اس کے دل میں نظم بھی تھی اور تھا اک افسانہ بھی
سامنے اس کے شمع تھی روشن اجلا ہوا پروانہ بھی
بچھڑا ہے وہ ہم سے لیکن اک احساس تو زندہ ہے
ایک صدا سی پیدا ہوئی اور ٹوٹ گیا پیمانہ بھی
غزل کے چند اشعار جو میں نے ایک بچھڑ جانے والے فنکار دوست کے حوالے سے لکھے تھے تو ڈاکٹر اختر شمار کی رحلت پر اچانک یاد آئے۔ اختر شمار کئی حوالوں سے ہمارے ساتھ جڑا ہوا تھا، ہم جولیوں کی طرح تھے تقریباً ایک ہی عمر کے لوگ۔ اس سے پہلے تو میں محترم قائم نقوی کے حوالے سے لکھنے کا سوچ رہا تھا کہ یہ اندوہناک خبر آ گئی پتہ چلا کہ وہ آئی سی یو میں ہیں اور ملنے کی اجازت نہیں۔ میں نے تو کہا تھا: کاش عمر رواں ٹھہر جائے کوئی رک رک کے دیکھتا ہے مجھے یقین کیجئے کہ اس خبر نے اندر ایک خلا سا پیدا کر دیا کچھ اس طرح کا احساس کے ساحل کے قریب سے جب سمندر کا پانی ٹکرا کر لوٹتا ہے تو پیروں کے نیچے سے ریت کھسکتی ہے اور پاؤں بعض اوقات اکھڑ جاتے ہیں۔ یہ زندگی تھی کہ تھی ریت میری مٹھی میں، جسے بچانے کے دن رات میں نے چلے کئے۔ اس کی پیدائش 1960 کی تھی ہم سے چھوٹا تھا۔ سچ معنوں میں سیلف میڈ، بہت محنت کی اور ترقی کے زینے چڑھتا گیا۔ ڈاکٹر اختر شمار کچھ عرصہ مصر میں رہا، واپسی پر ایف سی کالج میں شعبہ اردو کا چیئرمین۔ ایف سی کالج میں اردو کی ترویج کے لئے بہت کام کیا۔ مشاعرے کروائے وہ بڑی محبت کے ساتھ بلواتا اور خاطر مدارت کرتا۔ کئی سفر ہم نے اکٹھے کئے ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ بھی۔ وہ ادب و شاعر کا ایک زندہ کردار تھا۔ پڑھنے کا انداز بھی کمال اور قدرت نے قد کاٹھ بھی دے رکھا تھا۔ دبنگ انداز میں اشعار پڑھتا۔ بعض اوقات لگتا تھا کہ اپنے محبوب کو دھمکا رہا ہے: میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں کل بچھڑنا ہے تو پھر عہد وفا سوچ کے باندھ ابھی آغاز محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں قائم نقوی صاحب کے ساتھ بھی ہمارے چالیس سال کا رشتہ تھا۔ وہ ہمارے سینئر تھے۔ ماہ نو انہی کے دم قدم سے تھا۔ ان کے بارے میں تو کبھی الگ سے کالم لکھوں گا فی الحال میں نے ڈاکٹر اختر شمار کے حوالے سے کچھ تحریر کرنا ہے۔ اختر شمار پنجابی میں بہت اچھا لکھتا تھا۔ پلاک میں ہم ڈاکٹر صغریٰ صدف کے مشاعروں میں اکثر اکٹھے ہوتے قریبی دوستوں میں باقی احمد پوری، فرحت عباس شاہ‘شفیق احمد اور ڈاکٹر جواز جعفری سمیت کئی نام ہیں،، ڈاکٹر اختر شمار میں جو بات خاصے کی تھی وہ اس کی روش تھی، اپنے آپ میں مگن، تقاریب کے بعد طعام کے مرحلے میں وہ سب سے جدا تھا۔ گوشت غالباً نہیں کھاتا تھا۔ ویسے بھی کم خوراکی سے باطنی اور روحانی بالیدگی آتی ہے وہ کالم نگار بھی تھا۔ تصوف کی طرف رجحان کافی تھا۔ وہ عام آدمی سے جڑا ہوا شخص تھا اور اپنے عہد کا بھر پور شعور رکھتا تھا اس کے اشعار کی گونج تا دیر ہمارے کانوں میں رہے گی: ذرا سی دیر تھی بس اک دیا جلانا تھا اور اس کے بعد فقط آندھیوں کو آنا تھا میں گھر کو پھونک رہا تھا بڑے یقین کے ساتھ کہ تیری راہ میں پہلا قدم دکھانا تھا یہ کون شخص مجھے کرچیوں میں بانٹ گیا یہ آئینہ تو میرا آخری ٹھکانا تھا ہم اکٹھے ہوتے تو خوب جملے بازی بھی ہوتی، چالیس سال پر محیط ہماری شناسائی تھی۔ ایک مرتبہ ٹھنڈی سڑک سے گزرہے تھے، تب ڈاکٹر اختر شمار کے پاس گاڑی نہیں میرے ساتھ صدر کے ایک مشاعرے میں جا رہے تھے سنگ۔ ل سڑک سے آتی گاڑیوں کو دیکھ کر بھولپن سے پوچھنے لگا۔ ایہ کینویں پتہ لگدا اے کہ سامنیوں گڈی نوں راہ کیویں دینا۔ میں نے کہا بس یار اک اندازہ ای ہوندا اے۔ اختر شمار اچھل کر بولا یار توں اندازے نال ای گڈی چلا رہیا ایں۔ پھر اس نے مصر جانے سے پہلے ہی بڑی گاڑی لے لی۔ واپس آ کر ایک خوبصورت بنگلہ خریدا۔ اب تو ایسے ہی لگا کہ:
ایک ہچکی میں دوسری دنیا
سعدؔ اتنی سی بات ساری ہے
ڈاکٹر اختر شمار کے ساتھ کیا کیا یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ اس کا تعلیمی حوالہ ملتان سے تھا اس کے سب سے قریبی دوست اطہر ناسک مرحوم تھے جب ان دونوں کے استاد بیدل حیدر ی لاہور آئے تو میں نے گھر پر کھانا کیا اور اس میں احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی بھی شریک ہوئے۔ الحمد کے صفدر حسین کے پاس ہمارے منڈلی بھی جمتی تھی۔ ہماری تھوڑی بہت معاصرانہ چشمک بھی چلتی رہی کہ ایک فطری بات ہے مگر احترام کا رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔ وہ رکھ رکھاؤ رکھنے والا شاعر تھا جو کہتا تھا
میرے معیار کا تقاضا ہے
میرا دشمن بھی خاندانی ہو۔
سچ مچ آج احساس ہو رہا ہے کہ سیل بلا کا رخ ہماری نسل کی طرف ہے۔ وہی شعر جو کبھی جمال احسانی نے ہماری موجودگی میں بچھڑتے وقت سنایا تھا:
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
دوست بہت افسردہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کو دکھ بھرے پیغام آ رہے ہیں۔ دوستوں نے یہ کمٹمنٹ بھی کیا کہ جتنا بڑا لکھاری اتنا بڑا انسان والی بات ان پر پوری اترتی ہے۔ ڈاکٹر اختر شمار نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم اے اردو کیا تھا، تدریسی سفر کا آغاز گورنمنٹ کالج قصور سے کیا اور پھر ایف سی کالج شعبہ اردو میں آ گئے۔ اس کی پی ایچ ڈی کے تھیسیز کا موضوع ’’حیدر دہلوی کے احوال و آثار‘‘ تھا۔ مختلف اخبارات میں کالم لکھے، اپنا ادبی اخبار بجنگ آمد نکالا جو کہ تاریخ اردو ادب میں ایک حوالہ رہے گا۔ ان کا آبائی گاؤں سہال ثرد چکری ہے۔ اللہ اسے غریق رحمت کرے۔ آمین ہماری چپ بھی اسے ناگوار لگتی ہے مگر پسند کوئی بات بھی نہیں آتی
آخر میں اس کی نعت کا ایک شعر:
میں گزرتا تو وہاں جاں سے گزرتا چپ چاپ
یہ ہوا کیسے مدینے سے گزر جاتی ہے
٭٭٭