محترمہ بشریٰ رحمن ان اہل قلم میں سے ہیں جن کا نام کسی تعارف اور جن کی تحریریں کسی تحسین کی محتاج نہیں۔ وہ ناول لکھیں، افسانہ لکھیں یا کالم۔ انہیں ہمیشہ معتبر اہل نظر سے داد ہی ملتی ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ گرد و پیش کے مناظر کو کیمرے کی آنکھ کی طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں معاشرے کے ٹوٹتے بنتے رشتوں، جذبوں کی شکست و ریخت، قدروں کی پامالی اور زندگی کی بے حالی کے سارے رنگ نمایاں ہیں۔
ادب میں ناول کو فنی طور پر مشکل ترین صنف سمجھا جاتاہے۔ یہ وہ خار زار ہے جس پر چلنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس راہ پر وسیع مطالعہ، مشاہدہ، فنی رموز سے آگاہی، کہانی، کرداروں کی چال ڈھال پر گرفت رکھنے والوں کا سفر ہوتا ہے اور بشریٰ رحمن صاحبہ ان کٹھن راستوں سے گذرنے کا گُر خوب جانتی ہیں۔
ان کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی نے کیا خوب لکھا ہے کہ
’’وہ سوچتی مردوں کی طرح ہیں، محسوس عورت کی طرح کرتی ہیں اور لکھتی اپنی ہی طرح ہیں‘‘
ان کے ناول ’’دانا رسوئی‘‘ کے انتساب کو دیکھ کر ہی یکسر خوشی اور سکون کا احساس ہوا، وہ لکھتی ہیں۔
’’ہر اس عورت کے نام جو گھر کے اندر اور گھر سے باہر نسوانی وقار اور پندار کو سنبھالے ہوئے ہے‘‘
بلا شبہ ایک معتبر خاتون اور ایک اعلیٰ پائے کی ادیبہ سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کا ہر لفظ معتبر اور اعلیٰ ہو! اس ناول کا انتساب ہی عورت کے دکھ، درد اور کرب کا آئینہ دار ہے اور ناول نگار کی فکری سوچ کی گیرائی اور گہرائی کا عکس ہے۔ اسلوب کی سندرتا اور تکنیک کی خوبی نے اسے ایک خوبصورت ناول بنا دیا ہے۔ وجدان کی کیفیت اور والہانہ پن تخلیق میں تبھی ڈھلتا ہے جب ریاضت اور محنت شاقہ سے کسی بھی تخلیق کار کا اصولی رشتہ ہوتا ہے۔ کسی تخلیق کو ارفع مقام تک پہنچنے کے لیے تخلیق کار کی بصیرت اور وسیع مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے پھر وہ Images کی ایسی کائنات تخلیق کرتا ہے جس کی کئی معنوی جہات ہوتی ہیں۔
’’دانا رسوئی‘‘ بھی معنویت سے بھرپور ایک ایسا ہی بیانیہ ہے جس میں عورت کی مظلومیت، بے بسی اور چادر اور چار دیواری کے تقدس کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار اقلیم سلطانہ کے موتیا اور پھر طیبہ بقائی بننے کے کٹھن سفر کی روداد بیان ہے۔ مرکزی کردار سے ناول کی فضا بندی اور پلاٹ سازی کی گئی ہے جسے پھر ضمنی کرداروں عبد الباسط، دردانہ آپا، ڈاکٹر ربابہ، محبوب شاہ اور بہرام بقائی کے ذریعے اس المیے کو خوبصورتی کے ساتھ آگے بڑھایا گیا ہے۔
ناول میں تخیل کی نزاکتوں اور فن کی ندرتوں کے ساتھ ساتھ موزوں الفاظ، متوازن تراکیب اور تراشیدہ فقروں کی موسیقیت تحریر کے طلسم کو آخری سطر تک برقرار رکھتی ہے۔ مرکزی کردار اقلیم سلطانہ کی باطنی کیمسٹری اور دانا رسوئی کی معونیت سمجھنے کے لیے پورے ناول کا مطالعہ ضروری ہے۔ اور بنت اتنی خوبصورت ہے کہ درمیان کی کوئی ایک کڑی بھی کہیں گم ہو جائے توکہانی ادھوری رہ جاتی ہے۔ یہ ناول ایک ایسے معاشرے اور تہذیب کی عکاسی کرتا ہے جہاں عورت کا ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔ اس کے جسم و جاں سے لے کر اس کی روح تک کو تار تار کیا جاتا ہے۔ ریت کے ذروں کی طرح اس کی عزتِ نفس کو اچھالا جاتا ہے۔ اور اسے ریزہ ریزہ کر کے اپنی ہی کرچیوں پر چلنے اور لہو لہان ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
یہ ناول معصومیت، شرافت و پاکیزگی کی بلندیوں سے لے کر بدی، بدنامی اور ذلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں تک کی داستان ہے۔ اقلیم سلطانہ سے موتیا بننے کا سفر اور پھر طیبہ بقائی کا سفر ایک عورت کے دکھ، درد، بے بسی اور مظلومیت کا ہر پل مجروح کردینے والا سفر ہے۔ اس سفر کو محترمہ بشریٰ رحمٰن نے نہایت حوصلے، جراٰت اور ہمت سے بیان کیا ہے۔
محترمہ بشریٰ رحمن صاحبہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت انہوں نے جس شعبے میں بھی قسمت آزمائی کی، کامیابی ان کا مقدر ٹھہری انہوں نے ہر میدان میں نام اور مقام پایا۔ وہ بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار، سفر نامہ نگار اور کالم نویس ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ میدانِ سیاست میں بھی ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ ایک اچھی بیٹی، بیوی اور ماں بھی ہیں۔ ہر روپ اور ہر رنگ میں ایک مثالی شخصیت۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں بہاولپور کے ریگزاروں سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا اور لاہور کی ادبی کہکشاں کا حصہ بن گئیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی دھرتی سے اپنا ناطہ نہ توڑا۔ ان کے ناولوں، کہانیوں اور کالموں میں اسی وسیب کی بو باس اور خواجہ فرید کی کافیوں کی مہک ہے۔
ایک شاعر نے کہا تھا
شہر کے لوگو! تم کیا جانو شہر تو بنجر ہوتے ہیں
صحراؤں میں رہنے والے لوگ سمندر ہوتے ہیں
محترمہ نے ثابت کیا کہ صحراؤں میں رہنے والے واقعی سمندر ہوتے ہیں۔ بشریٰ رحمٰن 40 سے زیادہ کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ سماجی مسائل، طبقاتی اونچ نیچ، معاشرتی کشمکش اور عورت کا استحصال ان کے بنیادی موضوعات ہیں۔ ان کے افسانوں کے مجموعے، ناول اور کالم اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔
ان کے ناولوں میں فرسودہ رسم و رواج میں جکڑی عورت کی داستان ہے۔ ، سماج کے منفی رویوں، نفسیاتی خواہشات اور فرسودہ رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی عورت کی لازوال قربانیوں کو انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے امَر کر دیا۔ یہ ایک گداز اور درد مند دل رکھنے والی عورت کی تحریریں ہیں جو اپنے قلم کے ذریعے عورت کی آزادی اور وقار کی جنگ مردانہ وار لڑتی دکھائی دیتی ہے۔
بشری رحمن ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی کی قائل ہیں۔ وہ ہمارا آئیڈیل بھی ہیں اور فکری رہنما بھی۔ دعا ہے کہ بہاولپور کے ریگزاروں سے ابھرنے والا یہ روشن ستارہ آسمان ادب پر اسی طرح جگمگاتا رہے اور اس کے قلم سے نکلنے والی روشنی اس معاشرے کی مظلوم عورت کے جیون کو منور کر دے۔
٭٭٭