ایک وہ وقت کہ
آپ کی آہٹ کو دالان سمجھتے تھے
کاہی ماشی زرد غرارے آپ کے اوپر سجتے تھے
اک وہ وقت کہ
جب آنگن میں اجلے بستر لگتے تھے
چھڑکاؤ ہوتا تھا دریاں چادر تکیے، مونڈھے تھے
اک وہ وقت کہ ایک جمیلہ روز صبح کو آتی تھی
راکھ ہٹا کر جھاڑو دے کر چولہا نیا جلاتی تھی
آپا بتلاتی تھیں کیا کیا آج پکایا جائےگا
روٹیاں کتنی کافی ہوں گی، آم بھی کھایا جائےگا
دال مصالحے دھوپ دکھائے جائیں گے شام کے ہونے تک
انگیٹھی میں شعلے روشن رکھنا ہوں گے سونے تک
اک وہ وقت کہ پورا محلہ ملنے جلنے آتا تھا
پارو، جوہی، منی، اشرف سب سے رشتہ ناتا تھا
جتنے گھر میں لوگ تھے اس سے زیادہ نوکر چاکر تھے
نور، شمیم، حبیب کے بچے، ابراہیم و گوہر تھے
کتنے ملنے والے تو بس باتیں کرنے آتے تھے
کچھ کو چائے کی عادت تھی کچھ کھانا کھا کر جاتے تھے
سرد و گرم بحث میں شام گزر جاتی تھی لوگوں کی
شکوہ شکایت کرکے تھکن اتر جاتی تھی لوگوں کی
…….
اک وہ وقت کہ ڈوبی نبض وہیں پر چودھری صاحب کی
چالس سال کا ساتھ چھٹا اوری ادیں بکھریں کب کب کی
باغوں میں پتے مرجھائے ایسی آندھی آن رہی
فصلیں ساری سوکھ گئیں اور بور بہت بےجان رہی
چودھری صاب کی رخصت نے پھر آپ کے دل کو تھام لیا
آنکھیں پتھر ہو گئیں اتنی راہ تکی اور نام لیا
اس مدت میں رکھے رکھے چائے کے برتن ٹوٹ گئے
قابوں میں بھی بال پڑ گئے طشت کے دامن ٹوٹ گئے
بالآخر سامان سمیٹا موٹے تالے ڈال دئے
جیسے پرندوں کے پر کاٹے اور پنجرے سے نکال دئے
لیکن آج بھی اس دیوڑھی پر دستک جیسی ہوتی ہے
سجدوں والی پٹیا پر اک پیشانی سی روتی ہے
کمرے رستہ دیکھ رہے ہیں کچھ محرابیں باقی ہیں
کچھ دروازے چوکھٹ پر ہیں کچھ دالانیں باقی ہیں
ڈھونڈتے ہیں آوارہ بندر اب بھی آم کی خوشبو کو
دیکھ رہے ہیں اس ویرانی، حسرت، دہشت اور ہُو کو
آپ کی چھت اور آنگن میں وحشی چڑیوں کا ڈیرہ ہے
دیواروں پر کائی جمی ہے اونچا اونچا سبزہ ہے
اور سبزے کے بیچ چھپی ہیں آپ کی دو روشن آنکھیں
زنداں کی دیوار میں جیسے یوسف کی روزن آنکھیں
٭٭٭