پیغام آفاقی کا نام1980ء کے بعد کے ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے ان کا تعلق ریاستِ بہار کے سیوان ضلع سے تھا۔ اور وہ دہلی میں پولیس محکمے میں ایک افسر کی حیثیت سے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ملازمت کے علاوہ ان کو ادب سے بھی گہرا شغف تھا۔ پیغام آفاقی ان فنکاروں میں سے تھے جنہوں نے بیک وقت شاعری بھی کی اور فکشن بھی لکھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’درندہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’مافیا ‘‘بھی منظر عام پر آ چکا ہے اور اب تک ان کے دو ناول ’’مکان‘‘(1989ئ)اور ’’پلیتہ‘‘(2011ئ) میں شائع ہو ا۔ ان میں ’’مکان‘‘ کافی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ پیغام آفاقی کو اس ناول کی بدولت ادبی حلقہ میں ایک منفرد پہچان ملی۔
پیغام آفاقی کے ناولوں کے موضوعات شہری تناظر میں فروغ پانے والے غیر اخلاقی اقدار، بد عنوانیاں، سماجی برائیاں، اور سیاسی بے راہ روی وغیرہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں عورتوں کے مسائل کو، پولیس محکمہ سے وابستہ افراد کا جرم، بدعنوانی، رشوت خوری اور مافیاؤں کی غنڈہ گردی وغیرہ کو اپنی زندگی کے تلخ تجربات اور مشاہدات کے ذریعے اپنے ناول میں بیان کیا ہے۔ پیغام آفاقی کا پہلا ناول’ مکان ‘ 1989ء میں شائع ہوا جبکہ دوسرا ناول ’پلیتہ‘ 2011ء میں ایک لمبے عرصے کے بعد منظر عام پر آیا۔ انہوں نے شاعری بھی کی، ناول بھی لکھے اور افسانے بھی، لیکن ان کی شہرت کاسبب ناول نگاری ہے۔ خاص کر ناول ’مکان‘ کے ذریعے انہوں نے اپنے ادیب ہونے کے حسن گمان کو عملی جامہ پہنایا۔ میری بحث کا موضوع ان کے ناولوں کے موضوعات، اسالیب، زبان و بیان اور کردار ہے۔ پیغام آفاقی نے ’پلیتہ ‘میں کالا پانی کو محور اور مرکز بنا کر قدیم دور سے لے کر آج تک تمام انسانی مسائل کا منطقی محاسبہ کیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ کالا پانی جبر کا استعارہ ہے اور یہی جبر پورے برصغیر ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ ’پلیتہ‘ میں مرکزی کردار تو خالد سہیل ہے جو ایک سائیکو میشیا (Psychomatia)کی کیفیت سے دوچار ہے اس کے ذہن کے اندر ایک جنگ کی سی کیفیت جاری رہتی ہے۔ کالا پانی کے تناظر میں وہ پوری دنیا کا جائزہ لیتا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ کالا پانی ایک تجارتی ذہنیت کی دین تھی۔ برطانوی تجارتی ذہن نے اسے تعمیر کیا تھا، وہاں برطانوی حکومت نہیں تھی بلکہ تجارت تھی جس نے اپنے مفاد کے لیے ایک جیل خانہ تعمیر کروایا تاکہ وہاں کے معصوم قیدی کو اپنے تجارتی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کا عرفان ناول کے مرکزی کردار خالد سہیل کو ہوا۔ ناول نگار نے کالا پانی کے تمام دستاویزات اور وثائق کے حوالے سے یہ بات واضح کی ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی حکومت نہیں تھی بلکہ ایک تجارت تھی۔ برطانوی اقتدار ایک تاجرانہ پروجیکٹ کا حصہ تھا ناول میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے۔ داخلی سائکی اور سرکاری مشینری کی تجارتی ذہنیت کا بہت باریک بینی سے مطالعہ اس ناول میں کیا گیا ہے اور کالا پانی کے تناظر میں اس تجارتی ذہنیت کو مختلف سطحوں پر واضح بھی کیا گیا ہے۔ اس ناول میں جمہوری منافقت و استبداد کے ساتھ پورے اقتداری نظام کے مکروہ چہرے سے پردہ اٹھایا گیا ہے چاہے وہ پولیس کا چہرہ ہو یا پریس کا، جمہوریت ہو یا آمریت یا شہنشاہیت، الغرض ناول نگار نے ڈیڑھ سو سال پرانے درد اور جبر کا رشتہ آج سے جوڑ کر ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے اور پورے منطقی دلائل اور فلسفیانہ ڈسکورس سے یہ واضح کر دیا ہے کہ محکومیت انسان سے اس کی زندگی اور سوچ سلب کر لیتی ہے۔ اسی لیے حاکم و محکوم کا رشتہ ہی غلط ہے۔ اس ناول میں سماجی طبقاتی ذات پات کے نظام کے ساتھ ساتھ اس نظام تفریق پر بھی طنز ہے جو سیاسی، سماجی اور مذہبی مفاد کی خاطر پیدا کی گئی ہے خاص طور پر دلت کے مسائل اور اس کے ساتھ بھید بھاؤ اور چھوت چھات کے نظام پر بھی گہرا طنز ہے۔ اس لیے انگریز اسے بھی بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ ’’ ہم تم سے نفرت نہیں کرتا ہم تمہارے ہاتھ کا دیا ہوا پانی پی سکتا ہے اس لیے کہ ہم تم کو انسان سمجھتا ہے لیکن تمہارا برہمن تم کو جانور سے بھی بدتر سور سمجھتا ہے۔ ‘‘
موضوعی اعتبار سے ’پلیتہ‘ ایک انقلابی ناول ہے اور اس ناول کی روح زبان سے زیادہ اس کے ضمیر میں ہے وہ ضمیر جس کا نام (ناول کا مرکزی کردار) خالد سہیل ہے۔ موضوعی اعتبار سے اس ناول کی اہمیت مسلم ہے جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے تو اس اعتبار سے بھی ناول کے بارے میں رائے منفی نہیں اس کا اسلوب منفرد ہے۔ زبان و بیان کے تعلق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کے مصنف نے کردار اور اس کے مراتب کو مد نظر رکھتے ہوئے کرداروں کے تصور اور ذہن سے ہم آہنگی کا بھر پور خیال رکھا اور عوامی زبان اختیار کر ترسیل کو موثر بنانے کی کوشش کی ہے نیز چھوٹے چھوٹے جملوں کے ذریعے معنی خیزی پیدا کرنے کی سعی کی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کہیں کہیں شاعری کی زبان نے ان کی نثر اور بیانیہ کے منطقی تسلسل کو مجروح کیا ہے تو کہیں کہیں حشو و زوائد اور مکالمے کی طوالت نے قاری کو بے رغبتی اور بیزاری کا احساس دلایا ہے۔ ناول میں انگریزی زبان کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔
پیغام آفاقی کا پہلا اور نہایت ہی اہم ناول ’مکان‘ 1989ء میں شائع ہوا جس کی وجہ سے انہیں کافی شہرت ملی اور یہ ناقدین کے بیچ بھی خوب موضوع بحث رہا ’مکان‘ ایک ایسے مسئلہ کو پیش کرتا ہے جو بالکل نیا ہے۔ کرائے دار کے حق میں قانون بن جانے سے ان سے مکان خالی کرانا دشوار ہو گیا ہے۔ خاص کر جہاں مالک شریف ہوں ’مکان‘ کا مرکزی کردار نیرا ایسی ہی ایک شریف لڑکی ہے یعنی میڈیکل سائنس کی ایک طالب علم جس پر گھر کی ساری ذمہ داریاں ہیں۔ اس کے کرائے دار کمار نے غلط طریقے سے سارے مکان پر قبضہ کر لیا ہے اور نیرا سے مکان خالی کرانے کے لیے تمام تر غلط حربے استعمال کرتا ہے۔ کمار اور نیرا کے مابین جد و جہد اور احتجاجی رویوں کی سرگزشت کا نام ’مکان‘ ہے۔ یہ ناول اردو میں اس لیے بھی اہم اور نمایاں ہے کہ اس میں کرائے کے مکان کے سلسلے سے باتیں کی گئیں ہیں نیز اس کا موضوع سماج کا وہ مکروہ چہرہ ہے جسے ہم بدعنوانی اور رشوت ستانی کے نام سے جانتے ہیں جہاں کمارجیسے لوگ اپنی طاقت پر اتراتے ہیں اور پیسے سے اعلیٰ سے اعلیٰ سرکاری افسروں کو خرید کر نیر اجیسے بے سہارا کمزور اور مجبور لڑکی پر جھوٹا مقدمہ دائر کرتے ہیں تاکہ وہ مجبور اً ڈر کر مکان ان کے نام کر دے۔ ناول ’مکان‘ کے فنی تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ نیرا اپنے جد و جہد میں ایقان، صداقت، موت سے بے خوفی اور استقامت کے ذریعہ کامیاب ہو جاتی ہے۔ غالباً پہلی بار کسی ناول نگار نے ایک ایسا کردار تخلیق کیا ہے جو مرد کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے اور بالخصوص نسوانی کردار اتنی مضبوطی اور استقلال کے رنگ میں رنگ کر شاید پہلی بار پیش کیا گیا ہے اس نسوانی کردار کے تعلق سے گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :
’’عورت اس ناول میں ایک ایسا کردار بن کر ابھرتی ہے جو موجودہ زمانے میں زندگی کی باگ ڈور سنبھالنے اور مرد کو اتنی مشقتوں کے بعد آرام کرنے کا موقع دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ‘‘
(گوپی چند نارنگ :اردو ما بعد جدیدیت پر مکالمہ، ص:464 )
جہاں تک کردار نگاری کا تعلق ہے تو ناول کے تمام کردار ہمارے معاشرے اورسماج کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں، کرداروں کی زبان ان کی فکر، سوچ، سمجھ، علمی لیاقت و صلاحیت اور سماجی حیثیت و حسب مراتب کی ہے۔ ناول کے سارے کردار آج کے سماج اور سوسائٹی کے جیتے جاگتے کردار ہیں جسے پڑھنے کے بعد قاری محسوس کرتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ارد گرد اور آس پاس ہی ہو رہا ہے۔ اس میں کرداروں کی سراپا نگاری سے گریز کیا گیا ہے۔ کرداروں کی شناخت ان کے اعمال و افکار سے قائم ہوتی ہے، عشق و محبت کی کہانی کو اس میں زبردستی ٹھوسنے سے گریز کیا گیا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار نیرا اور کمار ہے، لیکن پیغام آفاقی نے عورت کردار کو مرد کے بالمقابل زیادہ مضبوط اور طاقتور بنا کر پیش کیا ہے جو اس کی فنی بصیرت کا کمال ہے۔ نیرا میں ایقان و صداقت کوٹ کوٹ کر بھری ہے وہ اپنے عزائم اور حوصلے کو بلند اور موت سے بے خوف، انجام سے بے پرواہ اپنے مشن اور جد و جہد کو جاری رکھتی ہے نتیجتاً نیرا کی جیت ہوتی ہے۔ اب تک بہت کم ہی ناول نگاروں نے نسوانی کردار کو اتنی مضبوطی اور استقلال کے رنگ میں رنگ کر پیش کیا ہے۔ اس ناول کو امراؤ جان ادا سے قطع نظر اردو ناول میں دوسرا بڑا نسوانی کردار کی پیش کش کا منفرد ناول کہا جا سکتا ہے۔
ناول ’مکان‘ کے واقعات یہاں کرداروں کے عمل سے آگے نہیں بڑھتے بلکہ سچویشن اور زبان انہیں آگے بڑھاتی ہے۔ اس ناول کی زبان عام فہم، سلیس، سادہ اور بہتے چشمے کی طرح رواں دواں ہے انگریزی تراکیب کا استعمال ان کا اہم وصف ہے۔ ناول ’’مکان‘‘ کی زبان و بیان اور اسلوب کے تعلق سے ڈاکٹر اسلم آزاد لکھتے ہیں :
’’ناول کی زبان عام فہم، سلیس اور رواں ہے مگر اس کے باوجود ایک انفرادیت رکھتی ہے۔ اس میں پیغام آفاقی جذبات کو اس خوش اسلوبی سے پیش کرتے ہیں کہ بظاہر تو یہ سیدھے سادے لگتے ہیں مگر قاری کے دل پر امٹ چھاپ چھوڑتے ہیں۔ ‘‘
(ڈاکٹر اسلم آزاد:اردو ناول آزادی کے بعد، ص۳۸۲، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۴ئ)
ناول کا انداز سادہ اور عام فہم ہے تکنیک بھی سیدھی سادی ہے مگر احتجاج اور حالات سے لڑنے کی جو جرأت مندانہ کوشش نثر میں زیریں لہروں کی طرح دوڑتی رہتی ہے وہ اس کے اسلوب کو خوبصورت بناتی ہے۔ پلاٹ میں کساوٹ اور جامعیت کچھ زیادہ ہوتی تو اس کے اسلوب کی کشش اور اہمیت دونوں میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ اس کے اسلوب کی سب سے بڑی کمزوری اس کی طوالت ہے کیوں کہ ایک منظر کے بعد کافی لمبا وقفہ ضمیر کی آواز کا گزرتا ہے اور یہیں سے قاری کی گرفت ڈھلی ہونے لگتی ہے۔ ناول نگار نے یہ طریقہ ناول میں کثرت سے جگہ جگہ اختیار کیا ہے۔ پیغام آفاقی نے ’’مکان‘‘ میں اپنے تمام فنی لوازمات کو برتتے ہوئے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی کوشش کی ہے اگر اس میں خود کلامی کی بیجا طوالت نہ ہوتی تو موضوع کی طرح اسلوب میں بھی یہ ناول ایک نشان منزل بن سکتا تھا۔ اس ایک کمی سے قطع نظر ’’مکان‘‘ میں زبان و بیان کی چند ایسی خوبیاں بھی ہیں جو ناول پڑھتے ہوئے قاری کو متوجہ کرتی ہیں اور روایتی ناولوں کے برعکس قاری کو اظہار کی نئی صورتوں سے آشنا کراتی ہیں مثلاً
۱۔ اس میں کرداروں کی سراپا نگاری سے گریز کیا گیا ہے، کرداروں کی شناخت ان کے اعمال و افکار سے ہوتی ہے۔
۲۔ عشق و محبت کی کہانی کو زبردستی ٹھوسنے سے گریز کیا گیا ہے جبکہ پورا ناول ایک نوجوان اور خوبصورت لڑکی کے گرد گھومتا ہے۔
۳۔ ہجر و فراق اور درد و غم کا سہارا لے کر المیہ سے قاری کو جذباتی بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔
۴۔ علامتیت اور تجریدیت سے پوری طرح گریز کیا گیا ہے۔
۵۔ سحر انگیز اور تلذذ آمیز شاعرانہ جملوں سے پرہیز کیا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ ناول نگار اپنے ناولوں کی تخلیق میں اور اپنے فن کی تعمیر میں بہت حد تک کامیاب نظر آتا ہے کیوں کہ ناولوں کے پلاٹ کے جال بچھانے میں فن کار نے اپنی مہارت و صلاحیت کا ثبوت دیا ہے جس میں کسی قسم کی کمی نظر نہیں آتی۔ واقعات اور کہانی کا سلسلہ یکے با دیگرے باہم مربوط ہو کر آگے بڑھتا رہتا ہے جس میں ایک طرح سے مکمل ہم آہنگی اور تسلسل پایا جاتا ہے۔ اسی طرح کرداروں کی تخلیق میں ناول نگار نے اپنی ہنر مندی سے کام لیا ہے موقع اور ماحول کے لحاظ سے کرداروں کی تخلیق کی ہے۔ نیز کرداروں کی بات چیت اور مکالمے بھی انہوں نے بر محل اور بر جستہ کرائی ہے جو ایک طرح سے ناول نگار کی مہارت اور فنی بصیرت کی دلیل ہے، مصنف نے اپنے ناولوں کی زبان و بیان کی کے استعمال میں بھی پنی ذہنیت اور صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے جو ناول نگار کو اس کے ہم عصروں سے ممتاز و منفرد بناتی ہے۔
٭٭٭