پانی پر لکھا نام ۔۔۔ رتن سنگھ

 

دریا، وقت کے بہاؤ کی طرح متواتر بہتا جا رہا ہے۔

اور میں اس کے پانی پر اپنا نام لکھنے کی بے سود کوشش کر رہا تھا۔ میرے حروف لکھے جانے سے پہلے ہی یوں مٹتے جا رہے تھے جیسے کہتے ہوں اہم اور غیر اہم کام ماضی کا حصہ بنتے ہی پگڈنڈی پر بننے والے زندگی کے نشانوں کی طرح مسافروں کے منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی مٹ جاتے ہیں۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ اس راستے پر چلتا ہوا کون بشر گزر گیا۔

لیکن میں تھا کہ بڑی محنت سے بڑے انہماک کے ساتھ یہ کام یوں کر رہا تھا جیسے کوشش کرتے رہنے سے مجھے کبھی نہ کبھی کامیابی مل جائے گی۔ کامیابی مل جائے گی اور میرا نام لہروں کی شکل میں ڈھل کر بہتا ہوا سمندر تک پہنچ جائے گا اور سمندر کا حصہ بن کر سمندر سا بڑا ہو جاؤں گا۔ ایک بحر بے کراں۔

پانی پر لکھے جانے والے میرے حروف لکھتے لکھتے ہی بکھر جاتے تھے اور ان سے میرے نام کی تشکیل نہیں ہو پا رہی تھی، لیکن اس پر بھی میری دل شکنی نہیں ہو رہی تھی۔ میری کوشش میں کوئی کمی واقع نہیں ہو پا رہی تھی اور اس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ دریا کے بہاؤ کے کنارے جس جگہ پر بیٹھا میں اپنے کام میں مشغول تھا، اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک چھوٹا سا بچہ دریا کی گیلی ریت سے گھروندہ بنانے میں منہمک تھا۔ میری طرح اسے بھی ناکامی ہی حاصل ہو رہی تھی۔ وہ اپنے پیر پر جمائی ہوئی ریت کے نیچے سے جیسے ہی اپنا پاؤں باہر نکالتا ویسے ہی دریا کا پانی اس کے گھروندے کے نیچے کی ریت کاٹتا اور اس کا گھروندہ ڈھے کر ڈھیری ہو جاتا۔

’ہت تیرے کی۔ پھر ڈھے گیا۔‘ اس قسم کے الفاظ بہ آواز بلند دوہراتا ہوا بچہ گھروندے کے ڈھہنے پر ایک نظر گھروندے کی بکھری ہوئی ریت پر ڈالتا۔ پھر ایک نظر میری طرف دیکھتا اور پھر اپنے آپ میں گم دوسرا گھروندہ بنانے کے لے اپنے پیر پر گیلی ریت جمانا شروع کر دیتا۔ لگتا تھا کہ اسے گھروندے ٹوٹنے میں بھی مزہ آ رہا تھا۔ اس لئے وہ نیا گھروندہ بناتے ہوئے اس کے دل میں زیادہ امنگ ہوتی تھی اور وہ زیادہ پھرتی سے، زیادہ لگن سے نیا گھروندہ بنانے لگتا تھا۔ بچے کا یہ ساہس میرے اندر بھی امید کی کرن پیدا کر رہا تھا۔ میری انگلیوں میں بھی نئی پھرتی بھر جاتی تھی اور میں جلدی جلدی پانی پر اپنا نام تحریر کرنے کی کوشش میں لگ جاتا۔

بچے کے پاس تو کوئی تجربہ نہیں تھا۔ وہ تو نیا نیا زندگی کے کھیل میں وارد ہوا تھا۔ اگر اس کے پاس کچھ تھا تو پریوں کے دیش کا کوئی خوبصورت سا سپنا تھا جسے وہ اس گھروندے کی شکل میں ساکار کرنا چاہتا تھا۔ اپنی زندگی کی خوشیوں سے بھرنا چاہتا تھا۔ لیکن میں۔۔۔ میں تو زندگی کے آخری پڑاؤ کی مسافت پر پہنچتے پہنچتے زندگی کی ناپائیداری سے اچھی طرح واقف ہو چکا تھا۔ مجھے تو پتہ تھا کہ۔۔۔

زندگی کی تمام مٹھاس کڑواہٹ میں بدل جاتی ہے۔

رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔

دوستیاں چھوٹ جاتی ہیں۔

اور یہاں تک ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ سے بھی روٹھ جاتا ہے۔

اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود میں پانی کی سلیٹ پر اپنا نام لکھنے کی کوشش میں پوری طرح مگن تھا۔ مجھے دل ہی دل میں یہ بھی پتا تھا کہ میری کوشش لاحاصل ہے۔ اس سے کچھ بھی ہونے والا نہیں، لیکن پھر بھی میں اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے تھا اور اس کی اصل وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ جو ہوا ہے نا۔۔۔ یہ نہ خود چین سے بیٹھی ہے نہ ہی کسی کو چین سے بیٹھنے دیتی ہے۔ سانس کے ذریعے یہ ہوا جو متواتر ہمارے اندر آتی جاتی رہتی ہے، تو خون دوڑتا ہے، دل دھڑکتا ہے، نبض چلتی ہے۔ بدن کا رُواں رُواں حرکت میں آ جاتا ہے اور پھر انسان ہوا کی طرح چین سے بیٹھ نہیں پاتا۔

میری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہو رہی ہے، بلکہ زندگی کے آخری پڑاؤ میں اس ملاح جیسی ہو رہی ہے جس کے ہاتھ کمزور پڑ گئے ہیں، پتوار کہیں گر چکے، اب ناؤ لہروں کے حوالے ہے۔ ہوا جدھر لے جاتی ہے، چلا جاتا ہے، لیکن جینے کی آس نہیں چھوڑتا۔ یہی حالت میری بھی ہے۔ نام لکھا نہیں جاتا۔ پانی کے کاغذ پر حرف بننے سے پہلے ہی بکھر بکھر جاتے ہیں مگر میں، پھر بھی لکھتا جا رہا ہوں۔

میں اپنے کام میں مگن تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ کسی پیڑ کی ٹہنی پانی میں بہتی ہوئی آ رہی ہے۔ جب وہ ٹہنی میرے قریب سے گزری تو میں نے دیکھا کہ اس ٹہنی سے لگے ہوئے چوڑے چوڑے سے پتے پانی میں جدھر سے گزر رہے تھے اپنے پیچھے ایک لکیر سی چھوڑتے چلے جاتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ تھوڑی دیر بعد لکیر مٹ جاتی تھی لیکن وہ بنتی ضرور تھی۔ پانی میں بنتی ان لکیروں کو دیکھ کر میرے دل کو ڈھارس سی بندھی اور میں نے سوچا کہ زندگی وقت کے بہاؤ میں جدھر سے گزرتی ہے، اپنے نقش ضرور چھوڑتی ہے۔ ایسا سوچ کر میری انگلیوں میں پھرتی بھر گئی اور میں جلدی جلدی اپنا نام تحریر کرنے لگا۔

اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ٹہنی جب بچے کے قریب پہنچی تو وہ پانی میں اترا اور ٹہنی کو پکڑ کر باہر لے آیا۔ پہلے تو وہ کچھ دیر ٹہنی کو غور سے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے دو دو تین پتوں کو ٹہنی کے ہی تنکوں سے جوڑ کر ایک چوڑا سا پتل بنا لیا۔ پھر اس پتل کو اپنے پاؤں کے نیچے رکھا اور اپنا گھروندہ بنانا شروع کر دیا۔

مجھ سے پانی کی سطح پر اپنا نام لکھا نہیں جا رہا تھا۔ ہر کوشش ناکام ہوتی جا رہی تھی۔ میرے ساتھ ساری عمر یہی ہوتا رہا ہے۔ خوشیوں کے تمام گھروندے پل دو پل میں ریت کے گھروندوں کی طرح کن کن بکھر گئے تھے۔

لیکن اگر یہ لڑکا اپنا گھروندہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو میں سمجھوں گا کہ میرا بھی گھروندہ بن گیا۔ میرا نام بھی پانی کی سلیٹ پر تحریر ہو گیا۔ کیا اسے کامیابی ملے گی؟ کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ممکن ہے مل جائے۔ ممکن ہے نہ ملے۔ کامیابی مل بھی سکتی ہے۔ نیا ذہن ہے۔ نئی سوچ ہے۔ آخر اس نے دریا میں اترنے کا حوصلہ پیدا کیا ہے اور ٹہنی کو پانی کی روانی سے چھین کر باہر لایا ہے۔ دریا کی روانی کیا ہے ؟ زندگی کے حالات کی روانی اور یہ بچہ ان حالات کو اپنے فن میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

’’دا کرے اسے کامیابی ملے۔‘‘ میں نے سوچا۔

’’پرماتما کرے کہ وہ گھروندہ بنالے۔‘‘ میں نے دل کی گہرائیوں سے اسے دعا دی۔

اور پھر تھوڑی دیر بعد ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھا کر میں بچے کی طرف دیکھنے جا ہی رہا تھا کہ میرے کانوں میں بچے کی تالیوں کی آواز سنائی دی۔

میرا گھروندہ بن گیا۔

میرا گھروندہ بن گیا۔

میں نے دیکھا کہ بچے نے اپنا پاؤں گھروندے سے باہر نکال لیا تھا اور اس کا گھروندہ پتوں کے پتل پر ٹکا اپنی جگہ پر قائم دائم تھا۔ پانی کی لہریں اب بھی گھروندے کے نیچے کی ریت کو بھگو رہی تھیں لیکن پتوں کا پتل بچے کے گھروندے کو کوئی آنچ نہیں آنے دے رہا تھا۔

میں اسی وقت اپنی جگہ سے اٹھا اور بچے کو اس کی کامیابی پر مبارک باد دینے کے لئے اس کے پاس پہنچا تو میں نے بچے کے گھروندے کو غور سے دیکھا۔ اس نے پتوں کے پتل کے علاوہ ٹہنی کی چھوٹی چھوٹی شاخوں کو شہتیر کے طور پر استعمال کیا تھا۔ کچھ پتوں کے پیڑ بنا کر اس نے گھروندے کے ارد گرد ایک ہرا بھرا باغ بھی بنا ڈالا تھا۔ اور بچے کا چہرہ اس ہرے بھرے باغ کی طرح ہی یوں لہک رہا تھا جیسے اس باغ میں چاروں طرف خوشیوں کے پھول کھل اٹھے ہوں۔ بچہ یوں محسوس کر رہا تھا جیسے وہ پریوں کے دیش میں پہنچ گیا تھا۔

مجھے اپنے پاس آتا دیکھ کر بچہ تھوڑی دیر کے لئے پریوں کے دیش سے واپس میری دنیا میں آ گیا اور مجھے میرے نام سے پکارا۔

’’لیکن تمہیں میرا نام کیسے معلوم ہوا؟‘‘

’’میں نے پانی کے بہاؤ پر بہتے آپ کے نام کو پڑھ لیا تھا اور اسی سے میرے دل میں امید جگی تھی کہ اگر پانی پر لکھی تحریر باقی رہ سکتی ہے تو میرا ریت کا گھروندہ بھی بن سکتا ہے۔‘‘

’’تو گویا ہم دونوں ایک دوسرے کی طاقت بن رہے تھے۔ ایک دوسرے کو زندگی دے رہے تھے۔ راہ دکھا رہے تھے۔‘‘ میں نے سوچا۔ بس یہی کچھ سوچتے ہوئے بچے کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ بولا، ’’یہ دیکھیے۔ میں نے تو آپ کا نام اپنے گھروندے پر بھی لکھ دیا ہے۔‘‘

پھر اس نے جیب سے موم کا دیا نکال کر روشن کیا۔ اسے اپنے گھروندے کے اندر رکھا اور پتل سمیت گھروندے کو اٹھا کر وقت کی لہروں کے حوالے کر دیا۔

گھروندہ بہتا ہوا ہم سے دور چلا گیا ہے۔ اس کے اندر رکھا موم کا دیا ٹمٹما رہا ہے۔ بچے کی آنکھوں میں ٹمٹماتی ان گنت خوشیوں کو دیکھ کر میری تمام ادھوری خوشیاں ماضی کے اندھیروں کو چیر کر مجھ سے یوں لپٹی جا رہی ہیں جیسے کوئی محبوبہ ہجر کے مارے عاشق کی سانسوں کو مہکاتی اس کے وجود میں اترتی جا رہی ہو۔

وقت کے بہاؤ پر اپنا نام لکھنے میں مجھے کامیابی ملی ہے یا نہیں، اس کے بارے میں پورے وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اتنا واضح ہے کہ اس بچے کے دل کی تختی پر میرا نام ٹھیک اسی طرح روشن ہو گیا ہے جس طرح دیا جلنے سے اس کا گھروندہ روشن ہو اٹھا تھا۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے