غزل۔۔۔ سعید الرحمن سعید

 

رسم و رواجِ شہرِ بتاں جانتا ہوں میں

پردے میں ہر لباس کے عریاں ہوا ہوں میں

 

ظاہر کی آنکھ سے نہ کوئی دیکھ پائے گا

تابانیوں کے بحر میں ڈوبا ہوا ہوں میں

 

ڈھونڈے مجھے تلاش جسے روشنی کی ہے

ظلمت میں مہر و ماہ کی صورت پڑا ہوں میں

 

اپنا وجود ڈھونڈتا پھرتا ہوں در بہ در

طوفانِ خود شناسی میں گم ہو گیا ہوں میں

 

گہرے سمندروں کی طرح خامشی میں گم

اپنی صدا کے سحر سے لب کھولتا ہوں میں

 

برفاب لمحے کر گئے پتھر مجھے سعید

جوشِ جنوں کی آنچ سے ہیرا بنا ہوں میں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے