ناول کی سنجیدہ قرأت میرے خیال میں ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ناقد ہو یا عام قاری، کسی بھی ناول کی قرأت کے دوران زیر مطالعہ ناول کو پڑھنے اور سمجھنے کا ایک نظام ذہن میں ترتیب پاتا چلتا ہے۔ یہ ایک لا شعوری عمل ہے جو ہر ناول کے اپنے متن کی ساخت اور اسلوب کی وجہ سے عمل میں آتا ہے۔ ایک ناول کو پڑھنے کے دوران پیدا ہوئے نظام کو دوسرے ناول کی قرأت کا نظام نہیں بنایا جا سکتا۔ ناول ’اس نے کہا تھا‘ کی قرأت نے یہ نیا تجربہ اور احساس اور بھی گہرا کر دیا جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا۔
ایک بار پڑھنے کے بعد ایک طویل وقفہ لے کر اسے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ پہلی قرأت میں ناول کے موضوع، کرداروں کی تشکیل اور کرداروں کے عمل میں ناول کے موضوع کی مرکزیت زیر نظر رہی۔ دوسری قرأت میں ناول کے متن کی ساخت سے مکالمہ رہا جومسخ شدہ اور بکھری ہئیت میں مسلسل جاری رہا۔ تیسری قرأت کے بعد لگا کہ ناول پر کچھ لکھا جا سکتا ہے، کیوں کہ ایک بات یہاں صاف تھی کہ اس کو سمجھنے کے لیے وقت چاہیے اور وہ اس لیے نہیں کہ موضوع، فارم سے کچھ رابطہ مشکل معلوم ہوا ہو، بات یہ رہی کہ ناول اپنے اسلوب اور بیانیہ میں تجربہ اس آزادی کے ساتھ کرتا ہے کہ پڑھتے وقت بیان کنندہ، متن اور اسلوب سے رابطہ کی نوعیت 3-Dimensional رہی جو ایک پیچیدہ عمل بن کر اس مضمون کو تحریر کرنے کا سبب بنی۔
ناول اپنے آپ میں ایک نئی دنیا کا استعارہ ہوتا ہے۔ یہ نئی دنیا ہماری اور آپ کی دنیا سے الگ نہیں ہوتی بلکہ ہماری اور آپ کی دنیا کے جز و ساخت اور اس کی بنت کا مصنف کی ذہن میں ایک مخصوص عکس ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ہوتا یہ ہے کہ اس دنیا کے بہت سے dimensions ہمارے روبرو ہوتے ہوئے بھی ہمارے اپنے ذہن کے اس حصے میں نہیں پہنچ پاتے جہاں ہم چیزوں کا تقابلی موازنہ کرتے ہیں۔ یہیں پر ناول تحریر ہوتا ہے اور تب ہمیں ناول کے مطالعہ سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہو سکتا ہے، یا یہ کہ ؛ یہ وہ پوشیدہ عناصر ہیں جو ہماری دنیا کا حصہ ہے اور اجتماعی شعور کا بھی۔ اس بنا پر ناول فکشن کی کشش پیدا کرنے کا دعویٰ پیش کرتا ہے، جب یہ کشش اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ ناول کی دنیا، ہماری دنیا کے تصور میں اضافہ کرتی ہے تو ناول کو ایک کامیاب ناول کی اصطلاح کی سرحد میں رکھا جا سکتا ہے۔
’اس نے کہا تھا‘ بھی ایک ایسا ہی ناول ہے جو اپنے موضوع اور موضوع سے منسلک فکر کی مختلف جہتوں سے مکالمہ کرتے ہوئے ناول کی دنیا تعمیر کرتا ہے۔ اس دنیا میں افسانہ ہے، کردار ہیں۔ ہر کردار کی اپنی مخصوص ذہنی نشو و نما ہے۔ متن میں نہاں فکر، موضوع کا تسلسل و تنوع ہی ناول کے مختلف حصوں میں جوڑ کا کام کرتا ہے۔ ظاہر طور پر یہ ناول مختلف قسم کے افسانوی بیانات کی کڑیوں کا غیر سلسلے وار کولاژ ہے جو بہت کچھ ناول کے ایک نئے فارم ’افسانوں میں ناول‘ (Novel۔ In۔ Stories) سے قربت رکھتا ہے۔ یہاں اگر کچھ مستقل اور مسلسل ہے تو وہ ہے ناول کی تھیم اور مرکزی خیال۔ اس لیے جس قاری کو پلاٹ اور تسلسل سے مراد ایک order کی ہے تو اسے اس ناول سے زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے۔ پہلے سے رائج ناول کے کسی بھی تصور یا طے پائے ہوئے کسی بھی ناولاتی اقدار کو پرے رکھتے ہوئے ہی اس ناول کا مطالعہ غیر جانب دار طریقہ سے ہو سکتا ہے۔
اشعر نجمی صاحب کے پہلے ناول ’اس نے کہا تھا ‘ کے مطالعے کے بعد جب میں نے یہ تبصرہ لکھنا شروع کیا تھا تو مجھے یہ احساس ہوا کہ اس ناول پر کچھ لکھنے سے پہلے اس ناول کو کم سے کم تین بار اور پڑھنا چاہیے، چند سطریں لکھنے کے بعد جب دوسری دفعہ پڑھ کر ختم کیا تو پہلے لکھے گئے چند پیرا گراف میں بہت ساری تبدیلیاں کرنی پڑیں۔ اس سبب میں نے سوچا کہ اس ناول سے تھوڑی دوری بنا لی جائے اور چند ہفتوں کے وقفے کے بعد میں نے پھر اس پر لکھنا شروع کیا، اس بار تیسری قرأت کے وقت میں اپنے لکھے کا موازنہ ناول کی پوری فضا سے کرتا رہا اور اپنے ذہن پر پھیلے تاثر کو لفظوں کے قریب لانے کی کوشش کرتا رہا۔ یہ جو تبصرہ بن پڑا ہے وہ اسی پوری جد و جہد کا نتیجہ ہے۔
ناول کا قرطاس ایک ایسے فلک پر پھیلا ہوا ہے جہاں سماج کی بے رخی کے سبب اپنی ذات کے نکارے جانے کے بعد تمام کردار اپنی انا اور اپنے وجود کو اس خلا میں تلاش کرتے ہیں جو اس طرح سے سنسان ہے کہ وہاں روایات، رسومات، سماج کی وہ اخلاقی جکڑ بندی جو اس ناول کے سوالوں کے گھیرے میں بھی ہے، کی کوئی دخل اندازی نہیں ہیں۔ یہ خلا ہی اس ناول کی کائنات ہے جو ناول نگار نے اپنے کرداروں کو Scan کرتے ہوئے رچی ہے۔ ان کرداروں کو اسکین کرتے وقت، میرے خیال میں، ناول نگار کو فطری طور پر وہ مخصوص طرز بیان اور متن کی ساخت حاصل ہو گئی ہے جس کو بوتے پر اس ناول کا بیانیہ ناول کے موضوع سے ہم آہنگ ہونے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔
اس اسکین کے طریقۂ کار کو سمجھنے کے لیے ناول کی شروعات میں افتخار نسیم کی نظم ’وسط عمر کا بحران‘ کی ان سطروں پر غور کریں:
یہ دل ترازو ہے
جس کے پلڑے بس ایک جگہ پر روکے ہوئے ہیں
میں سارے پچھلے دنوں کی باتوں کو جانتا ہوں
میں آنے والے دنوں سے واقف
کہ میری چشم جہان دیدہ میں کوئی حیرانی اب نہیں
کوئی بھی کردار تجسس، حیرانی، نفرت اور خوف کے اثر سے نہیں پیدا ہوا ہے بلکہ اس بحران سے پیدا ہوا ہے جو موضوع سے وابستہ سنجیدہ فکر اور مشاہدے کے بعد اندرون ذات اور ذہن میں بنے abstract نشانوں کے سلسلے وار طریقے سے ترتیب پاتا ہے۔ دیوالی کی رات میں اس ناول کا ایک کردار موت کے اندھیرے میں داخل کر جاتا ہے پر یہ اندھیرا زیادہ دیر تک ناول کی دنیا میں بنا نہیں رہتا۔ ایک بدن کی موت تو اس اندھیرے میں کہیں پیچھے چھوٹ جاتی ہے۔ روشن ذہن اور روح کی آزاد پرواز کے بعد یہ ناول ایک ایسے چمکدار اور روشن زمیں سے ہمیں روشناس کرواتا ہے جو عام طور ہمارے اخلاقی جکڑ بندیوں میں قید شعور کو سمجھ نہیں آتی اور اگر آتی بھی ہے تو وہ چشم پوشی اختیار کر لیتا ہے۔
اظہار کرنا اپنی روداد میں مبتلا ہونا اس ناول کے کرداروں کا اہم مقصد نہیں ہے، یہاں وہ جو کچھ بولتے ہیں بتاتے ہیں وہ محض ایک بیان نہیں ہے۔ بار بار چولا بدلتے راوی کی پرواز واحد متکلم اور غائب راوی یا ہمہ بین راوی کے بیچ مسلسل جاری رہتی ہے، بیانیہ پر زور احساسات کی Truth Value کے ذریعے اتنا نہیں ہے جتنا خودی (Self) کی صدا کے تلفظ کو باب در باب درست کرنے میں ہے۔ ناول کے کرداروں کی زبان کرداروں کے لیے صرف اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرنے کا ذریعہ بھر نہیں ہے اور نہ راوی ان کرداروں کی مدت سے کوئی تجربہ کر رہا ہے۔ زبان اور اس کے بولنے اور پڑھنے والوں کے بیچ کوئی دوری اور خلا پید انہیں ہوتی ہے، جہاں متن کے معنی اور راوی کی خود مختاری کے درمیان کسی طرح کا کوئی تصادم نہیں ہے، ایک دوسرے کو اپنے قبضے میں لینے کی کوئی حسرت نہیں ہے۔ راوی اور کردار زبان سے ہم آہنگ، ہم کلام شخصیتیں ہیں۔ زبان اور بیان کی اچھال مارتی لہریں ہیں۔ اپنے شک و شبہ، اپنے اندر کی غیر یقینی، اپنے ادھورے پن کے ساتھ وہ پوری طرح ہمارے ساتھ، ہمارے سامنے برہنہ ہے۔
اس ناول کے کرداروں کا زندگی کے اور اپنے اعتراف سے جو تعلق ہے وہ اتنا بکھرا ہوا ہے کہ اسے کسی بھی طرح ایک ساتھ ایک ہی نقطۂ نظر سے نہیں پڑھا جا سکتا ہے۔ اس بکھراؤ کی ایک اہم وجہ ان کرداروں کا LGBT طبقے سے تعلق کے اس پس منظر میں ہے جہاں سماج کے حاشیہ سے بھی پرے ایک ایسے اسپیس میں اپنی وجود کے معنی حاصل کرنے کی کوشش ہے، جسمانی، نفسیاتی گتھیوں میں مبتلا جد و جہد کے ساتھ انھیں سماج میں اپنے سے مطلق حقوق اور اقتدار کا مطالبہ کرنا ہوتا ہے۔ معاشرے اور کردار کے بیچ جو تصادم ہے وہ اس ناول کے بیانیہ کی ایک اہم طاقت ہے۔ یہ تصادم جو ہے، وہ ایک تو معاشرے کا ان لوگوں کو نہ سمجھ پانے سے پیدا ہوا ہے، دوسرے یہ کہ ان کرداروں کی اپنی دنیا میں پیش آنے والی دشواریاں ہیں جو ایک طرف تو ہر انسان کی زندگی میں بننے والے رشتوں سے پیدا ہوتی ہیں اور وہیں دوسری طرف ان رشتوں میں ہم جنسیت کی مخصوص نفسیات کے چلتے پیدا ہونے والی چنوتیوں سے نئی پیچیدگیاں سامنے پیش آتی ہیں۔
یہ کردار کسی بھی طرح کی نئی اور حیران کرنے والے عمل کے پیروکار نہیں ہیں پر چونکہ سماج اب تک اس پورے پس منظر میں معاملے کو دبائے ہوئے ہے اور شترمرغ کی طرح آنکھ بند کیے ہوئے ہے، اس لیے ان کرداروں کے خیالات اور ذہنی تبصرے، ان کرداروں سے معاملہ کرنے والے دیگر کرداروں اور خاص کر کے ناول کی دنیا کو اپنے معاشرے سمیت ایک کوفت کی کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
اس رویہ کے چلتے کرداروں کے اندرون میں نئی نئی پیچیدگیاں پیش آتی ہیں جو ان کے اپنے رد عمل کے سبب تصادم کی بنیاد بنتی ہے۔ بحران کے اس طوفان میں چھوٹی چھوٹی پر اہم یادوں کے بادل، جن کے اندر مختلف کرداروں سے وابستہ زندگیاں اپنے اپنے ذہنی انتشار، آسودگی، سوالات، خوشیوں اور مایوسیوں کا عرق لیے ہوئے ہے، ناول کے مہا بیانیہ کے تیزی سے گھومتی ہوئی ہواؤں میں گول گول چکراتے ہوئے ناول کے ساحل پر کھڑے قاری کے اوپر برستی ہیں اور مطالعے میں قرأت کو مکمل کرتی ہیں۔ باب در باب قاری سفر میں رہتا ہے اور ناول نگار ہر زاویے سے مختلف افسانوں کو ناول کے قرطاس میں ٹانکتا چلتا ہے۔ LGBT کرداروں کی دنیا میں عشق، حسد، غم، غصے کے مختلف اظہار کے دھاروں میں قاری نئے مطلوب حاصل کرتا ہے۔ یہاں ہمیں جنسیت کی عام اور محدود سمجھ کی اپنی کمی پر نہ صرف حیرت ہوتی ہے بلکہ جنسیت کی مختلف جہات کی تفہیم کے نئے زاویے بھی نظر آتے ہیں۔
’’اس لمس میں تشدد، انا، عزت نفسی خود پسندی اور محبت کچھ بھی ہو سکتی ہے جو سامنے والے کے ڈی کوڈ کرنے کی صلاحیت منحصر ہے۔‘‘ (صفحہ: 32)
اس ناول کے کردار زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنی زندگی اور اپنے عمل میں بھی الگ تو ہیں ہی، ان کی نفسیاتی الجھنیں، ان کی زندگی میں آنے والی چنوتیاںں اور عشق محبت کے احساسات بھی جدا جدا ہیں۔
’’چمکیلے دانت والے آدمی نے ایک چھوٹے سے شہر کے پاس چھوٹے سے ہوٹل میں کہا تھا ’جانتے ہو میں بھی دو سال پہلے ممبئی میں تھا، کیا واقعی تھا میں؟‘ پھر بہت ساری بکواس کرنے اور تین پیگ حلق سے نیچے انڈیلنے کے بعد وہ بولا ’میرا ریٹرن ٹکٹ ہو چکا تھا، آخری کچھ دن بچے تھے، تب میں اس سے ملا تھا ۔۔۔۔ اس نے ایک دنیا دیکھ لی تھی، چھوٹی چھوٹی امیدیں اور بڑی بڑی سچائیاں دیکھتا رہا۔‘‘ (ص: 23)
’’اگلی صبح لڑکا مرغ کی آواز پر بیدار نہیں ہوا۔ چڑیوں کی آواز پر بھی نہیں جاگا۔ کوتوالی کے گھنٹے بجانے پر ہی آنکھیں کھولیں۔ وہ چھت پر لپکتا ہوا آیا۔ آنگن والا لڑکا اپنے معمول کی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔‘‘ (ص: 45)
’’کیا سچ مچ میری ممیاں پاپ والی زندگی جی رہی ہیں؟ کیا وہ سچ مچ جہنم میں جائیں گی؟ میری دونوں ممی اتنی اچھی اور پیاری ہیں کہ انھیں تکلف ہو اس خیال سے ہی میری آنکھیں بھر آتی ہیں۔‘‘(ص: 102)
ناول میں بیانیہ ہمیشہ Transitive Mode میں اس طرح نہاں ہے کہ مختلف شکلوں اور اظہار و بیان کے فارم سے، الگ الگ نظر یوں میں، کرداروں کے عملی Execution میں، کرداروں کی زندگیاں تشکیل پاتی ہے۔ مثال کے طور پر خود کشی کرنے والا سائکولوجسٹ کی زندگی خلا میں اپنے رموز کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہے، اس خلا سے پورے ناول کا ڈھانچہ بنتا چلا جاتا ہے جو کبھی سامنے ہوتا ہے اور کبھی پس پشت کار فرما رہتا ہے۔ اس خلا میں فرد کا اپنی شخصیت کو لے کر سماج کے ’عجیب‘، weird رد عمل اور نظر انداز کر دینے والے رویہ سے پنپتی نا امیدی نظر آتی ہے۔ پورے ناول کی فضا میں سے گذرتے ہوئے مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ناول نگار کا ذہن تخلیق کے دوران Catharsis کے فضا میں اپنا کام کر رہا تھا جہاں ذہنی اور تخلیقی دباؤ سے نجات پانے کی چاہ میں متن کی تشکیل ممکن ہوتی ہے۔ اس فضا میں تخلیق کار اپنے شدید احساسات، رد عمل کو فنی سطح پر لے جا کر، تخلیقی اور فن کی آمیزش کے معرفت پیش کرتا ہے۔ اس عمل سے وہ کسی ذہنی کشمکش سے دور ہونے یا neutral پلیٹ فارم پر رہتے ہوئے ایک طرح کا قلبی آرام محسوس کرتا ہے۔
اگر آپ سوسائٹی کے واچ میں والی سوچ رکھتے ہیں تو اس ناول میں پیش آنے والے لوگ در انداز معلوم ہوں گے جو آپ کے منجمد سکون کو درہم برہم کر سکتے ہیں، لیکن اگر آپ اپنے گھر سے نکل کر باہر چند قدم بڑھا کر اس ناول کی قرأت کرتے ہے تو ممکن ہے آپ کو ان کرداروں کے عمل میں Welcoming of new light کا مثبت امکان ہو۔ یہ تجربہ ہی اس ناول کا Axis ہے جس کے چارو اور ناول کی دنیا گھومتی ہے۔ بیان کی زمیں اور بیان کے زماں کے بیچ کا تسلسل اس ناول کے بیانیہ کی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی زماں و مکاں کا مکمل حصار یہاں اس کی بنیاد پر کارفرما ہے۔ اگر اس ناول کے بیانیہ کی بنیاد کی تلاش اگر کہیں کرنی چاہیے تو وہ ہمیں اس ناول کی ریختہ، بے ساختہ کھردری ٹوٹی پھوٹی بنت میں تلاشنی چاہیے، جہاں Fragmented حیاتی ٹکڑے نفسیاتی خود کلامیوں کے بیچ، یادوں کے بچ نقش کر دیے گئے ہیں۔ اس سمت میں مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’میں ایک جگہ پر ہوتے ہوئے بھی بہت سی جگہوں پر ہوں۔ کسی اور کی یادوں میں بھی، خود کی یاد داشت میں بھی۔ اس طرح بہت سارے وقتوں کو ایک ساتھ دیکھ پانے میں قادر ہوں۔‘‘(صفحہ: 61)
’’یہ پورا تجربہ آپ کو ایک سفر کی طرح محسوس ہوتا ہے، اس میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ ہم کہیں پھنس گئے ہوں یا کسی نے ہمیں پکڑ لیا ہو۔ اس تجربہ سے گذرتے ہوئے ہم اپنی گزاری ہوئی زندگی کو دوبارہ جینا شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن ترتیب وار نہیں، بلکہ آگے پیچھے ۔۔۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ کچھ لوگ دوسروں کی زندگی بھی اسی اسٹیج میں جینا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ (صفحہ: 37)
اگر آپ اس ناول کے پہلے دو باب کا غور سے مطالعہ کرتے ہوئے اور متن کو سمجھنے کی اب تک آزمائے ہوئے طریقوں سے پرے جا کر اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو ان ابواب کے بعد ناول یوں معلوم ہو گا کہ سورج کی کرنیں ایک ہی مرکز سے مختلف سمت میں چلی جا رہی ہیں۔ یہ ناول پیچیدہ گرہ بھی ہیں اور قرینے سے گھڑی کی ہوئی خوبصورت چادر بھی ہے۔ گرہ اس لیے کہ آپ کو ایک ساتھ الگ الگ زندگیوں میں آنے والے نشیب و فراز کی گتھیوں کو سمجھتے ہوئے انھیں اپنے ذہن میں سلجھاتے چلنا ہوتا ہے اور اکثر آپ سمجھ نہیں پاتے کہ در اصل آپ کے اپنے ذہن میں ان تمام زندگیوں نے کیا مقام حاصل کر لیا ہے۔
خوبصورت چادر اس لیے کہ اس چادر کا Texture اور Design چادر کے ہر دھاگے اور کونے میں رنگا رنگ ہے اور اس کی تہیں اپنے تخیل کو سمٹے ہوئے ایک کے اوپر ایک اس طرح بیٹھا دی گئی ہیں کہ کسی بھی زاویے یا سمت سے دیکھنے پر کوئی غیر متناسب تہہ نظر نہ آئے گی۔
ناول کی تعریف اگر ناول کے متن سے برآمد ہو جائے تو یہ ایک اچھی بات ہے:
’’میں سڑک ہی تو ہوں؛ بے غرض غیر جانب اور بے نیاز۔ مگر میرا آغاز ہے اور میں تمھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میرا سفر کب اور کیسے شروع ہوا۔ مجھے ہم سفر کی بھی ضرورت ہے لیکن میری کوئی منزل نہیں، اس لیے تم مجھے آخر تک برداشت نہیں کر سکتے کیوں کہ میرا کوئی آخر ہی نہیں ہے۔ اس لیے، جب تک ہم دونوں کی کہانی ختم نہ ہو جائے میرے ساتھ چلتے رہنا۔‘‘ (ص: 60)
ناول اپنے کو تجزیاتی بیانیہ کی سڑک پر ہی جیتا ہے اور یہی پر ہی کردار نظر آتے ہیں جو بیانیہ کے الگ الگ چور ستوں پر اپنے اپنے عمل سے مڑ جاتے ہیں۔ قاری کسی کردار کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے اور ہو سکتا ہے کہ کوئی دوسرا کردار آپ کو دکھائی دینے لگے، اگر آپ بہادر قاری ہیں تو اس کے پیچھے پیچھے بھی چلنے لگیں گے، آپ میں اتنی گھنی نثر پڑھنے کا صبر نہیں ہے تو آپ ان سڑکوں پر گمراہی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔
میرے خیال میں ناول ایک ایسی کمزوری کا شکار ہے جو ناول کی قرأت سے ماخذ تفہیم کو پا لینے پر ہونے والے فطری لطف سے محظوظ ہونے کے اثر کو کہیں نہ کہیں ماند کر دیتی ہے۔
’’ایک بات اور ۔۔۔ میں کہانی سنا تو رہا ہوں لیکن اس پر میرا مالکانہ حق نہیں ہے، یہ تمھاری بھی اتنی ہے جتنی میری ہے۔ میرے دماغ میں سب کچھ گڈ مڈ ہو چکا ہے، کب کون تھا، کب کون آیا، کب میں تنہا تھا، مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں۔ میرے لیے یہ تصور کرنا ہی نا ممکن ہے کہ کیا ایسا وقت بھی تھا جب کوئی نہیں تھا اس وقت کیا تھا۔‘‘ (ص: 61)
وجودی تصادم اور ذات اور معاشرے کی باہمی رگڑ سے بنے دائروں میں گول گول گھومتا ہوا متن (جو اپنے آپ میں نثر نگاری کا بہت حد تک کامیاب تجرباتی نمونہ بے شک ہے) ناول کے مختلف حصوں سے اخذ کیے گئے تاثر کو بھنور میں ڈال دیتا ہے، ہر نئے باب یا ہر نئے کردار سے معاملہ کرتے وقت مجھے اپنا ذہن بعض جگہوں پر خالی کورا محسوس ہوا، لیکن تعجب کی بات ہے کہ ناول کے متن میں بہت سے ایسے گوہر بھی برآمد ہو جاتے ہیں جو بہ حیثیت ایک انسان مجھ کو مختلف قسم کے جذبات سے ہم آہنگ بھی کرواتے ہیں، attitude میں ترمیم اور فکشن کے تصور کی سمجھ میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔
٭٭٭