رات سر پر آئی تھی اور میں شہر کی سڑکوں پر بے یار و مددگار پھر رہا تھا۔ پچھلی رات سے میرے پیٹ میں سوائے پانی اور چائے کی پیالی کے کچھ نہ گیا تھا۔ علاوہ ازیں میری جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ تھی اور آخری سگریٹ میری انگلیوں میں سلگ رہا تھا۔ امید کی آخری کرن بھی بجھ رہی تھی۔
اتنے بڑے شہر میں میرے پاس کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں نومبر کی سرد رات بسر کی جا سکے۔ اس سے پیشتر جبکہ راتیں خوشگوار تھیں، میں ایک باغ میں سویا کرتا۔ پھر نومبر شروع ہو گیا اور میں ریلوے ویٹنگ روم میں آ گیا۔ یہاں بوڑھے چوکیدار سے واقفیت ہو گئی۔ میں اس کے بیٹے کو انگریزی پڑھا دیا کرتا اور وہ مجھے آرام سے لمبے بنچ پر ٹھنڈے گدے پر سونے کی اجازت دے دیتا۔ مگر وہ بچہ اس قدر نکما اور ضدی تھا کہ مجھے مجبوراً ویٹنگ روم کو خیر باد کہنا پڑا۔ وہاں سے میں نے سیدھا خدا کے گھر کا رخ کیا جہاں تین دن تک تو مولوی صاحب لحاظ ہی کرتے رہے لیکن چوتھے روز انہوں نے بھی لمبی داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے فرما دیا، ’’برخوردار۔ ماں باپ کا دل دکھانا گناہ ہے۔ اپنے گھر جاؤ۔‘‘ اور میں چپکے سے اپنے گھر چلا آیا۔ یعنی پھر انہی لمبی چوڑی سڑکوں پر جو مجھ غریب کی راہ میں ہر قدم پر بچھی جاتی تھیں اور جن کی اڑتی ہوئی گرد میں دو ماہ سے پھانک رہا تھا۔
جس سڑک پر میں چل رہا تھا وہ کافی کھلی اور با رونق تھی۔ کنارے کنارے سبز قمقموں کی قطار دور تک چلی گئی تھی۔ جن کی پھیکی روشنی میں گذرنے والوں کے چہرے مدقوق دکھائی دے رہے تھے۔ لوگ گرم کپڑے پہنے جگمگاتی ہوئی دوکانوں میں خرید و فروخت میں مشغول تھے۔ کافی دیر ادھر ادھر آوارہ گردی کرنے کے بعد جب سردی، تھکن اور بھوک نے میرے اعضاء پر مردنی سی طاری کر دی تو میں نے پھر خدا کے گھر کا رخ کیا۔ مسجد کے بڑے دروازے میں کھڑے ہو کر میں نے دیکھا کہ صحن بالکل خالی تھا اور بڑے کمرے کے محرابی دروازے پھولے ہوئے نمدوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ جوتا باہر اتار کر، صحن کا ٹھنڈا فرش عبور کر کے میں نمدہ اٹھا بڑے کمرے میں داخل ہو گیا۔
گرم اور پر سکون فضا کے نرم لمس نے لپک کر میرے تھکے ہارے سرد جسم کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ اور میں گرتے گرتے سنبھلا۔ کمرہ بالکل گرم حمام بنا تھا۔ زمین پر بھورے رنگ کی چٹائیاں قرینے سے بچھی ہوئی تھیں۔ منقش چھت سے قیمتی جھاڑ فانوس لٹک رہے تھے۔ اور سنگ مرمر کے منبر پر مٹی کے آبخورے میں گلاب کے پھول رکھے تھے۔ جن کی دھیمی دھیمی خوشبو فضا میں تیر رہی تھی۔ ایک کمزور لیمپ کی گدلی گدلی روشنی میں مسجد کا یہ کمرہ اس کے صحن کی طرح بالکل خالی پڑا تھا۔ جس جگہ میں گھٹنے چھاتی سے لگائے، اپنا سر بازوؤں کے حلقے میں چھپائے، سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے قریب ہی جوتے رکھنے کا ڈبہ تھا۔ میرا ذہن شاں شاں کر رہا تھا اور نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔
اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ آنے کے بعد اس اجنبی شہر میں، میں دو ماہ سے دربدر پھر رہا تھا اور میرا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ ایک بار پھر اپنے آپ کو خدا کے گھر میں پا کر میرا دل چاہا کہ ہاتھ باندھ کر بصد عجز و نیاز اس کے حضور میں ایک عرض کروں۔ میں پوچھوں کہ میں نے اس کے کس پیغمبر کی توہین کی تھی، جس کی پاداش میں مجھے بھوک، سردی اور ذلت کے سنگلاخ میدانوں میں جلا وطن کر دیا گیا تھا۔
