آج برسوں بعد توڑا کس نے موجوں کا سکوت
آنسوؤں کی جھیل میں کنکر کہاں سے آ گیا
دور تک صحرا میں اب دِکھتا نہیں اک بھی شجر
پھر کوئی پتہ یہاں اڑ کر کہاں سے آ گیا
میں قد و قامت پہ اپنے کس قدر مسرور تھا
آئینے میں یہ مرا ہمسر کہاں سے آ گیا
یاں سے تو باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں تھا
اب فصیلِ ذات میں یہ در کہاں سے آ گیا
کیا کوئی رستہ بھی میرے ساتھ ہے محوِ سفر
دشت میں یہ میل کا پتھر کہاں سے آ گیا
یہ سلگتی سوچ یہ احساس کا دہکا الاؤ
پھر یہاں پر موم کا پیکر کہاں سے آ گیا
٭٭٭