نظیر اکبر آبادی (1735۔1830) نے تخلیق فن کے لمحوں میں اپنے معاصر شعرا سے الگ راہ اپنائی۔ بر صغیر کی معاشرتی زندگی کے بارے میں اپنے ذاتی تجربات، مشاہدات اور احساسات کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے وقت نظیر اکبر آبادی نے اپنی تخلیقی بصیرت، جرأت اظہار، حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی مظہر انفرادیت کا لوہا منوایا ہے۔ دہلی اور لکھنو کے دبستانوں اور آگرہ کے ماحول سے وابستگی کے اعجاز سے نظیر اکبر آبادی نے ان علاقوں کی تہذیب و ثقافت کو اپنی عوامی رنگ کی شاعری کی اساس بنایا ہے۔ اردو شاعری کے سخت مروّجہ اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے حریت فکر و عمل کے مجاہد نے ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے فکر و خیال کی ایسی انجمن آراستہ کی جس میں تقلید کی روش سے بچ کر افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب سر گرم سفر رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس نے ’’مفلسی‘‘ جیسی نظمیں لکھ کر اپنے عہد کی ہوس پرست، خود غرض اور بے حس سرمایہ دار اشرافیہ کی شقاوت آمیز نا انصافیوں پر گرفت کی ہے۔ اس عالمِ آب و گِل کے مسائل اور زندگی کے آغاز، ارتقا اور اختتام کے بارے میں اپنی نظم ’’ہنس نامہ‘‘ میں نظیر اکبر آبادی نے فلسفیانہ خیالات عام آدمی کی زندگی اور تہذیبی و ثقافتی روایات کی عکاسی کی ہے۔ آخری عہد مغلیہ میں اس سیلانی مزاج شاعر نے قاری کو اپنے من کی غواصی کر کے سراغ زندگی پانے پر مائل کرنے کی جو مساعی کیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ دہلی اور آگرہ کی غارت گری کے لرزہ خیز واقعات اور خلقِ خدا کو درپیش روزی کے مسائل کو دیکھ کر نظیر اکبر آبادی نے ایسی نظمیں لکھیں جو دنیا کی بے ثباتی کی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ اُس نے جو عہدِ وفا استوار کیا اُسی کو علاجِ گردشِ لیل و نہار قرار دیا۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کی تہذیب و ثقافت اور لسانیات کی عکاسی کرنے والے اس شاعر نے اپنی نظموں میں جن متنوع موضوعات پر اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھائیں اُن میں آدمی نامہ، آگرے کی ککری، بسنت، بلدیو جی کا میلہ، بنجارہ نامہ، تاج گنج کا روضہ، طفلی نامہ، عید کا میلہ، ہولی، دیوالی اور ہولی کی بہار شامل ہیں۔ یہ نظمیں ارضی و ثقافتی حوالے سے بر صغیر کی مقامی تاریخ اور معاشرت کا ایسا معتبر حوالہ ہیں جو محدود نوعیت کی نسلی اور گروہی عصبیتوں کی آلودگی سے پاک ہے۔ نظیر اکبر آبادی کو انقلابی شاعر تو نہیں کہا جا سکتا مگر اُس کے دِل میں یہ قلق ضرور ہے کہ ساری دنیا بدل رہی ہے لیکن فاقہ کش انسانوں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ وہ الم نصیبوں اور جگر فگاروں کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کو شعار بناتا ہے اور ان کو درپیش مسائل پر کھُل کر لکھتا ہے۔ معاشرے کے پس ماندہ اور مفلوک الحال طبقے کے مصائب و آلام سے شپرانہ چشم پوشی کو وہ بے حسی پر محمول کرتا ہے۔ اِنسانی زندگی ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی تحریر کے مانند ہے جسے سیل زماں کے تھپیڑے پلک جھپکتے میں ماضی کی داستان بنا دیتے ہیں۔ زندگی کے معمولات اور ہر قسم کے تہواروں پر نظمیں لکھنے والے اس شاعر نے جب زندگی اور موت کے فلسفے پر قلم اُٹھایا تو ادب کا قاری دنگ رہ جاتا ہے کہ اپنی باری بھر کر جانے کے بعد ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ جاتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کا اپنے عہد کی سیاست اور سماجی اصلاح کے مسائل سے اگرچہ کوئی تعلق نہ تھا مگر اپنی شاعری میں اس فقیر منش شاعر نے کارِ جہاں کو ہیچ سمجھتے ہوئے زندگی کی حقیقی معنویت اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ دِلِ بینا اور بصیرت سے متمتع اِس حساس اور روشن خیال تخلیق کار نے بتان وہم و گماں پر مبنی فکر دنیا میں سر کھپانے کے بجائے ایسی فقیری کا طریق اپنایا جو آلام روزگار کے پاٹوں میں پسنے والی مجبور انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت کی مظہر ہے۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ انسان اپنی ذات کو پہچاننے کی کوشش کرے۔ اپنی تدریسی زندگی میں اُس نے ایک شان استغنا کے ساتھ وقت گزارا۔ مذہبی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کے مسائل اور مضمرات کو سیاق و سباق کے تناظر میں پیش کر کے نظیر اکبر آبادی نے فکر و خیال کو نئے آفاق سے آشنا کیا ہے۔ معاشرتی زندگی کے بارے میں اس کے خیالات اُس کی نظموں میں جلوہ گر ہیں۔ اپنی دھُن میں مگن رہنے والے اور اپنی بیانیہ نظموں میں جمہوری رجحان کو پروان چڑھانے والے اس فطرت نگار شاعر نے زندگی کے بارے میں جن حقائق کی جانب متوجہ کیا ہے وہ حرفِ صداقت کی عمدہ مثال ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کے زمانے (اٹھارہویں صدی عیسوی) میں وقت کا تیز دھارا حالات کا رُخ بدل چُکا تھا۔ نظیر اکبر آبادی کو اس پیچیدہ صورت حال کا احساس تھا کہ نو آبادیاتی دور میں اس خطے میں مذہب، رنگ، زبان اور نسل کی بنیاد پر سوچ پروان چڑھنے لگی تھی۔ بر صغیر کے خاص حالات کے تناظر میں انسانی ماحولیاتی تعلقات کو معتبر اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے سلسلے میں تخلیق ادب کے حوالے سے نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری کے ثمرات کا ایک عالم معترف ہے۔ زندگی اور موت کے حقائق کے بارے میں نظیر اکبر آبادی کی سوچ محدود یا مقامی نوعیت کی نہیں بل کہ اسے افادیت سے لبریز ایک ہمہ گیر اور آفاقی تصور پر مبنی سمجھنا چاہیے۔ ایک کثیر المذاہب معاشرے میں نظیر اکبر آبادی نے ثقافتی ہم آہنگی کو پروان چڑھانے کی خاطر اپنی نظم ’’ہنس نامہ‘‘ میں زندگی کے متعلق ہر مکتبۂ فکر کے خیالات کی عکاسی کی ہے۔
دُنیا کی جو اُلفت کا ہوا مُجھ کو سہارا
اور اُس نے خوشی کو مری خاطر میں اُتارا
دیکھی جو یہ غفلت تو مرا دِل یہ پُکارا
آیا تھا کسی شہر میں ایک ہنس بِچارا
اِک پیڑ پہ جنگل کے ہوا اُس کا گزارا
چنڈول اگن ابلقے جھپّان بنے دھیٹر
مینا و بئے کلکلے بگلے بھی سمن بر
(چنڈول: ایک جانور کا نام ہے اور یہ خاص قسم کی سواری بھی ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے اَگن کو چنڈول سے تعبیر کیا ہے، ابلقے: گھوڑے کو جھپان اور دھیٹر کو نوشہ کہا ہے۔ سمن بر: چنبیلی جیسا سفید رنگ)
طوطے بھی کئی طور کے ٹوئیاں کوئی لہبر
رہتے تھے بہت جانور اُس پیڑ کے اُوپر
اُس نے بھی کِسی شاخ پہ گھر اپنا سنوارا
بُلبل نے کیا اُس کی مَحبّت میں خوش آہنگ
اور کوکلے کویل نے بھی اُلفت کو لیا سَنگ
کھنجن میں کُلنگوں میں چاہت کی مچی جنگ
دیکھا جو طیوروں نے اُسے حُسن میں خوش رنگ
وہ ہنس لگا سب کی نگاہوں میں پیارا
سیمرغ بھی سو دِل سے ہوئے مِلنے کے شائق
گڑھ پنکھ بھی پنکھوں کے ہوے جھلنے کے لائق
(سیمرغ: عنقا کی مثل ایک خیالی پرندہ)
سارس بھی حواصل بھی ہوئے اُس کے موافق
باز و لگڑ و جرۂ و شاہیں ہوے عاشق
شِکروں نے بھی شَکر سے کیا اُس کا مُدارا
کچھ سبزک و بڑنکّے و کچھ ٹنٹن و بُزّے
پنڈخی سے لگا ٹوٹر و قمری و ہریوے
(بڑ نکے: بڑی ناک والے پرندے)
غوغائی بگیری و لٹورے و پپیہے
کچھ لال چِڑے پُودنے پِدّے ہی نہ غش تھے
(غش تھے: مست تھے)
پڈری بھی سمجھتی تھی اُسے آنکھ کا تارا
چاہت کے گرفتار بٹیریں لوے تیتر
کبکوں کے تدرووں کے بھی چاہت میں بندھے پَر
ہُد ہُد بھی ہوے ہٹ کے بڈھیّا اِدھر اُدھر
زاغ و زغن و طوطی و طاؤس و کبوتر
سب کرنے لگے اُس کی محبت کا اشارا
شکل اُس کی وہیں جی میں کھُپی شام چِڑے کے
دی چاہ جِتا پھر اُسے جھاپنو نے بھی جھپ سے
(جی میں کھپی: دِل کو پسند آ گئی، جھاپنو: شرمیلی ایک پرندے کا نام، جھپ سے: فوراً)
ہَریل بھی ہوے اُس کے بڑے چاہنے والے
جتنے غرض اُس پیڑ پہ رہتے تھے پرندے
اُس ہنس پہ سب نے دِل و جان کو وارا
( دِل و جان کو وارا: دِل اور جان کو نثار کر دیا)
خواہش یہ ہوئی سب کی کہ ہر دَم اُسے دیکھیں
اور اُس کی محبت سے ذرا منھ کو نہ پھیریں
دِن رات اُسے خوش رکھیں نِت سُکھ اُسے دیویں
صحبت جو ہوئی ہنس کی اُن جانوروں میں
یک چند رہا خوب محبت میں گزارا
سب ہو کے خوش اُس کی مے اُلفت لگے پینے
اور پِیت سے ہر اِک نے وہاں بھر لیے سینے
(پِیت: پریت، پریم، محبت )
ہر آن جِتانے لگے چاہت کے قرینے
اُس ہنس کو جب ہو گئے دو چار مہینے
(جِتانے لگے: اِحساس دلانے لگے )
اِک روز وہ یاروں کی طرف دیکھ پُکارا
یاں لطف و کرم تم نے کیے ہم پہ ہیں جو جو
تم سب کی یہ خوبی ہے کہاں ہم سے بیاں ہو
تقصیر کوئی ہم سے ہوئی ہووے تو بخشو
لو یارو ہم اَب جاویں گے کَل اپنے وطن کو
اَب تُم کو مُبارک رہے یہ پیڑ تمھارا
اَب تک تو بہت ہم رہے فرصت سے ہم آغوش
اَب یاد وطن دِل کی ہمارے ہوئی ہم دوش
جب حرف جدائی کا پرندوں نے کیا گوش
اِس بات کے سُنتے ہی جو ہر اِک کے اُڑے ہوش
سب بولے یہ فرقت تو نہیں ہم کو گوارا
بِن دیکھے تمھارے ہمیں کب چین پڑیں گے
اِک آن نہ دیکھیں گے تو دِل غم سے بھریں گے
گر تُم نے یہ ٹھہرائی تو کیا سُکھ سے رہیں گے
ہم جتنے ہیں سب ساتھ تمھارے ہی چلیں گے
یہ درد تو اب ہم سے نہ جاوے گا سہارا
(نہ جاوے گا سہارا: برداشت نہیں ہو سکے گا )
پھر ہنس نے یہ بات کہی اُن سے کئی بار
کچھ بس نہیں اَب چلنے کی ساعت سے ہیں ناچار
آنکھیں ہوئیں اَشکوں سے پرندوں کے گہر بار
اُس میں جو شبِ کُوچ کی ہوئی صبح نمودار
پر اپنا ہوا پر وہیں اُس ہنس نے مارا
وہ ہنس جب اُس پیڑ سے واں کو چلا ناگاہ
منھ پھیر کے ایدھر سے وطن کی جوں ہی لی راہ
دیکھا جو اُسے جاتے ہوئے واں سے تو کر آہ
سب ساتھ چلے اُس کے وہ ہم راز و ہوا خواہ
ہر ایک نے اُڑنے کے لیے پنکھ پسارا
(پنکھ پسارا: پر پھیلایا)
اور ہنس کی اُن سب کو رفاقت ہوئی غالب
جب واں سے چلا وہ تو ہوئی بے بسی غالب
کلفت تھی جو فرقت کی وہ سب پر ہوئی غالب
دو کوس اُڑے تھے جو ہوئی ماندگی غالب
پھر پَر میں کسی کے نہ رہا قوت و یارا
پَر اُن کے ہوئے تر جوں ہی دُور کی پڑی اوس
روئے کہ رفاقت کی کریں کیوں کہ قدم بوس
تھک تھک کے لگے گرنے تو کرنے لگے افسوس
کوئی تین کوئی چار کوئی پانچ اُڑا کوس
(تھک تھک: صنعت تکرار)
کوئی آٹھ کوئی نو کوئی دس کوس میں ہارا
کچھ بن نہ سکے اُن سے رفیقی کے جو واں کار
اور اِتنے اُڑے ساتھ کہ کچھ ہووے نہ اظہار
جب دیکھی وہ مشکل تو پھر آخر کے تئیں ہار
کوئی یاں رہا کوئی واں رہا کوئی ہو گیا ناچار
کوئی اور اُڑا آگے جو تھا سب میں کرارا
( کرارا: توانا، مضبوط)
تھی اُس کی محبت کی جو ہر ایک نے پی مے
سمجھے تھے بہت دِل میں وہ اُلفت کو بڑی شے
جب ہو گئے بے بس تو پھر آخر پہ ہوئی رے
چِیلیں رہیں کوّے گِرے اور باز بھی تھک کے
اُس پہلی ہی منزل میں کیا سب نے کِنارا
دُنیا کی جو اُلفت ہے تو اُس کی ہے یہ کچھ راہ
جب شکل یہ ہووے تو بھلا کیوں کر ہو نِرباہ
(نِرباہ: نِباہ، مِل جُل کر وقت گزارنا)
ناچاری ہو جِس جا میں تو واں کیجیے کیا چاہ
سب رہ گئے جو ساتھ کے ساتھی تھے نظیر ؔ آہ
آخر کے تئیں ہنس اکیلا ہی سدھارا (1)
اس نظم میں صنائع بدائع کے استعمال سے حسن کاری کی جو سعی کی گئی ہے وہ سحر نگاری کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ روح اور قلب کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی کے اعجاز سے یہ نظم فکر و خیال کو اس انداز سے مہمیز کرتی ہے کہ قاری سرابوں کے عذابوں سے بچ نکلنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ حیرت انگیز بیداری کی نقیب نظیر اکبر آبادی کی حرف صداقت سے مزین ناصحانہ اور مقامی رنگ کی نظم ’’ہنس نامہ‘‘ مخمس ہئیت میں لکھی گئی ہے۔ اس نظم میں لغتیات اور لسانیات پر نظیر اکبر آبادی کی کامل دسترس کا پتا چلتا ہے۔ اس نظم میں درج ذیل قوافی استعمال کیے گئے ہیں:
آغوش، آہ، آہنگ، اُتارا، اشارا، اظہار، افسوس، اُدھر، اوس، بِچارا، بُزے، بخشو، بھریں، بار، بوس، بر، پُکارا، پینے، پیارا، پسارا، پپیہے، پر، پرندے، پھریں، پڑیں، تارا، تھے، تیتر، جو، جنگ، چاہ، چلیں، خواہ، دیکھیں، دیویں، دوش، دھیٹر، راہ، رے، رہیں، رنگ، سہارا، سنوارا، سدھارا، سے، سینے، سنگ، شائق، شے، عاشق، غالب، قرینے، کے، کوس، کبوتر، کو، کرارا، کنارا، کار، گہر بار، گزارا، گوارا، لائق، مُدارا، مارا، مے، موافق، میں، مہینے، ناگاہ، نر باہ، ناچار، نمودار، وارا، وائے، ہارا، ہا، ہریوے، ہو، ہوش، یارا۔
نظیر اکبر آبادی نے اپنی نظم ’’ہنس نامہ‘‘ میں جن طیور کے نام شامل کیے ہیں وہ اس کے وسیع مشاہدے اور فطرت نگاری کی دلیل ہے۔ کچھ پرندے ایسے بھی ہیں جن کے نام اَب کم کم سنے جاتے ہیں۔ آئیے دھنک کے اس پار اُن طائرانِ خوش نوا کی آواز سنیں جن کا ذکر اس نظم میں کیا گیا ہے:
ابلقے، بٹیریں، باز، بئے، بگلے، بلبل، بُزے، بڑنکے، بگڑی، پڈری، پپیہے، پُودنے، پِدے، تیتر، ٹنٹین، ٹوٹر، جھپان، جرہ، جھانپو، چنڈول، دہیٹر، زاغ، زغن، سارس، سبزک، سیمرغ، شام چِڑے، شاہین، شِکرا، طاؤس، طوطے، طوطی، غوغائی، قمری، کوکلے، کلکلے، کلنگ، کبک، کھنجن، گڑھ پنکھ، لگڑ، لٹورے، لال چڑے، مینا، ہریوے، ہنس، ہریل، ہُدہُد۔
نظیر اکبر آبادی نے اپنے عہد کی ہندوستانی لسانیات کے فروغ کے سلسلے میں تخلیقی سطح پر جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ ادب کا درخشاں باب ہے۔ بادی النظر میں تو ’’ہنس‘‘ ایک آبی طائر ہے مگر اس نظم میں ہنس کی مثال علامتی نوعیت کی ہے۔ یہاں ’’ہنس‘‘ سے مراد انسان ہے۔ اس نظم میں شاعر نے دنیا کی بے ثباتی اور کارِ جہاں کے ہیچ ہونے کی مرقع نگاری کی ہے۔ فریب خواب ہستی کی بس اسی قدر حقیقت ہے کہ آنکھیں بند ہوتے ہی انسان سے وابستہ سب معاملات خیال و خواب اور افسانہ بن جاتے ہیں۔ اپنی شاعری میں نظیر اکبر آبادی نے طبقاتی کشمکش کے خلاف آواز بلند کر کے قارئین میں مثبت شعور و آ گہی پیدا کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ اطمینان بخش ہے۔ زبان و بیان پر شاعر کی خلاقانہ دسترس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ خلوص اور انسان دوستی کے جذبات سے لبریز اس نظم میں بساطِ سیل پہ قصر حباب کی تعمیر میں اِنہماک کا مظاہرہ کرنے والے غافل انسانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
نظیر اکبر آبادی نے اپنی نظم ’’ہنس نامہ‘‘ میں ایک رومانی اور داستانوی طائر ہنس کی زندگی، اور گلشنِ ہستی میں اُس کی رفاقتوں اور عدم کے کُوچ کے موضوع پر نہایت موثر انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اُس نے واضح کیا ہے کہ جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے، ثمر نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے، بُور لدے چھتنار اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤں سے، دریا اپنی طغیانی سے، حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے، اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے، سمندر اپنی گہرائی سے، کلام نرم و نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے، شعلہ اپنی تمازت سے، گفتار اور رفتار اپنے معیار اور نزاکت سے، کردار اپنے وقار سے، جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے، سمے کا سم کے اپنے ثمر سے، قوتِ عشق اپنی نمو سے، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جُو سے، گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے، خلوص و دردمندی اپنی خُو سے، حریت ضمیر اپنے خمیر سے، موثر تدبیر سوچنے والے نوشتۂ تقدیر سے، ایثار و عجز و انکسار کی راہ اپنانے والے جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے، حسن و رومان کی داستان جی کے زیاں سے، جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے، ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے، چام کے دام چلانے والے مظلوموں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک تخلیق کار کے قلزم خیال کا پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کی غواصی کرنے کے باوجود تخلیقی عمل کے پس پردہ کا فرما محرکات کے تاب دار موتی بر آمد کرنے سے قاصر ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے اپنی نظم ’’ہنس نامہ‘‘ میں ستاروں پر کمند ڈالی ہے۔ اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے:
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چھُو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی اُلجھا دیکھ رہی ہے ( اختر الایمان)
نظم ’’ہنس نامہ‘‘ میں زندگی کے نشیب و فراز کی جس انداز میں مرقع نگاری کی گئی ہے اُس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مرگِ ناگہانی اور مرگِ نوجوانی کے مسموم اثرات سے دائمی مفارقت دے جانے والے عزیزوں کے پس ماندگان پر قیامت گزر جاتی ہے۔ اس نوعیت کے جان لیوا سانحہ سے دو چار ہونے والا تخلیق کار جب اپنے ہاتھ میں قلم لے کر پرورشِ لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو دبے پاؤں آنے والی موت کی آہٹ کو سننے کے بعد اس کا اظہار لا شعوری انداز میں اپنی تحریروں میں بھی کرتا ہے۔ ادبیاتِ عالم کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جو تخلیق کار عالمِ شباب میں دائمی مفارقت دے گئے ان کی تخلیقات میں موت کے دبے پاؤں چلے آنے کی آہٹ صاف سنائی دیتی ہے جس سے یہ گُمان گزرتا ہے کہ ان عظیم ادیبوں کو اپنے نہ ہونے کی ہونی کا شدت سے احساس تھا۔ احمد بخش ناصر، احمد تنویر، حاجی محمد ریاض، رام ریاض، گدا حسین افضل، عاشق حسین فائق، شفیع ہمدم، بشیر سیفی، اطہر ناسک، میراجی، قابل اجمیری، پروین شاکر، اقتدار واجد، سجاد رانا، آنس معین، شکیب جلالی، ظفر سعید، سجاد بخاری، بائرن، کیٹس اور شیلے کی تحریریں پڑھنے کے بعد اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ ایک داخلی کرب نے ان سب ادیبوں کے تخلیقی عمل کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ زندگی کے بارے میں غیر یقینی حالات میں جب سب دعائیں بے اثر ہو جائیں، کلیاں شرر ہو جائیں، سب بلائیں جب تمام ہو جاتی ہیں تو مرگِ ناگہانی کے اندیشے بڑھنے لگتے ہیں اور اس کے بعد زندگی کے لمحات مختصر ہو جاتے ہیں۔ اُفقِ ادب سے جب یہ چودھویں کے چاند ہمیشہ کے لیے غروب ہو جاتے ہیں تو سفاک ظلمتوں میں ہمارا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے۔ ہجومِ یاس میں جب دل گھبراتا ہے توہم آہیں بھرتے اور احساسِ زیاں سے نڈھال کفِ افسوس ملتے ہیں کہ اپنی دل کش، حسین اور طویل عرصہ تک یاد رکھی جانے والی تخلیقات سے علم و ادب کا دامن معمور کر دینے والی یہ نایاب ہستیاں کس قدر جلد پیمانۂ عمر بھر گئیں۔ نظم ’’ہنس نامہ‘‘ میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ موت ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے۔ متعدد با کمال ہستیوں نے اپنی موت کی آہٹ سُن کر بھی زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ تخلیق فن کے لمحوں میں نظیر اکبر آبادی جیسے جری تخلیق کاروں نے خون بن کر رگِ سنگ میں اُتر جانے کی کوشش کی۔ اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کو اشعار کے قالب میں ڈھالنے والے اِس زیرک تخلیق کار نے خونِ دِل دے کے گلشنِ ادب کو اس طرح سیراب کیا کہ اس کے معجز نما اثر سے گلشن ادب میں گل ہائے رنگ رنگ سے سماں بندھ گیا اور ان کی عطر بیزی سے قریۂ جاں معطر ہو گیا۔ نظیر اکبر آبادی اس تلخ حقیقت سے آگاہ تھا کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اور اندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اللہ کریم نے اس فقیر کو مستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفر میں جب بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتا اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتا۔ اس نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا لرزہ خیز سانحہ نہیں سمجھا بل کہ وہ جانتا تھا کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے، انسان کا نہ تو ہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر زندگی کی جولانی اور خارزار زیست کے آبلہ پا رہرو کے قدموں کی روانی تھم سکتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی شاعری کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ واضح کرنا چاہتا تھا کہ ماحول کی سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہو جائیں جائیں تو زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔ گلزارِ ہست و بُود میں سمے کے سم کے ثمر سے ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس مستانہ کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی تمنا اپنی ہر ادا سے فنا کے سیکڑوں مناظر سے آشنا کرتی ہے۔ خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہاراں کی اُمید وہم و گُماں اور سراب سی لگتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں نُدرت، تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ کورانہ تقلید سے اسے سخت نفرت تھی اس لیے وہ خضر کا سودا چھوڑ کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرتا ہے۔ اس کی تحریریں کلیشے کی آلودگی سے پاک ہیں۔ اس کے دل کش، حسین اور منفرد اسلوب میں ہر لحظہ نیا طُور نئی برق تجلی کی کیفیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تخلیق فن میں اُس کا مرحلۂ شوق پیہم نئی منازل کی جانب رواں دواں رہتا ہے۔ مثال کے طور وہ پر نئی تراکیب اور الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی شاعری کو گنجینۂ معانی کا طلسم بنا دیتا ہے، بھنور کے بھید، خیال کی جوت، جھرنے کا ساز، کوئل کی کوک، گیت کی لے، وقت کی نے اور خوابوں کے سرابوں پر نظر رکھنے والے ذوق سلیم سے متمتع قارئین ادب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ زندگی کی کم مائے گی کا احساس قاری پر فکر و خیال کے متعدد نئے در وا کرتا چلا جاتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’ہنس نامہ‘‘ کے عمیق مطالعہ کے بعد قاری اس بات کو اچھی طرح جان لیتا ہے کہ موت کی دیمک ہر فانی انسان کے تن کو چاٹ لیتی ہے۔ وہ چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی، مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی اعصاب شکن صدا سُن کر بھی دِل برداشتہ نہیں ہوتا بل کہ نہایت جرأت کے ساتھ شاعری کو تزکیۂ نفس کا وسیلہ بناتا ہے۔ حرفِ صداقت سے لبریز نظیر اکبر آبادی کی شاعری اس کے داخلی کرب اور سچے جذبات کی مظہر ہے۔ موت کی دستک سُن کر وہ موت کے بارے میں جن چشم کشا صداقتوں کا اظہار کرتا ہے وہ زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ہیں۔ اس کی شاعری کے مطالعہ کے بعد قاری کے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔ اس حساس تخلیق کار کی دلی کیفیات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں جو موت کی دستک زنی کے دوران بھی اپنے قلبی احساسات کو پیرایۂ اظہار عطا کرنے میں پیہم مصروف رہا۔ ناصر کاظمی نے سچ کہا تھا:
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
نظم ’’ہنس نامہ‘‘ زندگی کے اختتام کے المیے کا احوال سامنے لاتی ہے۔ ہنس کے ہم نوا طیور اپنے ساتھی کی دائمی مفارقت پر غرقابِ غم اور نڈھال ہیں۔ جن عنبر فشاں پھولوں کی مہک نہاں خانۂ دِل کو معطر کرنے کا وسیلہ تھی جب گل چینِ اَزل انھیں توڑ لیتا ہے تو دِلوں کی بستی سُونی سُونی دکھائی دیتی ہے اور گرد و نواح کا پُورا ماحول سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے۔ حیات مستعار کی کم مائیگی، مرگِ ناگہانی کے جان لیوا صدموں، فرصت زیست کے اندیشوں، سلسلۂ روز و شب کے وسوسوں، کارِ جہاں کی بے ثباتی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن خوف کے سوتے کارِ جہاں میں زندگی کی کم مائگی ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ کسی دیرینہ رفیق اور قریبی عزیز کا زینۂ ہستی سے اُتر کر شہر خموشاں میں تہہِ ظلمات پہنچ جانا پس ماندگان کے لیے بلا شبہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر روح فرسا صدمہ یہ ہے کہ ہمارے دِل کی انجمن کو تابانی، ذہن کو سکون و راحت، روح کو شادمانی، فکر و خیال کو ندرت، تنوع، تازگی اور نیرنگی عطا کرنے والے یہ گل ہائے صد رنگ جب ہماری بزم وفا سے اُٹھ کر ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو یہ جانکاہ صدمہ دیکھنے کے بعد ہم زندہ کیسے رہ جاتے ہیں؟ عدم کے کُوچ کے لیے رخت سفر باندھنے والوں کی دائمی مفارقت کے بعد الم نصیب لواحقین پر زندگی کی جو تہمت لگتی ہے وہ خفتگانِ خاک پر دِل نذر کرنے اور جان وارنے والوں کو بے بسی اور حسرت و یاس کا پیکر بنا دیتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جب دریاؤں میں آنے والے سیلاب کی طغیانیوں سے قیمتی املاک اور مکانات دریا بُرد ہو جاتے ہیں تو اس آفتِ ناگہانی کی زد میں آنے والے مجبور و بے بس انسان غربت و افلاس کے پاٹوں میں پِس جاتے ہیں مگر اس بات کا کوئی ذکر نہیں کرتا کہ خلوص، درد مندی، وفا، ایثار، رگِ جاں اور خونِ دِل سے نمو پانے والے رشتے جب وقت بُرد ہوتے ہیں تو الم نصیب پس ماندگان زندہ در گور ہو جاتے ہیں۔
دردِ دِل صرف درد آشنا ہی سمجھ سکتا ہے، طویل رفاقت کے اختتام کے بعد الم نصیب رفقائے کار کے قلبِ حزیں کے درد کو سمجھنے کے لیے حساس دِل کی احتیاج ہے۔ ہنس مکھ لوگوں کی دائمی مفارقت کا جان لیوا صدمہ احباب کو زندہ درگور کر دیتا ہے۔ اس عہدِ نا پرساں میں جسے دیکھو اپنی فضا میں سرمست دکھائی دیتا ہے۔ یہاں غم زدوں کی چشمِ تر کو دیکھنے والے دردمند مسیحا عنقا ہیں۔ دل و جگر سے بہنے والے آنسوؤں کی برسات کے نتیجے میں تلخی ٔ حالات، الم نصیب خاندان پر دنیا کی غم گساری اور چارہ گری کے بارے میں کئی سوالات اُٹھتے ہیں۔ افکار پریشاں کی دیوار کے سائے میں بیٹھے ان کے سوگوار پس ماندگان فرط غم سے نڈھال ہیں اور بات سمجھ چکے ہیں کہ اب کسی درد آشنا کے مرہم بہ دست آنے کی توقع نہیں اس لیے تنہائیوں کی صلیب اپنے کاندھوں پر اُٹھانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور (مرزا اسداللہ خان غالبؔ)
ماہرین علم بشریات کا خیال ہے کہ موت یاس و ہراس کے سوا کچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے۔ عزیز ہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبر فشاں پھول شہر خموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرشتۂ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیر سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی، اذیت ناک محرومی اور عبرت ناک احساس زیاں کے باعث ہوتی ہے۔ غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتیِ جاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ غم و آلام کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت و مسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح، ذہن اور قلب کیا تھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے۔ کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلا خیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس، ابتلا و آزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روز میں دِل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ باقی عمر مصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارۂ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہیں۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناً ہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہو گا۔ سینۂ وقت سے پھُوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک، کومل اور عطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کر دائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے۔ تقدیر کے ہاتھوں آرزوؤں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو، رُوپ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں۔ ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ایزدی اور صبر و رضا کا قفل بھی کھُل جاتا ہے۔ سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں، من کے روگ، جذبات حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِل دہل جاتا ہے۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں۔ دائمی مفارقت دینے والوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں؟
یہ تو برزخ ہے، یہاں وقت کی ایجاد کہاں
اِک برس تھا کہ مہینہ، ہمیں اب یاد کہاں
وہی تپتا ہوا گردوں، وہی انگارہ زمیں
جا بہ جا تشنہ و آشفتہ وہی خاک نشیں
شب گراں، زیست گراں تر ہی تو کر جاتی تھی
رموزِ زیست کے رمز آشنا لوگ دل گرفتہ بوڑھے والدین کے قلب حزیں کے درد اور من کے جان لیوا روگ کو سمجھتے ہیں۔ سب جانتے تھے کہ اب پو پھُوٹنے اور غم و اضطراب کی بھیانک تاریک رات کٹنے کے امکانات معدوم ہیں۔ گردش افلاک کے زیر اثر تقدیر نے اِس خرابِ آرزو انگارۂ خاکی کو جس بے دردی سے تودۂ خاکسترِ ایام بنا دیا ہے وہ اس لرزہ خیز حقیقت کا غماز ہے کہ اب الم نصیب والدین کے تمام اعضا مضمحل ہو چکے ہیں، زندگی کے سرابوں کے عذابوں میں گھرا بے نشاں خوابوں کی دھُند میں اُلجھا اور ہجوم یاس و ہراس میں پھنسے پس ماندگان کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا ہے۔ اب غموں کی شکن آلود بساط کو ہٹا کر جان کی بازی لگا کر اضطرابِ پیہم کی خوں چکاں گھڑیوں میں فگار انگلیوں سے آرزوؤں کا چمن آراستہ کرنا بعید از قیاس ہے۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے سوگوار خاندان کو زندہ در گور کر دیا اس جان لیوا صدمے کی شدت سے محسوس کرتے ہوئے دردِ ناصبور سے رنجور ذہن میں دُکھ کے جذبات اُمڈ آئے۔ واقفِ حال لوگ اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی اپنے ان عزیزوں کے نام کر رکھی تھی۔
تقدیر ہر لمحہ، ہر گام جس بے دردی سے انسانی تدبیر کی دھجیاں بکھیر دیتی ہے اس کے سامنے صبر و ضبط کے سب بند ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ نوجوان عزیزوں کی دائمی مفارقت کے بعد پس ماندگان کی زندگی کا باقی سفر تو افتاں و خیزاں کٹ جاتا ہے مگر ان کا پورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔
٭٭
مآخذ
(1)نظیر اکبر آبادی: کلیات نظیر اکبر آبادی، کتابی دنیا دہلی، سال اشاعت 2003، صفحہ 626۔
٭٭٭