میں نے نظریں اٹھا کر منبر کی طرف دیکھا، جہاں مٹی کے آبخورے میں سجے ہوئے پھول مجھے بے زبان قیدیوں کی مانند دیکھنے لگے۔ میری نظریں خود بخود جھک گئیں۔ لیکن میرا جسم دکھ رہا تھا اور بھوک کی وجہ سے انتڑیاں پیٹ میں کانٹے دار تاریں بن کر چبھ رہی تھیں۔ میں نے سوچا کاش میں اتنا چھوٹا بن جاؤں کہ جوتے رکھنے والے ڈبے میں دبک کر سمٹ جاؤں اور ساری عمر وہیں پڑا رہوں اور کبھی باہر نہ نکلوں۔ میں نے بازوؤں کے حلقے میں سے ایک آنکھ کھول کر ڈبے کو دیکھا۔ اس میں ایک بھی جوتا نہ تھا۔ مجھے فوراً اپنے جوتے کا خیال آ گیا جس سے مجھے خاص لگاؤ تھا اور جس نے خستہ حالی کے باوجود ہر حالت میں میرا ساتھ دیا تھا۔ میں اسے اپنے ساتھ اندر لانا بھول گیا تھا۔ جی میں آئی کہ اسے باہر سے اٹھا کر اندر لے آؤں وگرنہ وہ ٹھنڈ میں پڑے پڑے اکڑ جائے گا۔ لیکن اس گرم فضا سے نکل کر ٹھنڈے صحن کو عبور کرنے کے خیال ہی سے میرے بدن میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی تھی۔ میں اور اکٹھا ہو گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
میں ابھی کوشش ہی کر رہا تھا کہ دروازہ آہستہ سے کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز آئی۔ میں زیادہ سمٹ گیا۔ خاموش کمرے میں کسی کے بوجھل قدموں کی چاپ سنائی دی جو بتدریج میرے قریب پہنچ کر رک گئی۔
’’کون ہو تم؟‘‘ اس آواز میں ترشی اور کھردرا پن تھا۔ میں نے سر اٹھایا۔ ایک مولوی صاحب جن کا قد ٹھگنا، مبہم، بھدا اور داڑھی مہندی رنگی تھی میرے اوپر جھکے کھڑے مجھے اپنی سرخ سرخ غلافی آنکھوں سے گھور رہے تھے۔ میں خاموش رہا۔ کھردری آواز پھر بلند ہوئی، ’’کون ہو میاں؟‘‘ اور میں نے سرجھکا لیا۔
’’جواب کیوں نہیں دیتے خدا کے بندے؟‘‘ اس دفعہ آواز کڑوی اور کرخت تھی جیسے کوئی نیم کے تنے پر کلہاڑی چلا رہا ہو۔
’’میں آدمی ہوں جناب!‘‘
’’بھئی آدمی تو میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ مگر تم ہو کون؟‘‘
’’مسلمان ہوں۔‘‘
’’پھر وہی بات۔۔۔ خدا کے بندے مسجدوں میں مسلمان ہی آتے ہیں لیکن اصل میں تم کون ہو؟‘‘
میں جھلا گیا۔
’’میں ہوں خانہ بدوش۔۔۔ دیوندر ستیارتھی کی کتاب کا سرورق۔‘‘
’’لاحول ولا۔‘‘ مولوی صاحب نے چکرا کر میری بات کاٹ دی، ’’تم ہندو ہو کیا؟‘‘
’’جی نہیں حضور۔۔۔ میں مسلمان ہوں۔ پردیسی ہوں اور یہاں رات بسر کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’پناہ گزین ہو؟‘‘ مولوی صاحب نے اور جھک کر پوچھا۔
’’کچھ سمجھ لیجئے۔‘‘
مولوی صاحب ایک دم سیدھے کھڑے ہو گیے۔
’’تعجب۔۔۔ خدا کے بندے تم نے پہلے ہی کیوں نہ بتا دیا؟ برخوردار اگر ایسی ہی بات ہے تو کسی سرائے میں جاؤ، کیمپ میں جاؤ۔ خدا کا گھر ہر ایرے غیرے کے لیے نہیں ہے اور پھر اس مسجد میں آئے دن چوریاں ہوتی ہیں۔ کبھی پمپ کی ہتھی نہیں ہے تو کبھی نلکے کی ٹونٹی غائب۔۔۔ ان پناہ گزینوں کا کچھ ایسا تانتا بندھا ہے کہ جینا مشکل ہو گیا ہے۔ نہیں نہیں میاں! اپنا راستہ پکڑو۔ مجھے بڑا دروازہ بند کرنا ہے۔‘‘
میں دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ کم بخت یہ تو بڑا ہی اجڈ قسم کا مولوی تھا۔ مجبوراً اٹھا۔ گرم فضا میں دو تین لمبے لمبے سانس بھر کر معدہ گرم کیا اور صحن میں آ گیا۔ سرد ہوا اور ٹھنڈا فرش میرے استقبال کو آگے بڑھے اور میں نے جلدی سے کوٹ کا پھٹا ہوا کالر چڑھا لیا اور ہاتھ جیبوں میں داب لیے۔ باہر پڑے پڑے میرا جوتا واقعی اکڑ گیا تھا۔ تسمے باندھتے ہوئے میرا دل چاہا کہ کسی نہ کسی طرح پمپ کی ہتھی یا نلکے کی ٹونٹی کھول کر لے اڑوں مگر مولوی صاحب میرے سر پر ہی کھڑے تھے۔ اس امید کا بھی گلا گھونٹ کر میں چپ چاپ مسجد کے بڑے دروازے سے باہر آ گیا۔
باہر اب کافی سردی ہو گئی تھی اور لوگ تیز تیز قدم اٹھائے شاید اپنے اپنے گھروں کی طرف جا رہے تھے۔ گھر۔۔۔ جہاں ان کی مائیں بہنیں بیویاں اور گرم کھانے اور گرم بچھونے ان کی راہ دیکھ رہے تھے۔ میں نے سرد آہ بھری اور سڑک کے کنارے کنارے چلنے لگا۔ ابھی تھوڑی دور ہی چلا ہوں گا کہ دفعتاً کسی نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، ’’معاف کیجئے گا۔ آپ کے پاس دیا سلائی ہو گی؟‘‘
میں نے مڑ کر دیکھا۔ سلیٹی رنگ کے لمبے کوٹ میں ملبوس، سیاہ گھنگھریالے بالوں اور تیکھی ناک والا ایک نوجوان شخص مجھے چمکیلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
’’ضرور ہو گی۔‘‘
اس کا رنگ سنہرا گندمی تھا اور چہرے پر شرافت عیاں تھی۔ سگریٹ سلگاتے وقت اس کی سیاہ بھنویں اکٹھی ہو گئیں اور تیکھی ناک چمک اٹھی۔ دیا سلائی واپس کرتے ہوئے وہ ذرا سا میری طرف جھک کر بولا، ’’مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس ایک ہی سگریٹ تھا۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘
اور وہ اطمینان سے سگریٹ کا دھواں اڑاتا میرے ساتھ چل پڑا۔ اس کی چال پر وقار اور متوازن تھی۔ جیسے وہ فوج کا کپتان ہو اور رات کے وقت شہر میں گشت کرنے نکلا ہو۔ اس کے چوڑے اور مضبوط شانوں کا لطیف جھکاؤ اس کی رفتار میں دلکشی پیدا کر رہا تھا۔ ہم خاموشی سے چلتے گیے۔ ایک چوک کے پاس پہنچ کر غیر ارادی طور پر میرے منہ سے نکل گیا۔
’’کیوں جناب اس شہر میں کوئی ایسی جگہ بھی ہے جہاں کرایہ ادا کیے بغیر رات کاٹی جا سکے؟‘‘ وہ ٹھٹک گیا۔ ایک پل کے لیے رک کر اس نے مجھے غور سے دیکھا۔
’’کیا واقعی بے گھر ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ بالکل بے گھر۔‘‘
’’تو میرے ساتھ آئیے۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ زیر لب مسکرایا اور مجھے ساتھ لیے ایک طرف گھوم گیا۔ میں نے خیال کیا کہ شاید یہ شخص مجھے اپنے گھر لیے جا رہا ہے۔ اس کا گھر بھی اتنا ہی دلکش ہو گا جتنی کہ اس کی چال ڈھال ہے۔ میں دل ہی دل میں اس کے گھر کا نقشہ قائم کرنے لگا۔ ایک خوبصورت کھڑکیوں والا گھر جس کے کمروں کی دیواروں پر پھول دار کاغذ منڈھے ہوں گے اور جس کے باورچی خانے میں قسم قسم کے کھانے پک رہے ہوں گے۔ ہم دونوں ایک فرنیچر سے بھرے ہوئے ڈرائینگ روم میں بیٹھ جائیں گے۔ وہ میز کے دراز سے پلیئرز تھری کا ڈبہ نکال کر میرے آگے رکھ دے گا اور گھنٹی بجا کر نوکر کو بلائے گا۔ نوکر دروازے والا پردہ اٹھا کر نمودار ہو گا اور وہ نوکر سے کہے گا، ’’دیکھو شبراتی ہمارے مہمان کے لیے۔۔۔ ‘‘
مگر نوکر سے کچھ کہنے کی بجائے اس نے میری طرف جھک کر کہا، ’’یہ اتفاق کی بات ہے کہ میں بھی آپ ہی کی ناؤ میں سوار ہوں۔ یعنی میرے پاس بھی اس شہر میں رات کاٹنے کی کوئی جگہ نہیں۔‘‘
مجھ پر جیسے کسی نے گرم پانی کا تسلا انڈیل دیا اور ڈرائینگ روم کے قیمتی فرنیچر اور پلیئرز تھری کے سارے سگرٹوں کا ستیا ناس ہو گیا۔۔۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایسا آدمی بھی میری طرح بے گھر ہو سکتا ہے۔
’’خیر یہ باتیں چھوڑئیے ہمیں یہ سوچنا ہے کہ رات کہاں ٹکا جائے۔ اتفاق سے میری جیب میں چند آنے محفوظ ہیں، آپ کی جیب میں کچھ ہے؟‘‘
میں نے کوٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر جلدی سے پاسنگ شو کی خالی ڈبی نکال کر پیش کر دی۔ جس پر وہ بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔۔۔ کس قدر صحت مند اور پر عزم تھا اس کا قہقہہ! مجھے یوں محسوس ہوا گویا کسی نے اپنے گھر کا دروازہ کھول دیا ہے اور اندر بہترین کھانے، بہترین سگریٹ اور بہترین بستر میرا انتظار کر رہے ہیں۔
’’کوئی پروا نہیں۔۔۔ ہم کہیں نہ کہیں پڑ رہیں گے۔ کیا ہوا اگر ہماری جیبیں خالی ہیں۔‘‘
’’بے شک!‘‘میں نے جلدی سے لقمہ دیا۔ جیسے مجھے یقین ہو کہ اگلے چوک میں ہم کسی کے ہاں مہمان بننے والے ہیں۔ اب ہم شہر کے گنجان حصے میں آ گئے تھے۔ بازار میں چند ایک پان سگریٹ بیچنے والوں کی دوکانیں ہی کھلی تھیں۔ ایک جگہ حلوائی دوکان کے سامنے کڑاہی رکھے اسے کھرچ رہا تھا اور قریب ہی دو کتے اپنی دمیں ہلا ہلا کر ایک دوسرے پر غرا رہے تھے۔
’’مجھے اچھی طرح یاد ہے یہاں ایک چائے خانہ رات بھر کھلا رہتا ہے۔‘‘ میرے ساتھی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اسی بازار میں؟‘‘
’’میرا خیال ہے اسی بازار میں۔۔۔ ‘‘ وہ ذرا رکا۔ پھر فضا میں کچھ سونگھ کر ایک طرف نظریں جماتے ہوئے بولا، ’’یہ چائے کی خوشبو تھی۔۔۔ شاید وہ رہا چائے خانہ۔‘‘
ذرا فاصلے پر ایک دوکان کے ادھ کھلے دروازے میں سے پھیکی پھیکی روشنی باہر نکل رہی تھی۔ یہی وہ چائے خانہ تھا جہاں میرا ساتھی رات بسر کرنا چاہتا تھا۔ ہم لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے جلد ہی وہاں پہنچ گئے۔ دروازے کا آدھا پٹ کھلا تھا اور بقیہ آدھا حصہ ایک مستطیل وضع کے چبوترے نے روک رکھا تھا۔ چبوترے میں بنی ہوئی انگیٹھیاں دہک رہی تھیں اور ان پر رکھی ہوئی میلی کچیلی کیتلیوں میں سے بھاپ اڑ رہی تھی۔ قریب ہی ایک ادھیڑ عمر کا مریل سا آدمی بیٹھا، سر پر گلو بند لپیٹے، ایک کیتلی میں چمچ پھیر رہا تھا۔
ہم اندر داخل ہوئے تو ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے ہمارے شانوں پر گرم کمبل ڈال دیے ہوں۔ مجھے مسجد کا نمدوں سے ڈھکا ہوا بڑا کمرہ یاد آ گیا۔۔۔ چائے خانے کی دیواروں کی سفیدی دھوئیں کے باعث گدلی ہو رہی تھی۔ ادھر ادھر پڑی ہوئی چند کرسیوں اور میزوں کے علاوہ درمیان میں بوسیدہ سی دری بچھی ہوئی تھی جس پر تین آدمی میلی میلی چادروں میں منہ سر لپیٹے خاموشی سے حقہ پی رہے تھے۔ وہ یوں ایک دوسرے پر جھک کر بیٹھے تھے جیسے کسی خفیہ جماعت کے آدمی ہوں اور وہاں چھپ کر میٹنگ کر رہے ہوں۔ جہاں ہم بیٹھے تھے وہ جگہ نسبتاً صاف تھی۔ ہمارے ساتھ والی کرسی پر ایک جہلمی سپاہی میز پر سر رکھے بازو پھیلائے سو رہا تھا۔ لکڑی کی چھوٹی سی کنگھی اس کے لمبے بالوں میں لگی ہوئی تھی۔ اس کی لال پگڑی اس کے آگے پڑی تھی۔ وہ یوں سر بسجود تھا گویا اس پگڑی کی پوجا کر رہا ہو۔
سامنے والی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی بنچ پر کوئی شخص پھٹے پرانے لحاف میں گھسا میٹھی نیند کے مزے لے رہا تھا۔ اس کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز چائے خانے کی خاموش فضا میں صاف سنائی دے رہی تھی۔ مجھے اس آدمی کی میٹھی نیند پر رشک آنے لگا۔ پرانی پیالیوں میں چائے انڈیلتے وقت مجھے اپنے ساتھی کی کلائی سے بندھی ہوئی سنہری گھڑی دکھائی دی جو رات کے پونے بارہ بجا رہی تھی۔
’’میں کبھی کبھی یہاں رات بسر کرنے آ جاتا ہوں۔‘‘ اس نے ایک پیالی میری طرف سرکا کر کہا۔
’’رات کاٹنے کے لیے اس سے اچھی جگہ شہر بھر میں کہیں نہیں۔ تم کچھ پیو نہ پیو، یہاں آ کر بیٹھے رہو۔ اگر نیند آ جائے تو اس سپاہی کی طرح آرام سے سر رکھ کر سو جاؤ۔ تمہیں کوئی کچھ نہ کہے گا۔ پیسہ لگے نہ کسی کا احسان اٹھا۔ اور رات بھی مفت میں کٹ گئی۔‘‘
وہ مسکرا رہا تھا اور اس کی مسکراہٹ چائے ایسی تھی۔ گرم اور خوشگوار۔۔۔ وہ ہونٹ پیالی کی باریک سطح سے لگائے مزے مزے چائے کی چسکیاں لینے لگا۔ چند گھونٹ پی کر اس نے پیالی میز پر رکھ دی اور ملازم لڑکے کو آواز دی۔
’’آدھی ڈبی گولڈ فلیک۔‘‘
جب لڑکا باہر نکل گیا تو وہ کہنے لگا، ’’میں ہمیشہ بہترین سگریٹ پیتا ہوں اور اگر میری جیب خالی ہو تو کچھ نہیں پیتا۔ میں تمہیں بھی یہی کہوں گا۔ ہمیشہ بہترین سگریٹ پیو اور بہترین عورت سے محبت کرو۔ لیکن چائے کسی ایسی ہی جگہ بیٹھ کر پیو۔ جو مزہ اور تسکین تمہیں یہاں نصیب ہو گی اسے تم شہر کے بڑے سے بڑے ہوٹل میں بھی نہ پاؤ گے۔ یہاں تمہیں سکون اور ذہنی آسودگی کا احساس ہو گا۔ جس شہر میں ایسے چائے خانے نہیں ہیں میرے خیال میں وہ سگریٹ کی خالی ڈبی ہے۔ بانجھ عورت ہے۔ سٹاک ایکسچینج کی مارکیٹ ہے اور یا کسی انشورنس کمپنی کا دفتر ہے۔‘‘
میں اپنے ساتھی کی گفتگو میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا۔ میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ اس سے پہلے کہاں تھا اور اس کے بعد کہاں جائے گا؟ اور جب میں نے اس سے اتنا پوچھا تو اس کے چہرے پر افسردہ سا تبسم پھیل گیا اور وہ پیالی میں سے اٹھتی ہوئی بھاپ کو دیکھنے لگا۔ اس کی خاموشی زیادہ گہری اور پرسکوں ہو گئی۔ جیسے وہ اپنے گمشدہ ماضی کی تاریک ڈھلوانوں میں اتر گیا ہو۔ سر اٹھا کر اس نے مجھے دیکھا۔ اس کی چمکیلی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی غمگینی جھلک رہی تھی۔ کھلی پیشانی پر دو تین سلوٹیں زخموں کے نشان سے بن کر ابھر آئی تھیں۔
’’اس سے پہلے میں ہندوستان میں تھا۔ میں اگرچہ پناہ گزین ہوں مگر مجھے اس نام سے چڑ ہے، نفرت ہے۔۔۔ میں تقریباً اڑھائی مہینوں سے بھوک، افلاس اور گمنامی کے بیکراں سائبریا میں بھٹک رہا ہوں۔ میں ایک جلا وطن ہوں۔۔۔ مجھ سے میرا گھر، میرا وطن، میرا ماحول جدا کر دیا گیا ہے۔ میں نے زندگی بھر میں کوئی رات اس طرح چائے خانوں میں نیند اور بیداری کے درمیان لٹک کر نہیں گزاری۔ یہ کل کی بات ہے کہ میرا اپنا گھر تھا، میری اپنی ایک سلطنت تھی۔ چھوٹی سی سلطنت۔۔۔ چھوٹا سا گھر۔۔۔ شہر کی پر شور فضا سے باہر، پرانے باغ کے عقب میں سفیدے اور املتاس کے لمبے درختوں میں گھرا ہوا تنہا، پرسکوں اور خاموش۔۔۔ جس کے روشن دان عشق پیچاں کی نرم نرم بیلوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ اور جس کی اونچی نیچی ڈھلوانی چھتوں پر درختوں کے گہرے گہرے سائے تھے۔ مارچ کے شروع میں املتاس کی شاخوں پر زرد پھولوں کے گچھے جھولنے لگتے اور ان کی دھیمی دھیمی مہک گھر بھر میں پھیل جاتی۔
