ہمیشہ کی طرح نیا شمارہ نئی سہ ماہی کی پہلی تاریخ کو ہی آن لائن کیا جا رہا ہے۔ میرا طریقہ یہ ہے کہ تخلیقات کو ایک جگہ جمع کرتا جاتا ہوں، پھر جس سہ ماہی کا شمارہ ہو، اس کے پچھلے ماہ کی پندرہ تاریخ کے آس پاس میں اپنی لائبریری کا کام ختم کر کے نیا شمارے کی نئی فائل کھول لیتا ہوں۔ اس بار جب ایک ضخیم کام، معارف القرآن کی تدوین مکمل ہوئی تو اس بار اگرچہ بارہ جون کی ہی تاریخ تھی، مگر میں نے طے کیا کہ ’سَمت‘ کا کام شروع کر ہی لیا جائے۔جب میں نے اس مقصد سے نئی فائل شروع کی، تو اس وقت اس بات کی خوشی تھی کہ اس بار یاد رفتگاں کا گوشہ خالی ہی ہو گا، اور شاید شمارے کی ضخامت دو سو صفحات تک ہی سمٹ جائے۔ لیکن پھر ہمارے کرم فرما ثناء اللہ ظہیرؔ کے انتقال کی خبر ملی اور پھران کی یاد میں ہی ایک گوشے کا خیال آیا، اور پھر۔۔۔
پھر ایک دھماکا ہوا، ۱۵ جون کو ہی نارنگ صاحب کی سناؤنی آ گئی۔ ان کی یاد میں گوشے کی ترتیب شروع کی تو بہت کچھ مواد ان کی مخالفت میں ملا۔ ایک زمانے میں عمران شاہد بھنڈر اور حیدر قریشی نے ان کے خلاف مہم چلائی تھی اور سرقے کی تہمت لگا رکھی تھی۔ ان الزامات سے قطع نظر، اگر ان کا ساختیات پر کام کو نظر انداز بھی کر دیا جائے، تب بھی ما بعد جدیدیت پر ان کے تنقیدی مضامین اور تدوین کی ہوئی کتابیں ان کو یاد رکھنے کے لئے کافی ہوں گی، میرا ایسا ماننا ہے۔
اور اب جب شمارہ مکمل ہونے ہی والا تھا کہ ابرار کرتپوری کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی۔ ابرار صاحب کی شہرت اگرچہ ان کے عقیدتی کلام (حمد و نعت) کے باعث تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر ’ریختہ‘ جیسی سائٹ پر بھی صرف چار غزلیں اور کچھ بچوں کی نظمیں ہی مل سکیں۔ آخر ان کی کتاب ’مدحت‘ سے، جو صرف غالب کی زمین میں نعتوں پر مشتمل ہے، ایک نعت ٹائپ کی اور اسے ہی عقیدت کے گوشے کی زینت بنایا گیا ہے۔
اکثر احباب کہتے رہتے ہیں کہ میں اپنے جریدے میں اپنی تخلیقات بہت کم شامل کرتا ہوں۔ کم از کم اکیسویں صدی میں کچھ ایسا جمود طاری رہا ہے کہ تین چار سال میں ایک آدھ آدھی ادھوری غزل ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک غزل اس بار شامل کر رہا ہوں محض ان احباب کی فرمائش پوری کرنے کے لئے۔ امید ہے یہ شمارہ بھی، اس شمولیت کے با وصف یا با وجود آپ کو پسند آئے گا۔
اپنی آراء سے ضرور نوازئیے۔
ا۔ ع۔