غزلیں ۔۔۔ محمد صابر

قیام دے بھلے تلوار کے برابر میں

دراز کر مجھے دیوار کے برابر میں

 

میں منتظر ہوں ترا تجھ سے چار قدموں پر

لگا ہوا ترے بازار کے برابر میں

 

اٹھا کے لے گیا سستا سا مال ٹھیلے سے

پڑا رہا میں خریدار کے برابر میں

 

یہ دائرہ بھی لگا دے کسی کنارے پر

گھما کے پھینک دے پرکار کے برابر میں

 

تمام رات گزاری ہے میں نے فرصت میں

بڑا سکون تھا بے زار کے برابر میں

 

مرے پڑوس میں اک بے بہا سمندر ہو

مجھے بنا مرے گھر بار کے برابر میں

 

علاج چھوڑ طبیبا مری اذیت کا

مجھے گرا کسی بیمار کے برابر میں

 

اٹھا کے جھاڑ لو پھوٹے ہوئے مقدر کو

اٹھا کے جوڑ دو سرکار کے برابر میں

 

شکار پھانک لیا تھا بڑی تسلی سے

گرا تو مر گیا مردار کے برابر میں

 

جہاں پہ آج عدالت کی یہ عمارت ہے

یہاں مکان تھا دربار کے برابر میں

٭٭٭

 

 

 

آج پھر خواب میں آنا مری اچھی بانو

دل ربا اے مری جاناں مری اچھی بانو

 

پیڑ سن لیں نہ خبر یار ترے آنے کی

پائلوں کو نہ بجانا مری اچھی بانو

 

خود ہی کرنا مرا چرچا یہاں کے لوگوں میں

خود مرا پردہ گرانا مری اچھی بانو

 

رات آئی ہے چراغوں کو اذیت دینے

کر بھی دو چاند روانہ مری اچھی بانو

 

دل ضمانت میں رکھانے کے لئے ہوتا ہے

رکھ بھی لو دل کا بیانہ مری اچھی بانو

 

پھر وہی رقص دکھانا ہے مجھے لوگوں کو

پھر وہی گیت سنانا مری اچھی بانو

 

کچھ گرا ہے مرے ماتھے پہ ابھی تازہ سا

مجھ پہ آنکھیں تو جلانا مری اچھی بانو

 

چوڑیاں پیار میں ٹوٹی ہیں اگر ٹوٹی ہیں

دیکھنا گھر نہ بتانا مری اچھی بانو

 

دیکھو کم ذات کی آنکھوں پہ نظر رکھنا تم

آئینہ جب بھی اٹھانا مری اچھی بانو

 

لے ذرا میں بھی محبت کی زیارت کر لوں

ہاتھ کھڑکی سی ہلانا مری اچھی بانو

 

تیرا آسیب مجھے تیری مہک کافی ہے

اب کے خوشبو نہ لگانا مری اچھی بانو

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے