نمایاں جب وہ اپنے ذہن کی تصویر کرتا ہے
ہر اک اہل محبت کو بہت دلگیر کرتا ہے
وہ کیوں مسرور ہوتا ہے ہمارا خون بہنے سے
سر حق کس لیے ظالم تہ شمشیر کرتا ہے
وفا کا نام لیتا ہے وفا نا آشنا ہو کر
وہ خود کو انتہائی پارسا تعبیر کرتا ہے
جسے محروم ہونا ہے وہی ہے مطمئن یارو
جو ہے نصرت کا طالب ہر قدم تدبیر کرتا ہے
ہر اک انسان کے اعمال بھی یکساں نہیں ہوتے
کوئی گھر توڑ دیتا ہے کوئی تعمیر کرتا ہے
صداقت پر کبھی ان کا اثر ہونے نہیں پاتا
وہ اپنے کارناموں کی بہت تشہیر کرتا ہے
کوئی بھی مسئلہ ابرارؔ حل ہونے نہیں پاتا
مسائل وہ ہمارے صورت کشمیر کرتا ہے
٭٭٭
باغباں جشن بہاراں نہیں ہونے دیتے
دیپ الفت کے فروزاں نہیں ہونے دیتے
زہر الفت کا پلاتے ہیں بڑے فخر کے ساتھ
آپ انسان کو انساں نہیں ہونے دیتے
خود نمائی میں کچھ اس طرح گرفتار ہیں ہم
اور لوگوں کو نمایاں نہیں ہونے دیتے
عقل کو شوخیِ باطل میں پھنسانے والے
قلب کو صاحب ایماں نہیں ہونے دیتے
غم سے نسبت ہے جنہیں ضبط الم کرتے ہیں
اشک کو زینت داماں نہیں ہونے دیتے
روح افکار کو معیار عطا کرتے ہیں
ہم خیالات کو عریاں نہیں ہونے دیتے
چند لمحے وہ مرے سامنے رہ کر ابرارؔ
چشم بیتاب کو حیراں نہیں ہونے دیتے
٭٭٭