یہ فیصلہ نہ کر سکے یاں اپنا کون تھا
تھا سارا شہر وہم و گماں اپنا کون تھا
جس سے ملے وہ ٹوٹ کے بے ساختہ ملا
لیکن شریک درد یہاں اپنا کون تھا
پھیلی تھی چاندنی بھی عجب واہمہ کی طرح
وہ اجنبی سا چاند رواں اپنا کون تھا
اک بزم قصہ گویاں تھی احباب جب ملے
سب اپنی کر رہے تھے بیاں اپنا کون تھا
اک آئینہ سا چہرہ تھا، وہ بھی خفا لگا
اب عکس گر ہمارا یہاں اپنا کون تھا
عنقا سی ہو کے رہ گئی بے لوث دوستی
سب کو تھی فکرِ سود و زیاں۔ اپنا کون تھا
اک شہرِ اجنبی میں یہی ڈھونڈتے رہے
ملتی تھی کس سے اپنی زباں۔ اپنا کون تھا
یوسف کی طرح ہم بھی تھے بازار میں مگر
قیمت لگانے والا یہاں اپنا کون تھا
اسلم سمجھتا کون ہمارے جنوں کا حال
کس پر تھا راز شوق عیاں اپنا کون تھا
٭٭٭
جاگتے رہنے کی کوشش ہی میں خوابیدہ ہوئے
تو جو سپنے میں نہ آیا سو تہی دیدہ ہوئے
کتنے منظر تھے جو تصویر میں مقفول رہے
آنکھ انہیں چھو نہیں پائی تھی کہ پوشیدہ ہوئے
گر اسی لمحے کے ہم دل سے تمنائی تھے
تیرے دیدار پہ پھر کس لئے نم دیدہ ہوئے
بت گروں نے تو صنم خانے سجا رکھے ہیں
تیرے انداز و ادا سب ہی تراشیدہ ہوئے
ہم نے یوں ہنس کے کہی ہجر کی روداد اے دوست
آپ نے سن بھی لیا اور نہ رنجیدہ ہوئے
کیوں گھس آئے ہیں یہ ساحل پہ سمندر بے وقت
کیوں غضب ناک ہوئے، کس لئے شوریدہ ہوئے؟
گفتگو سے تری خوشبو سی مہک آتی ہے
ہم تری باتوں سے کچھ اور ہی گرویدہ ہوئے
بس یونہی وعدۂ فردا کے سہارے جی کر
ہم کو اسلم یہ رہا زعم ’جہاں دیدہ‘ ہوئے!!
٭٭٭