اردو میں مابعد جدیدیت کی بحثوں کو شروع ہوئے کئی برس ہو چکے ہیں۔ اہل علم جانتے ہیں کہ جدیدیت اپنا تاریخی کردار ادا کر کے بے اثر ہو چکی ہے اور جن مقدمات پر وہ قائم تھی وہ چیلنج ہو چکے ہیں۔ وہ ادیب جو حساس ہیں اور ادبی معاملات کی آگہی رکھتے ہیں، ان کو اس بات کا احساس ہے کہ مابعد جدیدیت کا نیا چیلنج کیا ہے اور اردو کے تناظر میں مابعد جدیدیت کے اثرات کے تحت پیدا ہونے والے نئے سوالات کیا ہیں۔
اس بارے میں پہلی بنیادی بات یہ ہے کہ مابعد جدیدیت کسی ایک ضابطہ بند نظریے کا نام نہیں بلکہ مابعد جدیدیت کی اصطلاح احاطہ کرتی ہے، مختلف بصیرتوں اور ذہنی رویوں کا، جن سب کی تہ میں بنیادی بات تخلیق کی آزادی اور معنی پر بٹھائے ہوئے پہرے یا اندرونی اور بیرونی دی ہوئی لیک یا ہدایت ناموں کو رد کرنا ہے۔ یہ نئے ذہنی رویے، نئی ثقافتی اور تاریخی صورت حال سے پیدا ہوئے ہیں اور نئے فلسفیانہ قضایا پر بھی مبنی ہیں، گویا مابعد جدیدیت ایک نئی صورت حال بھی ہے، یعنی جدیدیت کے بعد کے دور کو مابعد جدیدیت کہا جاتا ہے۔ لیکن اس میں جدیدیت سے انحراف بھی شامل ہے جو ادبی بھی ہے اور آئیڈیولوجیکل بھی۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مابعد جدیدیت جہاں باہر سے دیے ہوئے نظریوں کو رد کرتی ہے، وہاں تخلیق کار کے آزادانہ اختیار کردہ نظام اقتدار کی گنجائش رکھتی ہے۔ چنانچہ ’’آئیڈیولوجیکل موقف‘‘ سے مراد تخلیق کار کے زندگی اور سماج سے جڑنے کا آزادانہ عمل ہے۔ گویا آئیڈیولوجی سے یہاں مراد کوئی دیا ہوا نظریہ، فارمولا یا پارٹی پروگرام نہیں، بلکہ ہر طرح کی نظریاتی ادعائیت سے گریز یا تخلیقی آزادی پر اصرار یا اپنے ثقافتی تشخص پر اصرار بھی ایک نوع کی آئیڈیولوجی ہے۔
تاہم مابعد جدیدیت کی فلسفیانہ بنیادوں کو پوری طرح سمجھنا قدرے مشکل اس لیے ہے کہ ہمارے ذہن ابھی تک ترقی پسندی اور جدیدیت کی فارمولائی تعریفوں کے عادی ہیں۔ ان سابقہ تحریکوں کی بندھی ٹکی فارمولائی تعریفیں ممکن تھیں، پھر یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد تھیں، یعنی جو ترقی پسندی نہیں تھی وہ جدیدیت تھی اور جو جدیدیت تھی، وہ ترقی پسندی نہیں تھی۔ یعنی ایک میں زور انقلاب کے رومانی تصور پر تھا، دوسرے میں ساری توجہ شکست ذات پر تھی۔ ما بعد جدیدیت نہ ترقی پسندی کی ضد ہے اور نہ جدیدیت کی اور چونکہ یہ پہلے سے چلے آ رہے نظریوں کی ادعائیت کو رد کرنے اور طرفوں کو کھولنے والا رویہ ہے، اس کی کوئی بندھی ٹکی فارمولائی تعریف ممکن نہیں ہے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ما بعد جدیدیت ایک کھلا ڈلا ذہنی رویہ ہے تخلیقی آزادی کا، اپنے ثقافتی تشخص پر اصرار کرنے کا، معنی کو سکہ بند تعریفوں سے آزاد کرنے کا، مسلمات کے بارے میں ازسر نو غور کرنے اور سوال اٹھانے کا، دی ہوئی ادبی لیک کے جبر کو توڑنے کا، ادعائیت خواہ سیاسی ہو یا ادبی اس کو رد کرنے کا، زبان یا متن کے حقیقت کے عکس محض ہونے کا نہیں بلکہ حقیقت کے خلق کرنے کا، معنی کے معمولہ رخ کے ساتھ اس کے دبائے یا چھپائے ہوئے یا نظرانداز کیے ہوئے رخ کے دیکھنے دکھانے کا اور قرأت کے تفاعل میں قاری کی کارکردگی کا۔ دوسرے لفظوں میں مابعد جدیدیت تخلیق کی آزادی اور تکثیریت کا فلسفہ ہے جو مرکزیت یا کلیت پسندی کے مقابلے پر ثقافتی بوقلمونی، مقامیت، تہذیبی حوالے اور معنی کے دوسرے پن ’’THE OTHER‘‘ کی تعبیر پر اور اس تعبیر میں قاری کی شرکت پر اصرار کرتا ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو جدیدیت کی جلو میں جس اجنبیت، ذات پرستی، خوف، تنہائی، یاسیت اور احساس جرم کی یلغار ہوئی تھی، اس کی بنیاد اپنے آپ کالعدم ہو جاتی ہے اور ادب کا رشتہ ازسر نو سماجی اور ثقافتی مسائل کی آزادانہ تخلیقی تعبیر سے جڑ جاتا ہے نیز معنی چونکہ متن میں بالقوۃ موجود ہے اور قاری ہی اس کو بالفعل موجود بناتا ہے، اس لیے ادب اور آرٹ کی کارفرمائی میں قاری کی نظریاتی بحالی سے قاری پر ادب کے اثرات یعنی آئیڈیولوجی کے عمل دخل کی راہ بھی کھل جاتی ہے، یعنی ادبی متن ہے ہی ثقافتی اور سماجی تشکیل اور ہر ادبی معنی کسی نہ کسی نظریۂ اقدار VALUE SYSTEM اور نظریۂ حیات WORLD VIEW یا آئیڈولوجی یعنی ترجیحی اقدار سے جڑا ہوا ہے۔
آپ نے دیکھا کہ سماجی معنی یا آئیڈیولوجیکل ترجیحی اقدار کی جو بات مابعد جدیدیت کے راستے سے آ رہی ہے، وہ کسی پارٹی پروگرام کی رو سے یا سیاسی یا نیم سیاسی نظریے کی رو سے نہیں آ رہی کہ ادیب یا شاعر کے لیے حکم نامہ یا ہدایت نامہ جاری کیا جا رہا ہو کہ یوں لکھو تو ما بعد جدید ہو گا اور یوں لکھو تو ما بعد جدید نہ ہو گا۔ اس بات کو یوں بھی واضح کیا جا سکتا ہے کہ ترقی پسندی کے دور میں جس نے بھی کسان، مزدور، پیداواری رشتے، طبقاتی کش مکش اور انقلاب کا ذکر کیا وہ ترقی پسند ہو گیا۔ اسی طرح جدیدیت میں جس نے فرد کی اجنبیت، تنہائی، شکست ذات کا ذکر کیا یا ابہام و علامت ڈال دی وہ جدید ہو گیا۔ ان دونوں کے مقابلے میں اب مابعد جدید دور میں ایسا کوئی سستا نسخہ دستیاب نہیں۔
ما بعد جدیدیت سرے سے ہدایت نامے یا فارمولے وضع کرنے یا تخلیق کار کے لیے ہدایت نامے جاری کرنے کا فلسفہ ہے ہی نہیں۔ اس میں زندگی، سماج یا ثقافت سے جڑنے والی بات بھی فقط ادب کی نوعیت اور ماہیت کی بصیرت کے طور پر کہی گئی ہے نہ کہ اوپر سے لادے ہوئے کسی فارمولے یا منصوبے کے طور پر یا کسی سیاسی پارٹی کے منشور کے طور پر۔ یعنی یہ کہ ادب ہے ہی زندگی اور سماج کی اقدار کا حصہ اور ادب کی کوئی تعریف یا تعبیر زندگی، سماج اور ثقافت سے ہٹ کر ممکن ہی نہیں۔ نئی ادبی فکر کی ایک بڑی دین ہے ہی یہی کہ ادبی قدر سماجیت اور تہذیبی حوالے سے مبرا ہو ہی نہیں سکتی۔
مزید واضح رہے کہ ما بعد جدیدیت کی بنیاد جس ادبی فکر پر ہے وہ ساختیات اور پس ساختیات سے ہوتی ہوئی آئی ہے۔ نسوانیت کی تحریک، نئی تاریخیت اور رد تشکیل کے فلسفے بھی اسی نئی ذہنی فضا کا حصہ ہیں۔ قطع نظر دوسرے امور سے ان فلسفوں کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا ہے کہ ادب کی نوعیت اور ماہیت پر از سر نو غور و خوض کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے جس میں زبان کی مرکزی اہمیت اور یہ کہ زبان کے ذریعے معنی کیسے قائم ہوتے ہیں اور ادب بطور ادب کس طرح متشکل ہوتا ہے یا متن سے متن کیسے بنتا ہے، ان سب مسائل پر غور و خوض کا دروازہ کھل گیا ہے اور پچھلے تیس پینتیس برسوں سے زور و شور سے معنی خیز بحثیں جاری ہیں۔
ان بحثوں کا آغاز جیسا کہ معلوم ہے سوسیئر کافلسفۂ لسان ہے جس کی بنا پر نئی تھیوری یعنی فلسفۂ ادب کی عمارت نئے فلسفیوں نے اٹھائی جن میں جیکب سن، لیوی اسٹراس، لاکاں، فوکو، آلتھیوسے، رولاں بارتھ، دریدا، ایڈورڈ سعید، جولیا کرسٹیوا، بادیلار، لیوتار اور برصغیر کے دانشوروں میں ہومی بھابھا، گنیش دیوی، اعجاز احمد اور گایتری چکروتی سپیوک کے نام عہد حاضر کے عالمی دانشورانہ ڈسکورس کا حصہ بن چکے ہیں۔
بیشک نئی فکر یا ما بعد جدیدیت میں بہت سی باتیں دقت طلب ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ جن لوگوں کی واقفیت سرسری ہے یا جو نئے خیالات سے بھڑکتے ہیں، وہ عمداً انتشار بھی پھیلاتے ہیں یا آدھی ادھوری یا غلط سلط باتیں بھی کرتے ہیں۔ کسی بھی بڑی تبدیلی کے زمانے میں ایسے رویے بالعموم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر سچ ہے کہ جس طرح اپنے اپنے زمانے میں مارکس نے تاریخ کو بے مرکز کر دیا تھا، یا فرائیڈ نے فرد کو بے مرکز کر دیا تھا، بالکل اسی طرح سوسیئر نے زبان کو، ہوسرل نے روایتی اعتقادات کو اور دریدا نے معنی کی روایتی وحدت کو بے دخل کر دیا ہے۔ نتیجتاً پہلے سے چلے آ رہے بہت سے تصورات جن کو انسان پہلے آنکھیں بند کر کے قبول کر لیتا تھا، اب چیلنج کی زد میں آ گئے ہیں۔ علم و دانش کی یہ تبدیلی معمولی تبدیلی نہیں۔
مسئلہ فقط ادب یا ادب کی تعبیر اور تشکیل کا نہیں، انسان اور انسان کی زندگی کا ہے، یعنی حقیقت انسانی کی نوعیت، انسانیت کی شناخت یا انسان کی تیزی سے تحلیل ہوتی ہوئی پہچان کا ہے۔ نیز ما بعد جدید عہد میں ماس میڈیا اور صارفیت کی جو یلغار ہے اور جس طرح کمپیوٹر اور برقیاتی ذہن بہت سی ثقافتی ترجیحات کو پلٹتا جا رہا ہے، اس سے چاروں طرف زبردست تبدیلی ہے۔ ما بعد جدیدیت یا نئی فکر کے بہت سے ذہنی رویے اس نئی حقیقت کو سمجھنے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش ہیں۔
عالمی سطح پر دیکھا جائے تو تیسری دنیا یا پچھڑے ہوئے ایشیائی، افریقی، لاطینی امریکی، یا وسط ایشیائی ممالک جن میں ہندوستان بھی ہے، ان سب کی حیثیت موجودہ دور سے پہلے انسانی سماج کے ’’دوسرے‘‘ یعنی THE OTHER کی تھی، ان کی ثقافت، ان کے ادبی ڈسکورس اور ان کے تشخص پر توجہ مابعد جدید دور کا کارنامہ ہے۔ اسی طرح عورت بھی جو صدیوں تک مرد سماج کا دوسرا یعنی THE OTHER سمجھی جاتی تھی، اب سماجی ڈسکورس کے قلب میں آ گئی ہے۔ نسوانیت کی تحریک پہلے کی ہے لیکن اسے زیادہ تقویت اب ملی ہے۔ ہندوستانی سماجیاتی منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارا سماج اگرچہ ہمیشہ تکثیری سماج رہا ہے، لیکن سیاسی منظر نامے پر اوپری ذات برادری یعنی برہمنیت کا جو غلبہ تھا، وہ ادھر تیزی سے ٹوٹنا شروع ہوا ہے اور نیا نچلا متوسط طبقہ، نچلی ذاتیں یا کچلے پسے دبے ہوئے طبقے یعنی SUBALTERN جن کی پہلے سیاست میں کوئی آواز نہیں تھی، اب طاقت اور اقتدار کے قلب میں آ رہے ہیں۔
اسی طرح علاقائی اور قبائلی اور آدی باسی کلچر MAINSTREAM کلچر کے پہلو بہ پہلو اپنی حیثیت منوانے لگا ہے۔ قومی منظر نامے پر بڑی مرکزی پارٹیوں کا نسبتاً کمزور ہو جانا اور مقامی و علاقائی پارٹیوں کا فروغ پانا، نچلے متوسط طبقے یا کمزور ذاتوں کا ابھرنا اور سیاسی و ثقافتی طاقت پر فائز ہونا بھی اسی منظر نامے کا حصہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک تکثیری سماج میں مرکزیت کو چیلنج ایک حد تک ہی ممکن ہو گا اور نظرانداز کیے ہوئے ’’دوسرے‘‘ یعنی جواب تک ’’غیر‘‘ تھا، اس کے قلب میں آ جانے کے بعد مرکز اور مقامیت میں ایک توازن کی بھی ضرورت ہو گی جس کا خواب ہندوستان کے د ستور میں دیکھا گیا ہے۔ بہرحال آمرانہ مقدرات یا مراکز کا زمانہ گزر گیا جو تکثیریت کو دبائیں یا علاقائی، اقلیتی اور قبائلی تشخص کو نظر انداز کریں۔
ہندوستان کے ادبی منظر نامے پر اس بدلتی ہوئی صورت حال اور نئے رویوں کی پرچھائیاں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ بنگالی، مراٹھی، گجراتی، کنڑ، ملیالم، ہندی اور پنجابی میں یہ بحثیں تیزی سے اٹھ رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو دلت ادب کی تحریک جو بعض ہندوستانی زبانوں میں کئی دہائیوں سے جاری ہے اب اسی منظر نامے کا ایک حصہ ہے، نیز ادھر ’’دیسی واد‘‘ یعنی NATIVISM کی جو تحریک پچھلی چند دہائیوں میں شروع ہوئی ہے اور ان دنوں بحث و مباحثہ کا موضوع بنی ہوئی ہے، وہ بھی کسی نہ کسی طرح ما بعد جدیدیت کی آئیڈیولوجیکل ترجیحات سے جڑ جاتی ہے یعنی ایک تو مغرب کے مقابلے پر مشرقی جڑوں پر اصرار اور اپنے ثقافتی اور ادبی تشخص کی پہچان، دوسرے یہ کہ ہندوستانی ادبیات میں بھی سنسکرت یا سنسکرت کی طرح اقتدار پر قابض مقتدر زبانیں دور دراز کی پچھڑی یا دبی ہوئی زبانوں یا بولیوں کو دباتی اور نظرانداز کرتی رہی ہیں۔
ایک مرکز جو شعریات اور جمالیات کے صدیوں سے چلے آ رہے غلبے کا لامحالہ نتیجہ یہ ہے کہ صدیوں تک علاقائی یا قبائلی شعریات اور مقامی ادبی رویوں کو نظرانداز کیا گیا۔ آج کی ادبی فضا میں ’’دیسی واد‘‘ کے تحت یہ بحثیں زور شور سے اٹھ رہی ہیں۔ نئے مباحث سے جن جوڑے دار اضداد BINARIES کی ترجیحی حیثیت چیلنج کی زد میں آ گئی ہے، ان کا مختصر خاکہ یوں ہو سکتا ہے،
مغرب/ نو آبادیت کے بالمقابل مشرقی/ تیسری دنیا کو ترجیح
عالمیت کے بالمقابل جڑوں پر اصرار/ ثقافتی تشخص کو ترجیح
مرکزیت/آفاقیت کے بالمقابل مقامیت کو ترجیح
مہا بیانیہ کے بالمقابل چھوٹے بیانیہ کو ترجیح
اشرافیہ/اعلیٰ طبقات کے بالمقابل دبے کچلے عوام/نچلے طبقات کو ترجیح
سنسکرت/کلاسکیت کے بالمقابل بھاشا/آدی باسی زبانوں کو ترجیح
برہمنی شعریات کے بالمقابل بھگتی صوفی سنت دور سے چلی آ رہی عوامی شعریات/ یا قبائلی شعریات کو ترجیح
وحدانی/متعینہ کے بالمقابل تکثیری معنی کو ترجیح
اس خاکے کے جوڑوں میں پہلے عنصر کا غلبہ صدیوں سے چلا آتا ہے۔ یعنی دوسرا عنصر پہلے کا ’’غیر‘‘ تھا، دبا ہوا یا نظرانداز کیا ہوا تھا اور اس کی اپنی کوئی پہچان نہ تھی اور اگر تھی تو پہلے عنصر کے حوالے سے اور اس کی رو سے تھی۔ ما بعد جدید عہد کی آگہی کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی ہے اور دونوں جوڑے دار BINARIES اضداد میں کشا کش کا جو نیا ڈسکورس پیدا ہوا ہے، اس میں دوسرا عنصر اب اپنی شرائط پر اپنی شناخت اس نوع سے کرآ رہا ہے کہ اصل اور ’’غیر‘‘ کی پہلی تعبیر پلٹنے لگی ہے اور پہلے عنصر کا ترجیحی غلبہ کم ہونے لگا ہے۔ ڈسکورس کی یہ تبدیلی ’’پوسٹ کولونیل ازم‘‘ بھی کہلاتی ہے جس کا نمایاں ترین عنصر ذہنوں کو کولونیل اثرات سے آزاد کرنا اور اپنی تہذیبی جڑوں اور ثقافتی شناخت پر اصرار کرنا ہے۔ (اس سے ملتی جلتی کشاکش پاکستان میں بھی ہے جس کی بہتر افہام و تفہیم وہیں کے مفکرین کرسکتے ہیں۔ )
اردو میں ہرچند کہ مابعد جدیدیت کی گفتگو شروع ہو چکی ہے لیکن ہم مزاجاً چونکہ روایت پرست ہیں نیز چونکہ حق تلفیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے بے دلی، شکست خوردگی اور ذہنی انتشار کا بھی شکار ہیں، یا جدیدیت کے سالار کنفیوژن پھیلاتے رہتے ہیں، اس لیے نئے خیالات کو سمجھنے پرکھنے اور اردو کے تناظر میں ان کی معنویت کو بروئے کار لانے میں ہم کچھ سست رو بھی ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو اقلیت سے جڑے ہونے اور مرکزی حیثیت سے بے دخل ہو چکنے کی وجہ سے اردو کا مسئلہ ہے ہی ما بعد جدیدی مسئلہ، اور ہم واقعتاً دوسرے عنصر یعنی ’’غیر‘‘ والی BINARYکے منظر نامے کی زد میں آ چکے ہیں، اس طرح کہ دوسری تمام ہندوستانی زبانیں اپنے اپنے خطوں اور صوبوں میں اقتدار پر فائز ہیں جبکہ اردو اپنے گھر میں بے گھر ہو کر ان سب زبانوں کی THE OTHER یعنی دوسرے درجے کی نظرانداز کی ہوئی ’’غیر‘‘ بن چکی ہے۔ اور تو اور ہم خود ہی اپنے لیے ثانوی درجے پر قانع ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو نئی پیڑھی کے شاعر اور ادیب اجنبیت، یاسیت اور بیگانگی کے ایجنڈے کو پیچھے چھوڑ کر تہذیبی اور تخلیقی سطح پر فعال ہو رہے ہیں۔ چنانچہ ان کا بار بار یہ اعلان کرنا کہ ان کا تعلق نہ فیشن گزیدہ جدیدیت سے ہے نہ فارمولائی ترقی پسندی سے خاصا معنی خیز ہے۔ وہ ایک طرف اشکال اور اہمال کی منطق کو رد کرتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کے سکہ بند نظریوں کو اور دی ہوئی لیک کو بھی۔ لیکن ان کی بات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ تمھاری حیثیت ہی کیا ہے۔ اس وقت زندگی کی رمق اگر ہے تو اس میں نئی پیڑھی کے شاعر اور افسانہ نگار اب حد سے بڑھی ہوئی سماجی بیگانگی، داخلیت، شکستِ ذات اور لایعنیت سے اوب چکے ہیں اور اس حصار سے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لینا اور زندگی کے نئے مسائل سے رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں۔ اسی نظریاتی طور پر کہانی پن کی واپسی ہو رہی ہے اور قاری کی بحالی پر بھی توجہ دی جانے لگی ہے۔
یہ سب ما بعد جدیدیت کے دور میں داخل ہونے کی نشانیاں ہیں، تاہم کنفیوژن پھیلانے والے بھی اپنا کام کیے جآ رہے ہیں کیونکہ جب رویے بدلتے ہیں تو ادبی اسٹبلشمنٹ پر بھی زد پڑتی ہے۔ جب جدیدیت کا آغاز ہوا تھا تو ترقی پسندوں نے بھی خوب خوب مخالفت کی تھی۔ چنانچہ اب اگر جدیدیت کے بعد کا نیا ڈسکورس شروع ہو رہا ہے تو وہ لوگ جو جدیدیت کے اسٹبلشمنٹ سے وابستہ ہیں، وہ اگر فقط منفی باتیں کرتے ہیں یا نئی معنویت اور تبدیلیوں کو نظرانداز کر کے عمداً کنفیوژن پھیلاتے ہیں تو اس نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسا تو ہر دور اور ہر عہد میں ہوتا آیا ہے۔
یاد رکھنے کی بات تو یہ ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ تبدیلی برحق ہے، تبدیلی تو آئے گی اور تبدیلی تو اردو میں بھی آ رہی ہے، البتہ اس کو تخلیقی طور پر لائیں گے فنکار، تخلیق کار، ادیب، شاعر۔ فکر و تنقید تو اپنا کام کر رہی ہے اور کرتی رہے گی اور کھلا ڈسکورس جاری رہے گا۔ فنکار کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نئی فکر و آگہی سے آزادانہ تخلیقی معاملہ کرے اور کسی کے دباؤ میں نہیں بلکہ اپنے طور پر کھرے کھوٹے کو پرکھے۔ ادب میں کوئی SHORT CUT نہیں ہے۔ ادب کی پہلی شرط اس کا ادب ہونا ہے اور ادب وہی ہے جو زندگی کی حرکت و حرارت سے جڑا ہوا ہو، اپنی تہذیبی پہچان رکھتا ہو اور اپنے عہد کے ذہن و شعور، ’’سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو‘‘ کی آواز ہو، نہ صرف آواز ہو بلکہ مؤثر آواز ہو اور یہ کہ یہ آواز سننے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں اثر کرسکے،
افسردگیِ سوختہ جاناں ہے قہر میر
دامن کو ٹک ہلا کہ بجھی ہے دلوں کی آگ
٭٭٭