اردو ادب میں شاد عارفی کا مقام ۔۔ ڈاکٹر منظر حنفی

اُردو ادب میں شادؔ عارفی کا مقام

 

ڈاکٹر مظفر حنفی

 


اُردو ادب کی مختلف اصنافِ سخن میں شاد عارفی نے جو کارنامے انجام دیے ہیں اور اضافے کیے ہیں اُن کی نوعیت ، انفرادیت ، افادیت اور مقدار کو ذہن میں رکھیے تو شادؔ کے ہاں میدانی دریاکاسا پھیلاؤ اور پہاڑی ندی کا زور شور نظر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میدانی دریا پھیل کر بہتا ہے اس لیے اُس میں اُتھلا پن اور پایابی آ جاتی ہے اور پہاڑی ندی زور شور سے بہتے ہوئے اپنا ذخیرۂ آب خارج کر کے بہت جلد خشک ہو جاتی ہے لیکن شادؔ عارفی کے فن میں پھیلاؤ کے باوجود گہرائی ہے۔ یہ گہرائی کانچ جیسے شفاف پانی کی سی گہرائی ہے جوسطحِ آب سے دیکھنے والوں کو پایا بی کے وہم میں مبتلا کر دیتی ہے لیکن اس میں اُترا جائے تو تھاہ نہیں ملتی اور اس کا طوفانی بہاؤ قدموں کو ٹکنے کی مہلت نہیں دیتا۔ فن کا یہ گہرا پاٹ دار اور تند و تیز دریا مسلسل پینتالیس سال تک پوری آن بان، تمکنت، بانکپن اور زور شور کے ساتھ بہتا رہا لیکن اس کے تخلیقی سوتے اتنے ذخّار تھے کہ ہمیشہ خطرے کے نشان کو چھوتا رہا۔
شادؔ عارفی غلام ہندوستان کی ایک ایسی چھوٹی سی سخت گیر ریاست میں پلے، بڑھے اور عمر گزار گئے جہاں اپنے لیے دنیاوی کامیابیوں اور راحتوں کے دروازے بند کرنے کے بعد ہی وسیع النظری بے باکی اور سیاسی شعور کو اپنایا جا سکتاتھا۔ جاگیر دارانہ معاشرے کی گھٹن اور اُس کی، آخری حدوں کو پہنچی ہوئی تمام خامیاں شادؔ کے ارد گرد بکھری ہوئی تھیں ، شعر و سخن کا معیار امیرؔ و داغؔ کے طرز کی جُگالی اور درباری قسم کی شاعری تک محدود تھا جس میں حقیقت نگاری اور صاف گوئی کی گنجائش کہیں نہ تھی۔ اس کے برعکس شادؔ عارفی کے دوسرے معاصرین کو، جو برطانوی ہند میں پھیلے ہوئے تھے، نسبتاُ بہت کھلی ہوئی سیاسی فضا اور سازگار ادبی ماحول میسر تھا اس کے باوجود شادؔ اپنے مقامی اور بیرونی ہم عصر فنکاروں سے بہت آگے نظر آتے ہیں ۔ شادؔ کے مطالعے میں اس پس منظر کو بطور خاص مدّ نظر رکھنا ہو گا۔
انھوں نے زندگی کو کسی ٹیلے پر چڑھ کر نہیں دیکھا ہے۔ وہ اس دریا میں ڈوب ڈوب کر اُبھرے اور اُبھر اُبھر کر ڈوبے ہیں چنانچہ اُن کے تجربات، ان کا مشاہدہ اور اُن کی صلاحیتیں اکتسابی نہیں ، وہبی ہیں ۔
اُن کی شخصیت بڑی متنوّع ، پہلو دار، چاق و چوبند اور اپنی بشری خامیوں کے باوجود انفرادی دل کشی کی حامل ہے۔
امام المتغزّلین ، حسرت موہانی نے اُردو غزل کو تصنع ، نمائش اور مبالغہ کی راہ سے ہٹا کر جس خلوص کے ساتھ اُسے ہندوستانی فضا سے روشناس کرانا چاہا تھا، اس کی تاریخی اہمیت برحق، لیکن اُن کی شاعری میں اس وصف کے حامل سطحی، سپاٹ، یک رُخے اور بے کیف نمونے زیادہ نظر آتے ہیں اور وہ کلّی طور پر گل و بلبل کی روایتی شاعری سے دامن کش نہیں ہوسکے۔ شادؔ عارفی کے عشقیہ غزلوں کے وسیلے سے ہمیں حقیقی معنوں میں پہلی بار ہندوستانی گھریلو محبت اور متوسط طبقے کے جیتے جاگتے ، مانوس، عاشق و محبوب اردو شاعری میں نظر آتے ہیں ۔ وہ رودادِ عشق بیان کرنے میں موشگافیوں سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے نجی تجربات کی چھوٹ سے غزل کو منور کرتے ہیں ۔ صحت مند جسمانیت، پاکیزہ جنسیت، نرم و گرم لمسیت، مردانہ اور فعال رُجحان اور احتساسی ذائقہ رکھنے والی جوان عشقیہ غزل اُردو شاعری میں شادؔ عارفی کے ہاں پہلی بار نظر آتی ہے۔ اس میدان میں از اوّل تا آخر اُن کے کوئی ہم سفر ہیں تو حسرتؔ اور آتشؔ ، لیکن آتشؔ بھی بہ لحاظِ مقدار و معیار شادؔ عارفی کی سطح سے نیچے رہ جاتے ہیں ۔
ظرافت، ہزلیہ پھکڑ پن اور سطحیت سے پاک نتھری ستھری خالص طنزیہ غزل اُردو ادب کو شادؔ عارفی کی دین ہے۔ اُن سے قبل غالبؔ اور دوسرے بڑے شاعروں کے ہاں خالص طنز کے حامل کچھ اشعار کبھی کبھار نظر آ جاتے تھے ، شادؔ نے پہلی بار خالص طنز کو اپنا فن قرار دے کر اپنی ایک انفرادی راہ تلاش کی جس میں قدما سے عہدِ حاضر تک اُن کے سامنے اکبرؔ یا کسی دوسرے بڑے سے بڑے شاعر کا چراغ نہیں جل سکتا۔ اُنھوں نے رائج الوقت اور فارمولا ٹائپ شاعری سے ہمیشہ اپنا دامن بچایا اس لیے ناقدین انھیں نظر انداز کرتے رہے۔
منظر یہ شاعری کے میدان میں شادؔ عارفی کی نظمیں اُردو کے بلند مرتبت منظر نگار شاعروں کی نگارشات کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہیں ۔
اُن کی جیسی حقیقت آمیز، متوسط ہندوستانی گھرانوں کی محبت کا ذکر کرنے والی سچی اور دلکش عاشقانہ نظمیں اُردو شاعری میں نایاب ہیں ۔ جس طرح حسرتؔ امام المتغزّلین ہیں ، عشقیہ نظموں کے باب میں شادؔ کو بھی امام تسلیم کرنا چاہیے۔
طنزیہ نظموں میں شادؔ عارفی مجتہد کا درجہ رکھتے ہیں اور ایک بالکل ہی نئی طرز کے موجد ہیں ۔ حقائق پر مبنی واقعات، گھریلو ، سماجی ، اشاریاتی اور علامتی نظمیں جن میں مکالماتی انداز اور ڈرامائی کیفیات نمایاں ہوں اور طنز رُوح کی طرح جاری و ساری ہو، اُردو ادب میں شادؔ کی طرف سے ایک نادر اور نایاب اضافہ ہیں ۔ ان کی ان نظموں میں جوسماجی مقصدیت اور حقیقت نگاری ہے اُس سے شعریت مجروح نہیں ہوتی اور یہ خصوصیت مشہور ترقی پسند شاعروں کے کلام میں بھی کم نظر آتی ہے۔ وہ ترقی پسند ضرور ہیں لیکن ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ نظریاتی طور پر کمیونزم سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن عوامی بہبود انسان دوستی کا جذبہ اُن کی نظموں میں ، پارٹی لائن پر کام کرنے والے کمیونسٹ شاعروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اُن کی نظموں میں موضوعات کا جو تنوّع اور پھیلاؤ ہے وہ گہرائی اور افادیت سے مل کر اُنھیں نظیرؔ اکبرآبادی، انیسؔ، اقبالؔ اور جوشؔ کی صف کا نظم گو بناتا ہے۔
وہ حق پرست، بے باک اور جری شاعر ہیں ۔ یگانہؔ چنگیزی کی طرح اُن کا لہجہ اور آواز دُور سے پہچان میں آنے والی چیزیں ہیں ۔ ہماری شاعری نے لہجے کے یہی دو شاعر پیدا کیے ہیں البتہ وسعتِ نظر ، موضوعات کے تنوع اور سماجی مقصدیت کے اعتبار سے شادؔ عارفی، یگانہؔ سے بلند ہیں ۔
اُن کی رباعیوں ، قطعات، نعت و منقبت، سہرے اور مبارکبادیوں ، بچّوں کے گیتوں اور ہندی نظموں میں بھی انفرادیت اور مخصوص لہجے کی جھلک ملتی ہے لیکن یہ تخلیقات اُن کی ادبی قامت کو بالا نہیں کرتیں ۔
نثر میں اُن کے تخلیقی مضامین دلچسپ اور پُر لطف ہونے کے باوجود اُن کی ادبی حیثیت میں کوئی اضافہ نہیں کرتے لیکن اس بات کے شاہد ضرور ہیں کہ اُنھیں زبان کا سچّا شعور حاصل تھا۔
اُن کے تنقیدی مضامین سکّہ بند تنقید کے معیار پر پُورے نہیں اُترتے کیونکہ وہ تنقید میں تخلیق کا سا لُطف پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور غیر متعلق امور پر بحث چھیڑ کر مضمون کو زیادہ پہلو دار بنانے کی سعی کرتے ہیں ۔ اُن کا یہ انداز آگے چل کر ایک نئے دبستانِ تنقید کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کے نمائندہ نقاد سلیم احمد، جیلانی کامران، سلیم اختر، محمود ہاشمی، وزیر آغا، وارث علوی، مظفر حنفی، باقر مہدی ، شمیم احمد، شمس الرحمن فاروقی وغیرہ ہیں ۔
شاعری میں الفاظ کے ساتھ جمہوری برتاؤ کرنے میں وہ اپنے ہم عصر تمام شاعروں سے آگے ہیں ۔ اس باب میں اُن کے ساتھ صرف نظیر اکبر آبادی کا نام لیا جا سکتا ہے۔
شادؔ عارفی کے بعد آنے والے شاعروں کی پوری نئی نسل نے اُن سے اثر قبول کیا ہے اور یہ سعادت اُن کے دو ایک معاصروں کو ہی نصیب ہوئی ہے۔
اُردو کے مکتوباتی ادب میں اُن کے خطوط بہ اعتبارِ تعداد و معیار غالبؔ کے مکاتیب کے بعد دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں ۔
وہ بیک وقت بڑے اور اہم غزل گو، منفرد نظم نگار، البیلے نقاد اور صاحبِ طرز مکتوب نویس ہیں ۔ اُردو ادب میں شاد عارفی کی طرح کسی ایک ہی فنکار نے اتنی بڑی تعداد میں ایسی اعلیٰ غزلوں ، بلند پایہ نظموں ، تخلیقی تنقیدوں اور ادبی مکتوبات کا اضافہ نہیں کیا۔ ایک اچھے اور بڑے فنکار کی طرح شادؔ کا فن بھی تہہ بہ تہہ اور پہلو دار ہے جسے کسی ایک صنفِ سخن میں قید نہیں کیا جا سکتا۔
ان تمام اوصاف کے پیشِ نظر شادؔ عارفی کی مجموعی ادبی حیثیت کا تعین کرنا ہو تو بہت محتاط رہتے ہوئے بھی اُنھیں میرؔ، غالبؔ اور اقبال کے بعد اُردو ادب کے گنتی کے اُن چند بڑے اور ممتاز فنکاروں کی صف میں نمایاں جگہ دینی ہو گی جن کی تعداد دس پندرہ سے زیادہ نہیں ہے۔
مجھے اے شادؔ ان رجعت پرستوں سے تو کیا لینا
کرے گی یاد مستقبل کی تہذیبِ جواں مجھ کو
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے