کیا جانے جہاں تھا میں وہاں تھا کہ نہیں تھا
ہونے کا یقیں، میرا گماں تھا کہ نہیں تھا
قاصد! کچھ اثر اُس پہ عیاں تھا کہ نہیں تھا
کچھ اشک سا آنکھوں میں رواں تھا کہ نہیں تھا
مدت سے میں بُجھ کر بھی یہی سوچ رہا ہوں
جتنا میں جلا اُتنا دھواں تھا کہ نہیں تھا
ایسے ہی فقیری نہیں طاری ہوئی مجھ پر
قدموں میں مرے سارا جہاں تھا کہ نہیں تھا
کیوں تجھ کو ستمگر کا طرفدار نہ سمجھیں
خاموش، تو رکھ کر بھی زباں، تھا کہ نہیں تھا
اے بعد کے لوگو! یہ بتاؤ کہ مرے بعد
دنیا میں مرا نام و نشاں تھا کہ نہیں تھا
٭٭٭
پنجرے میں خوش رہ کے دکھانا پڑتا ہے
تب جا کر منھ میں اک دانہ پڑتا ہے
گھر سے تو مسجد کے لئے ہی نکلے تھے
لیکن رستے میں میخانہ پڑتا ہے
کتنا مشکل ہوتا ہے خود کو پانا
تہہ خانے میں اک تہہ خانہ پڑتا ہے
ایسے ہی کب بات سمجھ میں آتی ہے
دل کو بیٹھا کر سمجھانا پڑتا ہے
ہم کو کون سا گانا آتا ہے، لیکن
رات کے سنّاٹے میں گانا پڑتا ہے
٭٭٭