جو بنا لے منزلِ مقصود کو راہِ خیال
منتظر ہے آج بھی اس کی گزرگاہِ خیال
وقت نے دھندلا دئے سارے حقیقت کے نقوش
بس گیا ہے جب سے آنکھوں میں کوئی ماہِ خیال
کاش میں جس کو بھی لے آؤں تخیل میں کبھی
خود بخود کھنچتا چلا آئے وہ ہمراہِ خیال
ہو چکا لازم کہ اب پھر ہو حقیقت کا ظہور
دل سے لب تک آ گئی اب شہرتِ آہ خیال
پھر تخیل میں کوئی انگڑائیاں لینے لگا
درد پھر دینے لگا دستک سر راہ خیال
جان لیوا بن چکا ہوتا وفورِ تشنگی
گر نہیں رکھتے نظر میں ہم کوئی چاہِ خیال
آج بھی خوش فہمیوں میں قید ہے ہر آدمی
کوئی گم راہِ حقیقت، کوئی گمراہِ خیال
لن ترانی کا نہ گر الزام آئے تو کہوں
شاعری تخئیل ہے، آزرؔ شہنشاہ خیال
٭٭٭
مسئلوں نے بھی عجب طور سے ہڑ دنگ کیا
مینکا بن کے رشی دھیان مرا بھنگ کیا
کچھ تو اعمال بھی تھے اپنی تباہی کا سبب
اور کچھ وقت نے بھی ملک خدا تنگ کیا
کم نہیں ہے یہ سیاست کسی محبوبہ سے
دل کو ہر آن رلانے کا عجب ڈھنگ کیا
ذہن تو پہلے ہی قائل تھا سخن فہمی کا
اور دل نے بھی رخِ حضرتِ نارنگ کیا
صرف تقریر نہ تھی اس پہ دل آنے کا سبب
اس نے تحقیق کے میداں کو بھی گلرنگ کیا
خود بھی ہو پایا نہ میرا، نہ بنایا اپنا
اور سنسار سے بھی موہ مرا بھنگ کیا
مختلف مجھ سے سدا رہنے کی کوشش اس کی
زندگی کو بڑی مشکل سے ہم آہنگ کیا
دل تو میزانِ محبت پہ تھا بھاری لیکن
اس نے ہی ناز و ادا سے اسے پاسنگ کیا
جب بھی جھانکا ہے تری پریت کے من مندر میں
ڈھول تاشوں نے مرے دل کو بھی مردنگ کیا
میں نے چاہا تھا سلامت رہے دنیا یوں ہی
اور دنیا نے مجھے ہی سبب جنگ کیا
رات دن لپٹا رہا عشق بتاں سے آزرؔ
پھر کسی بت نے مرا دل بھی تہہِ سنگ کیا
٭٭٭