(اس عنوان پر چونکیے گا نہیں۔ دلائل و براہین کی روشنی میں انھیں آں جہانی کہا گیا ہے)
ڈاکٹر ٹی آر رینا (جموں کشمیر) کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کہ انھوں نے محقق و مدون و صاحب نظر نقاد رشید حسن خان کے فکر و فن پر دادِ تحقیق دی بلکہ ان کے بے شمار خطوط تلاش کر کر کے تین ضخیم جلدوں میں مرتب کر ڈالے۔ اسی طرح بیشتر مقالاتِ رشید حسن خان تین ضخیم جلدوں میں ترتیب دے کر انھیں ضائع ہونے سے بچا لیا۔ یہ تمام کتابیں قومی کونسل برائے فروغ اردو NCPUL کے تعاون سے شائع کی گئی ہیں جو اردو بک ریویو نے اپلائڈ بکس دہلی کے زیر اہتمام بڑے سلیقے سے پیش کی ہیں۔ خان صاحب کے مزید خطوط اور مقالات کی ترتیب و اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ باغ و بہار، فسانہ عجائب، مثنوی میر حسن سحر البیان، مصطلحاتِ ٹھگی اور زٹل نامہ (جعفر زٹلی) کی تدوین پر مشتمل ایک پوری کتاب بھی ٹی آر رینا صاحب نے ترتیب دی۔
ان کی تدوینی خدمات کے پیش نظر آں جہانی گیان چند جین جیسے مشہور و معروف محقق نے رشید خان کو ’’خدائے تدوین‘‘ کا نام دیا۔ حالانکہ بے چارے رشید خان کسی خدا کو نہیں مانتے تھے۔ سیکڑوں صفحات پر مشتمل ان کی تحریروں اور خطوط میں انھوں نے جا بجا خدا کا انکار کیا ہے بلکہ جنت، حور و غلمان وغیرہ کا مذاق بھی اڑایا ہے۔ ڈاکٹر نیر مسعود رضوی کے نام ان کی بچی کی بیماری کے بارے میں سن کر انھیں 13 مئی 1995کے خط میں لکھتے ہیں:
’’خدائے پاک (اگر وہ کہیں ہے) اس بچی کو جلد تر شفا دے‘‘ (رشید حسن خان کے خطوط، پہلی جلد، صفحہ 990)
10۔ اکتوبر 2000 کو اطہر فاروقی کے نام ایک خط میں خان صاحب فرماتے ہیں:
’’تمھارے لیے بہت فکر مند ہوں مگر بے دست و پا کچھ نہیں کر سکتا۔ خدا اگر کہیں ہے تو وہی تمھاری مدد کرے گا۔
یہ میری دعا بھی ہے اور تمنا بھی۔‘‘ (پہلی جلد، صفحہ 277)
حالانکہ رشید حسن خان نے خلیق انجم کے نام اپنے ایک خط مورخہ 13 ستمبر 1998 کو اپنی بیماریوں کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا:
’’میں دعا کا قائل نہیں۔ ہاں دوا کا قائل ہوں اور اطمینان رکھیے گا اس میں کمی نہیں ہو گی اور میری سب سے بڑی رفیق میری سخت جانی ہے اس لیے ہو گا کچھ نہیں‘‘ (رشید حسن خان کے خطوط، جلد سوم، مرتبہ ٹی آر رینا۔ صفحہ 223)
خان صاحب کو شاید معلوم نہیں تھا کہ دواؤں میں شفا دینے والی ایک ہستی ہے۔ وَ اِذَا مَرِضْتُ فَھُوَا یَشْفِیْن۔
امیش بہادر سریواستو فگارؔ اناوی کے نام مکتوب مرقومہ کی آخری سطر ملاحظہ فرمائیں:
’’توقع کرتا ہوں کہ آپ بہ عافیت ہوں گے۔ خدا کو میں مانتا نہیں ورنہ لکھتا کہ خدا آپ کو بہ عافیت رکھے۔‘‘
(بہ حوالہ پیش لفظ، جلد سوم، صفحہ 76۔ ٹی آر رینا نے فگار کے نام رشید حسن خان کے خطوط جلد اول میں پیش کیے ہیں)
آں جہانی پروفیسر گیان چند جین کے نام ایک خط مورخہ 23 اگست 1996 میں خان صاحب ان کے بھائی پرکاش مونس کے انتقال پُر ملال پر پُرسہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خدا مرحوم کو اپنے کرم بے پایاں سے نوازے اور آپ کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ لفظ خدا۔ یہاں بہ طور محاورۂ عام آیا ہے۔ آپ کی طرح میں بھی اُن بزرگوار کے وجود کا قائل نہیں۔‘‘(جلد سوم، صفحہ 305)
اللہ بزرگ و برتر کو ’’بزرگوار‘‘ کہنا جسارت سے کم نہیں۔ پھر جب اللہ کے وجود ہی کے قائل نہیں تو پھر اس کے کرم بے پایاں سے امید کیسی؟۔ گیان چند کو وہ اپنا ہم مشرب بھی قرار دیتے ہیں۔
خان صاحب کو غصہ اس بات پر ہے کہ پاکستان والے لفظ خدا کے بجائے اللہ کا استعمال کرنے لگے ہیں۔ مظہر محمود شیرانی کے نام ایک خط مورخہ 3 مارچ 2004 کو شکوہ گزار ہیں:
’’خدا جانے وہاں والوں (پاکستانیوں) کے دل میں کیا سمائی ہے کہ ایک عمدہ کلمے کو بدل ڈالا۔ ۔ تو پھر خدا کی پناہ کو بھی اللہ کی پناہ کہنا چاہیے تاکہ نزاکت آواز کی تکمیل ہو جائے‘‘ (جلد سوم۔ صفحہ329)
مظہر محمود شیرانی کے نام ایک اور خط مورخہ 27 مارچ 2004 میں خان صاحب اپنے احوال میں لکھتے ہیں:
’’دوسرے ہارٹ اٹیک کے بعد احوال ٹھیک نہیں رہتا اور ٹھیک رہے گا بھی کب تک۔ 79 برس ہونے کو آئے ہیں۔ بس اب ختم سفر میں کچھ ہی دیر ہے۔ خیر اُسے بھی دیکھ لیں گے۔ پٹھان کا پوت نہ ڈرتا ہے نہ دبتا ہے، ہاں بھرنے بھگتنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اِن آنے والے بزرگوار سے بھی نپٹ لیا جائے گا۔ وہ کار روائی تو یک طرفہ ہو گی تو وہ بھی ہو جائے۔ (جلد سوم، صفحہ 331۔ رشید حسن خان کے خطوط، مرتبہ ٹی آر رینا)
اللہ تعالیٰ نے بندے کی روح قبض کرنے کے معاملے میں کہا کہ وہ خود روح نکالتا ہے، کبھی اس کے مقرر کردہ فرشتے یہ کام انجام دیتے ہیں۔ اللہ یا ملک الموت سے نپٹنے کے لیے خان صاحب تیار ہیں۔ ایک لطیفہ یاد آیا۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ جس گھر میں کتّا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ تو کتّا پالنے والے نے کہا اس طرح موت کے فرشتے سے بچا جا سکتا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا میاں کتّے بھی تو مرتے ہیں۔ جو فرشتہ کتوں کی روح قبض کرنے پر مامور ہوتا ہے وہی یم دوت کتّے پالنے والے کی روح کھینچنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
شیام لال کا لڑکا عابد پیشاوری سے ہمدردی فرماتے ہوئے 6 مئی 1990 کو اپنے خط میں لکھتے ہیں:
’’تفصیل معلوم ہوئی لیکن اس مصیبت اور زحمت کا میں یہاں بیٹھ کر اندازہ نہیں کر سکتا جو آپ کو اٹھانا پڑی ہے اور اٹھانا پڑ رہی ہو گی۔ اور کیا کہوں خدا آپ کو اس کی جزا دے گا اور موتی کے محل اور حوریں عطا کرے گا (اگر یہ سب کہیں موجود ہے)‘‘۔ (پہلی جلد، صفحہ 680۔ مرتبہ ٹی آر رینا)
26 مئی 2001 کو عابد سہیل کی والدہ کے انتقال پر تعزیتی خط میں خان صاحب لکھتے ہیں:
’’خط میں والدہ صاحبہ کے انتقال کی اطلاع پڑھ کر بہت دُکھ ہوا۔۔۔ میں بھی اس سے دوچار ہو چکا ہوں اور آپ کے غم کو محسوس کر سکتا ہوں۔ خدائے پاک (اگر وہ کہیں ہے) مرحومہ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے یہ جملہ بر بِنائے روایت لکھا گیا ہے۔ جنت کیا واقعتاً ہے؟ اس کا احوال مجھے نہیں معلوم۔ میں تو بس ایک جنت کو مانتا ہوں جو شداد نے بنوائی تھی اور ہمارے زمانے میں جس کے نمونے دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ اس آنکھوں دیکھی کے سوا اور کسی خیالی فردوس سے میں واقف نہیں۔
(اس کے بعد خان صاحب خود لکھتے ہیں ’’اسے جملۂ معترضہ سمجھا جائے‘‘) ۔ (خطوط کی پہلی جلد صفحہ 736)
اس طرح خان صاحب خدا کے قائل تو تھے نہیں ساتھ ہی جنت کو بھی غالب کی طرح تفنن طبع کے طور پر نہیں بلکہ سنجیدگی سے خیالی قرار دیتے ہیں۔
پروفیسر علی احمد فاطمی کے نام 23۔ مارچ 1998 کے خط میں لکھتے ہیں (اقتباس پیش ہے)
’’میری معذرت قبول کر لو۔ خدا (جس کے متعلق یہ نہیں معلوم کہ وہ ہے تو کہاں ہے) تم کو جنت دے گا اور بہت سی حوریں (اگر اچھے دل سے مان لو گے یہ بات) بُرے دل سے مانو گے تو وہاں حوروں کی جگہ غلمان ملیں گے۔ یہ یاد رکھو۔ (خطوط کی پہلی جلد، صفحہ 752-753)
قرآن حدیث کی رو سے غلمان مسلم و غیر مسلم بچے ہیں جو کم سنی میں فوت ہو گئے تھے۔ ان کم سنی میں وفات پانے والے بچوں کو اللہ تعالیٰ جنتیوں کی خدمت پر مامور کرے گا۔ بد فعلی کرنے والی قومِ لوط پر اللہ نے دنیا میں عذاب نازل کیا تھا تو کیا وہ جنت میں بد فعلی کرنے کے لیے غلمان عطا کرے گا! مگر رشید حسن خان کی ذہنی کجی غلمان کا مذاق اڑا کر خود مذاق کا نمونہ بن رہی ہے۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق بھی لمبو (برزخ) میں غیر عیسائی معصوم روحیں رکھی جاتی ہیں۔
29 مارچ 1995 کو لکھے گئے اپنے ایک خط بنام ڈاکٹر نیر مسعود رضوی میں خان صاحب کسی مردود کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس مردود نے انکار کر کے اپنے علاقے کی روایت کی پاس داری کا حق ادا کیا ہے۔ مرتے وقت وہ اوندھا پڑا ہو گا اور شیطان اس کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو جنت میں بار پا لینے والے ایرانی وہاں کے غلمانوں کے ساتھ کریں گے۔ آپ بھی آمین کہئے۔ ایک بار نہیں تین بار‘‘(خطوط کی پہلی جلد، صفحہ 986)
’’غلمان‘‘ کی مزید جمع ’’غلمانوں‘‘ بنانا ماہر زبان و املا رشید حسن خان کی انتہا پسندی اور ’’زبان دانی‘‘ کا ثبوت ہے۔
آگے ان کی زبان کی لڑکھڑاہٹوں کی مزید مثالیں پیش کی جائیں گی۔
’’مصطلحات ٹھگی‘‘ میں ٹھگوں کی بعض اصطلاحات کو جمع کرنے کی سر ماری کی گئی ہے۔ اس سے ادب کا کیا فائدہ ہوا؟ چوروں، ڈاکوؤں، ٹھگوں کے دور لد گئے ان کی لغت تیار کر کے خان صاحب نے زبان و ادب کی کیا خدمت کی؟ باغ و بہار، فسانۂ عجائب، مثنوی میر حسن سحر البیان گلزار نسیم وغیرہ کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے اللہ کے وجود و عدم پر بھی دادِ تحقیق دی ہوتی تو ممکن تھا کہ اللہ پر ایمان لے آتے۔ ہدایت نصیب ہو جاتی۔ دنیا و آخرت سنور جاتی۔
خدا بیزاری، جنت، حور و غلمان پر طنز و طعن خان صاحب نے از راہِ تفنن طبع نہیں کیا بلکہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ ان مسلمات کا انکار کیا ہے اور ان کا مذاق اڑایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سخت وعید فرمائی اور فرمایا کیا ہنسی مذاق کا نشانہ بنانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول ہی رہ گئے ہیں! (قرآن مجید سورۃ توبہ آیت65۔ ) ہم نے اسی لیے رشید حسن خان کو آں جہانی لکھا ہے۔ جنت، حور و غلمان تو دور جو شخص اللہ تعالیٰ ہی کے وجود کا منکر ہے اسے آں جہانی نہیں تو اور کیا لکھا جائے۔ اس کی تحریروں سے چند ہی مثالیں نقلِ کفر کفر نہ باشد کے تحت پیش کی گئی ہیں۔ خاص بات ہم نے نوٹ کی کہ سیکڑوں صفحات پر پھیلے ہوئے خطوط اور مقالات میں خان صاحب نے جہنم کا کبھی مذاق نہیں اُڑایا۔
رشید حسن خان فروری 2000 کے آخری دنوں میں مشہور لغت نویس یعقوب میراں مجتہدی کی بچی کی شادی کی تقریب میں حیدرآباد تشریف لائے تھے۔ یعقوب میراں مجتہدی میرے بھی کرم فرما تھے۔ انھوں نے مجھے بھی اس شادی میں مدعو کیا تھا۔ بعض حیدرآبادی ادیبوں شاعروں کے حلقے میں (آفیسرس میس، ملک پیٹ حیدرآباد میں) خان صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں ان کے پاس پہنچا اور سلام کر کے جب بتایا کہ میں رؤف خیر ہوں۔ خان صاحب نے عصا کے سہارے فوری اُٹھ کر مجھے گلے لگایا اور فرمایا کہ ’’آپ نے میرا وہ کام کیا ہے جو کسی نے میرے لیے نہیں کیا تھا۔ میں اپنی کتاب میں آپ کا شکریہ ادا کر رہا ہوں۔‘‘ حیدرآبادی ادیب شاعر پریشان تھے کہ رؤف خیر سے ملنے کے لیے خان صاحب سیٹ سے اٹھتے ہیں اور کچھ شکریہ ادا کرنے کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ آخر کیا ماجرا ہے؟ مگر نہ میں نے کسی کو بتایا نہ خان صاحب ہی نے کسی کو بھنک لگنے دی کہ کاہے کا شکریہ۔ در اصل خان صاحب کو مثنوی سحر البیان کے ایک مخطوطے کی تلاش تھی جو حیدرآباد کے ایک کتب خانے میں موجود تھا۔ کالی داس گپتا رضا نے خان صاحب کی فرمائش مجھ تک پہنچائی۔ میں نے اس مخطوطے کی نقل بڑی مشکل سے حاصل کی اور گپتا رضا صاحب کی بھیج دی جو انھوں نے خان صاحب تک پہنچا دی۔ مگر مثنوی سحر البیان جب چھپ کر آئی تو دیکھا کہ اُس میں خان صاحب نے میرا نہیں بلکہ گپتا رضا کا شکریہ ادا کیا تھا۔ کتاب مثنوی سحر البیان دیکھی جا سکتی۔ من لم یشکر الناس و لم یشکر اللہ۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ جو اللہ ہی کا احسان مند نہیں وہ بندوں کا کیا احسان مند ہو گا۔
دینی عقائد سے کھلواڑ سے ہٹ کر خان صاحب کے بعض خطوط بڑے دل چسپ ہیں۔ اپنے وطن شاہ جہاں پور سے نکل کر خان صاحب دہلی آئے تاکہ بہتر زندگی گزار سکیں مگر ابتدا میں انھیں یہاں کوئی مستقل ذریعہ روزگار نہیں ملا تو وہ وطن لوٹ گئے۔ پھر لکھنؤ پہنچے۔ تاہم دہلی کی یادیں اور مناظر ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے تھے۔ لکھنؤ سے اپنے ایک دوست اشفاق حسن خان کے نام 3 جولائی 1964 کو ایک خط میں خان صاحب لکھتے ہیں:
’’دہلی تو بادشاہوں کو راس نہیں آئی مجھے راس نہ آئی تو کیا تعجب! بس ایک بات کا افسوس رہے گا کہ نگاہوں میں یہاں کے جلوہ ہائے سرور انگیز کے عکس محفوظ رہیں گے جو پریشاں خیالی کو جگاتے رہا کریں گے۔ بھلا اس ’’ قصبۂ تہذیب‘‘ میں دورِ بے حجابانہ کہاں ملیں گی (کذا) اور برہنہ بازوؤں، گنبدی چھاتیوں، شفاف پنڈلیوں اور نمایاں شکموں کی جھلکیاں کیسے نظر آئیں گی۔ وہ ملبوس جن پر دور سے آئینہ شفاف کا گمان گزرتا ہے، وہ بلاؤز جو محرم کی برابری بل کہ اس سے بھی کچھ مختصر ہونے کی قسم کھاتے ہیں۔ وہ رفتار کہ موج مئے جس کے سامنے پانی پانی ہو جاتی ہے۔ شکم صاف کی وہ متحرک جھیلیں اور سینوں کے وہ روشن فانوس، عریاں پنڈلیوں کی وہ روشن شمعیں اور چمک دار بازوؤں کی متحرک کمانیں کہاں نظر آئیں گی۔ وہ پیکر خوبی جن کو شاخِ گل کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا اور وہ ہجوم مہوشاں جن کو دیکھ کر کہکشاں کا جھرمٹ نگاہوں سے گر جاتا ہے اور وہ بے باک جوانیاں، وہ بے جھجک نگاہیں، وہ نمود بے محابا کی سحر کاریاں اور وہ اندازِ سپردگی کی چغلی کھاتا ہوا طرزِ بے نیازی۔ یہ سب کہاں ملے گا۔ ہائے ہائے!!‘‘
(رشید حسن خان کے خطوط۔ پہلی جلد، صفحہ 241-242، مرتبہ ٹی آر رینا)
پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے اگست 1959 میں شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے رشید حسن خان کا تقرر کروا دیا تھا۔ مگر بیچ میں 1964 میں کچھ دنوں کے لیے انھیں دہلی چھوڑ نا پڑ گیا۔ اسی دوران انھوں نے مذکورہ بالا خط لکھنؤ سے لکھا تھا دہلی کی ارجمند آرا کے نام شاہ جہاں پور سے ایک خط میں رشید حسن خان 16 ستمبر 1997 کو اطہر فاروقی اور ارجمند کے تعلقات میں جو اونچ نیچ آئی تھی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’تم نے وہ مثل سنی ہے ’’خصم کیا، برا کیا۔ کر کے چھوڑا اور برا کیا۔‘‘ میں کبھی اپنے کیے پر پشیمان نہیں ہوا۔ خواہ کتنا ہی پریشان رہا ہوں۔ خواجہ احمد فاروقی سے جھگڑا کر لیا جو ستائیس27 سال تک بر قرار رہا۔ بہت نقصان اٹھایا مگر پچھتایا نہیں۔ آج تم کو بتا رہا ہوں کہ یہ جھگڑا ذکیہ انجم کے سلسلے میں ہوا تھا۔ کبھی نہیں گھبرایا۔ کبھی نہیں شرمایا اور کبھی پشیمان نہیں ہوا۔ بہت نقصان اٹھایا۔ گریڈ نہیں ملا نہ ملے۔ نقصان ہوتا ہو تو ہو۔ کر کے پچھتانا شیوۂ دوست داری کے خلاف ہے‘‘۔ (اقتباس خط۔ خطوط کی پہلی جلد، صفحہ 152۔ مرتبہ ٹی آر رینا)
اپنے محسن و مربی پروفیسر خواجہ احمد فاروقی سے اپنے تعلقات کشیدہ ہونے کا تذکرہ اور اس کا سبب بھی خان صاحب نے بتا دیا۔
رباب رشیدی کے نام ایک خط مورخہ 31 مارچ 1998 کو شاہ جہاں پور سے دل چسپ انداز میں خان صاحب لکھتے ہیں: (اقتباس)
’’میاں خمیرہ اب کیا کرے گا۔ اب تو کوئی نسخۂ بیاض مسیحا ملے تو بات بنے۔ دہلی میں تھا تو صبح سے شام تک آنکھیں روشن ہوتی رہتی تھیں اور چہرہ شاداب۔ ہزار ٹانک ایک طرف اور وہ مناظر ایک طرف۔ اب اس شہر میں ہوں جہاں گلیاں کوڑے کرکٹ سے بھری رہتی ہیں۔ بیمار نہیں رہوں گا تو کیا تن درست رہوں گا۔ جب سے آیا ہوں ایک دفعہ بھی تو ایسا نہیں ہوا کہ چلتے چلتے اچانک آنکھوں میں چراغ جل اٹھے ہوں۔ جب دیکھوں تو سید صاحب کو یا اُن جیسے دوسروں کو۔ صحت کیسے حاصل ہو پائے گی!‘‘(خطوط، پہلی جلد۔ صفحہ 616 مرتبہ ٹی آر رینا)
ڈاکٹر ٹی آر رینا نے ’’رشید حسن خان کے خطوط‘‘ کی پہلی جلد میں حالات زندگی بڑی تفصیل سے بیان کیے۔ خاندان، تاریخ ولادت، تعلیم، ملازمت، شادی، اولادیں، لباس وغیرہ خان صاحب کے شوق کے سلسلے میں ٹی آر رینا لکھتے ہیں:
’’خان صاحب کا ایک اور عزیز شوق تھا بڑھیا کوالٹی کی وہسکی، راقم نے انھیں جموں یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں یہ شوق فرماتے ہوئے دیکھا۔ شام کے وقت جب ہم تینوں (پروفیسر شیام لال کا لڑکا، ڈاکٹر ایم۔ ایل پروانہ اور راقم) کے علاوہ کوئی نہ ہوتا تو گیسٹ ہاؤس کا خانساماں ان کے کمرے میں برف کے پیس، پانی، سلاد وغیرہ رکھ دیتا۔ خان صاحب اپنے ہاتھ سے خود اپنا پیگ بناتے، گلاس میں وہسکی، پانی اور برف ڈال کر اُسے بھر لیتے۔ دھیرے دھیرے ایک ایک گھونٹ لیتے اور باتیں کرتے جاتے۔ گفتگو صرف ادبی ہوتی یا کبھی کبھار سیاسی معاملات پر بھی بات چیت کر لیتے۔ مولانا ابو الکلام آزاد جس طرح صبح چائے پیتے ہوئے ایک گھونٹ سے دوسرے گھونٹ تک زیادہ وقفہ لیتے تھے ٹھیک اسی طرح خان صاحب کا وقفہ ایک گھونٹ سے دوسرے گھونٹ تک کافی طویل ہوتا۔ تین پیگ سے زیادہ میں نے انھیں کبھی لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس دوران وہ کسی دوسرے شخص سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے۔ گیسٹ ہاؤس کے چوکیدار یا خان ساماں کو خاص ہدایت ہوتی تھی۔ پروفیسر عابد اور پروانہ صاحب دونوں اس کا شوق رکھتے تھے مگر احتراماً انھوں نے اس معاملے میں خان صاحب کا کبھی ساتھ نہیں دیا‘‘۔
(رشید حسن خان کے خطوط کی پہلی جلد، صفحہ 26-27، مرتبہ ٹی آر رینا)
کیا لکھنؤ کیا بمبئی کیا حیدرآباد اور کیا دہلی ہر جگہ کے چھوٹے بڑے ادیب شاعر پینے پلانے کو عار نہیں سمجھتے تھے بلکہ نہ پینے والوں کی کھلّی اڑایا کرتے تھے جیسے پنڈت ہری چند اختر پیتے نہیں تھے مگر پینے والوں کے ساتھ ایک مرتبہ کسی بار میں شراب کے نرخ نامے کا جائزہ لے رہے تھے تو جوشؔ اور مہندر سنگھ بیدی سحر نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے کوئی نامرد یا ہجڑہ عورت کے کپڑے اتار رہا ہو۔ (شگفتگی و برجستگی قلم کاروں کی، مرتبہ کے۔ ایل نارنگ ساقی۔ دہلی)
ہم نے حیدرآباد کے کئی معروف و غیر معروف چھوٹے بڑے شاعروں کو گھٹیا سستی شراب ٹھرّا پی کر سڑکوں پر لڑکھڑاتے بھی دیکھا ہے مگر ان کی اولاد چاہتی ہے انھیں کسی مسجد کا پیش امام بنا کر پیش کیا جائے۔ ہمارا لکھا کیا فرشتوں کے لکھے پر پانی پھیر دے گا! رشید حسن خان بھی اگر بڑھیا کوالٹی کی وہسکی سے شغل فرماتے تھے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیوں کہ نہ صرف وہ ایک معیاری آدمی تھے، اصولی آدمی بھی تھے۔ پہلے سے اجازت حاصل کیے بغیر کوئی ان سے مل بھی نہیں سکتا تھا۔
رشید حسن خان صوم و صلوٰۃ پر کار بند نہیں تھے۔ ہم نے پابند صوم و صلوٰۃ کے بجائے کاربند کا لفظ سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔ ’’پابند نہیں تھے‘‘ لکھنے کا مطلب ہو گا گنڈے دار عمل کر لیا کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا۔ وہ جب اللہ ہی کو نہیں مانتے تھے تو پھر صوم و صلوٰۃ حج و زکوٰۃ پر عمل کرنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ شاہ جہاں پور کے ذمہ دار شاعروں ادیبوں نے بتایا کہ انھوں نے رشید حسن خان کو روزہ رکھتے یا نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا۔ اس کا ثبوت خان صاحب کے ایک خط مورخہ 26 فروری 1995 سے بھی چلتا ہے جو نیر مسعود رضوی کے نام لکھا گیا تھا:
’’حضور والا۔ رمضان برحق، عبادت و ریاضت بھی مسلّم لیکن اس زمانے میں آدمی نرا اولیا تو نہیں ہو جاتا۔ دنیا کے کچھ کام تو کرتا ہی ہے۔۔۔ میں خود اِس ماہ مبارک میں ریاض ؔ کے اس شعر پر صدق دل سے عمل کرتا ہوں
اٹھّے کبھی گھبرا کے تو مئے خانے کو ہو آئے
پی آئے تو پھر بیٹھ رہے یادِ خدا میں
تراویح کے نہ آپ قائل اور نہ میں (البتہ) افطار کے آپ بھی شائق ہوں گے اور میں بھی ہوں۔ ضرورتاً بھی ان دنوں جھوٹ نہیں بولتا اور ارادتاً کبھی ایسا کام نہیں کرتا جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، جبرِ مشیت کی بات اور ہے کہ آدمی مجبور محض ہے، جو وہ چاہتے ہیں وہی کرتا ہے وہ روزہ شکنی کیوں نہ ہو۔۔۔ ‘‘ (خطوط کی جلد اول۔ صفحہ 983)
ایک متفق علیہ حدیث شریف ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دفعہ منبر پر قدم رکھتے ہوئے تین بار آمین کہی۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ خلاف معمول آمین آپﷺ نے کیوں فرمائی۔ آپﷺ نے جواب دیا کہ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے اور فرمایا کہ جو شخص اپنے بوڑھے ماں باپ کو پائے اور ان کی خدمت کر کے اپنی عاقبت نہ سنوار لے اس پر اللہ تعالیٰ کی، جبرئیل کی لعنت فرشتوں کی لعنت ہے، آپﷺ نے بھی آمین کہی۔ پھر جو شخص رمضان پائے اور صیام و قیام (تراویح) کے ذریعے نیکیاں نہ بٹور لے اس پر اللہ کی لعنت، جبرئیل اور فرشتوں کی لعنت، اس پر آپﷺ نے بھی آمین کہی اور جس شخص کے سامنے رسول اکرمﷺ کا نام نامی اسم گرامی لیا جائے اور وہ آپﷺ پر درود نہ بھیجے تو اس پر بھی اللہ کی لعنت، جبرئیل اور فرشتوں کی لعنت تب آپﷺ نے بھی آمین کہہ کر جبرئیل امین کی اس حدیث پر مہر تصدیق ثبت فرما دی۔
ایک نکتہ اور۔ خان صاحب نے لکھا (رمضان میں) ’’آدمی نِرا اولیا تو نہیں ہو جاتا‘‘ یہ جملہ یوں ہونا چاہیے تھا ’’آدمی نرا ولی تو نہیں ہو جاتا‘‘۔
شاید شیطان نے چکمہ دے کر اُن سے غلط جملہ لکھوا دیا ورنہ اولیائے ادب جانتے ہیں کہ یہاں ولی کا محل ہے۔
انھی نیر مسعود رضوی کے نام ایک بڑا دل چسپ خط مورخہ 29 مارچ 1995 ہے جو بڑے ہنگامہ خیز سوالات پر مبنی ہے۔
’’ تیغ کے تعلق سے شیعہ عقیدہ یا خیال کیا ہے؟ دائرۃ المعارف میں تو یہ مرقوم ہے کہ ذوالفقار جنگِ اُحد میں یہ ایک کافر کی تلوار تھی، رسول اللہﷺ کو ملی اور آپ نے حضرت علیؓ کو دے دی۔ یہ عقیدہ یا روایت (کہاں تک درست ہے) کہ یہ عرش سے اتری تھی اِسے حضرت جبرئیل لائے تھے۔
’’ ضربِ حیدر سے کانپتے ہیں ملک۔ کیا اس میں کوئی تلمیح ہے؟ غالباً دبیر کا شعر ہے:
خیبر میں کیا گزر گئی روح الامین پر
کاٹے ہیں کس کی تیغ دو پیکر نے تین پر
’’ ماسوا اس کے کیا یہ اوج ہے کم
دوشِ احمد پہ تھے علی کے قدم (خطوط کی پہلی جلد، صفحہ 985)
خان صاحب کو نیر مسعود نے پتہ نہیں کیا جواب دیا۔ یہ کتاب میں کہیں درج نہیں ہے۔ اگر یہ ذو الفقار کسی ہارے ہوئے کافر کی نہیں بلکہ آسمان سے اُتری تھی جبرئیل لائے تھے اور اس دو منہ کی ذوالفقار ہی سے ان کے تین پر کاٹ دیے گئے تھے تو 6 چھے سو پروں والے ہیبت ناک جبرئیل تین پروں کی کمی کے ساتھ کیا منہ لے کر آسمان پر گئے ہوں گے؟۔ شاید یہی سوال خان صاحب نے نیر مسعود سے کیا۔ کعبۃ اللہ میں موجود بتوں کو فتح مکہ کے موقع پر گرانے کے لیے جس کم سن لڑکے کو رسول اللہﷺ نے اپنے دوش مبارک پر کھڑا کیا تھا وہ آپﷺ کے نواسے علی تھے جو آپﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کے بیٹے تھے۔ (یہ حضرت علیؓ بن ابو طالب نہیں تھے، کیوں کہ حضرت علیؓ اُس وقت نوجوان تھے اور رسول اکرمﷺ بوڑھے ہو چکے تھے) مگر اللہ جانے نیر مسعود نے اس کا کیا جواب دیا۔
13 مئی 1995 کے اپنے خط بنام نیر مسعود رضوی میں خان صاحب بڑی بے تکلفی سے فرماتے ہیں: (اقتباس)
’’اگر تصوف کے چُتیاپوں کا میں قائل ہوتا تو شاید اس عمر میں اس دیوار کے سائے میں پڑا رہتا۔۔۔ ‘‘ (خطوط کی پہلی جلد۔ صفحہ 989)
ہمیں غالب یاد آ گئے:
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
نیرؔ مسعود رضوی کے نام ایک خط مورخہ 8 دسمبر 1995 میں خان صاحب اپنی بد حواسی کا اظہار بھی خدائے سخن میرؔ کے اسلوب میں کرتے ہیں:
’’برادرم خط ملا۔ اپنی بد حواسی کی داد دیتا ہوں کہ نسیم ؔ کو رشکؔ کا استاد بھائی تحریر فرمایا۔ یہ تو واقعی خوب رہی۔ کون مانے گا اس کو کہ مقدمۂ کلام ناسخ اسی قلم نے لکھا تھا۔ بشریت شاید اسی کو کہتے ہیں۔ آپ کا ممنون ہوں کہ یہ فاش غلطی سامنے آ گئی، اگر کوئی اور بھی ایسی بات ہو تو ضرور مطلع کیجئے گا۔ نظر ثانی کے وقت کام آئے گی۔۔۔ ‘‘(خطوط، پہلی جلد، صفحہ 1001)
پہلی بدحواسی کا اعتراف تو خود خان صاحب کو ہو گیا تھا دوسری بدحواسی ان سے یہ ہوئی کہ بہ تقاضائے بشریت اپنے ہی لیے ’’تحریر فرمایا‘‘ لکھ گئے۔ خان صاحب کے حکم کے مطابق (اگر وہ حیات ہوتے تو) ہم اس دوسری بد حواسی کی طرف ان کی توجہ منعطف کرواتے۔
بشریت کے تقاضے کے سبب سرزد ہو جانے والی کچھ اور کوتاہیاں آگے ملاحظہ فرمائیے:
’’رشید حسن خان کے خطوط‘‘کی پہلی جلد پر مرتب ڈاکٹر آر رینا نے (صفحہ 19 سے 134 تک پھیلے ہوئے) اپنے طویل مقدمے میں خان صاحب کے ایک تحریری انٹرویو کا حوالہ دیا جس میں خان صاحب گھر پر ٹیلی فون نہ لگوانے کا جواز پیش کرتے ہیں: (شاید یہ وہی انٹرویو ہے جو ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو بھیجا گیا تھا)
’’ آج کل معمولات بس لکھنے پڑھنے تک محدود ہیں۔ میں تقریبات میں عموماً شرکت نہیں کرتا۔ رشتے داری میں بہت کم، کبھی کبھار جاتا ہوں اور وہ بھی مجبوراً۔ چاہتا ہوں کہ مجھ سے ملنے کے لیے بھی لوگ نہ آئیں۔ وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔ اسی لیے میں نے آج تک ٹیلی فون نہیں لگوایا کہ وقت ضائع ہو گا۔ لوگ عموماً فضول باتیں کرتے ہیں، غیر ضروری اور دیر تک۔ ذہن سے ساری سوچی سمجھی باتیں نکل جاتی ہیں۔ اب میرے بڑے صاحب زادے فون لگوانا چاہتے ہیں۔ میں نے اس شرط پر اتفاق کیا ہے کہ اس کو میرے کمرے سے دور رکھا جائے گا اور مجھے وہاں نہیں بُلایا جائے گا۔ جب تک کہ واقعی کوئی اہم بات نہ ہو، جو بہت کم ہوتی ہے‘‘۔ (خطوط کی پہلی جلد صفحہ 71)
خان صاحب حیات ہوتے تو ہم پوچھ لیتے کہ کیا کوئی شخص اپنے ہی بیٹے کو اپنا صاحب زادہ کہہ سکتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے میں نے تحریر فرمایا۔ میں تشریف لایا۔ البتہ دوسرے کے بیٹے کے لیے کہا جا سکتا ہے جیسے آپ کے صاحب زادے کیا کر رہے ہیں؟۔
’’یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی منظور شدہ اسکیم کے تحت علی گڑھ سے ’’تاریخ ادب اردو‘‘ کی پہلی جلد منظر عام پر آئی۔ اس پروجیکٹ کے ڈائرکٹر آل احمد سرور اور اسسٹنٹ ڈائرکٹر مجنوں گورکھ پوری تھے۔ بے شمار غلطیاں نکالتے ہوئے رشید حسن خاں نے اس پر سخت تنقید لکھی اور ماہ نامہ تحریک دہلی کے اکتوبر 1963 کے شمارے میں چھپوا دی۔ اس تنقید کی اشاعت کے بعد وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اس کتاب کے سبھی نسخے بازار سے واپس منگوا کر گودام میں بھر دیے اور اس پروجیکٹ کو ختم کر دیا جس سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو کروڑوں کا نقصان ہوا‘‘ (بحوالہ پیش لفظ۔ مقالاتِ رشید حسن خان۔ جلد دوم، مرتبہ ڈاکٹر ٹی آر رینا، صفحہ 17)
رشید حسن خان نے ماہر زبان شاعر مرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی کے منظوم ترجمۂ بھگوت گیتا نغمۂ جاوید میں کئی خامیاں نکالیں۔ فیض احمد فیض، جگر مراد آبادی کے کلام کے تعلق سے کہا کہ اس میں رطب و یابس بہت ہے۔ زبان و بیان کے جو نکتے خان صاحب نکالتے ہیں انھیں ماننے تسلیم کرنے کے سوا چارہ نظر نہیں آتا۔
ٹی آر رینا نے خان صاحب کے گزر جانے کے بعد ان کے مقالات اور خطوط کا تمام سرمایہ چھے ضخیم جلدوں میں جمع کر ڈالا۔
خان صاحب حیات ہوتے تو ہم اُن سے سوال کر کے اپنے اشکالات دور کرتے جیسے خان صاحب نے ایک سے زیادہ مقامات پر خلاف محاورہ ’’بخوشی خاطر‘‘ لکھا ہے۔ حالانکہ اہلِ زبان ’’بطیبِ خاطر‘‘ بولتے ہیں۔
سلمان احمد رباب رشیدی کے نام 18 اپریل 1994 کے ایک خط میں خان صاحب لکھتے ہیں کہ وہ اپنی کتابیں (کسی اکاڈمی کو) انعام کے لیے نہیں بھیجا کرتے۔ لکھتے ہیں:
’’میں نے اپنی کوئی کتاب انعام کی غرض سے وہاں نہیں بھیجی۔ اس بار بھی یہی کیا۔ میں نے مکتبۂ جامعہ کو منع بھی کر دیا تھا کہ میری کتاب نہ بھیجی جائے۔ انھوں نے میری مرضی اور میری اجازت کے بغیر بھیج دی۔ لوگ سمجھیں گے کہ یہ کاسۂ سوال میں نے دراز کیا تھا‘‘ ( پہلی جلد، صفحہ 608)
خان صاحب ہوتے تو ہم اُن سے پوچھ لیتے کہ انعامات کے لیے کہیں کتابیں داخل کرنے سے یوں منع کرنا کہاں تک درست ہے؟
26 جنوری 1990 کو ڈاکٹر گیان چند جین کے نام ایک خط میں خان صاحب انجمن کی طرف سے دی جانے والی خلاف قاعدہ سند کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’مجھے پہلے سے اس کا علم ہو جاتا تو میں قطعیت کے ساتھ منع کر دیتا‘‘ (خطوط کی پہلی جلد، صفحہ 788)
خان صاحب حیات ہوتے تو ہم اُن سے پوچھتے: کیا منع کرنے کا یہ اسلوب اردو میں برتا جا سکتا ہے؟
رباب رشیدی کے نام ایک خط مورخہ 3 جولائی 2000 میں خان صاحب ایک جملہ یوں لکھتے ہیں:
’’میں نے اس کے لیے ذرا سا جھوٹ بولا ہے‘‘ (ملاحظہ ہو پہلی جلد، صفحہ 624)
خان صاحب ہوتے تو ہم ان سے دریافت کرتے کہ ’’میں نے جھوٹ بولا‘‘ کیا کہا جا سکتا ہے؟ اسلام اور اردو بھی ایسے جھوٹ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
نعیم کوثر کے نام ایک خط میں (جس پر تاریخ درج نہیں) خان صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ایک ماہر فن کی طرح مجھ جیسا ہر قاری یہ فیصلہ نہیں کر پائے گا کہ کسی افسانوی مجموعے کی ادبی قدر و قیمت کیا ہے؟‘‘
(اقتباس۔ خط۔ پہلی جلد، صفحہ 974، مرتبہ ٹی آر رینا)
شعری مجموعے کی طرح کیا افسانوی مجموعہ کہا جا سکتا ہے؟ یا پھر افسانوں کا مجموعہ کہنا چاہیے۔ ’’افسانوی‘‘ Legend ایک الگ نوعیت کا اظہار ہے جیسے وہ افسانوی شخصیت کا مالک ہے۔ (حقیقتاً اس سوال کا جواب تو خان صاحب ہی دے سکتے تھے جو تدوین و تحقیق کی افسانوی شخصیت تھے)
اپنے کئی خطوط میں خان صاحب ’’میں معذرت طلب ہوں‘‘ لکھتے رہے ہیں۔ معذرت خواہ کی جگہ کیا معذرت طلب کہنا صحیح ہے؟۔ یہ سوال دریافت طلب ہے۔ یہ امور تشریح طلب ہیں کہنے کا مطلب ہوتا ہے کہ آگے والا جواب دے۔ تشریح کرے۔ تو کیا معذرت طلب سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ سامنے والا (مخاطَب) معافی مانگے؟
پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے نام خط مورخہ 16 اکتوبر 1984 میں خان صاحب لکھتے ہیں:
’’میں آپ سے معذرت طلب ہوں کہ خط کو مضمون بنا دیا۔۔۔ ‘‘ (پہلی جلد صفحہ 693)
ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی کے نام خط مورخہ 4 مارچ 1983 کو خان صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ کے کئی خط میرے ذمے واجب الجواب ہیں۔ منفعل ہوں اور معذرت طلب۔۔۔ ‘‘ (پہلی جلد، صفحہ 482)
ڈاکٹر گیان چند جین کے نام خط مورخہ 6 ستمبر 1974 کو خان صاحب لکھتے ہیں:
’’زحمت تو ہو گی اور اس کے لیے معذرت طلب ہوں‘‘۔ (پہلی جلد۔ صفحہ 765)
خان صاحب ہوتے تو ہم ادباً سوال کرتے کہ کیا معذرت طلب کا یہ انداز اختیار کیا جا سکتا ہے؟ معاف کرنا چھوٹا منہ بڑی بات ہے۔
ڈاکٹر خلیق انجم کے نام 24 ستمبر 1988 کے ایک خط میں خان صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’دیوانِ غالبؔ کے تصحیح کردہ اوراق بھیج رہا ہوں۔ یہ کام مکمل ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں ضروری بات یہ ہے کہ کسی اچھے کاتب کو تصحیح کے کام پر لگائیے۔ اس سلسلے میں دو باتیں بہ طور خاص مدّ نظر رہیں: جن مقامات پر (x) کا نشان ہے ان مقامات پر سفیدا لگایا جائے، چھیلا نہ جائے۔ چھیلنے سے کاغذ خراب ہو جائے گا اور نشان پڑ جائے گا۔ سفیدا اچھا والا ہو۔۔۔ (خطوط، جلد دوم، صفحہ 228)
اردو زبان کا باریک بینی سے جائزہ لینے والے اور غلط زبان لکھنے والوں کو بلا جھجک ٹوکنے والے خان صاحب زندہ ہوتے تو ہم اُن سے پوچھتے ’’سفیدا اچھا والا‘‘ استعمال کرنا کہاں تک صحیح ہے؟ اچھا والا۔ خراب والا۔ بڑا والا چھوٹا والا ہندی والے بولتے ہیں اردو میں اس طرح کی زبان معیوب سمجھی جاتی ہے۔ اچھا والا کی جگہ اچھی قسم کا بولا جاتا ہے۔ خراب، بڑا۔ چھوٹا۔ کالا، پیلا وغیرہ کہہ دینا ہی کافی ہے اس کے ساتھ (والا) لگانا مناسب نہ ہو گا۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال سر اٹھا رہا ہو گا کہ خان صاحب فروری 2006 ہی میں فوت ہو گئے اب ایسے سوالات کا کیا جواز ہے؟۔ ہمارا جواب یہ ہو گا کہ خان صاحب بھلے ہی مر گئے مگر اردو زبان تو زندہ ہے اور خان صاحب نے ہی ہمیں یہ درس دیا کہ اردو کو بگاڑا نہ جائے۔ اس کا املا و انشا ہر حال میں درست ہو۔ اور دوسری بات یہ کہ خان صاحب کے یہ سارے مقالات اور خطوط ان کے گزر جانے کے بعد ہی ڈاکٹر ٹی آر رینا نے بڑی جاں فشانی سے جمع اور مرتب کر کے شائع کیے۔ وہ زندہ ہوتے تو ہم اُن سے ضرور سوال کرتے کیوں کہ سوال علم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اصلاح مقصود ہے۔ الحمد اللہ ہم کسی سے مرعوب نہیں ہوتے۔ مضمون کے عنوان میں خان صاحب کو آں جہانی کہنا اس کا ثبوت ہے۔
جہاں تک رشید حسن خان کے ’’اردو املا‘‘ کا تعلق ہے اردو کو آسان بنانے کے جذبے کے تحت انھوں نے بڑی عرق ریزی سے یہ کارنامہ انجام دیا لیکن ان کے تجویز کردہ املا سے بعض معاملات میں ہمیں بھی اختلاف ہے۔ خاص طور پر اللہ اور انبیا کے ناموں کی تارید نا قابل قبول ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا نام ہے رحمن یعنی م پر الف مقصورہ کے ساتھ لکھنا۔ اسے رحمان لکھنا جسارتِ بے جا سے کم نہیں۔ اب شمس الرحمان، حفظ الرحمان، صفی الرحمان لکھنا یوں غلط ہو گا کہ ’’ال‘‘ صرف عربی لفظ پر داخل ہو گا اس کی تارید ہو جائے تو قاعدہ مجروح ہو گا۔ خان صاحب اللہ کے قائل نہیں تو اس کے نام کا املا بھی بدل دیں تو کیا تعجب ہے! اور پھر اس کے پیغمبروں کے ساتھ بھی یا ان کے ناموں کے ساتھ بھی کھلواڑ کریں تو حیرت کا مقام نہیں۔ خان صاحب عیسیٰ کو عیسا، موسیٰ کو موسا، اسحق کو اسحاق، اسمعیل کو اسماعیل وغیرہ وغیرہ لکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مصطفی کو مصطفا یا مرتضیٰ کو مرتضا قافیے کی مجبوری کے تحت بھی لکھیں تو شیعوں کے ’’مولائے کائنات‘‘ ایسے شاعروں سے خود نپٹ لیں گے۔ خان صاحب کے مشورے کے مطابق صلوٰۃ کو صلات لکھیں تو ایسا لگتا ہے یہ فرضِ کفایہ ہے اور زکوٰۃ کو زکات کر دیں تو معلوم ہوتا ہے اس میں ڈنڈی ماری گئی ہے۔ غیر مسلموں کے لیے اردو کو آسان بنانے کے جذبے کے تحت اگر ایسا لکھنے کا مشورہ خان صاحب دیتے ہیں تو زکوٰۃ بجائے خود جزیہ ہوکے رہ جاتی ہے۔ رحمن اور ان کے برگزیدہ انبیا کے اسماے مبارک کے ساتھ اہم ارکانِ اسلام صلوٰۃ و زکوٰۃ کے ساتھ کھلواڑ کرنا زیب نہیں دیتا یہ الگ بات ہے کہ خان صاحب نہ صلوٰۃ کے قائل ہیں نہ زکوٰۃ دینے پر مائل ہیں۔
وہ تو اللہ کا شکر ہے خان صاحب فرعون کی بی بی آسیہ کو آسیا (چکی) میں نہیں پیستے۔ فاطمہؓ کے باپ اور شوہر کا نام تو الف سے لکھتے ہیں مگر غنیمت ہے فاطمہ کو فاطما نہیں ہونے دیتے۔ غالباً مولائے کائنات کی ذوالفقار نے انھیں ایسی جسارت بے جا سے باز رکھا۔
خان صاحب کے تجویز کردہ املا کے مطابق سلمیٰ اگر سلما کا روپ دھار کر سامنے آئے گی تو بے چارہ اختر شیرانی تو اپنی محبوبہ کو پہچان ہی نہ پائے گا۔ وصال پھر فراق میں بدل جائے گا اور وہ پھر اختر شماری میں لگ جائے گا۔ لاکھ خیالی سہی محبوبہ بہر حال محبوبہ ہوتی ہے۔ اب کیا عرض کریں لاوا، کجاوا، چھلاوا، بلاوا کے قافیے کے طور پر ہم نے بھی دعوا باندھ کر اس کا ثواب خان صاحب کی روح کو پہنچا دیا تھا۔
دل رکھتے ہیں سینے میں جو لاوا نہیں رکھتے
وہ درد تو رکھتے ہیں مداوا نہیں رکھتے
ایمان یہاں کوئی کسی پر نہیں لاتا
ہم بھی تو سند ہونے کا دعوا نہیں رکھتے
ورنہ دعویٰ کو دعوا کر دیں تو لگتا ہے یہ کم زور بنیاد پر دائر کیا گیا ہے۔ اور تقویٰ کو تقوا کر دیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے اسے لقوہ ہو گیا ہے۔ ہُدیٰ کو اگر ہُدا کر دیں تو یہ ہم سے ڈائجسٹ نہیں ہوتا۔ لیلیٰ کو لیلا کر دیں تو مجنوں سر پیٹ کر رہ جائے اور گریباں چاک صحرا کی طرف نکل جائے۔
جماعت اسلامی کے لوگ مولانا ابو الاعلی مودودی کو ایک امام کا درجہ دیتے ہیں۔ خان صاحب کے مشورے کے مطابق ان کو اگر ابو الاعلا لکھا جائے تو یہ املا ان سب کے نزدیک مردود ٹھیرے گا۔
خان صاحب کے پورے اردو املا پر یوں تبصرہ کرنے لگوں تو شاید وہ بجائے خود طویل مضمون ہو جائے، اسی لیے چند معروضات پر اکتفا کرتا ہوں۔
ماخذ: ۔
۱۔ رشید حسن خان کے خطوط جلد اول فروری 2011، جلد دوم نومبر 2015، جلد سوم 2019۔ مرتبہ ڈاکٹر ٹی آر رینا۔ بہ تعاون NCPUL دہلی زیر اہتمام اپلائڈ بکس دہلی۔
۲۔ مقالات رشید حسن خان جلد اول 2016، جلد دوم 2019۔ مرتبہ ڈاکٹر ٹی آر رینا بہ تعاون NCPUL دہلی، زیر اہتمام اپلائڈ بکس دہلی۔
۳۔ اردو املا۔ رشید حسن خان (ترقی اردو بورڈ کی کتاب) 1974۔ نیشنل اکاڈمی دریا گنج دہلی 6
٭٭٭