زندگی جن کے تصور سے جِلا پاتی تھی
ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے
(ناصر کاظمی)
اجل کے بے رحم ہاتھوں سے اردو زبان و ادب کے ہمالہ کی ایک اور سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی۔ اُردو شاعری، سوانح نگاری، خاکہ نگاری، صحافت، تنقید و تحقیق اور علم بشریات کا ایک آسمان ہمیشہ کے لیے کراچی کی زمین میں نہاں ہو گیا۔ احسن سلیم (محمد سلیم قائم خانی )کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل دہل گیا۔ فنون لطیفہ، تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے اسرر و رموز کی گرہ کشائی پر قادر جری نقاد دائمی مفارقت دے گیا۔ ادب برائے تبدیلی کا میرِ کارواں چپکے سے ہماری بزمِ وفا سے اُٹھ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ علم و ادب کا وہ آفتاب جو 1949میں طلوع ہوا وہ 25۔ جون 2016کو ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ پاکستانی ادبیات کو نہ صرف اپنے وطن میں بل کہ پوری دنیا میں معز و مفتخر کرنے والا بے لوث ادبی سفیر لوحِ جہاں پر اپنے دوام کے انمٹ نقوش چھوڑ کر ردائے خاک اوڑھ کر سو گیا۔ وہ یگانۂ روزگار فاضل اب ہمارے درمیان موجود نہیں جس نے تخلیقی فعالیت کو ایسی ڈھال سے تعبیر کیا جو ہوس زر، جلب منفعت، ذاتی مفادات اور دہشت گردی کے تیرِ ستم روکنے کی صلاحیت سے متمتع ہے۔ احسن سلیم کی وفات سے عالمی سطح پر ترقی پسند ادب کے فروغ کی مساعی کو شدید دھچکا لگا ہے اور ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ تخلیقی فعالیت کے دوران مواد اور ہئیت کے نئے تجربات کو زادِ راہ بنانے پر اصرار کرنے والے اِس زیرک، فعال، مستعد اور جری تخلیق کار کی رحلت نے اُردو زبان و ادب کو تخلیقِ فن میں جدت، تنوع اور ندرت کے اعتبار سے تہی دامن اور مفلس و قلاش کر دیا۔ ہماری بے تاب نگاہیں ایسے نابغۂ روزگار کو تلاش کرتے کرتے پتھرا جائیں گی جسے احسن سلیم جیسا کہا جا سکے۔ رخشِ حیات کی جانب فرشتۂ اجل کی پیش قدمی کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ موت کے جان لیوا صدمات کا قہر دِلوں کے ہنستے بستے شہر اس بے دردی سے اُجاڑ کر رکھ دیتا ہے کہ الم نصیبوں کے حافظے سے وقتی طور پر گزر گا ہوں کی پہچان، اقامت گا ہوں کے نام، احباب کے ربط باہمی کی داستان، تخلیقی فعالیت کا انجذاب اور تاریخ کے مسلسل عمل کا نصاب سب کچھ محو ہو جاتا ہے۔ موت سے بھلاکس کو رستگاری ہے ؟ آج وہ اپنی باری بھر چلے اور کل ہمیں اپنی باری کا انتظار ہے۔ راہِ رفتگاں کا ہر مسافر جب عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیتا ہے تو ہر آہٹ پر یہ گماں ہوتا ہے کہ موت دبے پاؤں تیزی سے ہماری جانب قدم بڑھا رہی ہے، ان حالات کو جانتے ہوئے بھی یہ امر لمحۂ فکریہ ہے کہ دنیا کے سرابوں اور بتان وہم و گماں کے عذابوں میں اُلجھ کر ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے ہیں۔ علم و ادب کی کہکشاں کے جو نیّر تاباں سال 2016میں غروب ہو گئے ان کی دائمی مفارقت کے غم میں کلیجہ منھ کو آتا ہے۔
سال 2016میں ایسی ہوائے دشتِ فنا چلی کہ اردو زبان و ادب کے سر سبز و شاداب گلشن کے جو سر بہ فلک بُور لدے چھتنار اکھاڑ کر لے گئی اُن میں آفاق احمد پروفیسر (1932-2016)احسن سلیم(1949-2016)، انتظار حسین(1923-2016)، اسلوب احمد انصاری (1925-2016)، اسلم فرخی ڈاکٹر (1923-2016)، اسلم محمود (1941-2016) انور سدید ڈاکٹر(1928-2016)، پیغام آفاقی (اختر علی فاروقی، 1956-2016 )، تاج دار تاج (محمد اسلام صدیقی، 1939-2016)، (جو گندر پال(1925-2016)، خلیق انجم (1935-2016)، راشد آذر(راشد علی خان، 1931-2016)، زبیر رضوی(1935-2016)، ساوتری گوسوامی (1921-2016)، سرتاج گوہر (سید محمد زبیر گوہر ڈاکٹر، 1939-2016)، سیدہ جعفر (1934-2016)، سید سجاد بخاری (1951-2016)، شکیل الرحمٰن (1931-2016)، شفیع ہمدم (1949-2016)، عابد سہیل، کشمیری لال ذاکر (1919-2016)، فاطمہ وصیہ جائسی (1951-2016)، محمودحسن ڈاکٹر (1932-2016)، مختار سید ناگپوری (م۔ ناگ ) (1950-2010)، مظہر اختر (1946-2016)، مقیم اثر (1941-2016)، ملک زادہ منظور احمد(1929-2016)، منظر شہاب (محمد یٰسین، 1927-2016)، ندا فاضلی(1938-2016) اور نظمی سکندر آبادی (سمیع الدین، 1930-2016) شامل ہیں۔ یہ ابد آشنا تخلیق کار چُپکے سے ہماری بزمِ ادب سے اُٹھ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے۔ ان کی یاد میں بزمِ ادب برسوں تک سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار رہے گی۔ ان کی عطر بیز یادیں سد اقریۂ جاں کو معطر کرتی رہیں گی۔ اس کے ساتھ ہی دِل سے اِک ہُوک سی اُٹھتی ہے اور یہ صدا سنائی دیتی ہے کہ علم و ادب کی کہکشاں سے غروب ہونے والے تابندہ ستاروبہت جلد ہم بھی تمھارے درمیان ہوں گے۔ آج ہم اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرنے اور تزکیۂ نفس کی خاطر الفاظ کے ذریعے اپنے صدمے کا علاج کرنے کی جوسعی کر رہے ہیں مستقبل کا مورخ اِن کی اساس پر نئے واقعات، مطالعات اور سوانحات کا اندراج کرے گا۔
احسن سلیم نے اپنی زندگی فروغِ علم و ادب کے لیے وقف کر ر کھی تھی۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ادیبوں کے بارے میں پائی جانے والی بے حسی، بے قدری اور بے اعتنائی نے انتہائی تشویش ناک صورت اختیار کر لی ہے۔ احسن سلیم نے ہمیشہ لفظ کی حرمت کا خیال رکھا اور ادیب کی عزت و توقیر کو اوّلیت دی۔ احسن سلیم کا خیال تھا کہ اگر ادیب قومی تشخص، ملی وقار، ملکی ترقی، شرح خواندگی میں اضافہ کے موضوعات پر عوام میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کی مساعی میں کامیاب ہو جائیں تو ہر قسم کی سماجی برائیوں، استحصال اور دہشت گردی کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے میں ان کی ادارت میں کراچی سے ادبی مجلے ’’سخن زار‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ احسن سلیم نے اپنے ذوق سلیم کے اعجاز سے اس مجلے کو قابل مطالعہ مواد کا مخزن بنا دیا جس کی بنا پراس مجلے کو علمی و ادبی حلقوں کی طرف سے بہت پذیرائی ملی۔ بعض مسائل کے باعث مجلہ ’’سخن زار‘‘ کی اشاعت تاخیر و تعطل کا شکار ہو گئی تواحسن سلیم نے کچھ عرصہ بعد کراچی ہی سے ایک نئے ادبی مجلہ ’’اجرا ‘‘کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ ادبی مجلہ ’’اجرا‘‘ کا پہلا شمارہ جنوری-مارچ2010تھا۔ اس کے بعد یہ رجحان ساز ادبی مجلہ باقاعدگی سے شائع ہونے لگا اور قارئین اس کے ہر شمارے کا شدت سے انتظار کرتے تھے۔ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ علم و ادب کا یہ ہنستا بولتا چمن جان لیوا سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ احسن سلیم کی زندگی میں جولائی -ستمبر 2015 کا شمارہ نمبر 23ادبی مجلہ ’’اجرا ‘‘ کا آخری شمارہ تھا۔ احسن سلیم کی زندگی میں مجموعی طور پر ادبی مجلہ ’’اجرا‘‘ کے تئیس (23)شمارے شائع ہوئے۔ احسن سلیم اور اجرا کے ساتھ والہانہ محبت کرنے والے اور قلبی وابستگی رکھنے والے ذوق سلیم سے متمتع قارئینِ ادب کو خدشہ تھا کہ اس کے بعد مجلہ ’’اجرا ‘‘ بھی افکار، اقدار، ادبی دنیا، ساقی، اوراق، کاروان، زعفران اور شب خون کی طرح تاریخ کے طوماروں میں دب جائے گا مگر حال ہی میں نئی انتظامیہ اور نئی مجلسِ ادارت کی نگرانی میں اجرا کا شمارہ نمبر 24 بابت ماہ اکتوبر۔ دسمبر 2016شائع ہو گیا ہے۔ اجرا کے اس شمارے میں رجحان ساز ادیب احسن سلیم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے جو اس عظیم تخلیق کار کے شایان شان ہے۔
قدرتِ کاملہ کی طرف سے احسن سلیم کو جو قوی تخلیقی صلاحیت ودیعت کی گئی تھی اسے بروئے کار لاتے ہوئے انھوں نے تخلیق ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا اور ستاروں پر کمند ڈال کر دنیا کو حیران کر دیا۔ احسن سلیم نے تخلیقِ ادب میں مواد اور ہئیت کے نئے تجربات اور افکار تازہ کے معجز نما اثر سے جہانِ تازہ کی نمود کے امکانات کو یقینی بنا دیا۔ سماجی اور معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں، شقاوت آمیز نا انصافیوں، سماجی برائیوں، لُوٹ مار، استحصال اور دہشت گردی کی لعنت کو وہ ایک بلائے نا گہانی سے تعبیر کرتے اور سدا تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے پر اصرار کرتے تھے۔ اپنے ادارتی کلمات اور وقیع مقالات میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ معاشرتی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے میں محب وطن ادیب اور دانش ور اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انسانیت کا وقار اورسر بلندی ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ استحصالی عناصر کے غیر انسانی روّیے کے باعث مظلوم انسانیت کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو گئی ہیں۔ کتابی سلسلہ سہ ماہی مجلہ ’’اجرا ‘‘میں ان کے ادارتی کلمات ’’خیابان خیال ‘‘کے عنوان سے شامل اشاعت ہوتے تھے۔ اپنے اداریوں میں احسن سلیم نے قارئین میں عصری آ گہی پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے کی روش اپناتے ہوئے حریت فکر و عمل کا پرچم بلند رکھنے کی کوشش کی۔ ادبی مجلہ اجرا میں خیابانِ خیال کے تحت اُن کے لکھے ہوئے اداریوں اور اس مجلے میں شامل ادبی محافل اور تخلیقی مکالمات کی ہر طرف دھُوم مچ گئی۔ وہ ارد و ادب کو پامال را ہوں اور گھِسے پِٹے انداز کلیشے (Cliché) سے نجات دلانے کے خواہش مند تھے۔ اردو ادب میں تقلید کی مہلک روش کو وہ اسلوب کی ندرت و تنوع اور ہمہ گیر اثر آفرینی کے لیے انتہائی خطرناک سمجھتے تھے۔ا پنے ادبی نصب العین کی وضاحت کرتے ہوئے احسن سلیم نے خیابانِ خیال کے تحت اجرا شمارہ 16 ماہ اکتوبر تا دسمبر 2016میں لکھا ہے :
’’ہر لکھنے والے کا ایک ڈھب ہوتا ہے۔ میرا بھی لکھنے کا ایک ڈھب ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے پڑھنے والوں سے اپنی ازلی توفیق کے مطابق، جو میں نے خود کو قبل از خِلق ودیعت کی تھی، بروئے کار لاؤں اور کچھ ایسی باتیں کہوں اور سُنوں جو میں نے کبھی نہ سُنی ہوں اور نہ کبھی کہی ہوں —–لیکن ہمارے ادبی نظام اور اظہاری سانچوں میں اور ہماری زبان کے اسٹرکچر میں کچھ ایسی خوبی ہے کہ ہم چاہتے ہوئے بھی نہ کچھ نیا کہہ پاتے ہیں نہ کچھ نیا سُن پاتے ہیں۔ ‘‘
احسن سلیم نے ایک زیرک، فعال اور مستعد ترقی پسندتخلیق کار کی حیثیت سے پاکستانی ادبیات کے فروغ کے لیے انتھک جد و جہد کی۔ پاکستانی عوام کو جہد و عمل پر مائل کرنے اور اپنی حقیقت سے آشنا کرنے میں انھوں نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ انھوں نے نثری نظم کے بنیاد گزاروں قمر جمیل، رئیس فروغ اور ضمیر علی کے ساتھ مِل کر اس صنف ادب کے فروغ میں سرگرم کردار ادا کیا۔ تاریخ ادب کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں نثری نظم کے فروغ میں جن ممتاز شعرا نے حصہ لیا اس کے ہراول دستے میں احسن سلیم بھی شامل تھے۔ ان کی معرکہ آرا نظموں ’’وراثت‘‘ اور ’’ آسمانی جنون ‘‘ کو دنیا بھر کے قارئینِ ادب کی جانب سے جو فقید المثال پذیرائی ملی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ احسن سلیم کی نثری نظم ’’آسمانی جنون ‘‘سے ایک اقتباس پیش ہے :
آسمانی جنون
شاعری
ایک آسمانی جنون ہے
جڑواں گھروں کے درمیان
ایک پُرانا مکالمہ دہرایا گیا
ہمارے خواب
آئندہ میں سفر کرنے کے قابل نہیں رہے
خیال کی لہروں کے ساتھ
ہمارا
ناتواں ارتکاز
گندے نالوں میں بہا دیا گیا
دھُول سے اَٹے ہوئے
عام آدمی کے خواب
راستوں میں دھر لیے گئے
عدم آ گہی کی چادر تان دی گئی
ہمارے کھیتوں میں
سر بریدہ فصلوں کی پاسبانی کے لیے
بے لباس آنکھوں میں
ننگے خواب اُتار دئیے گئے
(اجرا شمارہ 23، جولائی تادسمبر 2015، صفحہ144)
اردو غزل اور نثری نظم میں احسن سلیم کے اشہب قلم کی جولانیوں اور منفرد اسلوب کا دنیا بھر میں اعتراف کیا گیا۔ احسن سلیم کی شاعری کے مجموعے اور تصانیف منجمد پیاس، جوئے میں جیتی ہوئی آنکھیں، ست رنگی آنکھیں، آسمانی جنون، وراثت اور پتوں میں پوشیدہ آگ(خطوط کا مجموعہ) کو قارئین ادب نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ احسن سلیم کی گُل افشانی ٔ گفتار کے انداز قابلِ غور ہیں :
کسان
درانتی سے فصل کاٹتے ہیں
اور مزدور
انھیں ترازو میں تولتے ہیں
تجارت اور نفع
اُن کے حصے میں آتا ہے
جو خواب دیکھتے ہیں نہ دِیپ جلاتے ہیں
۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔ ..۔
میں سمت غیب سے قدموں کی چاپ سنتا ہوں
مدیرِ وقت ہوں صدیوں کی چاپ سنتا ہوں
نہ جانے کون ہے ؟کِس کا کلام ہے لیکن!
میں گوشِ دہر ہوں صدموں کی چاپ سُنتا ہوں
ہوا جو قتل وہ صدیوں کا نُور تھا شاید
کِنارِ آب، میں نوحوں کی چاپ سُنتا ہوں
گھروں میں جا گتا رہتا ہے خواب کا منظر !
مگر میں نیند میں بُوٹوں کی چاپ سُنتا ہوں
احمد سلیم کا تعلق ایک ممتاز علمی اور ادبی خاندان سے تھا۔ احمد سلیم نے حیدرآباد (سندھ)کے تاریخی ادارے حیدرآباد سٹی کالج سے امتیازی نمبر حاصل کر کے گریجویشن کی۔ اس کے بعد جامعہ سندھ سے اردو زبان و ادب میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ سال 1973میں شعبہ بنکاری سے وابستہ ہو گئے۔ معاشیات اور تجارت کے مسائل اُن کی دلچسپی کا اہم موضوع رہے۔ ان کا شمار پاکستان کی نامور ماہرین معاشیات میں ہوتا تھا۔ احمد سلیم کو پاکستانی ادبیات کے ساتھ بالعموم اور اردو زبان و ادب کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی لگاؤ تھا۔ کہانیوں اور شاعری سے دلچسپی ان کے بچپن کے ادبی ذوق کی مظہر ہے۔ تاریخ، فلسفہ، علم بشریات، فلکیات، لسانیات، سماجی علوم اور عالمی ادبیات کے موضوعات پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ وہ تراجم کی اہمیت پر بہت زور دیتے تھے اور ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ عالمی کلاسیک سے منتخب تحریریں پاکستانی زبانوں کے قالب میں ڈھالی جائیں تاکہ مختلف تہذیبوں کو قریب لانے کی کوششوں میں کامیابی حاصل ہو سکے۔ بنک کی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد احسن سلیم نے ادب کی خدمت کا عزم کر لیا اور ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کی مساعی کا آغاز کیا۔ احسن سلیم کے سانحۂ ارتحال کی خبر سُن کر مجھے اسلم کولسری( مرحوم ) کے یہ شعر یاد آ گئے :
سوچ سوالی کر جاتے ہیں
صبحیں کالی کر جاتے ہیں
اسلم چھوڑ کے جانے والے
آنکھیں خالی کر جاتے ہیں
احسن سلیم نے اپنی تخلیقی فعالیت سے پاکستانی قوم کو نشانِ منزل دیا اور سعی پیہم پر مائل کیا ْ۔ پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے کے باشندوں کے لیے احسن سلیم کا وجود اللہ کریم کا بہت بڑا کرم تھا۔ احسن سلیم کے اُٹھ جانے کے بعد اب دِل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔ میڈیا اور پبلک ریلیشننگ کے موجودہ زمانے میں بھی احمد سلیم نے ادب کے ایک گوشہ نشین کی حیثیت سے اپنا کام جاری رکھا۔ وہ زندگی بھر اپنی دھُن میں مگن، نمود و نمائش سے دُور اورستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز پرورشَ لوح و قلم میں مصروف رہے۔ حریت فکر و عمل کے اس مجاہد نے ایک شانِ استغنا، عجز و انکسار، اخلاق و اخلاص اور قناعت و خود داری کا دامن تھام کر سر اُٹھا کر چلنا اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا تھا۔ ادب کی اثر آفرینی کے حوالے سے احسن سلیم نے اجرا کے شمارہ 11 جولائی تا ستمبر 2012کے اداریہ ’’خیابانِ خیال ‘‘ میں لکھا ہے :
’’ادیب اپنے اصل ہتھیار یعنی اثر پذیری کو استعمال کرتے ہوئے ٹھہری ہوئی فضا میں ارتعاش تو پیدا کر سکتا ہے اس کاوش کی بار آوری کے لیے ادب کو اپنا مخاطب تلاش کرنا ہو گا اور یہی وہ فرض ہے جس کی ادائی کے لیے ہم اپنے ادبی جرائد کی جانب اُمید بھری نظروں سے دیکھنا چاہتے ہیں اور اقلیم ادب کے تمام باسیوں میں بلا تفریق ’’ نظریہ ‘‘وسیع تر ہم آہنگی پیدا کر کے اُس ’’ اکائی ‘‘ کو متحرک کر نے کی خواہش مند ہیں جو ’’ زوال کے دیوتا‘‘ کواس کی آخری چوٹی سے نیچے پھینک دے۔ ‘‘
احسن سلیم کو اس بات کا قلق تھا کہ ہمارا معاشرہ احساسِ زیاں سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مسلسل شکستِ دِل کے باعث افراد بے حسی کا شکار ہو گئے ہیں۔ جس معاشرے میں جاہل اپنی جہالت کا انعام حاصل کر نے میں کامیاب ہو جائیں وہاں وقت کے ایسے سانحات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے۔ موجودہ دور میں مادی دور کی لعنتوں نے زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو شدید ضعف پہنچایا ہے۔ دماغی خلل، وہم و گُماں اور وسوسوں میں مبتلا مسخروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے ذہنی افلاس کے باوجود رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں سادیت پسندی کے مرض میں مبتلا یہ درندے انسانیت کے در پئے آزار ہو جاتے ہیں۔ ان مردودِ خلائق سفہا اور اجلاف و ارذال کو یہ زعم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہئیت کذائی کے باوجود اب بھی مرکز نگاہ ہیں۔ درِ کسریٰ پر صدا کرنا احسن سلیم کے ادبی مسلک کے خلاف تھا۔ وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ ان کھنڈرات میں جامد و ساکت بُت، حنوط شدہ لاشیں اور چلتے پھِرتے ہوئے مُردے موجود ہیں جو مظلوم اور بے بس و لاچار انسانیت کے مصائب و آلام پر ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ زندگی کا سفر دھُوپ چھاؤں کی عجیب کیفیات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ احسن سلیم نے اسی جانب اشارہ کیا ہے :
دھوپ اور دئیے
صبح میری چائے کی پیالی میں بیدار ہوتی ہے
اور شام
میری اُنگلیوں سے لپٹ کر
ایش ٹرے میں ہو تی ہے
میں اِن دِنوں
راتوں کی خواہش نہیں کرتا
تیرے بغیر
سب کچھ زہر لگتا ہے
دھُوپ اور دئیے
انتظار کی مسلسل جاگتی آنکھیں ہیں
مَیں
ایک دِن دھُوپ کو لپیٹ کر
کسی درخت کے سائے میں رکھ آؤں گا
اور یہ دئیے
تیرے آنگن میں بُجھا کر
چلا جاؤں گا
اس کے بعد آس کے دئیے بُجھا کر احسن سلیم نے سچ مُچ اس دنیا سے کُوچ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ احسن سلیم کا خیال تھا کہ قحط الرجال کے موجودہ دور کا لرزہ خیز اور اعصاب شکن المیہ یہ ہے کہ آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پِسنے والے مفلوک الحال طبقے، دُکھی انسانیت کے کرب ناک مسائل اور غم زدہ لوگوں کے دِلِ شکستہ کا حال بیان کرنے کے لیے قصرِ فریدوں کے آ سیب زدہ در شکستہ پر دستک دینا پڑتی ہے۔ ذوق سلیم سے متمتع قارئین کا خیال ہے کہ ایک حساس تخلیق کار اپنے تجربات و مشاہدات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے وقت اپنے قلم کو کیمرے کے مانند استعمال کرتا ہے اور حالات و واقعات کی حقیقت پسندانہ لفظی مرقع نگاری کر کے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابد آشنا صداقتوں سے مزّین یہ ادب پارہ جام جہان نما ثابت ہوتا ہے جس میں تخلیق کار کے عہد کے تمام حالات کی صورت گری قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے۔ احسن سلیم نے اسی قسم کی صداقت نگاری پر اصرار کیا اور جبر کے سامنے سپر انداز ہونے کے بجائے ہوئے حریتِ ضمیر سے زندگی بسر کرنے کا انتخاب کیا۔ حیف صد حیف کہ اس زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار کی علمی و ادبی خدمات کی پذیرائی میں بہت بخل سے کام لیا گیا اور ان کے استحقاق کے مطابق ان کی عزت و تکریم میں تامل کیا گیا۔ معاشرتی بے حسی کے مسموم ماحول میں خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھنے کے باوجود احسن سلیم نے کبھی دِل بُرا نہ کیا اور طلوعِ صبحِ بہاراں کی تمنا میں زندگی بسر کرتے رہے۔ ممتاز شاعر سعید قیس ؔ نے سچ کہا تھا :
یہی تو وصف ہے ہم نامراد لوگوں کا
زمیں پہ رہنا نظر آسمان میں رکھنا
ْ وہ جس کے ہونے سے ملتا ہے منزلوں کا سراغ
اِک ایسا شخص بھی تم کاروان میں رکھنا
احسن سلیم کو عالمی کلاسیک اور معاصر ادبیات سے گہری دلچسپی تھی وہ تخلیق ادب کے حوالے سے انکشافِ ذات اور اخفائے ذات کے فرق کو ملحوظ رکھنے کی جانب متوجہ کرتے تھے۔ جدید دور کی امریکی ناول نگار اور افسانہ نگار سوسن سونٹیگ(Susan Sontag) کی تخلیقات کا انھوں نے بہ نظر غائر جائزہ لیا تھا۔ آزادی ٔ اظہار کے موضوع پراحسن سلیم کی سوچ اور سوسن سونٹیگ (1933-2004) کے خیالات میں کسی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے مگر آزادیِ اظہار کے موضوع پر احسن سلیم کا دبنگ لہجہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ کتابی سلسلہ ’’اجرا ‘‘میں احسن سلیم کے ادارتی کلمات اور اجرا میں شائع ہونے والی ادبی تخلیقات کی ندرت، تنوع، صد رنگی اور ہمہ گیری کا کرشمہ دامن دِل کھینچتا تھا۔ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے احسن سلیم نے اپنی ملت، وطن، اہلِ وطن اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو ہمیشہ اپنا مطمح نظر بنایا۔ انھوں نے عالمی کلاسیک، معاصر ادبیات اور پاکستانی ادبیات کی نمائندہ تحریروں کے تراجم کو اجرا میں شائع کر کے عصری آ گہی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ بے حس معاشرے سے بدلہ لینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے زندگی کے تلخ، تُند و درشت حقائق کی ترجمانی کرتے وقت کوئی لگی لِپٹی نہ رکھی جائے اور الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے بجائے جبر کے ہر انداز کو پائے استقامت سے ٹھُکراتے ہوئے حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنا یا جائے۔ احسن سلیم کی سوچ ہمیشہ تعمیری رہی اور وہ سب ملاقاتیوں سے اخلاق اور اخلاص سے لبریز برتاؤ کرتے تھے۔ کسی کی عیب جوئی یا تخریب سے انھوں نے کبھی کوئی تعلق نہ رکھا۔ بے ہنر اور کینہ پرور لوگوں کی سبک نکتہ چینیوں سے بھی وہ دِل برداشتہ نہ ہوتے بل کہ ایک نئے عزم اور بھر پور حوصلے سے اپنے تخلیقی کام کو آگے بڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتے۔ بُز اخفش قماش کے مسخروں کی بے سروپا اور لا یعنی گفتگو سُن کر وہ خاموشی اختیار کر لیتے ۔ ان کے احباب کی متفقہ رائے تھی کی ایسے نازک مواقع پر احسن سلیم کی خاموشی بھی تقریر کی ایک نا گزیر صورت کے روپ میں فکر و خیال کو مہمیز کرتی تھی۔ احسن سلیم سے مِل کر زندگی سے حقیقی محبت کے جذبات کو نمو ملتی تھی۔ وہ صداقت، حق گوئی اور بے باکی کو زندگی کے توازن کی امین ایک اہم قدر سے تعبیر کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس بات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے کہ اس توازن کے متضاد یعنی عدم توازن کے بارے میں یہ مفروضہ قائم کر لینا کہ وہ لازمی طور پر کذب و افترا اور جعل سازی کا مظہر ہو گا۔ پاکستان میں خوف و دہشت کی فضا اور تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات کو وہ ہماری شامتِ اعمال اور فطرت کی مکافات قرار دیتے تھے۔
جدید لسانیات کے موضوع پر احسن سلیم نے اُردو میں ہر نئی تحریر کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اردو داں طبقے کو جدے دیت، مابعد جدیدیت، ساختیات، پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی فراہم کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ انھوں نے سوسئیر (Ferdinand Mongin de Saussure)، رولاں بارتھ (Roland Gérard Barthes)، ژاک دریدا (Jacques Derrida)، ژاک لاکاں (Jacques Lacan) اور ایڈورڈ سعید (Edward Wadie Said) کی تصانیف کا بہ نظر غائر جائزہ لیا اور اس امر کی کوشش کی کہ ان ماہرین
لسانیات کے خیالات سے سے اُردو دان طبقے کے استفادے کی صورت پیدا کی جائے۔ احسن سلیم تراجم کی اہمیت و افادیت کے قائل تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اُردو میں تراجم کے وسیلے سے مختلف تہذیبوں کو قریب تر لانے کی مساعی کو آگے بڑھایا جائے۔ تقابلی ادبیات اور تراجم کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں وہ نامور بر طانوی مترجم اور ترجمہ کی ممتاز تھیورسٹ سوساں بیسنٹ (Susan Bassnett) کے خیالات سے متفق تھے۔ احسن سلیم نے اس خطے میں نو آبادیاتی دور اور پس نو آبادیاتی دور کے ادبیات کے اختصاصی مطالعہ پر زور دیا۔ اجرا کے ادارتی کلمات میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قوموں کی تعمیر و ترقی کا راز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ عہدِ رفتہ کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہوئے حال کو بہتر بنایا جائے اور مستقبل کے لیے کوئی ٹھوس اور واضح لائحۂ عمل مرتب کیا جائے۔ احسن سلیم کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ معاشرتی زندگی کو یکسانیت اور جمود سے نجات دلانے کے لیے تبدیلی نا گزیر ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے واضح کیا کہ ساری دنیا میں تبدیلی اور انقلاب کی دستک زنی کا سلسلہ جاری ہے۔ نئے دور کے بدلتے ہوئے حالات میں ہمیں وقت کی آواز کو دھیان سے سننا ہو گا۔ بیتے لمحات کی چاپ ہر عقدۂ تقدیرِ جہاں کی گرہ کشائی کر رہی ہے۔ وطن عزیز میں فکری انتشار خوف و دہشت کی فضا اور افراتفری پر احسن سلیم کو گہری تشویش تھی۔ انھوں نے خیابانِ خیال کے تحت اجر اکے اداریوں میں کئی بار اس جانب توجہ مبذول کرائی۔ اسی سلسلے میں انھوں نے اجرا شمارہ 23، جولائی تا دسمبر2015میں خیابانِ خیال کے تحت اپنے دِلی جذبات اور احساسات کا نہایت خلوص اور دردمندی سے اظہار کیا ہے :
’’اب حال یہ ہے کہ اُردو سمیت ہماری تمام قومی زبانوں کا ادب بلندی سے پستی کی طرف بے جان پتھر کی طرح لڑھکتا جا رہا ہے۔ ابتدا میں نظریات کا تصادم تھا۔ تصادم کا غیر دانش مندانہ روّیہ اب نفرت کی کدال اُٹھائے سارے مُلک کو کھدیڑتا ہوا پاتال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ محدودیت کی وجہ سے آفاقیت کے دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں شاعر و ادیب کیوں غافل پڑا ہوا ہے۔ ‘‘
اس قسم کے استفہامیوں کا جواب ادب برائے تبدیلی کے تصور میں مِل جاتا ہے۔ احسن سلیم کا ادب کے ذریعے فکری تبدیلی لانے کا خواب اسی حقیقت کا آئینہ دار تھا۔ انھوں نے پاکستانی قوم کو عزت، وقار اور خود اعتمادی کا درس دیا۔ ان کا تجزیہ تھا کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ سماج، معیشت اور معاشرت کے بدلتے ہوئے معائر کی روشنی میں اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے اپنے حال کو بہتر بنانے اور روشن مستقبل کی منصوبہ بندی ہر محب وطن پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ دیارِ غیر کے مکینوں کے معیارِ زندگی کی جانب للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے قناعت، خود داری، عزتِ نفس اور شانِ استغنا کے ساتھ درخشاں مستقبل کی جانب پیش قدمی ہی سے قوم کے مقدر میں تبدیلی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ حریت ضمیر سے جینے کی روش اپنانے والے اس جری تخلیق کار نے قوم کو جو ولولۂ تازہ عطا کیا اس کے بارِ احسان سے ہر پاردو داں کی گردن خم رہے گی۔
نئے زمانے اور نئی صبح و شام دیکھنے کے آرزو مند احسن سلیم نے ادب برائے تبدیلی، نئے خیالات، متنوع تجربات اور نئے مضامین کے انتخاب سے اپنے منفرد اسلوب کو دھنک رنگ منظر نامہ عطا کیا۔ ان کی تخلیقات میں نئی تراکیب، حسین پیرایۂ اظہار، دل کش استعارات، گہری معنویت کی حامل تلمیحات، حسین تشبیہات اور حسن و خوبی کے مظہر تکلم کے سلسلے نے ان کے اسلوب کو زر نگار بنا دیا ہے۔ ان کی علمی، ادبی اور قومی خدمات تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کے اصلاحی اقدامات کی بنا پر ہر پاکستانی ان کا ممنون و مقروض رہے گا۔ انسانی کردار اور عظمت کا پیکر یہ شریف، مخلص، درد آشنا اور وضع دار انسان اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے۔ ایسے نایاب اور وضع دار لوگ مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے بھی نہ مِل سکیں گے۔
وضع داری کی بہت قدر کرو ایسے لوگ
آج کل صرف کہانی میں نظر آتے ہیں
٭٭٭