ہمارا گھرانہ، میری بیوی، ماں اور دو بچوں پر مشتمل تھا۔ ہم امیر نہیں تھے۔ پہلے ہمارا گھر گنجان شہر کے اندر ایک تنگ و تاریک گلی میں تھا۔ اس گلی میں جہاں دھوپ کبھی نہ آئی تھی۔ ہم کئی سالوں سے مقیم تھے لیکن میرے دل میں ایک ننھی سی خواہش مدت سے پرورش پا رہی تھی۔۔۔ کہ اس گندے اور تاریک ماحول سے باہر چمکیلی دھوپ اور کھلی آزاد فضا میں میرا اپنا ایک گھر ہو۔۔۔ چھوٹا سا گھر جس کے ہمسائے گہری چھاؤں والے، درخت اور پھول اور خوش الحان پرندے ہوں۔ جہاں زندگی کا نام ایک ایسا خواب ہو جو تاروں کی چھاؤں میں گھاس اور پتوں پر لیٹ کر دیکھا جائے۔ اور جس کا شہر کی گندگی، متعفن اور اندھیری گلیوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اس خواہش، اس آرزو کی تکمیل کے لیے میں اپنے کاروبار کی ترقی میں دن رات جٹ گیا اور کچھ عرصہ بعد میری آرزو کی دلہن کی مانگ سیندور سے بھر گئی اور ایک روز ہم ان پرانی اور تاریک گلیوں کو خیرباد کہہ کر اپنے نئے گھر میں اٹھ آئے۔
گھٹی گھٹی سرد اور بیمار فضا سے نکل کر کھلی اور روشن فضا میں آنے پر ہم بے حد مسرور اور تازہ دم تھے۔ میری بیوی دن بھر نئے گھر کی آرائش میں لگی رہتی۔ آج کھڑکیوں کے لیے جالی دار پردے بن رہے ہیں تو کل گملوں میں عشق پیچاں کی بیلیں لگائی جا رہی ہیں۔ ہمارے آس پاس کئی اور بھی گھر تھے۔ جن میں رہنے والے بڑی بڑی ملوں اور فرموں کے مالک تھے لیکن ہمارا ان سے کوئی میل جول نہ تھا۔ ہمارے ملنے والے اسی اندھیری اور گندی گلی کے لوگ تھے جن کی ڈھیلے ڈھالے جسموں اور زرد چہروں والی عورتیں اکثر میری بیوی کے پاس آیا کرتی تھیں۔ ہم انہی لوگوں میں سے تھے۔ اگر کچھ فرق تھا تو محض اتنا کہ وہ اپنے تاریک گھروندوں میں رہتے ہوئے مطمئن اور کسی بہتر ماحول کی جستجو سے بے نیاز تھے لیکن ہمارے دلوں میں اس ماحول سے گذر جانے کی آرزو تھی، تڑپ تھی، لگن تھی۔۔۔ کاش ہر آدمی کے دل میں اس تڑپ، اس لگن کی شمع روشن ہو جائے، پھر تم دیکھو گے کہ تمہارا شہر کچھ عرصہ گزر جانے پر کتنا دلکش اور خوبصورت ہو گیا ہے اور اس شہر کے باسی کس قدر صحت مند اور مسرور۔۔۔
میں تمہیں کہہ رہا تھا کہ ہمارا گھر ہمیں بڑا پیارا تھا اور اپنا کمرہ شاید مجھے اس گھر سے بھی زیادہ عزیز تھا۔ میری الماری دنیا کی چنی ہوئی کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ میرے ملنسار بھی زیادہ تر اپنے پرانے محلے کے آدمی تھے۔ درزی، عطار، نانبائی، کپڑا اور جوتے بیچنے والے، غریب طالب علم اور مسکین کلرک۔۔۔
یہ لوگ اگرچہ بے جان، غریب اور زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے تاہم ان سے مل کر ان سے باتیں کرتے ہوئے مجھے ایک عجیب طرح کا سکھ اور آنند نصیب ہوتا تھا۔ یہ سکھ اور آنند مجھے ان بڑی بڑی ملوں کے مالکوں اور ان کے لونڈوں سے مل کر کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ یہ لوگ احمق، چھچھورے اور ہر لحاظ سے گھٹیا قسم کے تھے اور ان کی عورتوں ایسی سج دھج مجھے کبھی نہ بھائی تھی۔‘‘
وہ یہاں تک پہنچا تھا کہ لڑکا سگریٹ لے آیا۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور مزے سے اس کے کش لینے لگا۔ میں خیال ہی خیال میں اس کے گھر پہنچ گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی بیوی کھڑکیوں کے لیے جالی دار پردے تیار کر رہی ہے اور وہ صحن کے باغ میں پودوں پر جھکا ہوا ان کی کانٹ چھانٹ میں مصروف ہے۔ مکان کی سرخ رنگ کی ڈھلوانی چھتوں پر درختوں کی پرسکوں چھاؤں ہے۔ املتاس کی شاخوں پر زرد رنگ کے پھول انگوروں کے گچھوں کی مانند لٹک رہے ہیں۔ گھر کے اندر سجے ہوئے خوبصورت اور سادہ کمروں میں ایک تسکین بخش خاموشی چھائی ہے۔ اس کی بوڑھی ماں، برآمدے میں بیٹھی کچھ سی رہی ہے۔ ایک لڑکا نیکر پہنے، پانی سے بھرا ہوا جگ لیے باورچی خانے کی طرف جا رہا ہے۔ جہاں سے مسالے دار کھانوں کی تیز تیز خوشبو مجھ تک با آسانی پہنچ رہی ہے۔
میرے پیٹ میں ناف کے نیچے کوئی شے سکڑ کر لکڑی کے ٹکڑے کی طرح مجھے چبھنے لگی۔ میں نے جلدی سے اپنی پیالی کے دو لمبے گھونٹ بھرے اور اپنے ساتھی کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ گہری اور ہموار آواز میں بولا، ’’پھر فسادات شروع ہو گئے۔ ہمیں آزادی مل گئی اور ہمارے پیارے گھر کو آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کے سپرد کر دیا گیا۔ ہم لوگ بمشکل جانیں بچا کر پاکستان پہنچ سکے۔ اب ہم پاکستان میں ہیں۔ میری ماں، بیوی اور بچے میرے ساتھ نہیں، وہ لوگ یہاں سے تیس میل دور ایک چھوٹے سے قصبے میں مقیم ہیں۔ انہیں وہاں چھوڑ کر میں یہاں پھر کاروبار کی فکر میں چلا آیا ہوں۔ ہفتہ بھر سے اس پرائے دیس کی سڑکوں پر دربدر پھر رہا ہوں اور ابھی تک میرا کوئی کام نہیں بن سکا۔ مگر میں نا امید نہیں ہوں۔ آج نہیں کل، کل نہیں تو پرسوں۔۔۔ ایک نہ ایک دن اس خستہ حال، بھولی بھٹکی ناؤ کو کسی نہ کسی گھاٹ ضرور جا لگنا ہے۔
مجھ سے میرا گھر چھن گیا ہے۔ میرے املتاس کے درخت، زرد پھولوں کے فانوس اور بیلوں سے ڈھکے ہوئے روشن دان بچھڑ گیے ہیں۔ روشن اور کھلی فضا سے اچھال کر کسی ان جانی طاقت نے مجھے ایک دفعہ پھر گندی اور اندھیری گلیوں کے تعفن میں پھینک دیا ہے۔ لیکن مجھے اس کا زیادہ افسوس بھی نہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ پچھلی تمام باتوں کو بھلا کر مجھے آگے نظر ڈالنی ہے، پیچھے مڑ کر دیکھنے سے مجھے سوائے ناکامی، تاسف اور غم کے اور کچھ نہ ملے گا۔
میرے تاریک شب و روز میں سے تم شاید ہی کوئی ایسا لمحہ نکال سکو جو میں نے اپنی منزل کی طرف قدم اٹھائے بغیر گزار دیا ہو۔ پہاڑ کی بلندیوں سے پاتال کی تہوں میں گرنے والی ندی کی مانند مجھے راستے کی تمام سنگیں رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے سمندر سے جا ملنا ہے۔ ہاں۔۔۔ میری زندگی کو وہیں سکون نصیب ہو گا۔
آج میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ رات بسر کرنے کے لیے جگہ نہیں۔ مگر کل اسی شہر کے باہر، میرا ایک اپنا مکان ہو گا۔ جس کی ڈھلوانی چھتوں پر پہلے گھر کی طرح میرے پسندیدہ درختوں کی چھاؤں ہو گی۔ روشندانوں پر میں خود اپنے ہاتھوں سے عشق پیچاں کی لچکیلی بیلیں چڑھاؤں گا۔ کھڑکیوں کے لیے جالی دار پردے میری بیوی بنائے گی اور جس کے پائیں باغ میں رنگ برنگے پھولوں سے لدے ہوئے پودے صاف اور چمکیلی دھوپ میں جھوم رہے ہوں گے۔ اور ان جھومتے ہوئے پھولوں کے درمیان میرے بچے آزادی، روشنی اور محبت کی گود میں پروان چڑھیں گے۔
آج ان میں سے کوئی ایک شے بھی میرے پاس نہیں۔ مگر کل ان میں سے ہر ایک شے میری عملداری میں ہو گی۔ میں زندگی کی کہر آلود رہ گزر پر کھڑا، دونوں بازو پھیلائے بے تاب نگاہوں سے اس آنے والی، کل کا منتظر ہوں۔ اس کشتی کی مانند جو گھاٹ پر کھڑی، اپنے بادبان کھولے، موافق ہواؤں کا انتظار کر رہی ہو۔‘‘
میرا ساتھی رک گیا۔ سلگتے ہوئے سگریٹ کا دھواں دبلی پتلی لکیر کی شکل میں اوپر اٹھنے لگا۔ کسی اچانک آ جانے والے مہمان کی طرح اس کے بھنچے ہوئے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم نمودار ہوا اور وہ سگریٹ کی راکھ جھاڑ کر بولا، ’’کل رات بھر میں شہر کے اندر گلی کوچوں میں گھومتا رہا۔ چپ چاپ رات کے سائے میں ان گلیوں کی مٹر گشت نے مجھے بڑا مزہ دیا۔ لیکن آوارہ کتوں اور پہرے داروں نے مجھے جلد ہی وہاں سے نکل جانے پر مجبور کر دیا۔
مجھے ہر گلی میں داخل ہوتا دیکھ کر پہرے دار اپنا وزنی لٹھ زور سے زمین پر پٹختا اور للکار کر اگلے پہرے دار کو خبردار کر دیتا۔ اور اگلا پہرے دار تیسرے کو میری آمد کی اطلاع دے دیتا۔ اس وقت کبھی تو مجھے اپنے تئیں چور ہونے کا گمان ہو رہا تھا اور کبھی پہرے داروں کے جمعدار کا، جو رات کے وقت ان کی دیکھ بھال کو نکلا ہو۔۔۔ میں سوچتا ہوں لوگ ایک دوسرے سے اس قدر گھبراتے کیوں ہیں؟ انہوں نے اپنے گھروں میں ایسی کون سی شے چھپا رکھی ہے جس کی حفاظت کے لیے وہ رات بھر پہرے داروں کی چیخ و پکار سنتے رہتے ہیں۔ تم میری اس بات پر دل میں ضرور ہنس رہے ہو گے۔ مگر میں سچ کہتا ہوں انسان جس قدر ترقی کر رہا ہے وہ زیادہ بزدل اور ڈرپوک ہوتا جا رہا ہے اور ایک وقت آئے گا جب ایک انسان دوسرے انسان کو محض چھونے ہی سے موت کی نیند سلا دے گا۔۔۔ وہ دور انسانی ترقی کا عروجی دور ہو گا۔ مگر ہمیں ان باتوں سے کیا؟ اس دور کے آنے تک ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں گی۔‘‘
وہ زیر لب مسکراتا رہا۔ چائے خانے کی گھٹی گھٹی فضا میں اس کے خاموش الفاظ سگریٹ کا دھواں بن کر ہمارے سروں پر کاہلی سے تیرنے لگے۔ جہلمی سپاہی اپنی سرخ پگڑی کے آگے سر جھکائے بدستور سو رہا تھا۔ سامنے والی بنچ پر لحاف میں کچھ کھسر پھسر ہوئی۔ خراٹوں کی راگنی پل بھر کے لیے رکی اور لحاف پھر ساکت ہو گیا۔ دری پر بیٹھے ہووؤں میں سے ایک آدمی وہیں دہرا ہو کر سو گیا تھا۔ دوسرے آدمی نیند بھری آواز میں رک رک کر باتیں کر رہے تھے۔ ہماری میز تک ان کی مدھم بھنبھناہٹ ہی پہنچ رہی تھی۔ الفاظ نہیں۔۔۔ باہر چبوترے کی انگیٹھی پر جھکا ہوا، چھٹی ہوئی سرخ قمیص والا قلی بے دلی سے جلدی جلدی چائے ختم کر رہا تھا۔ شاید اس کے ذہن میں گاڑی کا تصور تھا جو سامان اور مسافروں سے لدی پھندی، دھیرے دھیرے سٹیشن میں داخل ہو رہی تھی۔
قہوہ خانے کا مالک گدی پر اکڑوں بیٹھا اپنی غلافی آنکھیں بند کیے اونگھ رہا تھا۔ اس کے سوکھے ہوئے چہرے پر افیون کا پیدا کیا ہوا پھیکا پن تھا اور وہاں سے بیچارگی اور بے بسی ٹپک رہی تھی۔ اگرچہ چائے نے کسی حد تک میری بھوک کا گلا دبا دیا تھا، پھر بھی میری آنکھیں گرم گرم بھاپ سی خارج کر رہی تھیں۔ میں نے دو تین بار جلدی جلدی آنکھیں جھپکیں اور میرا ساتھی مجھے مہربان نگاہوں سے دیکھ کر بولا، ’’اگر نیند آ رہی ہے تو بے شک اپنا سر میز پر رکھ کر سو جاؤ۔ تمہیں کوئی کچھ نہ کہے گا۔‘‘
میں کھسیانا سا ہو کر آنکھیں ملتا ہوا سنبھل کر بیٹھ گیا۔ میرا ساتھی مسکرانے لگا، ’’میں جانتا ہوں تم یونہی اس شہر کی خاک نہیں چھان رہے۔ تمہارا اس سردی میں بے گھر بے آسرا پھرنا اور فاقہ کشی کے مصائب جھیلنا بے مقصد نہیں ہے۔ تمہارے دل میں بھی امید کی ایک ننھی سی جوت جل رہی ہے۔ اس جوت کی مدھم سی چمک میں نے اسی وقت دیکھ لی تھی جب دیا سلائی مانگنے کے لیے میں تمہاری طرف جھکا تھا۔ اگر میرا قیاس درست ہے تو میرے رات بھر کے دوست کسی حالت میں بھی جی نہ چھوڑنا۔ تم جوان ہو۔ تمہارے بازوؤں میں طاقت اور خون میں گرمی ہے۔ اپنے حالات کو اس طاقت اور گرمی کی کٹھالی میں ڈال کر انہیں ٹھوس اور قوی تر بنا لو۔ ہمیشہ بلند، مضبوط اور خوبصورت چیزوں کے متعلق سوچو اور زندگی کے اس کھیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو، خواہ تمہارا کردار کتنا ہی غیر اہم اور مختصر کیوں نہ ہو۔‘‘
اتنا کہہ کر اس نے دوسرا سگریٹ سلگایا اور کرسی پر پھیل کر بیٹھ گیا۔ نیند روئی کے دھنکے ہوئے نرم نرم گالوں کی مانند مجھے اپنی پلکوں پر برستی محسوس ہو رہی تھی۔ کسی وقت ایک جھکولا سا آتا اور مجھے اپنا آپ ہلکے پھلکے دودھیا بادل کی طرح پچھلے پہر کی پھیکی روشنی میں نرم ہواؤں کے دوش پر اڑتا ہوا محسوس ہوتا۔ میں نے سگریٹ سلگا لیا۔ تمباکو کا کڑوا پن جیسے میری آنکھوں میں اتر آیا۔ دفعتاً دری پر بیٹھے ہوؤں میں سے کوئی غمگین اور مدھم سروں میں گانے لگا۔
رہا کر دے مجھے صیاد ابھی فصل بہاری ہے۔
اس آواز میں درد اور تڑپ تھی۔ بلندیوں سے گرنے والی آبشار کی طرح مضطرب اور بے چین آواز نے چائے خانے کی رکی رکی سی فضا میں ایک درد انگیز تموج پیدا کر دیا۔ گیت ختم ہو گیا مگر گیت کا ہر بول، بے زبان فریادی بن کر جیسے ہمارے بیچ میں ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ میرا ساتھی بڑے غمناک لہجے میں بولا،
’’یہ ایک عجیب بات ہے۔ شعر و شاعری سے ذرا سا بھی لگاؤ نہ ہونے کے باوجود کسی وقت کوئی درد بھری لے سن پاتا ہوں تو دل بے اختیار بھر آتا ہے۔ میں نے کبھی کسی کی یاد میں آنسو نہیں بہائے۔ مجھے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ پھر نہ جانے یہ کس انوکھے درد کا اثر ہے جو کبھی کبھی آنسوؤں کی نمی بن کر میری آنکھوں پر امڈ آتا ہے۔ خاموشی اور یکسوئی کے ویران لمحات میں کئی بار ایک اچھوتے غم کا احساس ہوتا ہے۔ یہ غم رقص کرنے والی خوبصورت دیو داسیوں کی مانند مجھے اپنے طلسمی حلقے میں لے لیتا ہے اس وقت مجھے اپنا آپ کسی غیر فانی نغمے کی لے میں ڈھل کر کائنات کی ازلی و ابدی موسیقی سے ہم آہنگ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
میں نہیں جانتا اس غم کا چشمہ میری روح کی تاریک گہرائیوں میں ایکبارگی کہاں سے پھوٹ نکلتا ہے۔ میں صرف اس قدر جان سکا ہوں کہ نگاہوں سے اوجھل رہنے والے گمنام نشیبوں میں اس غم کے بادل دھیرے دھیرے اوپر اٹھ کر میرے دل کی چوٹیوں پر نمودار ہوتے ہیں اور جی کھول کر برس چکنے کے بعد خودبخود سرکتے ہوئے ان دیکھے سمندروں کی جانب روپوش ہو جاتے ہیں۔ یہ اجنبی اور انوکھا سوگ مجھے بڑا عزیز ہے۔
اس غریب الوطنی کے دور میں جبکہ میں اپنا سب کچھ لٹا کر تمہارے پاس اس چائے خانے میں بیٹھا اپنی داستان بیان کر رہا ہوں تو میرا دل زخم خوردہ ہرنی کی طرح درد اور تکلیف کی شدت سے نڈھال ہے جو شکاری کا زہر آلود تیر اپنے پہلو میں لیے کسی جھیل کے کنارے اکیلی کھڑی، بے چینی سے ادھر ادھر تک رہی ہے۔ یہ سوگ، یہ کرب، یہ بے کلی اور یہ اضطراب میرا اور میری روح کا ایک حصہ ہے۔ یہ مجھ سے کبھی الگ نہ ہو گا۔ یہ میرے بازوؤں کی قوت اور خون کی حدت سے، دکھائی نہ دینے والے جنگلی عقاب کی مانند یہ ہمیشہ میرے دل پر محو پرواز رہے گا۔‘‘
اس کی آواز دھیمی ہو کر ڈوب سی گئی۔ وہ چپ ہو گیا۔ جیسے رقص کرنے والی سیم تن دیو داسیوں کے ہجوم نے اسے اپنے طلسمی حلقے میں لے لیا ہو۔ اس نے انگلی کی خفیف سی جنبش سے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور راکھ کا پھول میز پر گرتے ہی کھل اٹھا۔ نرم نرم، دھنکی ہوئی روئی کے گالے بدستور میری پلکوں پر گر رہے تھے۔ کوئی غیبی ہاتھ، نرم اور مہربان ہاتھ مجھے محبت سے تھپکنے لگا اور میرا بوجھل سر خود بخود میز کی مٹیالی سطح سے جا لگا اور ہلکے پھلکے بادل کا دودھیا ٹکڑا، پچھلے پہر کی پھیکی روشنی میں نرم ہواؤں کے دوش پر سوار مشرقی لالہ زاروں کی سمت اڑنے لگا۔ اور میں سو گیا۔
جب میری آنکھ کھلی تو میرا ساتھی غائب تھا۔ دری پر تینوں آدمی میلی کچیلی چاردوں میں گٹھریاں بنے سو رہے تھے۔ سامنے والی بنچ پر لحاف بدستور ساکت تھا اور خراٹوں کی مدھم آواز آ رہی تھی۔ ملازم لڑکا کرسیاں ایک طرف لگائے فرش پر جھاڑو دے رہا تھا۔ چائے خانے کا مالک بھٹی میں سلاخ پھیر رہا تھا۔ جہلمی سپاہی کی میز خالی تھی۔ میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور باہر نکل آیا۔
باہر سرد رات ڈھل رہی تھی اور نیلے نیلے آسمان پر ستارے زیادہ شوخ اور زیادہ چمکیلے دکھائی دے رہے تھے۔ ایک جگہ مسجد کا سفید گنبد سحر کے کافوری اجالے میں مصری کے کوزے کی طرح تاریکی میں جھلک رہا تھا۔ اگرچہ بھوک میری پنڈلیوں میں درد بن کر اتر آئی تھی اور میری آنکھوں میں لمبے لمبے سائے چل پھر رہے تھے پھر بھی میرا انگ انگ تازگی، شگفتگی اور مسرت کی ایک والہانہ کیفیت سے لبریز تھا۔ جیسے میں صبح کا ایلچی ہوں اور اس گندے شہر کے گھٹے گھٹے تنگ اور بے جان ماحول میں، زندگی، حرارت، روشنی اور آزادی کا پیام لے کر شبنم کے ہمراہ اتر آیا ہوں۔
میں نے بازو کھول کر بھر پور انگڑائی لی۔ میرا بھوکا، مگر سخت جسم گرم ہو کر جیسے شعلے میں بدل گیا اور مجھے اپنے ساتھی کے الفاظ یاد آ گیے ’’تمہارے بازوؤں میں طاقت اور خون میں گرمی ہے۔ جی نہ ہارو۔ ہمیشہ بلند، مضبوط اور خوبصورت چیزوں کے متعلق سوچو اور زندگی کے اس کھیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو خواہ تمہارا کردار کتنا ہی غیر اہم اور مختصر کیوں نہ ہو۔‘‘
اور میں سینہ تانے، آنکھوں میں بھوک اور آہنی ارادے کی چمک لیے شہر کے دروازے میں اس تند و بلا خیز لہر کی مانند داخل ہو رہا تھا جو بڑی سے بڑی چٹان سے ٹکرا جانے کا عزم لیے ہوئے ہو۔
٭٭٭