نظمیں ۔۔۔ کاوش عباسی

 

بیچ سمندر

____________________________

 

جَیسے

بیچ سمندر، دُور کہیں پر

کوئی کسکتا ڈُوبتا آدمی

کُچھ میوزک کی چُپ آوازیں دِل کو رُلاتی رہتی ہَیں

وقت ہمارا

غم و غُصّہ کا اُلجھا مُرقّع

اِن آوازوں ہی میں لرزاں رہتا تھا

ہم کِس کِس رُخ کے مسافر

دونوں

کِس کِس سمت کے ساتھی تھے

یہ کَیسا تِرچھا آڑا کرِس کراس تھا

کَیسا زہر میں ڈُوبا ہوا ساتھ تھا

جو دوزخ سا

دِل کی ساری تہوں میں سوزاں رہتا تھا۔

٭٭٭

 

یہ لوگ

____________________________

(کراچی کے، پاکستان کے اَور دیگر مُشابہ عِلاقوں کی مِڈل کلاس لوگوں کے نام)

 

سب سر نہوڑائے

ایک دوسرے کے بازو میں بازو ڈالے

ہِلتے جُلتے مِلتے

باہم جھُولتے اَور جھُلاتے

آنکھوں میں آنکھیں پگھلاتے

(جیسے ایسے آدھی جِنس بھی ہو جاتی ہے)

دن کو رات کئے جاتے ہیں

بلندی پر، کوئی ہے تو

لوگ اُس کی آواز کو

اپنی آنکھ نہ گردن اونچی کر کے دیکھتے ہیں

(سُننا تو کُجا)

نہ ہی اُس کی سوچ کی سچّائی پر ہاتھ اٹھاتے ہیں

نہ ہی جوشِ جنوں میں اُس کے نام کا نعرہ لگاتے ہیں

اُن کو اپنا نہوڑایا ہوا سر

گندے، مَیلے، لالچی، مہنگے

ایک لحاظ سے سَستے،

ریستورانوں، جنرل اسٹوروں اَور اپنے کمروں کی طرح کے

باہم جھُولتے اَور جھُلاتے

آنکھوں میں آنکھیں پگھلاتے

دوستوں کے بازو میں بازو ڈالتے

لوگوں کے منظر

اچھے لگتے ہیں

دُور، بلند،

وہ باغی دُنیا چاند پہ یا مرّیخ پہ جائے

جائے، جائے!

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے