سیانی بوا ۔۔۔ منو بھنڈاری/ اعجاز عبید

سب پر جیسے بوا جی کی شخصیت حاوی ہے۔ سارا کام وہاں اتنے منظم طریقے سے ہوتا جیسے سب مشینیں ہوں، جو قاعدے میں بندھیں، بنا رکاوٹ اپنا کام کئے چلی جا رہی ہیں۔ ٹھیک پانچ بجے سب لوگ اٹھ جاتے، پھر ایک گھنٹہ باہر میدان میں ٹہلنا ہوتا، اس کے بعد چائے دودھ ہوتا۔ اس کے بعد انو کو پڑھنے کے لیے بیٹھنا ہوتا۔ بھائی صاحب بھی تب تک اخبار اور آفس کی فائلیں وغیرہ دیکھا کرتے۔ نو بجتے ہی نہانا شروع ہوتا۔ جو کپڑے بوا جی نکال دیں، وہی پہننے ہوتے۔ پھر قاعدے سے آ کر میز پر بیٹھ جاؤ اور کھا کر کام پر جاؤ۔

سیانی بوا کا نام اصل میں ہی سیانی تھا یا ان کے سیانے پن کو دیکھ کر لوگ انہیں سیانی کہنے لگے تھے، سو یہ تو میں آج بھی نہیں جانتی، پر اتنا ضرور کہوں گی کہ جس نے بھی ان کا یہ نام رکھا، وہ نام رکھائی کا ماہر رہا ہوگا۔

بچپن میں ہی وہ وقت کی جتنی پابند تھیں، اپنا سامان سببھال کر رکھنے میں جتنی وضع دار تھیں، اور نظم کی جتنی قائل تھیں، اسے دیکھ کر متعجب ہو جانا پڑتا تھا۔ کہتے ہیں، جو پینسل وہ ایک بار خریدتی تھیں، وہ جب تک اتنی چھوٹی نہ ہو جاتی کہ ان کی پکڑ میں بھی نہ آئے تب تک اس سے کام لیتی تھیں۔ کیا مجال کہ وہ کبھی کھو جائے یا بار بار نوک ٹوٹ کر وقت سے پہلے ہی ختم ہو جائے۔ جو ربر انہوں نے چوتھی کلاس میں خریدی تھی، اسے نویں کلاس میں آ کر رخصت کیا۔

عمر کے ساتھ ساتھ ان کی ضرورت سے زیادہ عقل مندی بھی پختہ ہوتی گئی اور پھر بوا جی کی زبدگی میں اتنی گھل مل گئی کہ اسے الگ کر کے بوا جی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پتا جی ان کی ایک ایک بات ہم لوگوں کے سامنے مثال کے روپ میں رکھتے تھے جسے سن کر ہم سبھی خیر منایا کرتے تھے کہ بھگوان کرے، وہ سسرال میں ہی رہا کریں، ورنہ ہم جیسے است ویست اور غیر منظم افراد کا تو جینا ہی حرام ہو جائے گا۔

ایسے ہی سیانی بوا کے پاس جا کر پڑھنے کی تجویز جب میرے سامنے رکھی گئی تو تصور کیجئے، مجھ پر کیا بیتی ہوگی؟ میں نے صاف انکار کر دیا کہ مجھے آگے پڑھنا ہی نہیں۔ پر پتا جی میری پڑھائی کے بارے میں اتنے اٹل تھے کہ انہوں نے سمجھا کر، ڈانٹ کر اور پیار دلار سے مجھے راضی کر لیا۔ سچ میں، راضی تو کیا کر لیا، سمجھئے اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔ اور بھگوان کا نام پکارتے پکارتے میں نے گھر سے رخصت لی اور ان کے یہاں پہنچی۔

اس میں شک نہیں کہ بوا جی نے بڑی اچھی طرح سواگت کیا۔ مگر بچپن سے ان کی شہرت سنتے سنتے ان کا جو ظالم روپ ذہن پر چھایا ہوا تھا، اس میں ان کا وہ پیار کہاں گم ہو گیا، میں جان ہی نہ پائی۔ ہاں، بوا جی کے شوہر، جنہیں ہم بھائی صاحب کہتے تھے، بہت ہی اچھی عادتوں کے مالک تھے۔ اور سب سے اچھا کوئی گھر میں لگا تو ان کی پانچ سال کی بیٹی انو۔

گھر کے اس بے رس اور مشین کی سی پھرتی سے چلنے والے پروگرام میں اپنے آپ کو فٹ کرنے میں مجھے کتنا کشٹ اٹھانا پڑا اور کتنا اپنے کو کاٹنا چھانٹنا پڑا، یہ میں  ہی جانتی ہوں یا میرا خدا ہی جانتا ہے۔ سب سے زیادہ ترس آتا تھا انو پر۔ وہ اس ننھی سی عمر میں ہی بالغ ہو گئی تھی۔ نہ بچوں کا سا جوش، نہ کوئی چہچہاہٹ۔ ایک انجانے خوف سے وہ گھری رہتی تھی۔ گھر کے اس ماحول میں کچھ ہی دنوں میں میری بھی ساری ہنسی خوشی ماری گئی۔

یوں بوا جی کی گرہستھی جمے پندرہ سال بیچ چکے تھے، پر ان کے گھر کا سارا سامان دیکھ کر لگتا تھا، جیسے سب کچھ ابھی کل ہی خریدا ہو۔ گرہستھی جماتے وقت جو کانچ اور چینی کے برتن انہوں نے خریدے تھے، آج بھی جوں کے توں تھے، جب کہ روز ان کا استعمال  ہوتا تھا۔ وہ سارے برتن خود کھڑی ہو کر صاف کرواتی تھیں۔ کیا مجال، کوئی ایک چیز بھی توڑ دے۔ ایک بار نوکر نے صراحی توڑ دی تھی۔ اس چھوٹے سے چھوکرے کو انہوں نے اس قصور پر بہت پیٹا تھا۔ توڑ پھوڑ سے تو انہیں سخت نفرت تھی، یہ بات ان کی برداشت کے باہر تھی۔ انہیں بڑا غرور تھا اپنی اس منظم طبیعت کا۔ وہ اکثر بھائی صاحب سے کہا کرتی تھیں کہ اگر وہ اس گھر میں نہ آتیں تو نہ جانے بیچارے بھائی صاحب کا کیا حال ہوتا۔ میں دل ہی دل میں کہا کرتی تھی کہ اور چاہے جو بھی حال ہوتا، ہم سب مٹی کے پتلے نہ ہو کر کم سے کم انسان تو ضرور ہوئے ہوتے۔

بوا جی کی بہت زیادہ ہوشیاری  اور کھانے پینے کے اتنے کنٹرول کے باوجود انو کو بخار آنے لگا، ہر طرح کے علاج کرنے کرانے میں پورا مہینہ بیت گیا، پر اس کا بخار نہ اترا۔ بوا جی کی پریشانی کی حد نہیں رہی، انو ایک دم پیلی پڑ گئی۔ اسے دیکھ کر مجھے لگتا جیسے اس کے بدن میں بخار کے جراثیم نہیں، بوا جی کے خوف کے جراثیم دوڑ رہے ہیں، جو اسے کھاتے جا رہے ہیں۔ وہ ان سے اذیت پا کر بھی ڈر کے مارے کچھ کہہ تو سکتی نہیں تھی، بس سوکھتی جا رہی تھی۔

آخر ڈاکٹروں نے کئی قسم کے ٹیسٹس کے بعد رائے دی کہ بچی کو پہاڑ پر لے جایا جائے، اور جتنا زیادہ اسے خوش و خرم رکھا جا سکے، رکھا جائے۔ سب کچھ اس کی دل کی خواہش کے مطابق ہو، یہی اس کا درست علاج ہے۔ پر سچ پوچھو تو بچاری کا دل بچا ہی کہاں تھا؟ بھائی صاحب کے سامنے ایک مشکل مسئلہ تھا۔ بوا جی کے رہتے یہ ممکن ہی نہیں تھا، کیونکہ انجانے ہی ان کی مرضی کے سامنے کسی اور کی مرضی چل ہی نہیں سکتی تھی۔ بھائی صاحب نے شاید ساری بات ڈاکٹر کے سامنے رکھ دی، تبھی ڈاکٹر نے کہا کہ ماں کا ساتھ رہنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ بوا جی نے سنا تو بہت آنا کانی کی، پر ڈاکٹر کی رائے کے خلاف جانے کی ہمت وہ کر نہیں سکیں، اس لئے دل مار کر وہیں رہیں۔

زور شور سے انو کے پہاڑ پر جانے کی تیاری شروع ہوئی۔ پہلے دونوں کے کپڑوں کی لسٹ بنی، پھر جوتوں کی، موزوں کی، گرم کپڑوں کی، اوڑھنے بچھانے کے سامان کی، برتنوں کی۔ ہر چیز رکھتے وقت وہ بھائی صاحب کو سخت ہدایت کر دیتی تھیں کہ ایک بھی چیز کھونی نہیں چاہیئے ’’دیکھو، یہ فراک مت کھو دینا، سات روپئے میں نے اس کی سلائی دی ہے۔ یہ پیالے مت توڑ دینا، ورنہ پچاس روپئے کا سیٹ بگڑ جائے گا۔ اور ہاں، گلاس کو تم حقیر سمجھتے ہو، اس کی پرواہ ہی نہیں کروگے، پر دیکھو، یہ پندرہ برس سے میرے پاس ہے اور کہیں کھرونچ تک نہیں ہے، توڑ دیا تو ٹھیک نہ ہوگا۔‘‘

ہر چیز کی ہدایت کے بعد وہ انو پر آئیں۔ وہ کس دن، کس وقت کیا کھائے گی، اس کا مینو بنا دیا۔ کب کتنا گھومے گی، کیا پہنے گی، سب کچھ طے کر دیا۔ میں سوچ رہی تھی کہ یہاں بیٹھے بیٹھے ہی بوا جی نے انہیں ایسا باندھ دیا کہ بیچارے اپنی مرضی کے مطابق کیا خاک کریں گے! سب کہہ چکیں تو ذرا نرم لہجے میں بولیں، ’’کچھ اپنا بھی خیال رکھنا، دودھ پھل برابر کھاتے رہنا۔‘‘ ہدایتوں کی اتنی لمبی فہرست کے بعد بھی انہیں یہی کہنا پڑا، ’’جانے تم لوگ میرے بنا کیسے رہو گے، میرا تو دل ہی نہیں مانتا۔ ہاں، بغیر بھولے روز ایک چٹھی ڈال دینا۔‘‘

آخر وہ لمحہ بھی آ پہنچا، جب بھائی صاحب ایک نوکر اور انو کو لے کر چلے گئے۔ بوا جی نے انو کو خوب پیار کیا، روئیں بھی۔ ان کا رونا میرے لیے نئی بات تھی۔ اسی دن پہلی بار لگا کہ ان کی خوفناک سختی میں کہیں ملائمت بھی چھپی ہے۔ جب تک تانگہ دکھائی دیتا رہا، وہ اسے دیکھتی رہیں، اس کے بعد کچھ پل بے جان سی ہو کر پڑی رہیں۔ مگر دوسرے ہی دن سے گھر پھر ویسے ہی چلنے لگا۔

بھائی صاحب کا خط روز آتا تھا، جس میں انو کی طبیعت کی خبر ہوتی تھی۔ بوا جی بھی روز ایک خط لکھتی تھیں، جس میں اپنی ان زبانی ہدایتوں کو تحریری شکل میں دہرا دیا کرتی تھیں۔ خطوں کی تاریخ میں فرق ضرور ہوتا تھا، مگر بات شاید سب میں وہی رہتی تھی۔ میرے تو دل میں آتا کہ کہہ دوں، بوا جی روز خط لکھنے کی تکلیف کیوں کرتی ہیں؟ بھائی صاحب کو لکھ دیجیے کہ ایک خط گتے پر چپکا کر پلنگ کے سامنے لٹکا لیں اور روز سویرے اٹھ کر پڑھ لیا کریں۔ مگر اتنی ہمت تھی نہیں کہ یہ بات کہہ سکوں۔

قریب ایک مہینے کے بعد ایک دن بھائی صاحب کا خط نہیں آیا۔ دوسرے دن بھی نہیں آیا۔ بوا جی بڑی فکر مند ہو اٹھیں۔ اس دن ان کا من کسی بھی کام میں نہیں لگا۔ گھر کی کسی کسائی حالت کچھ ڈھیلی سی معلوم ہونے لگی۔ تیسرا دن بھی نکل گیا۔

اب تو بوا جی کی فکر کی حد نہیں رہی۔ رات کو وہ میرے کمرے میں آکر سوئیں، پر ساری رات برے برے خواب دیکھتی رہیں اور روتی رہیں۔ مانو ان کا سالوں سے جمی ہوئی نسوانیت پگھل پڑی تھی اور اپنی پوری رفتار کے ساتھ بہہ رہی تھی۔ وہ بار بار کہتیں کہ انہوں نے سپنے میں دیکھا ہے کہ بھائی صاحب اکیلے چلے آ رہے ہیں، انو ان کے ساتھ نہیں ہے اور ان کی آنکھیں بھی لال ہیں اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتیں۔ میں طرح طرح سے انہیں تسلی دیتی، مگر بس وہ تو کچھ سن نہیں رہی تھیں۔ میرا دل بھی کچھ انو کے خیال سے، کچھ بوا جی کی یہ حالت دیکھ کر بڑا دکھی ہو رہا تھا۔

تبھی نوکر نے بھائی صاحب کا خط لا کر دیا۔ بڑی بے چینی سے کانپتے ہاتھوں سے انہوں نے اسے کھولا اور پڑھنے لگیں۔ میں بھی سانس روک کر بوا جی کے منہ کی طرف دیکھ رہی تھی کہ یکایک خط پھینک کر سر پیٹتی بوا جی چیخ کر رو پڑیں۔ میں دھک رہ گئی۔ آگے کچھ سوچنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ آنکھوں کے آگے انو کی بھولی سی، ننھی سی تصویر گھوم گئی۔ تو کیا اب انو سچ مچ ہی اس دنیا میں نہیں ہے؟ یہ سب کیسے ہو گیا؟ میں نے ہمت کر کے بھائی صاحب کا خط اٹھایا۔ لکھا تھا

’’پیاری سیانی،

سمجھ میں نہیں آتا، کس طرح تمہیں یہ خط لکھوں۔ کس منہ سے تمہیں یہ دکھ بھری خبر سناؤں ۔ پھر بھی رانی، تم اس چوٹ کو سکون کے ساتھ سہ لینا۔ زندگی میں دکھ کی گھڑیاں بھی آتی ہیں، اور انہیں حوصلے کے ساتھ سہنے میں ہی زندگی کی عظمت ہے۔ یہ سارا عالمِ فانی ہے۔ جو بنا ہے وہ ایک نہ ایک دن مٹے گا ہی، شاید اس حق کو سامنے رکھ کر ہمارے یہاں کہا گیا ہے کہ سنسار کی مایا سے موہ رکھنا دکھ کا مول ہے۔ تمہاری اتنی ہدایتوں کے اور اپنی ساری احتیاط کے باوجود میں اسے نہیں بچا سکا، اسے اپنی بد قسمتی کے علاوہ اور کیا نام دوں۔ یہ سب کچھ میرے ہی ہاتھوں ہونا تھا ۔۔۔

آنسو بھری آنکھوں کے سبب الفاظ کی شکل مدھم ہوتی جا رہی تھی اور میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اپنی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا، جب میں اس ظرح کسی کی موت کی خبر پڑھ رہی تھی۔ میری آنکھیں لفظوں کو پار کرتی ہوئی جلدی جلدی خط کے آخری حصہ پر جا پڑیں۔

’ ۔۔۔دھیرج سے کام لینا میری رانی، جو کچھ ہوا اسے سہنے کی اور بھولنے کی کوشش کرنا۔ کل چار بجے تمہارے پچاس روپئے والے سیٹ کے دونوں پیالے میرے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئے۔ انو اچھی ہے۔ جلد ہی ہم لوگ واپسی کے لئے روانہ ہونے والے ہیں۔‘

ایک منٹ تک میں سن سی کھڑی رہی، سمجھ ہی نہیں پائی یہ کیا سے کیا ہو گیا۔ یہ دوسرا صدمہ تھا۔ جیوں ہی کچھ سمجھی، میں زور سے ہنس پڑی۔ کس طرح میں نے بوا جی کو حقیقت سے واقف کرایا، وہ سب میں کوشش کر کے بھی نہیں لکھ سکوں گی۔ پر حقیقت جان کر بوا جی بھی روتے روتے ہنس پڑیں۔ پانچ آنے کی صراحی توڑ دینے پر نوکر کو بری طرح پیٹنے والی بوا جی پچاس روپئے والے سیٹ کے پیالے ٹوٹ جانے پر بھی ہنس رہی تھیں، دل کھول کر ہنس رہی تھیں، جیسے انہیں جنت کا خزانہ مل گیا ہو۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے