شادؔ عارفی کے معاشقے اور اُن کا تخلیقی ردّ عمل ۔۔ ڈاکٹر مظفر حنفی

شادؔ عارفی کے معاشقے اور اُن کا تخلیقی ردّ عمل

 

ڈاکٹر مظفر حنفی


ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق
اس سے زائد عشق کا اے شادؔ میں قائل نہیں
شادؔ عارفی نے دو بار عشق کیا اور دونوں مرتبہ ناکامی کا منہ دیکھا۔ پہلا عشق بلوغت سے قبل شروع ہوا اور اس کا سلسلہ دس سال جاری رہا۔ لڑکی اُن کے نانہال کی طرف سے دُور کی رشتے دار تھی، لیکن خاندانی اعتبار سے ہم مرتبہ نہ تھی اور شادؔ عارفی اس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جہاں ان کے بڑے بھائی ایک ساقط النسب عورت کے ساتھ دوسری شادی کرنے کے جرم میں خاندان سے علاحدہ کر دیے گئے تھے، لہٰذا شادؔ کو اس لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت نہیں مل سکی اور وہ دوسری جگہ بیاہ دی گئی۔ عشق میں اس ناکامی نے ان کے ذہن پر بہت گہرا اثر چھوڑا اور تقریباً تین سال تک ان پر جنونی کیفیت طاری رہی۔ اس کیفیت سے گزر چکنے کے تقریباً تین سال بعد انھیں دوسرا عشق تارا نام کی ایک لڑکی سے ہوا جس کے پڑوس میں شادؔ بچوں کو پڑھانے جاتے تھے لیکن یہاں بھی شادؔ عملاً ناکام رہے کیونکہ مذہب آڑے آتا تھا اور انھیں اس امر کا شدید احساس تھا کہ ان کے کسی غلط اقدام سے مسلمانوں پر ہندوؤں کو اعتماد نہ رہے گا۔ اس دوسرے عشق میں ناکامی نے شادؔ کی رہی سہی سکت چھین لی۔ اب ان کی مایوسیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ طرّہ یہ کہ اس دوہرے احساسِ شکست کو تا عمر زندہ و تازہ رکھنے کے لیے شادؔ کی دونوں محبوبائیں ان کے انتقال تک رامپور ہی میں مقیم رہیں ۔
ان معاشقوں کی کچھ تفصیل شادؔعارفی کے مکتوب بنام علی حماد عباسی میں بیان ہوئی ہے۔ اس خط کا متعلقہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’’بات یہ ہوئی تھی کہ مجھے اپنے دُور کے خاندان میں سے ( جہاں ہماری بیاہ شادی ممنوع تھی ) بہ اعتبار قومیت وہ گھٹیا قوم کی لڑکی تھی اور ہم لوگ خالص افعانی رزّڑ،ڈوڈال، اور آفریدی۔ ایک لڑکی سے ( نام نہیں بتاؤں گا) بچپن ہی میں محبت ہو گئی جو ساتھ کھیلے کا نتیجہ تھی۔ اس پر میں نے ایک غزل میں مقطع یوں کہا تھا:
ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق
اس سے زائد عشق کا اے شادؔ میں قائل نہیں
نتیجہ تو وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا یعنی وہی جو میری نظم’ ’ فسانۂ ناتمام‘‘ سے ظاہر ہے جس کو تفصیل سے میں نے اپنی نظم’سماج‘ میں بھی بیان کر دیا ہے۔ اس محبت نے مجھے جو نظمیں دیں وہ یہ ہیں ’ فسانۂ نا تمام‘،’ خط کی چوری‘،’ سماج‘ ،’ غمازہ‘ ،’ مفارقت، اور ایک آدھ نظم جو اب یاد نہیں آ رہی ہے۔ غزلوں میں بھی کچھ زیادہ مواد اس لیے فراہم نہیں ہو سکا کہ اس محبت میں نہ تو فراق کا سوال تھا نہ رقیب کا ڈر۔ وہ لوگ (لڑکی والے) خدا سے چاہتے تھے کہ میں پھنس کر شادی کر لوں تاکہ میرے خاندانی غرور کا سر نیچا ہو، اس لیے وہ ( اس کے ماں باپ) مجھے زیادہ سے زیادہ موقع دیتے رہے کہ میں خوب گھل مل جاؤں ۔ اب ہم جوان تھے۔ ایک روز مجھے’ اُدمات‘ لگا۔ اُدمات کو سمجھے۔ جوش جوانی میں آپے سے باہر ہو جانا۔ مگر ایمان کی بات ہے کہ وہ لڑکی آڑے آ گئی۔ کہنے لگی میں تم سے باہر نہیں ہوں مگر اس کے بعد محبت ختم ہو جائے گی اگر آپ یہ چاہتے ہیں تومیں حاضر ہوں ۔ عرب معشوقہ بثینیٰ اور اس کے عاشق جمیل کا واقعہ یاد آ گیا۔ یہ قصہ بھی سُن لو۔ یہ قبیلے بھی آپس میں بَیر رکھتے تھے مگر ان دونوں میں محبت ہو گئی۔ چھپ چھپ کر ملتے رہے۔ ایک دن جبکہ یہ قبیلے تلاشِ آب و سبزہ میں اپنے اپنے گلّے لے کر مختلف سمتوں میں جانے والے تھے گویا صبح کو روانہ ہوں گے تو بثینیٰ نے جمیل سے کہلا بھیجا کہ رات کو میں خیموں کے پیچھے روشنی کر دوں گی تم اسے دیکھ کر چلے آنا۔ میں وہیں ملوں گی۔ چنانچہ اس نے یہی کیا اور جمیل وہاں پہنچ گیا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد جمیل نے اظہارِ مطلب’ ’ خواہشِ وصل‘‘ کا اظہار کیا
تو بثینیٰ نے اپنی کمر سے خنجر نکال لیا اور کہا کیا تم ایسا ارادہ کر کے یہاں آئے تھے۔ کیا اسی کو عفّتِ عشق کہتے ہیں ۔ چلے جاؤ میرے سامنے سے ورنہ ابھی خنجر سے تمھارا کام تمام کر دوں گی۔ جمیل اس پر بجائے بگڑنے کے مسکرایا اور اپنا پیش قبض ( خاص قسم کا خنجر) کھینچ لیا اور کہا اگر تو وصل کا اقرار کر لیتی تومیں اسی خنجر سے تیرا کام تمام کر دیتا۔ خاندانی اختلاف کی بنا پر اُن میں شادی تو نہ ہو سکی مگر بیثنیٰ جب دوسری جگہ بیاہ کر چلی گئی تو وہ فقیر کے بھیس میں وہاں پہنچا اور آخر وقت تک اس کے دروازہ پر فقیر بن کر پڑا رہا اور مر گیا۔ ہاں تو اس کے سمجھانے سے میں سنبھل گیا۔ یہ محبت گیارہ سال رہی پھر اس کی شادی ہو گئی۔ اب میرے اوپر جُدائی کے تین سال قیامت بن کر گزر گئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دیوانہ ہو جاؤں گا۔ مجبوراً میرے استاد حکیم غلام حیدر صاحب ،جن سے میں نے فارسی اردو وغیرہ پڑھی تھی، جو جید طبیب بھی تھے، ان کے پاس پہنچا اور پوری حقیقت بیان کی۔ انھوں نے کہا اس کا علاج یہی ہے کہ کہیں اور محبت کرو۔ ’ ’ یہ کیسے ممکن ہے۔ ‘‘ میں نے عرض کیا۔ ’ ’ محبت آپ ہوتی ہے، محبت کی نہیں جاتی۔ ‘‘ تو پھر انھوں نے کہا تم پتنگیں اُڑایا کرتے تھے؟ میں نے کہا ہاں ۔ کہا پتنگ بازی شروع کر دو اور اپنے آپ کو اس میں کھو دو۔ چنانچہ بھیئے حماد! میں نے ساڑھے پانچ برس تک اس بُری طرح پتنگ بازی کی کہ شہر بھر میں میرا شہرہ ہو گیا۔ لوگ مجھے دیکھنے کو آنے لگے کہ کون ماسٹر ہے ( میں شہر میں ٹیوشن کرنے کی وجہ سے ماسٹر بھی مشہور تھا اور اب بھی ہوں ) جو اتنا بہتر پتنگ لڑاتا ہے۔ حکیم صاحب کا یہ علاج کارگر پڑا۔ اب میں اسے ایک حد تک بھُلا چکا تھا مگر مکمل طور پر آج بھی نہیں ( ابھی وہ زندہ ہے) پھر میں ایک جگہ ٹیوشن پڑھاتا تھا اس مکان سے سڑک پار کر کے ایک مکان میں ایک لڑکی’ ’تارا‘‘ نامی رہتی تھی وہ اسکول جا رہی تھی اور میں پڑھا کر لوٹ رہا تھا کہ اس کا سامنا ہوا اور وہی کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ عجیب الجھن اور دشواریوں کا سامنا رہا۔ میں مسلمان وہ ہندو۔ مگر زیادہ تر اس طرف سے ، کچھ اس طرف سے ایسے حالات بنے یا بنائے گئے کہ خط و کتابت اور ملاقاتیں آسان ہو گئیں ۔ یہ محبت پانچ برس رہی اور پھر سماج اور اختلاف مذہب کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اس کی تفصیل کافی دلچسپ ہے مگر پھر یہ فسانہ طویل ہو جائے گا۔ خط نہیں رہے گا۔ رامپور آؤ تو زبانی کہوں گا۔
اب میری عمر کافی زائد ہو چکی تھی۔ اس محبت نے کئی اچھی نظمیں دیں ’ ’ جہاں میں تھا‘‘،’ ’ ہولی‘‘،’ ’ دسہرہ اشنان‘‘ وغیرہ۔ ادھر گھریلو حالات یہ تھے کہ میرے جس بھائی نے شادی کی وہ والدہ کو چھوڑ کر علاحدہ ہو گیا( ہم تین بھائی تھے) دوسرے بھائی کی شادی ہوئی وہ بھی جورو کے غلام نکلے ، زن مرید کہیں کے۔ بڑے بھائی نے دو شادیاں کیں اور دونوں ناکام، یعنی والدہ سے متنفر۔ اب ۳۸ سال کی عمر میں جب والدہ نے مجھے شادی کرنے کو کہا تو میں نے عرض کیا کہ دو بھائیوں نے آپ کی کون سی خدمت کی جو آپ مجھ سے اتنی توقع رکھتی ہیں کہ میں آپ کا فرماں بردار ہی رہوں گا۔ انھوں نے مجھے سینے سے لگا لیا اور کہا نہیں ، مجھے تجھ پر بھروسہ ہے۔ پھر بھی میں ٹالتا رہا۔ مگر ایک دن ( ہونے والی بات) والدہ صاحبہ نے جن کی عمر ۸۰ سال تھی اس وقت (موصوفہ نے ۱۰۵ سال کی عمر میں وفات پائی)ایک روز بھنڈیاں پکائیں ۔ بھنڈی بنانے کے بعد چاقو بھی چنگیر میں بند کر کے رکھ دیا اور پکاتے وقت نہ تو انھیں یاد رہا اور نہ سوجھا۔ چنانچہ چاقو بھنڈیوں کے ساتھ پک گیا۔ میں عموماً ٹیوشنیں کرنے کے بعد ۱۰ بجے رات کو گھر پلٹتا تھا۔ خود ہی کھانا نکالتا اور خود ہی کھاتا۔ بھنڈیاں جب نکالیں تو چاقو نے رکابی میں گر کر کھٹاکا دیا۔ میں نے چونک کر دیکھا کہ یہ کس قسم کی بھنڈی ہو سکتی ہے۔ لالٹین کی بتّی اونچی کی تو پتہ چلا کہ راجرس چاقو بھی بھنگر آ گیا تھا۔ اس واقعہ سے میری خالائیں وغیرہ بہت متاثر ہوئیں اور میں نے بھی سوچا کہ والدہ کی خدمت کے لیے کوئی نہ کوئی ضروری ہے۔ نوکرانی کو نہ تو محبت ہو گی اور نہ ضرورت کہ وہ میرے پیچھے ان کی حسبِ منشا کام کرے اور نہ ساز و سامان سے ہمدردی۔ چنانچہ مجبوراً یہ شادی کی۔ یقین کرو کہ اب جنسی بھوک کا کوئی خیال نہ تھا۔ صرف والدہ کی خدمت مدِّ نظر تھی۔ چنانچہ وہ شادی رچا دی گئی۔ مرنے والی میں عموماً اچھائیاں دیکھی گئی ہیں اس لیے وہ بھی بڑی شوہر پرست اور خدمت گزار ثابت ہوئی۔ میری والدہ کی خدمت اپنا فرض سمجھتی رہی۔ کچھ یہ بھی تھا کہ وہ میرا منشاء پا گئی تھی۔ اس معاملے میں عورت بڑی چالاک ہوتی ہے۔ اس نے ایک آدھ مرتبہ والدہ کے سلسلے میں مجھے ٹٹولا مگر میرا اثر نہ لینا اسے’ ’ پند نامۂ شوہر‘‘ ثابت ہوا اور پھر کوئی ایسی بات نہ کی جس سے میری والدہ کو تکلیف کا احساس ہوتا۔ ‘‘
ان معاشقوں کا ردِّ عمل شادؔ عارفی کے اشعار میں اس طرح نظر آتا ہے:
میرے ہاں وہ اور کبھی میں اس کے گھر
اک قدم پھولوں پہ ، اک تلوار پر
۔ ۔ ۔
سانولا رنگت کشیدہ قامت
نہ پری ہے نہ کوئی حُور ہے وہ
۔ ۔ ۔
بھرا گھر جس کی شوخی اور طرّاری کا قائل ہے
مجھے دیکھا کہ اس پر ہو گئی سنجیدگی طاری
۔ ۔ ۔
لائے ہیں تشریف تکیوں پر دلائی ڈال کر
حُسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے
۔ ۔ ۔
راتیں گزر گئی ہیں مجھے جاگتے ہوئے
تکیوں سے اب تو اس کے پسینے کی بُو نہ آئے
۔ ۔ ۔
چھُپ چھُپ کے جو مصروفِ دعا میرے لیے ہے
شاید وہ بُتِ ہوشربا میرے لیے ہے
۔ ۔ ۔
مًسکرا دیں گے،مرا نام کوئی لے دیکھے
وہ کسی فکر میں بیٹھے ہوں ، کسی کام میں ہوں
۔ ۔ ۔
کھنچے رہیے تو سو سو طرح نظارے لُٹائیں گے
بُتوں سے آپ کو بھی واسطہ اکثر رہا ہو گا
۔ ۔ ۔
کہیں پڑوس، نہ در تک، نہ بام پر جائیں
جو ہم پہ ہوں یہی پابندیاں تو مر جائیں
۔ ۔ ۔
آپ یا میں ، سوچیے، الفت جتاتا کون ہے
انجمن میں آنکھ ملتے ہی لجاتا کون ہے
۔ ۔ ۔
جذبۂ محبت کو تیرِ بے خطا پایا
میں نے جب اسے دیکھا، دیکھتا ہوا پایا
۔ ۔ ۔
’حسیں ہو تم‘،’ آپ کی بلا سے‘،’ پری ہو تم‘ ،’ آپ کی دعا سے‘
جواب ملتا ہے سخت لہجے میں ، اُن سے جو بات پوچھتا ہوں
۔ ۔ ۔
بھیجا ہے اس لحاظ سے شادؔ اس کو آئینہ
کیا حال ہو گیا ہے محبت چھپا کے ، دیکھ
ان شعروں کی تخلیق آج سے پچاس سال قبل کی گئی تھی۔ عہدِ حاضر کے قاری اور اس زمانے کے پڑھنے والوں کے مزاجی فرق کو ملحوظ رکھا جائے تو واضح ہو گا کہ ممکن ہے آج اس قسم کے اشعار کہنے والا غزل کا باغی نہ سمجھا جائے لیکن اس عہد میں اساتذہ نے شادؔ عارفی کو ضرور’ نا شاعر‘ قرار دیا ہو گا۔ اس زمانے میں اس نہج کی جدّت اور اختراعیت کا کیا مفہوم تھا، اس کا صحیح اندازہ آج بمشکل ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان اشعار کی روشنی میں شادؔ عارفی کا یہ دعوہ کچھ ایسا غلط بھی نظر نہیں آتا کہ انھوں نے خوبصورتی کے ساتھ واقعیت کو مصور کرنے کی کوشش کی ہے صاف دکھائی پڑتا ہے کہ غزل میں ان کی محبوبہ متوسط طبقے کی ایک ہندوستانی لڑکی ہے جو ذہین اور تیز و طرار بھی ہے، الھڑ اور معصوم بھی۔ یہ محبت یکطرفہ نہیں ہے۔ شادؔ کی محبوبہ ان کی خاطر بال سکھانے حیلے سے آنگن ناپتی ہے ، دردِ محبت سے بے چین ہو کر روتی ہے اور اسے چھپانے کے لیے دردِ سر کی آڑ لیتی ہے، راہ میں جہاں شاد ؔ رُکتے ہیں ، وہ برقِ سرو قد بھی ٹھہر جاتی ہے۔ انھیں رجھانے کے لیے مسلسل انگڑائیاں لیتی ہے۔ صرف شادؔ ہی اس کے گھر نہیں جاتے وہ بھی سماجی پابندیوں کی تلوار پر چل کر اُن کے گھر آتی ہے،وہ روایتی غزل کے فرضی مجبوب کی طرح پری یا حور نہیں ، اسی جیتی جاگتی دنیا کی ایک کشیدہ قامت، سانولی رنگت کی حقیقی لڑکی ہے۔ عام طور پر شوخ و طرار لیکن شادؔ کو دیکھتے ہی وہ مصنوعی سنجیدگی اختیار کر لیتی ہے، تکیوں پر دُلائی ڈال کر گھر سے بے خوف و خطر ان سے ملاقات کرنے آ جاتی ہے۔ شادؔ کے تکیے اس کے پسینے کی بُو سے رچ بس گئے ہیں ۔ ۃہ ان کے لیے چھپ چھپ کر دعائیں مانگتی ہے۔ اور کتنی ہی فکر مند یا مصروف ہو، شادؔ کا نام سُن کر مسکرا دیتی ہے۔ شادؔ کھنچے کھنچے رہتے ہیں توسو سو طرح نظارے لُٹا کر انھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہے، اس پر بھی پابندیاں عائد ہیں کہ پڑوس ، در یا بام پر نہ جائے، وہ شادؔ سے آنکھ ملتے ہی لجا کر الفت کا اظہار کرتی ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ شادؔ سے خفا ہو کر پیار کی باتوں کے جواب میں آپ کی بلا سے، اور آپ کی دُعا سے، قسم کا بہ ظاہر سخت لیکن بہ باطن پیار بھرا لہجہ اپناتی ہے پھر بھی شادؔ جب اُسے دیکھتے ہیں ، اپنی طرف دیکھتے ہوئے پاتے ہیں ،اس کے سامنے پہنچ کر وہ واپس جانے کا تصور بھی نہیں کر پاتے۔ ان کی محبوبہ تابِ ہجر نہ لا کراس حالت کو پہنچ جاتی ہے کہ شادؔ کو بطورِ ہمدردی آئینہ بھیجنا پڑتا ہے کہ کہ وہ اپنی حالت سُدھار سکے۔
سادہ سادہ سے واقعات ہیں لیکن زندگی، حُسن اور حرارت سے کتنے بھرپور۔ شادؔ عارفی کے علاوہ پوری اُردو شاعری میں غزل اس حد تک سچ بولتی ہوئی صرف حسرتؔ کے یہاں نظر آتی ہے۔ حسرتؔ اُردو غزل کے امام کہے جاتے ہیں کہ اُنھوں نے تجدیدِ غزل کا سامان کیا۔ امام کے لیے مقلدین ضروری ہوتے ہیں لیکن نگاہ غور بیں سے حسرتؔ کے فوراً بعد آنے والی نسل کا جائزہ لیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ کلامِ حسرتؔ نے اس حد تک اگلی نسل کو متاثر نہیں کیا جتنا کہ شادؔ عارفی کی شاعری نے نئی نسل پر اپنا اثر قائم کیا ہے۔ یہ بحث آگے آئے گی، فی الحال یہ عرض کرنا تھا کہ ہر چند کہ شادؔ عارفی نے کہا ہے:
دس پانچ برس حضرتِ حالی ؔ کی طرح شادؔ
مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے
لیکن یہاں اُن کا مفہوم صرف یہ ہے کہ وہ حالیؔ کی طرح عاشقانہ شاعری سے مقصدی شاعری کی طرف آئے ہیں ورنہ ان کی عشقیہ شاعری دس پانچ برس کا نہیں چوتھائی صدی کا احاطہ کرتی ہے اور ان کی’ ریشمیں غزلوں ‘ پر کہیں بھی حضرتِ حالیؔ کی عشقیہ غزلوں کے سپاٹ پن کا سایہ نہیں پڑا ہے نہ انھوں نے غزل میں حالیؔ سے اثر قبول کیا ہے البتّہ حسرتؔ کے اثرات ان کی عاشقانہ غزلوں میں اس حد تک ضرور پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنی داستانِ عشق میں سچ بولتے ہیں اور ان کا عشق بھی حسرتؔ کی مانند دونوں طرف آگ لگاتا ہے۔ انھوں نے بھی حسرتؔ کی طرح خاندان کی لڑکی سے عشق کیا اور اپنی شاعر ی میں عرب کے شعرائے جاہلیت سے اثر قبول کرنے کے علاوہ’ بنتِ عم‘ سے عشق کرنے میں عربی روایت پر بھی عمل پیرا ہوئے۔ ان کی شاعری میں احساس کی جتنی شدت ہے اتنی ہی محسوسات کی صداقت بھی ہے لیکن حسرتؔاور شادؔ کی عشقیہ شاعری میں بہت فرق بھی ہے۔ حسرتؔ کا عشق،ایک سیدھے سادے مولوی نما نوجوان کا عشق ہے اور ان کی محبوبہ بھی واجبی سی شوخی کے ساتھ ایک سادہ لوح دیہاتی لڑکی ہے۔ پھر حسرتؔ نے رودادِ عشق کے بیان میں کوئی خاص نُدرت نہیں برتی اور نہ کوئی مخصوص اسلوب اختیار کیا۔ اُن کے اشعار میں عاشق و محبوب کے نفسیاتی تجزیے بھی نظر نہیں آتے، وہ جیسا ان کے ساتھ عشق میں پیش آتا ہے اتنا کچھ ہی سچ سچ بیان کرنے پر قناعت کر لیتے ہیں ۔ یہ سپاٹ سچ بھی ان کی غزلوں کے سبھی اشعار میں نظر نہیں آتا، اکثر غزلیں خالصتاً روایتی گل و بلبل والی شاعری کا نمونہ ہیں اور بیشتر غزلوں میں ان کے مخصوص’ سچ‘ کے ساتھ روایتی رنگ کے اشعار ملے جلے ہیں ۔ بر خلاف اس کے شادؔ عارفی کے ہاں ہمیں حسن و عشق کی پیچیدہ کیفیات کے دائرہ در دائرہ عکس بھی واضح نظر آتے ہیں اور سچ بولنے میں بھی وہ حسرتؔ سے میلوں آگے ہیں ۔ ان کی عشقیہ غزل میں روایتی موضوعات پر مبنی اشعار بہت کم نظر آتے ہیں ، بقول آل احمد سرور:
’’ شادؔ کے یہاں صرف سماج کی خرابیوں پر طنز ہی نہیں ،محبت اور نفسیاتِ انسانی کی سچی تصویریں بھی ہیں اور انھیں ایک ایسے تیور اور بانکپن سے پیش کیا گیا ہے کہ فوراً ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں ۔ ‘‘
شادؔ کا کہنا ہے:
شریکِ راہ محبت ہے طبعِ موزوں شادؔ
ہر ایک شعر مرا حسبِ حال ہوتا ہے
اور:
دوسروں کے واقعاتِ عشق اپناتے ہیں وہ
جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں
اُن کے پاس دو دو معاشقوں کے ٹھوس اور حقیقی تجربات ہیں ۔ وہ حسرتؔ کی طرف مسکین طبع نہیں ، رامپوری پٹھان ہیں ۔ ان کی محبوبہ بھی گھریلو عورت ہونے کے باوجود ایک زندہ دل ، حاضر دماغ، ذی فہم، با شعور، چنچل اور ذہین دوشیزہ ہے۔ پھر شادؔ کی نُدرتِ ادا سونے پر سہاگے سے کم نہیں ، چنانچہ:
تغافل ، تجاہل سے آتا ہے عاجز
مرا کچھ نہ کہنا بھی حُسنِ طلب ہے
۔ ۔ ۔
تو وہ انداز جیسے میرا گھر پڑتا ہو رستے میں
پئے اظہارِ ہمدردی وہ جب تشریف لائے ہیں
۔ ۔ ۔
اے تُو! کہ شرارت سے نہیں پاؤں زمیں پر
تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشیں پر
۔ ۔ ۔
گدگدائے نہ بنے، ہاتھ لگائے نہ بنے
بن کے لیٹی ہو جوانی تو اٹھائے نہ بنے
۔ ۔ ۔
مری بے بسی ہو کہ بیکسی تری بے رُخی ہو کہ دلبری
کوئی کہہ رہا تھا کہ بیٹھ ابھی تری بزم سے میں جہاں اٹھا
………
بھولی سی ہم مکتب کوئی ، کوئی سہیلی خالہ زاد
ان کے ہاتھوں خط بھجواتے میں ڈرتا ہوں لیکن وہ
۔ ۔ ۔
عتاب کی نگاہ سے جھلک رہی ہیں شوخیاں
کسی بھی فن میں ہو مگر کمال بھی تو چاہیے
۔ ۔ ۔
نقاب کی یہ جنبشیں ، حجاب کے یہ زاویے
جو اس سے چاہتا ہوں میں اسے سمجھ رہا ہے وہ
۔ ۔ ۔
آپ اس کو اتفاقی بات کہتے ہیں ،مگر
سامنے آ جائے وہ دیوانہ وار، آساں نہیں
۔ ۔ ۔
کام کی شے ہیں کروٹن کے یہ گملے اے شادؔ
وہ نہ دیکھے مجھے،میں اس کا نظارا کر لوں
۔ ۔ ۔
لکھ کر میرا نام اے شادؔ
اُس نے بھیجا ہے رومال
۔ ۔ ۔
بہ پاسِ احتیاطِ آرزو یہ بارہا ہوا
نکل گیا قریب سے وہ حال پوچھتا ہوا
۔ ۔ ۔
نگاہِ اشتیاق میں وہ زلف و رُخ کے زاویے
کبھی سلام ہو گیا، کبھی پیام ہو گیا
۔ ۔ ۔
بھاگتا ہے جیسے جنگل میں شکاری سے ہرن
وہ ادھر دَر پر نظر آیا اُدھر روپوش تھا
۔ ۔ ۔
خط غلط تقسیم ہو جاتے ہیں اکثر، تم نے بھی
کہہ دیا ہوتا یہ کس کا خط مرے نام آ گیا
۔ ۔ ۔
کیا لکھ رہے ہو میری طرف دیکھ دیکھ کر
میں نے دیا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں
۔ ۔ ۔
رفتہ رفتہ میری’ الغرضی‘ اثر کرتی رہی
میری بے پروا ئیوں پر اُس کو پیار آتا گیا
۔ ۔ ۔
میں اس کو دیکھ رہا ہوں اس احتیاط کے ساتھ
ابھی تو جیسے محبت کی ابتدا بھی نہیں
آپ نے دیکھا، شادؔ کے یہ عشقیہ اشعار ہماری عام اردو غزل کے عاشقانہ اشعار سے بشمول حسرتؔ کتنے ہٹے ہوئے ہیں ۔ ان کے عاشق نے محبوب کے آگے سرِ تسلیم اس لیے نہیں خم کر رکھا ہے کہ بے زبانی روایتی شاعری کے عاشق کا شیوہ ہے۔ اس کی خاموشی در اصل حُسنِ طلب ہے کیونکہ وہ صنفِ نازک کی اس فطرت سے واقف ہے کہ اس کے تغافل کا جواب تجاہل سے ملے تو خود کھینچتی ہے۔ عاشق محبوب کی ایک ایک ادا کا مزاج داں ہے چنانچہ اظہارِ ہمدردی کے لیے تشریف لانے والی محبوبہ کی اس بناوٹ کو بھانپ لیتا ہے جو ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ راہ سے گزرتے ہوئے وہ یوں ہی عاشق کے گھر بھی آ نکلی ہے، ادھر شوخ اور چنچل محبوبہ ہے کہ اس کے پاؤں شرارت سے زمین پر نہیں پڑتے، بن بن کر لیٹ جاتی ہے کہ تہذیب عاشق کو نہ گدگدانے دیتی ہے نہ ہاتھ لگانے کی ہمت پڑتی ہے۔ شاعر کو صحبتِ یار سے اٹھنا ہے لیکن طبیعت نہیں چاہتی۔ وہ تجزیہ نہیں کر پاتا کہ اسے اپنی بے بسی اور بے کسی سے تعبیر کرے یا محبوبہ کی بے رُخی یا دلبری کواس کا سبب سمجھے۔ محبوبہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہے اور عاشق کا مشورہ ہے کہ بہر حال اسے دیکھ کر مسکرا دینے میں افشائے راز کا احتمال نہیں ہے۔ حیا خو محبوبہ اسے نگاہ بھر کر نہیں دیکھتی لیکن عاشق اس کے مدّعا کو پا لیتا ہے کیونکہ وہ محبوبہ کی محتاط طبیعت اور زمانے کی سخت گیری اور بہتان تراشی کو پہچانتا ہے۔ وہ محبوبہ کی ذرا ذرا سی بے اعتدالیوں پر اسے متنبہ کرتا ہے۔ کہیں کسی خاص خالہ زاد سہیلی کے ذریعے اور کبھی کسی بھولی بھالی ہم مکتب سے نامہ بر کا کام لیا جاتا ہے تو وہ محبوبہ کی رسوائی کے ڈر سے کانپ کانپ جاتا ہے۔ محبوبہ محبت کو عاشق سے بھی چھُپاتی ہے اور جواباً اسے آئینہ بھیجا جاتا ہے کہ دیکھ خود تیرا سراپا محبت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ محبوبہ کے نقاب کی ایک ایک جنبش اور حجاب کا ایک ایک زاویہ عاشق کے لیے سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ وہ دیوانہ وار عاشق کے سامنے بھی آتی ہے تو ایسی ذہانت کے ساتھ کہ لوگ سے ایک اتفاقی بات سمجھیں لیکن حقیقت عاشق پر روشن ہے۔ کروٹن کے گملوں کی آڑ سے چھپ چھپ کر اس طرح نظارہ کر لیا جاتا ہے کہ محبوبہ کو پتہ نہ چل پائے۔ دوسری طرف سے رومالوں پر شادؔ کے نام کاڑھ کر بھیجے جاتے ہیں ۔ یہ اور ایسے ہزاروں معاملات شادؔ عارفی کی عشقیہ غزل میں بھرپور شاعرانہ کیفیات کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔ بیسویں صدی کے ہندوستانی، مسلم متوسط طبقے کے عاشق و معشوق کی ان باریک نفسیاتی کیفیتوں پر اُردو کے کسی شاعر کی نگاہ اس طرح نہیں پہنچ سکی جس طرح کہ شادؔ اُن کے غماز ہیں ۔ یہاں نہ محبوب، میرؔ کے عہد کا ہے نہ عاشق قرونِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والا۔ شادؔ عارفی کی شاعری جس طرح ان کی شخصیت کے لیے نقاب نہیں بلکہ آئینے کا کام دیتی ہے بالکل وہی فریضہ ان کی عشقیہ، غزل اُن کے محبوب کے لیے انجام دیتی ہے اور یہ فریضہ ہماری شاعری میں کم کم ہی ادا کیا گیا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں :
’’ کلاسیکی اُردو غزل میں مجموعی طور پر محبوب کا تصور گھُٹا گھُٹا، بھنچا بھنچا ہے۔ دکنی شاعروں کو چھوڑ کی صرف میرؔ اور مصحفیؔ کے یہاں تصورِ حسن کا ہندوستانی روپ ملتا ہے،دہلوی شعراء سے لے کر حالیؔ اور حسرتؔ تک اُردو غزل میں جس محبوب کی کار فرمائی ملتی ہے اس کی ارضیت سے انکار نہیں لیکن اس کی جمال آرائی ٹھیٹھ ہندوستانی انداز سے نہیں کی گئی۔ ‘‘
(جوش ؔ اور فراق ؔ کا جمالیاتی احساس۔ ماہنامہ’ شاہکار‘ ( الٰہ آباد ) فراقؔ نمبر ص ۸۵)
شادؔ عارفی کی عشقیہ غزل ایسے چبھتے ہوئے حقیقت آمیز اعتراضات کے سامنے استثناء کی حیثیت رکھتی ہے۔
شاد عارفی کی عشقیہ غزل،سلیم احمد کے الفاظ میں اُردو شاعری میں ایک’ پورے آدمی‘ کے عشق کی داستان ہے جس کا لہجہ عام عشقیہ شاعری کے انفعالی لہجے سے علاحدہ اور منفرد ہے۔ اس آواز میں جو مردانہ پن ہے، وہ غزل کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کرتا ہے۔ حالیؔ کی اصلاحی تحریک کے زیر اثر، لکھنؤ اسکول کی بھونڈی اور مبتذل خارجیت کو ترک کر کے غزل میں میرؔ جیسی داخلیت کا دوبارہ دَور دورہ تو ہوا لیکن چونکہ اس داخلیت کو شعوری طور پر اپنایا جا رہا تھا اور اسے برتنے والوں میں کوئی میرؔ کی سی خلاقانہ صلاحیتوں کا عظیم فنکار نہ تھا اس لیے اپنی انتہا کو پہنچ کر اس نے فانیؔ کی قنوطیت کی شکل اختیار کر لی۔ جدید تر غزل کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی کہتے ہیں :
’’ بعض شعراء کا خیال تھا کہ غزل ضرورت سے زیادہ داخلی ہو جانے کی وجہ سے انفعالیت کا شکار ہو گئی ہے اس لیے اسے مردانہ لہجہ اور صلابت عطا کرنے کے لیے خارجیت کو بھی ایک حد تک اپنا نا چاہیے۔ یگانہؔ اور شادؔ عارفی نے اس عنصر کو ایک بار پھر اپنی غزل میں جگہ دی۔ یگانہؔ اور شادؔ دونوں زبان و فن پر بڑی قدرت رکھتے تھے اور ان کے یہاں ایک طرح کی تلخی اور طنزیاتی رُوح ان کے مزاج کا فطری عنصر معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے انھوں نے اس خارجیت سے خاصا کام لیا۔ ‘‘
( عشقیہ غزل: خلیل الرحمن اعظمی۔ سہ ماہی’ ’ فنون‘‘ ( لاہور) غزل نمبر حصہ اول ص ۷۲)
یہی وجہ ہے کہ شادؔ عارفی کی غزل پر کہیں کہیں آتشؔ کے رنگ کی چھوٹ پڑتی نظر آتی ہے۔ بے باک لہجہ اور بے تکلف انداز گفتگو اور محبوب کے سامنے بھی سپاہیانہ بانکپن کے ساتھ آنا،آتشؔ کی نمایاں خصوصیت ہے۔ شادؔ کے ہاں بھی ہمیں آتشؔ کی طرح شوخ لہجے کے ساتھ احساس کی گرمی، محبوب کے جسم کی آنچ،حُسن کی چلتی پھرتی تصویر اور عشق کی حقیقی کیفیات کی نقاشی ملتی ہے لیکن آتشؔ کی پوری شاعری اس پائے کی نہیں ہے اور بیشتر مقامات پر وہ بری طرح لکھنوی رنگ کا شکار ہو گئی ہے جب کہ شادؔ کی تقریباً تمام عشقیہ غزلیں ان خصوصیات کی حامل ہیں اور اُنکے ہاں یہ رنگ کافی نکھر کر اوپر آیا ہے۔ ان کے اشعار میں عاشق و محبوب کی انسانی فطرت اور نفسیات کے ایسے متحرک عکس نظر آتے ہیں جو پڑھنے والے کو دیر پا مسرت سے ہمکنار کرتے ہیں ، احتساسی شاعری اور لمسیت کی اتنی اچھی اور ایسی وافر مثالیں جن کے لیے انگریزی ادب میں کیٹسؔ مشہور ہے، اردو میں شادؔ عارفی کے ہاں بکثرت ملتی ہیں ۔ ثبوت میں کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
انگلیاں اس کی مرے ہاتھ میں ہیں جام کے ساتھ
ہاتھ کھینچے نہ بنے، جام گرائے نہ بنے
دیکھ پاتے ہیں جو ہم کو درمیانِ کوئے دوست
کھڑکیوں سے جھول جاتے ہیں بُتانِ کوئے دوست
۔ ۔ ۔
مچل رہے ہیں لبِ شگفتہ پہ اس طرح بے صدا دلاسے
چمن میں جس طرح ہل رہی ہوں گلاب کی پتّیاں ہوا سے
۔ ۔ ۔
وہ چشم نیم خواب، وہ زلفیں گری ہوئی
صبحِ بہار ایک ہی انگڑائی کی ہوئی
۔ ۔ ۔
شبِ مہتاب وہ پھولوں کا زیور منتشر زلفیں
بقولِ راز داں کیا خوشنما منظر رہا ہو گا
۔ ۔ ۔
وہ قریب سے گزرا ،بن کے صبح کا جھونکا
اس طرح کہ چپکے سے حرفِ مدعا کہہ دوں
۔ ۔ ۔
وہ زبانِ بے زبانی سے ابھی واقف نہیں
ہاتھ رکھنا پڑ رہا ہے بارہا دل پر مجھے
۔ ۔ ۔
ابھی ہنگامہ آرا دل میں ہے اک عشرتِ رفتہ
ابھی تک تیری خوشبو آ رہی ہے میرے بستر سے
شادؔ عارفی نئی بات کہتے ہیں یا عام سی بات کو اس زاویے سے کہتے ہیں کہ نئی ہو جاتی ہے۔ انھوں نے پُرانے لفظوں کو نئی فضا اور معنویت بخشی۔ یہی نہیں کہ ان کی عشقیہ غزلوں میں محاکات ،معاملہ بندی اور واقعہ نگاری ایک ایسے انوکھے انداز سے کی گئی ہے جو ان سے قبل نا پید تھا بلکہ وہ عشق کے تاثرات اور وارداتِ قلب کو بھی اسی ندرت ادا کے ساتھ بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے موضوعات کو ادراک و احساس کا لمس بھی دیا۔ شادؔ کی عشقیہ غزل میں بڑی حلاوت اور جذباتی آسودگی پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار دیکھیے:
سوتے ہی اپنے بسترپر
میں ہوتا ہوں اس کے گھر پر
۔ ۔ ۔
ذرا خاموش رہنے دے کہ ذہنی طور پر ہمدم
ابھی واپس نہیں آیا ہوں میں اس کے شبستاں سے
۔ ۔ ۔
لرز رہا تھا میں کہیں کھٹک نہ جائے انجمن
وہ انجمن میں آج اس قدر بچا بچا رہا
۔ ۔ ۔
جیسے کسی حسین کے ہونٹوں پہ سرد آہ
پھولوں کی پتیوں پہ کرشمے ہوا کے دیکھ
۔ ۔ ۔
حیرتِ جلوہ محبوب بتاؤں
ڈر رہا تھا کہ کہیں جاگ نہ جاؤں
۔ ۔ ۔
چارہ گر الفت کی نفسیات سے واقف نہیں
لے کے نام اس کا کوئی دیکھے مرے چہرے کا رنگ
۔ ۔ ۔
حُسن ہر حال میں ڈرتا ہے ہوسناکوں سے
پھول کھِلتا ہے تو ہر سو نگراں ہوتا ہے
۔ ۔ ۔
دھیمی پے چل، بھینی خوشبو، ہلکی دستک جاری ہے
یا وہ ہے، یا صبحِ بہاراں ، یا ذہنی گُلکاری ہے
۔ ۔ ۔
تجھ بِن مرا مذاق اُڑانے کے واسطے
ہر مہ جبیں نقاب اُٹھا کر ٹھہر گئی
۔ ۔ ۔
بتائیں کیا کہ کسی بُت کو ہم نے کیوں چاہا
یہ فیصلہ تو ہماری نگاہ پر رکھیے
۔ ۔ ۔
جہاں سے اُس نے بچشم غلط نظر ڈالی
وہیں سے کنگرۂ آرزو بلند ہوا
۔ ۔ ۔
جاڑے کی وہ بھیگی راتیں ، گرمی کے یہ جلتے دن
یادوں کے دانتوں سے ناخن کاٹ رہا ہوں لیکن وہ
۔ ۔ ۔
اپنی جانب سے نہیں ممکن جو ان کو خطِّ شوق
بھیج دینی چاہیے میری غزل لکھ کر مجھے
۔ ۔ ۔
بڑھ جاتی ہے اس روز مناظر کی اُداسی
جب اس سے ملاقات کا امکاں نہیں ہوتا
۔ ۔ ۔
شادؔ صاحب جو ہنسے پڑتے ہیں ہر بات میں آپ
آج وہ ہوشربا آپ کا مہماں تو نہیں
۔ ۔ ۔
مخاطب ہے وہ ایسے زاویے سے
جسے دیکھو مرا منہ تک رہا ہے
۔ ۔ ۔
دلنوازی جو بھرے گھر میں نہیں بن پڑتی
رُخِ محبوب پہ گیسو ہی بکھر پڑتا ہے
ڈاک سے بھینی خوشبو والے خط پر خط آئے تو اک دن
پوچھے گا خط لانے والا، بابو جی! یہ خط کس کا ہے
شادؔ عارفی کی عشقیہ غزلوں میں فطری سادگی ،شوخی اور لہجے کا انوکھا پن ہے۔ ان میں جوانی کی تازگی،متوسط طبقے کے نوجوان کو پیش آنے والا واقعات کی سرشاری اور زندگی کی حرارت ہے جس میں محاکاتی پہلوؤں کے ساتھ ایک خوشگوار سا کھُردرا پن،واقعیت، خلوص اور بے جھپک قسم کا مکالماتی طرز( جسے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ حقیقی شاعری کا جزوِ اعظم قرار دیتا ہے) طرفہ کاری، تنوع،واشگاف مخاطبت اور ابلاغ کا براہِ راست انداز ہے۔ ہر چند کہ اس میں حیات و کائنات کے متعلق کوئی خاص نظریہ یا زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے گہرے تجربات کا عکس اور فلسفیانہ تفکر نہیں ہے ( جسے حقیقی عشق کے بیان میں ہونا بھی نہیں چاہیے) لیکن اپنے جدید اسلوب اور مخصوص رنگ و آہنگ کے لحاظ سے اس غزل کی ایک جدا گانہ اور منفرد اہمیت ہے۔ در اصل شادؔ عارفی نے روایتی غزل کے مروّجہ علائم و رموز سے رو گردانی کرتے ہوئے غزل کی مخصوص رمزیت اور اشاریت سے دانستہ پہلو تہی برتی اور موضوع کی براہِ راست ترجمانی کا فن اختیار کیا۔ اس طرح وہ بڑی فراخدلی کے ساتھ غزل کی مروجہ علامتوں ، تمثیلوں ، کنایوں اور ان کے ساتھ وابستہ ذہنی متعلقات اور تصوراتی لوازمات سے دست بردار ہو گئے۔ نتیجے کے طور پر ان کی غزل کسی حد تک ان لوازمات کی پیدا کردہ پہلو داری اور اس پس منظر کے ایک حصے سے محروم بھی ہو گئی جو غزل کی روایت عام اشعار کو فراہم کرتی ہے ، نیز وہ شے بھی ان کے ہاں کم نظر آتی ہے جسے اساتذہ خالص تغزل کا نام دیتے ہیں ۔
ان غزلوں کے گہرے مطالعے سے اس حیرتناک حقیقت کا انکشاف بھی ہوتا ہے کہ اس کھلے کار و بارِ عاشقی میں کہیں جنسی کثافت کی کھوٹ نہیں ہے۔ شادؔ جیسا کھل کر بات کہنے والا شاعر کہیں محبوب یا تصورِ محبوب کے ساتھ کھل نہیں کھیلا۔ نازک سے نازک تر مقام پر بھی انھوں نے احترام حسن کو ملحوظ رکھا ہے۔ اس کا سبب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ بے باک اور حق پرست تو تھے، لیکن ان کے دل و دماغ پر مذہب کا جو اثر قائم ہو چکا تھا اس نے عام زندگی میں بھی انھیں محبوب کے جسم سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں دیا حتیٰ کہ ان کے دونوں معاشقے اس اعتبار سے ناکام رہے کہ وہ اپنے محبوب سے شادی نہ کر سکے لیکن اس جذبے نے عشقیہ غزلوں میں جہاں انھیں شدتِ احساس سے مالامال کیا،وہیں انھیں دوسرا جرأتؔ ہونے سے بچا لیا ورنہ ان کا مزاج حقیقت کو نقاب پہنا کر سامنے لانے کا عادی نہ تھا۔ اس سلسلے میں ان کے خیالات کا اندازہ ان اشعار سے ہو سکتا ہے:
عشق بانہیں مروڑنے میں نہیں
شاعری پھول توڑنے میں نہیں
۔ ۔ ۔
ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق
اس سے زائد عشق کااسے شادؔ میں قائل نہیں
۔ ۔ ۔
احترامِ جلوہ چینی یہ بھی کچھ تھوڑا نہیں
آنکھ نے جس پھول کو دیکھا اسے توڑا نہیں
۔ ۔ ۔
خوشنما پھولوں کو چھونا کفر تھا میرے لیے
گدگدا سکتا تھا ورنہ بارہا پہلوئے دوست
۔ ۔ ۔ ۔
ہم ہی کچھ احترام کرتے ہیں
ورنہ دامن چھڑاکے بھاگ نہ پاؤ
۔ ۔ ۔
ذکر قرب دوست ہی میرے لیے کافی ہے شادؔ
جبکہ اربابِ غزل کہتے وہ ہم آغوش تھا
حسرتؔ جیسے مہذّب انسان اور پاکباز شاعر کے ہاں بھی کافی اشعار میں دھول دھپّے والی وہ کیفیت مل جاتی ہے جسے خود انھوں نے،فاسقانہ شاعری کا نام دیا ہے لیکن شادؔ کی غزلوں میں تلاشِ بسیار کے بعد بمشکل دو تین اشعار اس قسم کے ملیں گے:

پھانس نکلوانے کے کارن دے دیتا ہوں ہاتھ میں ہاتھ
موقع پا کر ران میں چٹکی بھر لیتا ہوں ، لیکن وہ
۔ ۔ ۔
اک بھینی بے نام سی خوشبو
شامل ہے ہونٹوں کے رس میں
۔ ۔ ۔
یہ گدگدانا یہ بوسۂ لب اسی کا ردّ عمل سمجھیے
ابھی جو ارشاد ہو رہا تھا کہ ہم سے کیوں کوئی بولتا ہے
اپنی شاعری کی جنسیت اور ارضیت کے باوجود وہ عشق اور ہوسناکی کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔ عملاً ہجر نصیب شاعر ہونے کے باوجود حرماں نصیبی کی فضا، چند اشعار کے استثناء کے ساتھ، شادؔ کی عشقیہ غزلوں میں نہیں پائی جاتی۔ انھیں خود بھی اعتراف ہے کہ:
’’ میرے یہاں غمِ جاناں کا ذکر بہت کم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں محبت میں خود داری کو ہاتھ سے دینے کا قائل نہیں ہوں ۔ ‘‘
اُن کی پوری عشقیہ شاعری دیکھ جائیے۔ بہت کم اشعار اس روایتی انداز میں ملیں گے جس میں ہمارے غزل گو محبوب کو ستم پیشہ اور غارت گر قرار دے کر اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے ملتے ہیں ،اور دشنامِ یار کے طبع حزیں پر گراں نہ گزرنے کا اعلان فرماتے ہیں ۔ غالبؔ کی طرح شادؔبھی اس معاملے میں بے حد غیور اور خود دار عاشق ہیں ۔ محبوبہ کو جی جان سے چاہتے ہیں لیکن اس کے ہاتھ اپنی عزت نیلام نہیں کرتے:
محبت میں خودی کی موت بھی دیکھی نہ جائے گی
اگر میں بارِ خاطر ہوں تو اٹھ جاؤں ترے در سے
۔ ۔ ۔
جھٹک کے ہاتھ سے دامن کو جانے والے ، بس
ترے خیال کا دامن بھی چھوڑتا ہوں میں
۔ ۔ ۔
کس طرف رُوئے سخن ہے،نام اس کا لیجیے
بِن بُلائے آپ کی محفل میں آتا کون ہے
۔ ۔ ۔
یہ تو مت محسوس ہونے دیجیے
اجنبی ہیں آپ کی محفل میں ہم
اُردو غزل میں امتحانِ وفا، محض عاشق دیتا آیا ہے۔ شادؔ کی غز ل محبوبہ کا امتحان بھی لیتی ہے:
دیر سے پہنچنے پر بحث تو ہوئی لیکن
اس کی بے قراری کو حسبِ مدّعا پایا
اس لیے شادؔ جورِ محبوب کا شکوہ بہت کم کرتے ہیں :
شادؔ غیر ممکن ہے شکوۂ بُتاں مجھ سے
میں نے جس سے اُلفت کی اس کو با وفا پایا
ان کی شاعری میں بڑی باوقار اور توانا ارضیت ہے۔ عام بول چال کی زبان میں اس نُدرتِ ادا کے ساتھ جو صرف انھیں سے مخصوص ہے، حقیقت پر مبنی واقعاتِ عشق کو بعینہٖ غزلوں میں منعکس کر کے شادؔ عارفی نے عشقیہ شاعری میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ اُن کی عشقیہ غزلیں غیر ضروری آرائش کے عناصر سے بالکل پاک ہیں ۔ اسی لیے تغزل پسند طبیعتیں غزل کے مروجہ معیاروں کی روشنی میں ان کی غزلوں کی سچی قدر نہیں کر پاتیں ۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے