غلام نبی اعوان:کیا کیا ہمیں یاد آیا ۔۔۔ تبصرہ نگار: ڈاکٹر غلام شبیر رانا

 

مقبول اکیڈمی، لاہور، سال اشاعت2016

نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو ارضِ پاکستان میں طلوعِ صبحِ بہاراں کی اُمید لیے اس مملکت خداداد کے کروڑوں باشندے اپنی سیاسی قیادت کی طرف دیکھ رہے تھے۔ برطانوی سامرج جب اس خطے سے بے نیل مرام لوٹا توپس نو آبادیاتی دور میں بھی سامراجی طاقتوں نے اپنی سابقہ نو آبادیوں کو اپنا تابع اور دست نگر بنانے کی سازشیں جاری رکھیں۔ اس عرصے میں قومی تشخص اور آزادی کے تحفظ کا احساس اجاگر کرنے میں پاکستانی ادیبوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی حق گوئی اور بے باکی سے عوام میں قومی مسائل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کی کوششیں ثمر بار ہوئیں۔ پس نو آبادیاتی دور میں زبان کو تخلیقِ ادب کے حوالے سے ایک نیا ڈسکورس ملا جس کی جاذبیت، ندرت اور تنوع کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ جہاں تک اصنافِ ادب کا تعلق ہے ان میں بھی میں موضوعات کا ایک دھنک رنگ منظر دیکھنے کو ملا۔ ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کی مسحور کن کیفیت ہے جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیکڑوں دورِ فلک دیکھنے کے بعد زیرک تخلیق کاروں کا مرحلۂ شوق ابھی طے نہیں ہو رہا۔ پس نو آبادیاتی دور میں تخلیقِ ادب کے معائر قاری کے فکر و خیال کی انجمن پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جہاں تک نو آبادیاتی دور کے مسموم ماحول کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ یہ محض نظری اعتبار سے جبر کا مسلط کردہ زمانہ نہ تھا بل کہ عملی طور پر پورا بر صغیر غلامی کی بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا تھا۔ برطانوی استعمار کی بھڑکائی ہوئی یہ ایسی آگ تھی جس کے شعلوں میں بر صغیر کے باشندوں کا امن و سکون اور عہدِ حکمرانی عنقا ہو گیا۔ غاصب غیر ملکی حکمرانوں اور مقامی باشندوں میں ایسی خلیج حائل تھی جس نے مقامی آبادی کے معیارِ زندگی کو پاتال میں پہنچا دیا۔ سامراجی طاقتوں کے استحصالی ہتھکنڈوں سے ان نو آبادیات کے باشندوں پر جو کوہِ ستم ٹوٹا اس کے بارے میں ژان پال سارتر (Jean- Paul Sartre,1905-1980 )نے لکھا ہے :

"The system exists, it functions; the inferal cycle of colonialism is a reality. But this reality is embodied in a million colonists, children and grand children of colonists, who have been shaped by colonialism and who think, speak and act according to the very principles of colonial system.” (1)

قیام پاکستان کے بعد اردو نثر میں خود نوشت کو جو مقبولیت نصیب ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ خود نوشت ایک ایسی تحریر ہے جو تخلیق کار کے قلب اور روح کے افق پر اُترنے والے سب موسموں کا احوال اپنے دامن میں سمو لیتی ہے۔ خود نوشت کی یک رنگی میں بھی صد رنگی دکھائی دیتی ہے۔ اس صنفِ نثر کی قوسِ قزح میں اخلاقی، تاریخی، موضوعاتی، مذہبی، دانش ورانہ، افسانوی ماحول کی مثالوں، ذاتی یادداشتوں کے حوالوں، شخصیات کے خاکوں سے سنواری، فلسفہ سے نکھاری، گواہی اور آگاہی کی مظہر، تنقیدی و تحقیقی، معلوماتی، نفسیاتی اور جمالیاتی خود نوشت کے رنگ اپنے خاص آہنگ اور چکا چوند کے ساتھ قارئین کی نگاہوں کو خیرہ کر رہے ہیں۔

خود نوشت اور یاد  ystem exists نگاری کو سحر نگاری سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک زیرک، فعال، مستعد اور باصلاحیت تخلیق کار جب اپنی تسبیحِ روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے ہوئے ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتا ہے تو اپنی عمر رفتہ کی روداد لکھتے وقت یاد کو فر یاد نہیں بننے دیتا بل کہ لوح دل پر نقش ماضی کی ہر بے داد پر داد طلب انداز میں روشنی ڈالتا ہے۔ وہ یادِ ماضی کو عذاب یا سراب نہیں بننے دیتا بل کہ اس گلزارِہست و بود میں عنبر فشاں سر سبز و شاداب بور لدے چھتنار اور نخل ثمر بار کے رُوپ میں پیش کرتا ہے۔ حساس تخلیق کار کے نہاں خانۂ دل اور انجمن خیال میں یادوں کی ضو فشانی عمر رفتہ کے نشیب و فراز کی مظہر کہانی بن جاتی ہے۔ سمے کے سم کے ثمر بھی عجیب ہوتے ہیں جو اپنی تمام تر تلخیوں کے باوجود ذہن پر انمٹ نقوش ثبت کرتے ہیں۔ یادِ ایام در اصل شمار صبح و شام کی ایسی میزان ہے جو مسموم ماحول سے توجہ ہٹا کر یادوں کے اس حسین گلدستے میں سجے ماضی کے گلستانوں میں کھلنے والے گل ہائے رنگ رنگ، تاریخ کے دبستانوں، سانحہ اور سوانح کے سنگ سنگ قاری کو مصنف کے تیز اور دبنگ اسلوب سے مسحور کرنے کا وسیلہ ہے۔ غلام نبی اعوان کی تصنیف ’’ کیا کیا ہمیں یاد آیا‘‘ قو می تاریخ کے احوال، تہذیب و تمدن کی زبوں حالی کے ملال آزادی کے بعد سیاست دانوں کی اقتدار کی رسہ کشی اور قیل و قال، معاشرتی زندگی کی جنگ و جدال، زندگی کی اقدار عالیہ، درخشاں روایات اور اخلاقیات کے زوال کا ایسا نوحہ ہے جس میں مصنف کا عجز و انکسار اور جاہ و جلال اوج کمال پر ہے۔ یادوں کا جو تخم مصنف نے نصف صدی قبل اپنی کِشتِ جاں میں بویا اس کے نمو پانے کے بعد جگر کا خون دے دے کر اسے پروان چڑھایا، اب وہ فلک بوس نخلِ تناور بن چکا ہے۔ یہ ایسا عنبر فشاں بُور لدا چھتنار ہے جس کی ہر شاخ، کونپل، شگوفہ، پھول، برگ اور ثمر ارضِ وطن کے مختلف ادوار کی مہک اور منظر نگاری سے معمور ہے۔ یادوں کے اس حسین شجر کا اہم وصف یہ ہے کہ جس جگہ سے کوئی ٹہنی ٹوٹتی ہے وہیں سے ایک نئی نرم و نازک شاخ پھوٹتی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ گلشنِ ہستی میں آلام روزگار کے مہیب بگولے اور طوفانِ حوادث اشجار کو نوخیز غنچوں، سدا بہار پھُولوں، رسیلے پھلوں، گھنیری چھاؤں اور طائرانِ خوش نوا کے آشیانوں سے محروم کر دیتے ہیں مگر یادوں کے اشجار سدا بہار ہوتے ہیں جو زندگی کی سحرسے لے کر آفتابِ زیست کے لبِ بام آ نے تک رہروانِ دشت وفا کو آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یادوں کے اِس شجر کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر مصنف نے قارئین کو اپنی زندگی کے معمولات، معاشرتی زندگی کے خدشات اور زندگی کی توقعات کے طویل سلسلے سے آگاہ کرنے کی سعی کی ہے۔

ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے غلام نبی اعوان نے آزادی کے بعد وطن عزیز کے حالات کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس کتاب میں ماضی کی یادوں کی ضو فشانیاں سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر کے روپ میں جلوہ گر ہیں جن کی تابانیاں اذہان کی تطہیر و تنویر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کے راز دِل کی دھڑکنوں اور زندگی کے ساز سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ ان کا جلال بھی خورشید جمال محبوب کے جلوؤں کا احوال بن جا تا ہے۔ مصنف نے اپنے منفرد اسلوب میں یادوں کو پیر تسمہ نہیں بننے دیا کہ ان سے چھٹکارا حاصل نہ کیا جا سکے بل کہ یا دوں کے خر من کو متاعِ زیست سمجھتے ہوئے ان کی نگہداشت اور پر ورش میں اُسی انہماک اور احتیاط کو ملحوظ رکھا گیا ہے جسے ایک مخلص، محنتی اور درد مند باغبان اپنی پھلواڑی میں کھلنے والے پھولوں کے لیے ناگزیر سمجھتا ہے۔ مصنف کی یادیں دھنک رنگ منظرنامہ پیش کرتی ہیں۔ کہیں ان میں سوز و ساز رومی ہے تو کہیں پیچ و تاب رازی، کہیں ان میں جذبۂ بے اختیار اور چاہت کا راز ہے تو کہیں رنج اور کرب کا انداز، بعض مقامات پر تمناؤں کی دھُوم ہے تو کہیں پر حسرتوں کا ہجوم۔ معاشرتی زندگی میں شقاوت آمیز نا انصافیوں، تضادات، بے اعتدالیوں، ہوس اور خود غرضی کے خلاف یہ ایک پیکار اور ضمیر کی للکار ہے جو جبر کے ایوانوں کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ مصنف نے اپنی زندگی کے اہم واقعات سے وابستہ منتشر یادوں کو اپنا بیش بہا اثاثہ تاریخ کی امانت سمجھتے ہوئے اس کتاب میں یک جا کر دیا ہے۔ تاریخ کی عدالت ان تمام واقعات کی جا نچ پر کھ کر کے ان کے بارے میں فیصلہ صادر کرے گی۔ مجھے یقین سے یہ فیصلہ مصنف کے حق میں ہو گا اور لوحِ جہاں پر مصنف کا دوام ثبت ہو جائے گا۔ مصنف کی شائستگی اور وسعتِ نظر کا کر شمہ دامنِ دل کھنچتا ہے۔ ان یادوں کے سر چشمے اور منابع پاکستان کی قومی تاریخ کے نشیب و فراز ہیں۔ ان میں سیاسی اور معاشرتی زندگی کے مد و جزر کے احوال کی نہایت خلوص اور درد مندی سے لفظی مر قع نگاری کی گئی ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت اور اقدار و روایات سے محبت مصنف کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے۔ وطن، اہلِ وطن اور انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت مصنف کی اس تصنیف کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے۔ عسکری، ادبی اور تدریسی شعبوں میں مصنف کی گراں قدر خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ مصنف کی تحریریں دیانت، حب الوطنی، شائستگی اور رجائیت کی امین ہیں۔ معاشرتی، سیاسی تہذیبی اور ثقافتی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریگ زار ہستی کی صحرا نوردی اور قلزم زیست کی غواصی کے لیے بڑی تپسیا اور جانفشانی کی احتیاج ہے۔ مصنف نے آزادی کے بعد پاکستانی قوم کے سیاسی اور معاشرتی ارتقا کے ساتھ ساتھ اس کے ذہنی سفر کو بھی موضوع بنایا ہے۔ مصنف کو اس بات کا قلق ہے کہ ہمارے سیاست دان ابھی ذہنی پختگی کے اس مقام تک رسائی حاصل نہیں کر سکے۔ جو ملی وقار، قو می استحکام اور خود انحصاری کے لیے نا گزیر ہے۔ مصنف نے سلطانیِ جمہور کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور آمریت کو ملک و قوم کے لیے بُرا شگون قرار دیا ہے مگراس جانب بھی متوجہ کیا ہے کہ قوم کو ان حقائق سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے کہ مفاد پرست سیاست دانوں نے ہمیشہ آمریت کی راہ ہموار کی ہے۔ سیا ست دانوں کی ہوس اقتدار اور باہمی رسہ کشی کو دیکھ کر غیر جمہوری قوتیں جمہوریت کی بساط لپیٹ دیتی ہیں۔

میجر غلام نبی اعوان نے اپنی یادوں کے پھول نچھاور کر کے وطن عزیز کے باشندوں کے اذہان کو معطر کر دیا ہے۔ مصنف نے تاریخ اور ادب کو ان تمام حقائق اور صداقتوں سے آگاہ کیا ہے جو ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو گئے تھے۔ اپنے منفرد اسلوب کے اعجاز سے مصنف نے نہایت جرأت مندانہ انداز میں ان حقائق کی گرہ کشائی کی ہے جن کے باعث آزادی کے بعد قوم سلطانی ٔ جمہور کے ثمرات سے محروم ہو گئی۔ مصنف نے جس تخلیقی بصیرت اور فنی مہارت سے اپنے خیالات کی ترتیب و تنظیم کی ہے، وہ انھیں منفرد اسلوب کے حامل تخلیق کار کا منصب عطا کرتی ہے۔ ایک محب وطن، حساس، معاملہ فہم، دُور اندیش اور جری تخلیق کا رکی حیثیت سے انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے۔ اپنے معمولات، عادات و اطوار اور قومی کردار کی یہ مرقع نگاری در اصل یاد نگاری کا ایسا حسین گلدستہ ہے جس سے قریۂ جاں معطر ہو جاتا ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں تخلیقِ فن کے بھیس میں کچھ لوگ شہرت اور نام وری کی جستجو میں لگ جا تے ہیں مگر میجر غلام نبی اعوان نے نہایت عجز و انکسار سے اپنی زندگی کے حالات کی حقیقی روداد پیش کی ہے۔ اپنے اسلوب، ڈسکورس اور حقائق کو حتمی شکل دینے میں انھوں نے انتھک جد جہد کی اور اسلوب کو ثمر دار بنایا۔ اس لیے یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان کی ثقہ رائے کے بعد عبارتِ مزید (post scriptum) یا کسی حاشیہ آرائی کی گنجائش نہیں رہتی۔ جدید دور میں صنف خود نوشت میں قارئین کی دلچسپی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ خود نوشت کے سوانح نگار کی ایسی بلند پایہ تصانیف کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ یہ ایسی وقیع تصنیف ہے جس میں کسی بے انصافی، غلط بیانی یا حاشیہ آرائی کا شائبہ نہیں پایا جاتا۔ یہ اسلوب اور ڈسکورس مشرقی روایات کا عصر حاضر سے انسلاک کرتا ہے۔ اسلام نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اپنے آباء و اجداد کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔ المیہ یہ ہوا کی اٹھارہویں صدی میں برطانیہ اورفرانس نے اپنی نو آبادیات میں من مانی کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہر شعبۂ زندگی میں پس ماندہ رکھنے کی دانستہ کوشش کی۔ (2)برطانوی سامراج کے خاتمے کے بعد پس نو آبادیاتی دور میں حریتِ فکر کے مجاہدوں نے حریتِ ضمیر سے جینے کی جو روش اپنائی اس نے پاکستانی قوم کو اقوام عالم کے صف میں معزز و مفتخر کر دیا۔

غلام نبی اعوان نے ہمیشہ آئین اور قانون کی بالادستی پر زور دیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ارضِ وطن میں قانون کی حکمرانی کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ ایک ممتاز دانش ور اور تاریخ کے مسلسل عمل پر یقین رکھنے والے مورخ کی حیثیت سے پاکستان کی زندگی کے نشیب و فراز پر غلام نبی اعوان کی گہری نظر ہے۔ اُنھوں نے اپنی اس خود نوشت میں ماضی کے متعدد اہم واقعات، سانحات اور ان کے پس پردہ کار فرما عوامل اور نادیدہ قوتوں کے کردار کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے بجائے غیر جمہوری قوتوں کے منفی، ملک دشمن اور قانون شکن اقدامات کے بارے میں اپنے تحفظات کا بر ملا اظہار کیا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان میں قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد قیادت کا خلا پُر نہ ہو سکا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد بونے اور بالشتیے خو دکو باون گزا ثابت کرنے پر تُل گئے۔ عقابوں کے نشیمن زاغ و زغن، بُوم و شپر اور کرگسوں کے تصرف میں آ گئے۔ آئین و قانون کو پس پشت ڈال کر جہلا رواقیت کے داعی بن بیٹھے اور من مانی کارروائیاں کر کے اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اجلاف و ارذال اور سفہا نے دکھی انسانیت پر مشقِ ستم جاری رکھی اور مظلوم طبقے کا جینا دشوار کر دیا۔ غلام نبی اعوان نے اپنی اس خود نوشت میں وقت کے اس سانحہ کا نہایت خلوص اور دردمندی سے الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے۔ ان کے اسلوب میں دروں بینی، خود آگاہی، ملی درد، دیانت داری، شائستگی، رجائیت اور حب الوطنی کو کلیدی مقام حاصل ہے۔ جاہل، قانون شکن، ابن الوقت اور کسی غدار ابن غدار کا سیاہ و سفید کا مالک بن جانا وقت کا ایسا لرزہ خیز سانحہ ہے جسے کوئی نام دینا ممکن نہیں۔ اس قماش کے بد اندیش مسخروں کی قانون شکنی کے باعث محکوم طبقے کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر، کلیاں شرر، بستیاں پُر خطر، عمریں مختصر اور آہیں بے اثر ہو کر رہ گئیں۔ گلستانِ وطن میں اس قسم کے بھوت، آدم خور، آ سیب اور مافوق الفطرت عناصر نے اندھیر مچائے رکھا۔ بعض اوقات یہ گمان گزرتا ہے کہ سوہنی دھرتی پر کسی آسیب یا عفریت کا سایہ منڈلا رہا ہے، جو وقفے وقفے سے آئین و قانون کی دھجیاں اُڑا کر قوم کو آمریت کے شکنجے میں کس دیتا ہے اور جس کے سامنے سب ضابطے بے وقعت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ژاک دریدا نے اپنی کتاب مذہب کے اقدامات میں شامل اپنے مضمون ’’ قانون کی قوت‘‘ (Force Of Law) میں لکھا ہے :

"Let us return to the thing itself–that is to say ,to the ghost; for this text tells a ghost story, a history of ghosts. We can more avoid ghost and ruin than we can elude the question of the rhetorical status o this textual event. To what figures does it turn for exposition, for its implosion? All the exemplary figures of the violence of law are singular metonymies, namely figures[figures sans figure]Let us take the example of police, eon of the rhetorical status o fthis index of a ghostly violence because it mixes foundation with preservation and becomes all more violent for this۔ They do not simply consist of policemen in uniform, occasionally helmeted, armed and organized in civil structure on a military model to whom the right to strike is refused, and so forth. By definition the police are present or represented everywhere there is force of law. They are present, sometimes invisible but always effective,  the right to strike is refused where there is preservation of social order.(3)

 

اپنی آٹھ وقیع تصانیف سے غلام نبی اعوان نے اردو ادب کی ثروت میں جو گراں قدر اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ غلام نبی اعوان کی درجِ ذیل تصانیف شائع ہو چکی ہیں جن کی علمی و ادبی حلقوں نے بہت پذیرائی کی:

آشوبِ شعر، بلوچستان رومانیت کے آئینے میں، اُڑان لفظوں کی، دریچہ، تنقیدی اشکال، BEYOND THE HORIZON، معافی چاہتا ہوں، جھومتے لفظ  اپنے منفرد اسلوب میں غلام نبی اعوان نے اس امر کو ملحوظ رکھا ہے کہ جہاں انسان کو اپنی انا اور خود داری کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے وہاں خلوص، دردمندی اور عجز و انکسار کا دامن بھی ہاتھ سے چھُوٹنے نہ پائے۔ اس خود نوشت کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھُل کر سامنے آتی ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے حق گوئی، بے باکی، حریتِ ضمیر، ایثار اورانسانی ہمدردی کو شعار بنایا، انھیں قوم اور معاشرے نے عزت اور وقار کے بلند منصب پر فائز کیا۔ علی گڑھ تحریک سے لے کر جدید دور تک ادیبوں نے ہر دور میں حریتِ فکر کا علم بلند رکھنے کی سعی کی ہے۔ غلام نبی اعوان بھی حریت فکر کے علم برداروں کے اسی قافلے میں شامل ہے جو مصلحت وقت سے مجبور ہو کر استبداد کے سامنے سپر انداز ہونے کے بجائے تیشۂ حرف سے فصیل جبر کو پاش پاش کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اس کا شمار ان یگانۂ روزگار ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے سدا اسوۂ شبیر کو پیشِ نظر رکھا۔ کتاب میں شامل مصنف کی یادوں کے مخزن کا جائزہ لینے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ خدمت خلق، ضعیفوں اور مفلسوں کے مصائب و آلام کی چارہ گری، قومی تعمیر و ترقی اور سلطانی ٔ جمہور کو مصنف نے اپنا مطمح نظر بنا رکھا ہے۔ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کے لیے اپنی ذات کو بڑے امتحان میں ڈالنا پڑتا ہے۔ ایک جری تخلیق کار کو اس راہ پر گامزن ہونے کے لیے بڑی تپسیا اور جانفشانی کرنا پڑتی ہے۔ کردار اور شخصیت کی تکمیل کے لیے اپنے لہو سے ہولی کھیلنے اور مصائب و آلام کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے تن پر جھیلنے کے لیے جس ولولے اور حوصلے کی احتیاج ہے غلام نبی اعوان کو اللہ کریم نے اس سے متمتع کیا ہے۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا اس کے نزدیک مناسب نہیں۔

اپنی تہذیب، ثقافت، تمدن، معاشرت اور  حلقوں نے بہت پز اقدار و روایات سے مصنف کا قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت ایک ایک لفظ سے ظاہر ہے۔ مصنف کا استدلال یہ ہے کہ انسان زندگی کی اقدار عالیہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اجتماعی زندگی کو اس طرح سنوار سکتا ہے کہ یہ دنیا جنت کا نمونہ بن سکتی ہے۔ قوم، ملت، سماج اور معاشرے کا پورا ڈھانچہ اقدار ہی کی اساس پر استوار ہے۔ یہ اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات قومی تشخص، ملی وقار بلند نصب العین اور عقائد کی پختگی کی علامت ہیں۔ اپنی تحریروں میں مصنف نے زندگی کے تلخ حقائق کو موضوع بنایا ہے۔ کتاب کے مندرجات میں مصنف کی گل افشانی ٔ گفتار، ندرت اور تنوع نے اسلوب کو انفرادیت کا حامل بنا نے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سوانح نگاری میں مصنف نے مدلل مداحی کے بجائے شخصیت کے عملی زندگی کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھا ہے۔

مصنف کا شمار حریت فکر و عمل کے ان مجاہدوں میں ہوتا ہے جنھوں نے مصلحت اندیشی، تذبذب، گومگو اور موقع پرستی کا کوئی داغ اپنے شفاف دامن پر کبھی نہیں لگنے دیا۔ غلام نبی اعوان نے فروغ علم و ادب اور پاکستان کی نئی نسل کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے زندگی وقف کر رکھی ہے۔ محاذِ جنگ پر عسکری خدمات ہوں یا جامعات میں تدریسی معاملات مصنف نے ہر جگہ پوری مستعدی سے خدمات انجام دی ہیں۔ وہ حقیقی معنوں میں ایسا خادم خلق ہے جوستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے روشنی کا سفر جاری رکھنا اپنا مقصدِ حیات سمجھتا ہے۔ ۔ انھوں نے اپنی زندگی کو محنت شاقہ سے سنوارا اور اس میں نکھار پیدا کیا۔ وہ تعلقات اور مراعات کی بیساکھیوں سے ہمیشہ بے نیاز رہے۔ ان کے احباب اور شاگرد ان کی علمی فضیلت، محنت، لگن۔ فرض شناسی اور تخلیقی فعالیت کے گرویدہ ہیں۔

غلام نبی اعوان کی تصنیف ’’کیا کیا ہمیں یاد آیا‘‘ قوسِ قزح کے رنگوں سے مزین ہے۔ ان میں تاریخ، جغرافیہ، شخصیات، ادبی نشستیں، سیاست، جمہوریت، آمریت، تدریس، تنقید، دفاعِ وطن اور انسانیت کے موضوعات اپنے اسلوب کے اعتبار سے بہت جامع اور دل کش ہیں۔ مصنف نے پاکستان کے پانچوں صوبوں کے مختلف شہروں میں مقیم ممتاز ادیبوں سے اپنی ملاقاتوں کی روداد نہایت خلوص سے زیبِ قرطاس کی ہے۔ مصنف کو سیر و سیاحت سے گہری دلچسپی ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان یادداشتوں میں ان تمام مقامات سے بھی قاری کو متعارف کرایا گیا ہے جہاں سے مصنف کا گزر ہوا۔ مصنف نے اپنے سفر کے دوران جن شہروں میں قیام کیا اور جن شخصیات سے ملاقات کی وہیں سے اپنی یاد داشتوں کے لیے مواد کشید کیا ہے۔ اگرچہ اس کتاب میں مصنف کی ملتان سے وابستہ یادوں کا غلبہ ہے مگر یہ یادیں بھی اس قدر دل آویز ہیں کہ کہیں بھی یکسانیت کا شائبہ نہیں ہوتا بل کہ ہر یاد کے ساتھ جہانِ دیگر والا معاملہ ہے۔ مصنف کے اسلوب کا جائزہ لینے سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ ذات کی تنہائی کے مسموم ماحول سے نجات حاصل کرنے میں خود نوشت ہمیشہ خضرِ راہ ثابت ہوتی ہے۔ ہر انسان کی زندگی کی ایک کہانی ہوتی ہے جس کا آغازتواس وقت ہوتا ہے جب وہ پہلی بار اس دنیا کو دیکھتا ہے۔ اس کے بعد تجربات اور مشاہدات کا غیر مختتم سلسلہ انسان کے دمِ آخریں تک جاری رہتا ہے۔ حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی تخلیق کار اپنی خود نوشت کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جس وقت تخلیق کار کی زندگی کی مکمل صورت پیش کرنے والی سطور لکھنے کے وقت آتا ہے قلم و قرطاس سے اس کا تعلق ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ خود نوشت کسی مصنف کی اپنے قارئین کے ساتھ ادھوری ملاقاتوں کے احوال کی ایسی مرقع نگاری ہے جس میں آخری لمحات کی متعدد اہم اور ضروری باتیں نا گفتہ رہ جاتی ہیں۔ غلام نبی اعوان کی یہ خود نوشت ابھی تشنۂ تکمیل ہے۔ یادوں کے اس حسین گُل دستے میں مزید گُل ہائے رنگ رنگ سجائے جا سکتے ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی مزید یادوں کو قارئین کی نذر کریں گے۔ ان کی زندگی کی یادیں مستقبل کے محقق کے لیے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کو سمجھنے میں بے حد معاون ثابت ہوں گی۔

آزادی کے بعد اس نو آ زاد مملکت کو جس سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا مصنف نے اس پر اپنی بے لاگ رائے دیتے ہوئے ان حقائق کی طرف متوجہ کیا ہے جن کے باعث عوام کو آمریت کے ستم برداشت کرنا پڑے۔ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے غلام نبی اعوان نے ان مسائل کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے جو قومی تعمیر و ترقی کی راہ میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو چکے ہیں۔ آمریت کے مسموم ماحول اور سیاست دانوں کی ہوسِ اقتدار کے موضوع پر ان کا قلم پُوری قوت اور شدت کے ساتھ رواں رہتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر عہد میں حریتِ فکر کے وار اور ضمیر کی للکار سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔

غلام نبی اعوان کی خودنوشت ’’کیا کیا ہمیں یاد آیا‘‘ دو سو چوبیس (224)پر مشتمل ہے۔ مقبول اکیڈمی لاہور کے زیر اہتمام یہ کتاب معیاری سفید کاغذ پر کمپیوٹر کمپوزنگ سے شائع ہوئی ہے۔ جلد بندی عمدہ

اور طباعت کا معیار بلند ہے۔ کئی رنگوں سے مزین سرِ ورق ممتاز مصور آغا نثار کے فن کا عمدہ نمونہ ہے۔ کتاب کی قیمت سات سو روپے مقرر کی گئی ہے۔

1 Jean Paul Sartre:  Colonialism and New colonialism, Translated by Azzedine Haddour, 1964, Page 17

2Edward Said: Orientalism, Penguin , London,1973, Page 76

3 Jacques Derrida: Acts Of Religion, Routledge, New York, Page 278.

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے