؤ، فالسی پلاؤ، آبی پلاؤ، زمردی پلاؤ، زعفرانی پلاؤ، مزعفر پلاؤ، طاہری، زردہ، سویّاں، من و سلوا، یاقونی، فرنی، بادام کی کھیر، کدو اور کنگھی کی کھیر، نمش، شاخیں، خجلے، قتلے، دودھ کا دلمہ، بینگن کا دلمہ، بادشہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال، کباب سیخ، شامی کباب، گولی کباب، تیتر، بٹیر، لوزات خطائی، حلوے، مربّے، بادام، پستے، خشخاش اور سونف کی نُقل، موتی پاک، دُر بہشت قابوں اور طشتریوں میں چنے گئے، بیچ میں سلفدان رکھ دئے گئے۔ اوپر نعمت خانہ کھڑا کر دیا گیا کہ مکھیاں نہ آنے پائیں۔‘‘ (ص ۱۹۳)

ایک اور مثال ملاحظہ ہو:

’’جمو کہتی ہے کہ کبوتر کی نسل کے نام کے پہلے حرف یا لفظ کے ساتھ اس کبوتر کی خاص بات کو جوڑ لو تو وہ ایک لفظ بن جائے گا۔ اس نے اس طرح کے بہت سے بے تُکے لفظ بنائے اور مجھے سکھا دئے۔جیسے ’’لق دم‘‘ کا مطلب لقّہ کبوتر جس کی دم ناچتے ہوئے مور کی طرح اٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ لق دُم۔ لق دُم۔ میں دہراتا رہتا۔ایک اور طرح کے کبوتر تھے۔ خوب موٹے موٹے۔ ان کے پنچوں پر چھوٹے چھوٹے پر ہوتے تھے۔ ان کے پنچے ان پروں میں چھپے رہتے تھے۔ ان کا نام شیرازی تھا۔ جمو نے ان کا نام رکھا۔ شیر۔ شین سے شیرازی جن کے پیر پر پر ہوتے ہیں۔ چودہ پندرہ کے کبوتر تھے جن کے اس طرح کے نام مجھے رٹ گئے تھے۔ چچا میاں کے پاس اصیل، پھُل سَرے، جوگیا، کابلی، دوباز، گھاگھرے، لوٹن اور ریشم پرے اور جانے کون کون سی نسل کے کبوتر تھے۔‘‘ (ص۶۰)

سید محمد اشرف کی لسانی مہارت مسلم ہے۔  وہ مشکل اور پیچیدہ بات کو بھی بڑی آسانی اور مہذب انداز میں کہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ گویا وہ ایک ایسی زبان کے مالک ہیں جو ہر طرح کے اظہار پر قادر ہے۔  سید محمد اشرف نے ’’آخری سواریاں‘‘ میں مشاہدات و احساسات اور نفسیاتی مسائل کی جو باریکیاں بیان کی ہیں وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ پروفیسر غضنفر اس سلسلے میں لکھتے ہیں :

’’اشرف کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی روداد سنانے میں بھی کہانی کے ہنر کو نہیں بھولتے۔ انہیں کہانی کاہنر اچھی طرح آتا ہے اور اس فن پر انہیں دسترس بھی حاصل ہے۔ کہانی کا ہنر یہ ہے کہ اپنی روداد زمانے کی روداد بن جائے اور زمانے کی روداد اپنی روداد لگنے لگے ۔۔۔۔ایسا اس لیے ممکن ہو پاتا ہے کہ انہیں یہ گُر اچھی طرح معلوم ہے کہ کیا دکھانا ہے اور کیا چھپانا ہے؟ کس طرح اور کتنا دکھانا ہے اور کس طرح اور کتنا چھپانا ہے؟ ۔۔۔اسی طرح اشرف کو یہ بھی علم ہے کہ کہانی کی گرفت میں سامع یا قاری کو کس طرح لانا ہے ؟ اشرف یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کہانی میں کہاں تک راوی کو بیان کرنا ہے اور کب راوی کو ہٹانا ہے؟ بیان کی سوتر کو کب تک اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے اور کب اُسے دوسرے کے سپرد کرنا ہے؟ اشرف کے اس ناول میں بھی یہ ہنر اپنا کمال دکھاتا ہوا نظر آتا ہے۔‘‘ (مضمون ’’آخری سواریاں کے سوار‘‘ پروفیسر غضنفر، مشمولہ :دور زیاں کا ثقافتی بیانیہ، مرتبہ :پروفیسر سیما صغیر، ص ۱۱۲،۱۱۳)

سید محمد اشرف کی ہر تخلیق بطاہر قصہ نویسی نظر آتی ہے مگر ان کی سادہ اور شیریں زبان اس میں لطف و انبساط کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ اس کی بنیای وجہ یہ ہے کہ سید محمد اشرف قصہ کے اندروں میں جاکر المیہ کو تلاش کر کے اسے ایک فکر اور ایک فلسفہ کا روپ دے دیتے ہیں۔ان کی تحریروں میں آج کے مسائل کے ساتھ ساتھ قدیم تہذیب و ثقافت کے آبشار بھی ہیں۔ ’’آخری سواریاں‘‘ میں ماضی اور حال دونوں میں ایک خاس طرح کا ارتباط نظر آتا ہے۔ پروفیسر علی احمد فاطمی ’’آخری سواریاں‘‘ کو ایک شاہکار قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ ۔۔۔ہر اعتبار سے یہ ناول ماضی اور حال دونوں عہد کے رزمیوں کو پیش کرکے اسے ایک تخلیقی وحدت میں پرو دیتا ہے۔۔۔ یہ ناول رزمیہ، المیہ، طربیہ کے عناصر سے گھل مل کر ایک ایسے شاہکار کا روپ لے لیتا ہے جہاں قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، قاضی عبد الستار جیسے بڑے فنکاروں کی گونج سنائی دیتی ہے لیکن ان سب پر حاوی ہے اشرف کی اپنی گونج، اپنی آواز، اپنا سوز و گداز اور سب سے بڑھ کر اپنا انداز ۔۔۔۔‘‘ (مضمون ’’آخری سواریاں، گمشدگی کی جمالیات‘‘ پروفیسر علی احمد فاطمی، مشمولہ :دور زیاں کا ثقافتی بیانیہ، مرتبہ :پروفیسر سیما صغیر، ص ۷۰،۷۱)

مختصر یہ کہ سید محمد اشرف کے ناول اردو فکشن میں بیش قیمت اضافہ ہیں۔ اشرف کے مطالعہ کی وسعت، بیان کی پاکیزگی و نفاست اور لہجے کی نرمی و سادگی ان کے ناولوں میں جا بجا نظر آتی ہے۔ کردار نگاری، جزئیات نگاری اور تہذیب و ثقافت کے مؤثر اور انوکھے انداز بیان کی تمام ناقدین نے تعریف کی ہے۔

میں اپنی بات ممتاز فکشن رائٹر پروفیسر ذکیہ مشہدی کے ان جملوں پر ختم کرتا ہوںجو انہوں نے سید محمد اشرف کے فکشن کے تعلق سے لکھے ہیں :

’’علامتیں چیستاں بن جائیں تو فن کو مجروح کرتی ہیں اور قاری کے ذہن کو منغض۔ لیکن آپ کی علامتیں، جو بہت خوبصورت بھی ہیں، ایک پوری تہذیب، ایک پورا دور، ایک پوری قوم کا درد اپنے اندر سمیٹے نہایت روشن علامتیں ہیں۔ ایک پورے زوال کو کسی شعر کی طرح بیان کر رہی ہیں۔‘‘ (مشمولہ :دور زیاں کا ثقافتی بیانیہ، مرتبہ :پروفیسر س یما صغیر، ص: ۱۴)

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے