سوچتے سوچتے جب سوچ اُدھر جاتی ہے
روشنی روشنی ہر سمت بکھر جاتی ہے
دھیان سے جاتا ہے غم بے سر و سامانی کا
جب مدینے کی طرف میری نظر جاتی ہے
اُڑتے اُڑتے ہی کبوتر کی طرح آخرِ کار
سبز گنبد پہ مری آنکھ ٹھہر جاتی ہے
میں گذرتا، تو وہاں جاں سے گذرتا چُپ چاپ
یہ ہَوَا کیسے مدینے سے گذر جاتی ہے
بخت میں مجھ سے تو اچھّی ہے رسائی اس کی
جو مدینے کو ترے، راہگذر جاتی ہے
رات جب الٹے قدم آتی ہے دِیدار کے بعد
چُومنے آپ کے قدموں کو سحر جاتی ہے
چاہے یہ ڈور سی اُلجھی رہے دُنیا میں شمار
زندگی جا کے مدینے میں سنور جاتی ہے
٭٭٭
یہ جو ذرّے نے چمک آپ سے لے رکھی ہے
پھُول نے اپنی مہک آپ سے لے رکھی ہے
اِس کی آواز فلک تا بہ فلک سنتا ہُوں
یہ جو مٹّی نے کھنک آپ سے لے رکھی ہے
آپ کے دم سے ہی قائم ہیں سبھی رنگِ زمیں
آسماں نے بھی دھنک آپ سے لے رکھی ہے
ورنہ ہو جاتے یہ برباد، اُجڑ جانے تھے
سب جہانوں نے کمک آپ سے لے رکھی ہے
مَیں کہ مخلوق پہ حیراں ہُوں یہاں کِس کِس نے
روزی نان و نمک آپ سے لے رکھی ہے
٭٭٭